Monday, December 25, 2017

فخری پاشا یا فہرالدین پاشا : عالم اسلام کا گمنام ہیرا تزئین حسن


پیارے خالد بھائی جان کے نام!! 
فخری پاشا یا فہرالدین پاشا : عالم اسلام کا گمنام ہیرا 


تزئین حسن 







جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے یہ جنوری ٢٠١١ کی بات ہے ہم سعودی عرب کے صوبے حائل میں پانچ دن اور ایک رات فدک  میں گزارنے کے بعد حا یط اور ہنا کیا نامی شہروں سے ہوتے ہوے  مدینے میں داخل ہوئے. قرون وسطیٰ میں یہ عراق سے آنے والے حج کاروانوں کا راستہ تھا. یہ چار سال میں پہلی مرتبہ تھا کہ ہم مشرق کی طرف سےسرکارصلیٰ علیہ وسلم کے شہر میں داخل ہوئے. عام طور سے ینبوع کے راستے مکّہ یا تبوک سے شمال مغرب سے مدینے میں حاضری کا موقع ملتا. گاڑی شہر میں داخل ہوئی تو مناظر کچھ مختلف تھے مسجد قبا سے تھوڑا سا ہی آگے مجھے ایک پرانے ٹاور نما قلعہ کا اسٹرکچر نظر آیا. تاریخی عمارتوں سے میری دلچسپی کے پیش نظر حسن نے گاڑی روکی تو میں اپنا کیمرہ سنبھال کر نیچے اتری. قلعہ کوئی خاص بڑا نہیں تھا اور سعودی آثار قدیمہ نے اسے ایک باڑ کے ذریعے بند کر رکھا تھا اس لئے اندر داخل ہونا ممکن نہ تھا. بورڈ پر قلعہ کا نام قبا اور تفصیل یہ تھی کے یہ مدینے کے عثمانوی گورنر فخری پاشا کا بنوایا ہوا قلعہ تھا جو انھوں نے 1334 سے 1337 ہجری بمطابق 1916 سے  1919 تک پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانوی اتحاد ی شریف مکّہ یعنی ہاشمیوں کے محاصرے کے دوران بنوایا. میں نے جلدی میں کچھ تصویریں بنائیں اورہم آگے بڑھ گئے. 

ہوٹل پہنچ کر میں نے انٹرنیٹ پر تفصیلات چیک کیں تو سچی بات ہے فخری پاشا کے بارے میں پڑھ کر ایمان تازہ ہو گیا. مجھے یاد ہے میں نے وہ تصویر اور فخری پاشا کی مدینے کے دفا ع کی مختصر روداد Our forgotten heroes کے نام سے فیس بک پر شیئر کی.  اب وہ پوسٹ ہزاروں دوسری پوسٹوں تلے دب چکی ہے.
عالم اسلام کا  یہ ہیرا شاید گمنام ہی رہتا مگر خوش قسمتی سے تیل کے نشے میں گرفتار، تاریخ سے نابلد عرب امارات کے جاہل مطلق وزیر خارجہ  کو کسی نے ان کے بارے میں بتا دیا یا شاید اپنے میوزیم کی تزئین کے لئے انھیں عالم اسلام کے سب سے قیمتی نوادرات کا خیال آ گیا اور یوں 17 دسمبر  2017 کو  انھوں نے فخری پاشا پر عرب عوام کے خلاف جرائم اور مدینے کے قیمتی نوادرات چرانے کا الزام عائد کیا. اور یوں مجھے یہ سب کچھ یاد آ گیا-
(پورا کالم کومنٹس میں )


فخری پاشا پہلی جنگ عظیم کے دوران مئی 1916 میں سلطنت عثمانیہ کی طرف سے مدینے کے گورنر مقرر ہوۓ. ١٠ جون ١٩١٦ کو شریف مکّہ نے انور پاشا، جمال پاشا، اور طلعت پاشا کیجواں ترک کہلانے والی قیادت کے فیصلوں کو وجہ بناتے ہوئے خلافت عثمانیہ سے بغاوت کا اعلان کر دیا. صورت حال کچھ یوں تھی کے عثمانوی فوج کا بڑا حصہ موسم گرما غالب پاشا کے ساتھ  طائف منتقل ہو جاتا تھا. مکّہ کے عثمانوی قلعہ میں صرف ١٠٠٠ نفوس پر مشتمل فوج موجود تھی.  دس جون 1916 کی صبح شریف مکّہ نے ایک فضائی فائر کے ذریعے بغاوت کا اعلان کیا توجروال کےبیرکس کے علاوہ تین قلعوں میں موجود ترک سپاہی اپنی بیرکس میں سوئے ہوے تھے. عرب باغیوں کی پلاننگ کے مطابق شریف مکّہ کے وفا دار ٥٠٠٠ حامیوں نے اسمانوی سپاہیوں پر اچانک حملہ کر دیا. بغاوت سے بے خبر فوج کا کمانڈنگ آفیسر نے شریف حسین کو فون ملایا تو انھوں نے اسے ہتھیار ڈالنے کا حکم دیا. برطانوی حمایت سے شریف حسین کے بیٹے فصل نے اکتوبر ١٩١٦ میں مدینے پر حملہ کیا. 

"جمعرات چودہ ذو الحجہ کی رات میں تھکن اور اداسی کے ساتھ مدینے کے دفاع کی فکر میں غلطاں گلیوں میں گشت کر رہا تھا اچانک میں نے اپنے آپ کو کچھ نامعلوم افراد کے درمیان دیکھا جو ایک چھوٹے سے چوراہے پر کام کر رہے تھے. میں نے اپنے سامنے ایک اونچی جسامت کے صاحب کو دیکھا. وہ رسول الله تھے. الله ان پر رحمت فرمائے. انکا بایاں ہاتھ انکی کمر کے نیچے تھا. انھوں نے مجھے اپنے پیچھے آنے کا حکم دیا. میں انکے پیچھے چل پڑا. دو تین قدم چلنے کے بعد میں جاگ گیا اور سیدھا انکی مسجد پہنچ کر سجدے میں گر گیا اور الله کا شکر ادا کیا. میں اب  رسول الله صلیٰ الله علیہ وسلم  اپنے سب سے بڑے کمانڈر کی حفاظت میں ہوں. میں نے اپنے آپ کو [مدینے کے ] دفاع  میں سڑکوں اور چوراہوں کی تعمیرات میں مصروف کر لیا ہے. تم مجھے اپنی فضول پیش کشوں سے تنگ نہ کرو."   (شریف مکّہ کو  مدینے کے گورنر فہر الدین پاشا کا جواب)



مسجد الحرام میں مدینے کے عوام سے خطاب کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ اس نے ایک رات مدینے میں گشت کے دوران آنحضرت صلیٰ آلہ علیہ وسلم کی زیارت کی. آقا صلیٰ الله علیہ وسلم کا حکم تھا کہ غدار امت برطانوی اتحادی شریف مکّہ کی افواج کے آگے ہتھیار نہ ڈالے جائیں. اس نے تین سال سے کچھ کم سخت محاصرے، حجاز ریلوے پر متعدد حملوں  کے دوران مدینے کا دفاع کیا. وہاں تعمیراتی کام کروائے، آنحضرت صلیٰ الله علیہ وسلم سے منسوب عرب نوادرات اور پانچ سو کے قرین عرب مخطوطات کو حفاظت کے پیش نظر استنبول پہنچایا. سب سے دلچسپ بات یہ تھی کے جب ١٩١٨ کے مرڈوس معاہدے میں سلطنت عثمانیہ کی طرف سے ان سلطنت کے سیاہ و سفید کے مالک ان تین پاشاؤں نے اپنی شکست قبول کر لی تب بھی فخری پاشا نے ہتھیار نہیں ڈالے. انکا کہنا تھا کہ مجھے آنحضرت نے مدینے کے دفاع کا حکم دیا ہے میں ہتھیار نہیں  ڈالوں گا. وہ معاہدہ مرڈوس کے ٧٢ دن بعد تک بھی اپنے فیصلے پر جمے رہے حتیٰ کے ١٠ جنوری ١٩١٩ کو احمد نجیب نے انھیں دھوکے اور زبردستی سے گرفتار کر کر ٢٧ جنوری کو برطانیہ کے حوالے کیا. ان پر عراق کی برطانوی عدالت میں مقدمہ چلا اور دو سال کی قید کاٹنے کے بعد یہ رہا ہوئے.

اتفاق سے تاریخ کے اس دلچسپ باب میں جس نے عالم اسلام کے اتحاد کو پارہ پارہ کر کے اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کی پر اب تک جتنی تحقیقات سامنے آئیں وہ برطانوی ملٹری اور برطانوی فارن آفس کی دستاویزات پر ہی انحصار کرتی ہیں. حالیہ دنوں میں ترک محققین نے بھی بڑی تعداد میں فخری پاشا کی خدمات کو اپنے پی ایچ ڈی تھیسز کا موضوع بنایا. اس سلسلے میں ایس تنویر واسطی کی تحقیق اس لئے منفرد ہے کہ انہوں نے ایک غیر معروف مگر انتہائی مستند دستاویز کو اپنا ماخذ بنایا. انکی تحقیق کا ماخذ فخری پاشا سے منسلک ترک انٹیلی جنس آفیسر ناسی کاشف کسی میں Naci Kashif Kiciman کی لکھی ہوئی ایک دستاویز ہے جس میں ان تاریخی واقعات کا ترک تناظر میں جائزہ لیا گیا ہے.  
یاد رہے مکّہ اور مدینہ سمیت شام اور فلسطین کی طرح حجاز بھی پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کا حصّہ تھا جہاں جنگ عظیم سے کوئی چھے سال پہلے جوان ترک انقلاب آ چکا تھا. 

عرب بغاوت  پیشے کے لحاظ سے ماہر آثار قدیمہ اور تاریخ دان لارنس آف عریبیہ نامی جاسوس کی منظم کردہ عرب بغاوت اور بعد ازاں ١٩١٤ سے شریف حسین اور اسکے بیٹوں کے ساتھ یکے بعد دیگرے برطانوی ڈپلومیٹس ہینری مک موہن اور رینولڈ سٹورس کے درمیان قاہرہ آفس میں مذاکرات کے ذریعے آگے بڑھ رہی تھی. بغاوت شروع ہوتے ہی سوڈان اکے گورنر رینیگالڈ ونگیٹ کو حجاز کے ملٹری آپریشنز کا کمانڈنگ آفیسر مقرر کر دیا گیا. ونگیٹ کو شریف حسین سے سفارتکاری، عرب بغاوت کی اسٹریٹیجی مرتب کرنے،  ہتھیاروں اور دوسرے وسائل کی فراہمی کی ذمہ داری سونپی گئی. 

مدینے کے حجاز ریلوے کے ساتھ ساتھ حرم مکّی کا عثمانوی آرکیڈ بھی خلافت کی نشانیوں میں سے ہے. 

(جاری ہے) 

       .[

4 comments: