Wednesday, September 19, 2018

چین سے ایغور مسلمان کیوں اور کیسے فرار ہو رہے ہیں؟

Image may contain: 1 person
چین سے ایغور مسلمان کیوں اور کیسے فرار ہو رہے  ہیں؟
تزئین حسن 

٢٠١٥ میں تھائی لینڈ کی حکومت کے حوالے سے خبر آئی تھی کہ ترکی پہنچنے کے خواہشمند، چین کے ترکی النسل ایک سو ایغور مسلمانوں کو انسانی حقوق کی تنظیموں کے احتجاج کے باوجود چین کی حکومت کے حوالے کر دیا تھا- انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا تھا کہ ان افراد پر چینی حکومت کے بد ترین تشدد کا خطرہ موجود ہے- پھر خبر آئ ایسے ہی چینی مظالم سے بچنے کے لئے فرار ہونے والے کچھہ ایغور مسلمان تھائی لینڈ کی ایک جیل سے فرار ہو گئے ہیں- اور چین کی حکومت انکی جلد دوبارہ گرفتاری پر زور دے رہی  ہے- حال ہی میں  مصر سے خبر آئی کہ مصری حکومت نے قاہرہ اور اسکندریہ میں مقیم ایغور طلبہ اور کچھ اوغیر ریستورانوں پر چھاپا مار کر ایغور مسلمانوں کو چینی حکومت کی ایما پر گرفتار کیا- یاد رہے تھائی لینڈ اور چین کی سرحد ملتی ہے اور حکومتی مظالم اور مذہبی پابندیوں سے بچنے کے لئے ایغور مسلمان ایک دھائی سے ملک سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں- سعودی عرب سے ایک کرم فرما نے بتایا کہ سعودی عرب میں بھی بڑی تعداد میں ایغور مسلمان مقیم ہیں- 

 چینی حکومت انہیں جلا وطن  مسلمانوں پر علیحدگی پسندی کی تحریک چلانے کا الزام لگا رہی ہے- دوسری طرف ایغور ذرائع کا کہنا ہے کہ چینی حکومت نے ان پر بے پناہ مذہبی پابندیاں  لگا رکھی ہیں، مساجد میں آنے جانے والوں کی سخت نگرانی ہوتی ہے- ٢٠٠٩  سے  خبریں تھیں کہ ٦٠ سال سے کم عمر ایغور مسلمانوں کو حج پر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی- مساجد میں پابندی سے جانے والے نوجوانوں کو گرفتار کر کہ پوچھ گچھ ہوتی تھی- پھر ٢٠١٤ میں خبر آئی کہ رمضان میں روزے رکھنے پر پابندی لگا دی گئی ہے بلکہ سرکاری دفاتر میں زبردستی رمضان کے دوران کھانا کھانے پر مجبور کیا جاتا ہے- امریکی کانگریس نے اس پر ایک مذمتی قرارداد بھی پاس کی- پتہ نہیں کسی مسلم ملک کو اس کی توفیق ہوئی یا نہیں- پھر ایک اور خبر آئی کہ سنکیانگ کے صوبے میں نقاب یا حجاب میں ملبوس خواتین پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر نہیں کر سکتیں- کاشغر شہر کے تاریخی مرکز کو جہاں تقریباً سو فیصد مسلمان رہتے تھے عرصے سے مختلف بہانوں سے خالی کروایا جا رہا تھا کیونکہ حکومت کو شک تھا کہ یہاں علیحدگی پسندی کی کوئی تحریک موجود ہے-  جبکہ مقامی لوگوں کاکہنا ہے کہ چین کا رویہ ان مسلمانوں کو بغاوت پر مجبور کر رہا ہے- 

ایک فرنچ صحافی ،  جس نے ایک ٹورسٹ گروپ کے ساتھ ٢٠١٤ میں سنکیانگ کا سفر کیا اور ایک تفصیلی ڈاکومنٹری بنائی، کے مطابق چین نے پچھلی تین چار دھائیوں میں بہت بڑی تعداد میں چینی نسل کے باشندوں کو بھاری مراعات دیکر سنکیانگ میں منتقل کیا ہے- ان میں بڑی تعداد سابق فوجیوں کی بھی ہے- صحافی کا کہنا تھا کہ انہیں سنکیانگ کی بہترین زمینیں اور ہتھیار دیکر ان سے ایغور مسلمانوں کی نگرانی کا کام بھی لیا جا رہا ہے اور وقت پڑنے پر ان سے ملٹری سروس بھی لی جا سکتی ہے- چینی حکومت کے نئے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت سنکیانگ میں آٹھ ملین ایغور جبکہ ١١ ملیں چینی نسل کے باشندے موجود ہیں-  یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ چینی نسل کے باشندوں کی اکثریت پچھلی سات دھائیوں سے چینی حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے- عملا ً صوبے کا سارا انتظام چینی نسل کے لوگوں کے ہاتھ میں ہے کیونکہ   ایغور باشندوں  پر بھروسہ نہیں کیا جاتا  -
یہی نہیں چین کے دوسرے شہروں میں جہاں   ایغور بزنس یا ملازمت کے لئے مقیم ہیں ، انہیں بھی بیجا پابندیوں اور  تفریقی پالیسیوں کا سامنا ہے- پچھلے دنوں ایغور باشندوں کو چین کے کاروباری مرکز شهنگاہی سے نکلنے کا حکم ملا جہاں بڑی تعداد میں  ایغور مسلمان ملازمت  اور کاروبار کے سلسلے میں مقیم تھے- چین کے تقریباً ہر شہر میں  ایغور ریستوران موجود ہیں جہاں وسط ایشیا کی روایتی  کھانے پلاؤ، کباب اور   تکے وغیرہ چینی اور غیر ملکی سیاح بہت شوق سے کھاتے ہیں-   

حالیہ اطلاعات کے مطابق ، بہت بڑی تعداد میں چینی حکومت نے ایغور شہریوں کو  کیمپوں میں قید کر رکھا ہے- مغربی ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں انکی تعداد ایک ملین سے زیادہ بتاتی ہیں-  مغربی ذرائع ابلاغ اور جلاوطن  ایغور باشندوں کے مطابق جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے آٹھ ملین سے زائد ایغور مسلمانوں کی کڑی نگرانی ہو رہی ہے- کسی بھی مذہبی سرگرمی میں حصہ لینے پر ایغور مسلمانوں کو گرفتار کر کے کیمپوں میں پہنچا دیا جاتا ہے- ان کیمپوں سے اب تک بہت کم خوش نصیبوں کو نکلنے کا موقعہ ملا ہے-  جو چند افراد نکلنے میں کامیاب ہوے ہیں انہوں نے تشدد اور جبری ذہن سازی کی کہانیاں سنائی ہیں- صورتحال یہاں تک خراب ہے کہ کسی کا جنازے میں سورہ فاتحہ یا قران کی کوئی سورت پڑھنا اور اپنے بچے کا نام محمد رکھنا بھی ایسا جرم ہے جس پر اسے کیمپوں میں پابند سلاسل کیا جا سکتا ہے- یاد رہے ایسا ظلم اسرائیل میں بھی نہیں ہو رہا- وہاں مسلمانوں کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزرنے کی پوری آزادی ہے-
ایغور مسلمانوں کے حوالے سے انٹرنیشنل میڈیا کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی تنظیموں کی آوازیں بھی اب کافی بلند ہیں- ذیل میں دس ستمبر ٢٠١٨ کی شائع کردہ الجزیرہ کی ایک رپورٹ کا ترجمہ دیا جا رہا ہے جس نے ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کو اپنی سورس بنایا ہے- رپورٹ کے مطابق:

48 سالہ تاریم چین کے صوبے سنکیانگ کے مرکز ارمقی میں ایک کامیاب بزنس تھا- اسے اپریل ٢٠١٧ میں پولیس ڈیپارٹمنٹ سے اچانک ایک فون موصول ہوا- اسے فوری طور پر اکسو شہر پہنچنے کے احکامات دیئے گئے تھے جو ٩٠٠ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا- تاریم جس کا تعلق ترک نسل ایغور سے تھا فوری طور پر سمجھ گیا کہ اب اس پر مصیبت ٹوٹنے والی ہے- دو دن قبل وہ اکسو شہر اپنی ٣٣ سالہ بہن زہرا سے ملنے گیا تھا جو چین کی کمیونسٹ حکومت کے قائم کردہ ایک ری-ایجوکیشن کیمپ میں قید تھی- تاریم نے بعد ازاں انسانی حقوق کی تنظیم،  ہیومن رائٹس واچ کو  بتایا کہ بہن سے ملنے کے لئے اسے متعلقہ حکام کو ٢٠،٠٠٠ چینی یو آن (٢٩٠٠ امریکی ڈالر کی رقم رشوت کے طور پر دینی پڑی-) تاریم کا خیال تھا کہ وہ مزید رشوت دیکر اپنی بہن کو وہاں سے آزاد کروا لے گا- مگر اسے بتایا گیا کہ یہ نا ممکن ہے- تاریم نے الجزیرہ کو یہ بھی بتایا کہ ری - ایجوکیشن کیمپ عوام کی نظروں سے اوجھل تھا جہاں پہنچنے کے لئے بہت سے فوجی چیک پوائنٹس سے گزرنا پڑا- بلاخر اسکی بہن کو مختصر وقت کے لئے خاتون گارڈ کی موجودگی میں ملنے کی اجازت دی گئی- بہن کی آنکھوں کے گرد گھرے حلقے اور پیلے، آنسوؤں سے بھرے چہرے سے اسکی حالت کا اندازہ ہو رہا تھا-  بہن کا کہنا تھا کہ اسکے کچھ سبق باقی ہیں اسکے بعد اگر اس نے امتحان پاس کر لیا تو اسے چھوڑ دیا جائے گا-  کب؟ اسکا جواب نہ بہن نے دیا نہ تاریم میں پوچھنے کی ہمت تھی-  تاریم نے وہاں ٥٠٠ نئے ایغور قیدیوں کو بھی دیکھا جنکے کپڑے اتروا کر انھیں کیمپ کا یونیفارم پہنایا جا رہا تھا- ان سب کے سر منڈے ہوے تھے -  ان میں سے کچھ قیدیوں کو تاریم اپنے پڑوسیوں اور دوستوں کی حیثیت سے پہچانتا تھا-

واپس ارمقی پہنچنے کے دو دن بعد اسے پولیس ڈیپارٹمنٹ سے کال موصول ہوئی اور اکسو  میں رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا تو اس نے فوری طور پر اکسو کے لئے فلائٹ بک کروائی- فلائٹ کے مقررہ وقت سے پہلے اس نے ائیرپورٹ پہنچ کر اپنی بورڈنگ کروائی لیکن اسکا پلان مختلف تھا- ویٹنگ لاؤنج میں فون کر کہ اس نے اپنے سیکررٹر ی کے ذریعے استنبول کی فلائٹ بک کروائی- اسے معلوم تھا کہ چینی شہریوں کے لئے ترکی کا ویزا آن ارایول یعنی داخلے پر دے دیا جاتا ہے- بجائے اکسو کی فلائٹ کے اس نے ائیرپورٹ لاؤنج سے استنبول کی فلائٹ پکڑی- اس طرح تاریم چینی عقوبت خانوں سے بچ کر استنبول پہنچنے میں کامیاب ہوا-

ہیومن رائٹس واچ سنکیانگ سے باہر ایسے 58 افراد کے انٹرویو کر چکی ہے جو سنکیانگ سے کسی طرح بھاگنے میں کامیاب ہوے- لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کے اندازے کے مطابق اس وقت ایک ملین سے زائد ایغور اس وقت چینی کیمپوں میں قید ہیں- چین کی حکومت کے مطابق یہ معمولی نوعیت کے جرم میں ملوث مجرم ہیں جنھیں اصلاح کے لئے کیمپوں میں رکھا گیا ہے مگر مخالفین انہیں کنسنٹریشن کیمپس کا نام دیتے ہیں-  
تاریم نامی ارمقی کا یہ بزنس مین سنکیانگ میں اپنا چلتا ہوا بزنس اور گھر والے چھوڑ کر چین سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا مگر چین میں رہنے والے گیارہ ملین سے زائد ایغور مسلمانوں پر مختلف سورتوں میں ظلم جاری ہے- اور واللہ اعلم کب تک جاری رہتا ہے؟ 

No comments:

Post a Comment