Saturday, December 16, 2017

فاٹا پاکستان کا حصہ ہے یا نہیں؟ اسکا سب سے بہتر فیصلہ فاٹا کے عوام خود کر سکتے ہیں.

District map of FATA and Khyber-Pakhtunkhwa- Districts of FATA are shown in orange, the Mohmand Agency is located in the north.



تزئین حسن

فاٹا پاکستان کا حصہ ہے یا نہیں؟ اسکا سب سے بہتر فیصلہ فاٹا کے عوام خود کر سکتے ہیں. فاٹا کے ایک طالب علم سے خصوصی انٹرویو 


تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں پختون خواہ عوامی ملی پارٹی کے ایم این اے محمود خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ فاٹا آزاد علاقہ ہے، پاکستان کا حصہ نہیں. انکا یہ بھی کہنا تھا کہ  پارلیمنٹ کا فاٹا پر کوئی حق نہیں، فاٹا کو چھیڑا تو فوج وہاں پھنس جائے گی۔

فاٹا یعنی فیڈرل ایڈمنسٹریٹو ٹرائبل ایریاز جنھیں عرف عام میں علاقہ غیر یا قبائلی علاقہ بھی کہا جاتا ہے  میں باجوڑ، کرم ایجنسی،مہمند، خیبر ایجنسی، اورکزئی ایجنسی، شمالی اور جنوبی وزیرستان شامل ہیں. اسکی سرحدیں مشرق اور جنوب میں کے پی کے اور بلوچستان اور مغرب اور شمال میں افغانستان سے ملتی ہیں. اس خطے کے مرکزی شہر پارا چنار، میرام شاہ، رزمک، وانا، جمرود، اور لنڈی کوتل ہیں اور یہ خطہ وفاق سے براہ راست پولیٹیکل ایجنٹ کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے.     

فاٹا کےعوام کا کہنا ہے کہ یا تو "فاٹا کو الگ صوبہ قرار دیا جائے یا کے پی کے ساتھ شامل کردیا جائے." 

جہاں تک اچکزئی صاحب کے بیان کا تعلق ہے ہم انہیں یہ یاد دلا دیں کہ 12 نومبر 1893 کو افغانستان کے امیر عبد الرحمان اور برطانیہ کی طرف سے  سفارت کار اور سول سرونٹ  سر مورٹیمر ڈیورنڈ نے پارا چنار میں باقاعدہ ایک سرحدی معاہدے کے ذریعے افغانستان اور پاکستان کے درمیاں سرحد کا تعین کیا جو بعد ازاں ڈیورنڈ لائن کہلایا. ڈیورنڈ لائن کے مشرق میں نہ صرف موجودہ کے پی کے بلکہ فاٹا کا علاقہ بھی شامل تھا. یہی نہیں افغانستان کی جانب سے 1919, 1921, اور 1930 میں اسے بارڈر تسلیم کیا گیا. یہی نہیں خان عبدا لغفار جیسے پشتون نشنلسٹ لیڈرز نے تقسیم کے وقت ایک متحدہ انڈیا کی بات کی متحدہ افغانستان کی نہیں. پاکستان کو ڈیورنڈ لائن کی یہ سرحد صرف وراثت میں ہی نہیں ملی بلکہ سرحدی صوبے کے اپنے عوام کی خواہش پر بھی ملی ہے جنہوں نے اپنے لئے متحدہ انڈیا کے بجائے پاکستان کی ساتھ الحاق کو بھاری اکثریت سے پسند کیا. 


قارئین کی دلچسپی کے لئے ہم یہ بھی بتا دیں کہ اس سرحد کے تعین سے برطانیہ نے روس اور برٹش انڈیا کے درمیان افغانستان کو ایک بفر زون تسلیم کر لیا تھا اور اپنے طور پر گریٹ گیم کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی کیونکے سینٹرل ایشیا سے انڈیا پر حملہ آور ہمیشہ افغانستان سے ہی بر صغیر میں داخل ہوے. 

ڈیورنڈ لائن نامی سرحد جسی جیو اسٹریٹجک نقطہء نظر سے دنیا کی خطرناک ترین سرحد قرار دیا گیا نہ صرف پشتون قبائلی بیلٹ کو قطع  کرتی ہے بلکہ اس نے بلوچستان اور گلگت بلتستان کے حصوں کو بھی قطع کیا جنکے کچھ حصے افغانستان کے شمال مشرقی اور جنوبی صوبوں میں شامل ہوئے.     

قبائلی علاقوں کا پاکستان کے ساتھ انضمام ایک ایسا اشو ہے جس پر مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی کے علاوہ پاکستان کا ہرسیاستدان چاہے اسکا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہو یا جماعت اسلامی سے، تحریک انصاف سے ہو یا اے این پی سے، متفق ہے. خود فاٹا سے تعلق رکھنے والے  ایم این اے کی اکثریت اور خیبر پختون خواہ اسمبلی بھی اس پر راضی ہے.  محض فضل الرحمان اور اچکزئی جیسی کباب میں ہڈیوں کو بہانہ بنا کر  حکومت اس معاملے کو ٹال رہی ہے. 


ریفرنڈم سے ملک دشمن عناصر کے ساتھ انڈیا اور افغانستان کا منہ بند کرنے میں بھی آسانی ہو گی.

یہ صرف ایک علاقے کو اسکی آئینی حیثیت دینے کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ مسئلہ مملکت پاکستان کو مغربی سرحدوں پر  در پیش تشویشناک چیلنجز سے براہ راست جڑا ہوا ہے. نائن الیون کے بعد پاکستان میں انتہا پسندی اور دہشتگردی میں جو بے تحاشہ اضافہ ہوا اسکا بھی ایک سبب یہی ہے کہ وہاں حکومت پاکستان کی رٹ نہیں ہے. فاٹا کے معاملات پر اتھارٹی سمجھے جانے والے پاکستان کے معروف صحافی اور  سلیم صافی کے مطابق " ٹی ٹی پی اور داعش کے اس علاقے میں پھلنے پھولنے کی ایک وجہ بھی یہی ہے کہ وہاں پاکستان کا آئین اور قانون نافذ نہیں.

سات جولائی 2017 کو سلیم صافی نے اپنے پروگرام جرگہ میں وفاقی وزیر عبدا لقادر کے ساتھ فاٹا میں اصطلاحات کے موضوع پر تفصیلی گفتگو رکھی. انکا کہنا تھا کہ سترسال میں پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ ملٹری، قبائلی اور مین اسٹریم سیاسی جماتیں سب انضمام پر متفق ہیں. عبدل القادر بلوچ کا کہنا تھا کے حکومت اپنا کام کر رہی ہے اور یہ کام اتنی جلدی ممکن نہیں. سلیم صافی کا کہنا تھا کہ  "میں الله کو حاضر ناظر جان کر آپکو بتاتا ہوں وہاں کے لوگ اس نظام سے تنگ آ گئے ہیں" اور  اس مرجر (انضمام) کے لئے تڑپ رہے ہیں. انکا یہ بھی کہنا ہے کہ لوگ حکومت کو بد دعائیں دے رہے ہیں اور شاید اسی لئے پانامہ حکومت کے گلے پڑ گیا ہے.
  
آئیے دیکھتے ہیں کہ قبائلی علاقے کے خود اس معاملے میں کیا رائے رکھتے ہیں. افضل السلام پشاور یونیورسٹی کےپچیس سالہ طالب علم ہیں  (نام انکی خواہش پر تبدیل کر دیا گیا ہے) ان کا تعلق باجوڑ ایجنسی سے ہے جو فاٹا کی آٹھ ایجنسیز میں سب سے چھوٹی ایجنسی تصور ہوتی ہے اور افغانستان کے ساتھ ٥٢ کلومیٹر لمبا بارڈر شئیر کرتی ہے. افضل اپنے خاندان کے ساتھ 2008 میں فوجی آپریشن کی با عث باجوڑ سے پشاور منتقل ہو گئے. انکا کہنا ہے کہ فاٹا کے عوام پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں.  انکے  بیان کے مطابق فاٹا کےعوام کا کہنا ہے کہ یا تو "فاٹا کو الگ صوبہ قرار دیا جائے یا کے پی کے ساتھ شامل کردیا جائے."  

فاٹا کے عوام پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں.

فاٹا کا شمار پاکستان کے پسماندہ ترین علاقوں میں ہوتا ہے جہاں پاکستانی آئین اور قانون نافذ نہیں ہے. یہاں انگریز کے زمانے کا  FRC یعنی فاٹا کریمنل ریگولیشنز نافذ ہے جسکے مطابق  اسلام آباد سے بھیجا ہوا سول سرونٹ جسے پولیٹیکل ایجنٹ کہا جاتا ہے یہاں کے تمام معاملات کے سیاہ اور سفید کا مالک ہوتا ہے. افضل کا کہنا تھا کے فاٹا کے عوام کا مطالبہ ہے کہ انگریزوں کے بنائے ہوے کالے قانون FRC یعنی فاٹا کریمنل ریگولیشنز کو ختم کیا جائے جس میں پولیٹیکل ایجنٹ کو وزیر اعظم پاکستان سے زیادہ اختیارات ہوتے ہیں.  انکا یہ بھی کہنا ہے کہ FCR کے تحت ایک آدمی جرم کرتا ہے اسکے پورے قوم خاندان کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے. انکے گھروں کو مسمار کر دیا جاتا ہے. 

افضل کو فاٹا میں پاکستانی حکومت کے کردار پر بھی کوئی اعتراض نہیں اگر وہ ترقیاتی کاموں میں اپنا حصہ ڈالتے رہیں اور فاٹا کے عوام کو انکے جائز حقوق دیں. فاٹا کے لوگوں کو فوج سے شکایات ہیں مگرافضل اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ فوج کے آنے کے بعد سے علاقے میں تبدیلی آئ ہے. افضل کا کہنا تھا کہ ٢٠٠٨ کے بعد سے ترقی ہوئی ہے. خصوصاً فوج نے اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنایا ہے اور اس سے تعلیم کی حالت بہتر ہوئی ہے. لیکن انکا یہ بھی کہنا ہے کہ موبائل انٹرنیٹ سروس کو اسکے اجراء کے بعد پراسرار طور پر ختم کر دیا گیا. 

ایسا لگتا ہے کہ نائن الیون کے بعد پاکستانی فوج اور قبائلی ایک ایسے شیطانی چکّر میں پھنس گئے ہیں جس سے نکلنے کی بظاھر کوئی صورت نظر نہیں آتی. 

عوام فوج سے شکایتوں کے باوجود دہشت گردوں کے ساتھ نہیں. افضل کا کہنا ہے کہ دہشتگردوں نے 2006 میں باجوڑ مدرسے میں بڑی تعداد میں بچوں کی شہادت اور 2007 میں  لال مسجد پر فوجی آپریشن کو exploit  کر کے بھی معصوم نوجوانوں کو اپنے ساتھ ملایا. شروع میں اسلامی نظام کے نعرے نے بھی عوام کو متاثر کیا کیونکہ قبائلی علاقے کے لوگ اسلام پسند ہیں. 

انکا یہ بھی کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے قیام کے بعد اغوا برائے تاوان کی وارداتیں بہت بڑھ گئی ہیں. دہشتگرد ان میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہیں مگر عام تاثر یہی ہے کہ اسکے ذمہ دار وہی ہیں.

افضل کے مطابق فاٹا کے لوگوں کو ایک شکایت یہ بھی ہے کہ دوسرے علاقوں کے لوگوں نے ماضی میں فاٹا کے جعلی شناختی کارڈ اور ڈومیسائل بنوا کر انکے کوٹے پر میڈیکل کالج اور انجینرنگ یونیورسٹی میں ایڈمشن لئے. ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو فاٹا کے رہائشی نہیں مگر وہان کے ڈومیسائل کا فائدہ اٹھا کر فاٹا کے اصل غریب لوگوں کا حق مار رہے ہیں.

افضل کا کہنا ہے کہ ہم بھی پاکستان ہیں. انکی ایک شکایت یہ ہے کہ "جب ہم پنجاب یا پاکستان کے کسی اور علاقے میں جاتے ہیں تو وہاں ہمیں رجسٹریشن کروانا پڑتی ہے جبکہ ہم بھی پاکستانی ہیں." اسکا کہنا تھا کہ ہم پاکستان سے شدید محبت کرتے ہیں اور عوام فاٹا میں حکومت پاکستان کا کردار چاہتے ہیں."

پاکستان حکومت اس معاملے کو پہلے ہی بہت لمبا  لٹکا چکی ہے. اس سے قبل کہ معاملات اور خراب ہوں ایمرجنسی بنیاد پر اقدامات کی ضرورت ہے اور یہ کام ملک میں اگلے الیکشن سے پہلے ہونا چاہیے. یہ علاقہ جو کبھی پاکستان کی مغربی سرحدوں کی حفاظت کا کام کرتا تھا اسے آج دشمن علاقہ سمجھ لیا گیا ہے. ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے قومی دھارے میں شامل کر کے وہاں کے عوام کو احساس دلایا جائے کے وہ پاکستان کے لئے اہم ہیں. یاد رہے یہاں کی صورت حال بلوچستان سے بہت مختلف ہے جہاں کے کچھ علاقوں میں پاکستان کے قیام سے ہی پاکستان مخالف جذبات موجود رہے ہیں. انہیں اپنا بنانا اتنا مشکل کام نہیں. 

ہمارے نزدیک مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی کے بیانات کا ایک شافی علاج یہ ہو سکتا ہے کہ فاٹا میں فوج کی نگرانی میں انضمام کے مسئلے پر ریفرنڈم کروا لیا جائے جس سےعلاقے میں جمہوری روایات کا اجراء بھی شروع ہو، افغانستان کا منہ بند کرنے میں بھی آسانی رہے جو اٹک تک کے علاقے کے الحاق کا خواب دیکھتا ہے،  اور مودی کو بھی آئینہ دکھایا جا سکے جو ستر سال سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود کشمیر میں ریفرینڈم کروانے کے بجائے ڈھٹائی سے پاکستان کو بلوچستان اور دیگر علاقوں میں علیحدگی پسند تحریکوں کے طعنے دیتے ہیں. 

No comments:

Post a Comment