Tuesday, September 4, 2018

تا بہ خاک کاشغر





تزئین حسن 



بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہوگی کہ چین کی مسلم آبادی سعودی عرب کی مسلم آبادی سے زیادہ ہے- چین میں رہنے والے مسلمانوں کی اکثریت اس وقت بد ترین مذہبی استحصال اور اذیت رسانی کا شکار ہے-  انھیں ہماری ضرورت ہے- ہم کس طرح انکی مدد کر سکتے ہیں؟ آئیے دیکھتے ہیں-

یہ کوئی ٢٠١٢ کی بات ہے- کراچی کے ایک مہنگے اور معیاری اسکول کے اسٹاف کے ایک ٹریننگ سیشن کے دوران میں نے بر سبیل تذکرہ پوچھ لیا کہ اقبال کا یہ شعر کس کس نے سن رکھا ہے-

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لیکرتا بہ خاک کاشغر

تمام شرکاء کے ہاتھ کھڑے ہوگئے- میرا اگلا سوال تھا، آپ میں سے کون جانتا ہے کہ کاشغر کہاں واقع ہے؟ تقریباً تین درجن شرکاء میں سے جن میں سے بیشتر او اور اے لیول کی کلاسز بھی لیتے تھے، کوئی بھی اس سوال کا جواب نہ دے سکا کہ کاشغر جسکا حکیم امت نے اپنے معروف ترین شعر میں ذکر کیا ہے چین کے سرحدی صوبے xingjiang میں واقع ہے جسے اردو میں سنکیانگ لکھا اور کہا جاتا ہے- چین اسے سنکیانگ Autonomous region کا نام دیتا ہے- چینی قبضے سے پیشتر یہ مشرقی ترکستان کہلاتا تھا- کاشغر شہر قدیم شاہراہ ریشم پر واقع معروف ترین شہروں میں ہے- مغربی سیاح اسے ثقافتی اعتبار سے وسط ایشیا کا سب سے محفوظ شہر قرار دیتے تھے جو صدیوں بعد اسی طرز تعمیر کا حامل تھا- سنکیانگ میں ایک اندازے کے مطابق ١٥ ملین ترکی نسل کے مسلمان بستے ہیں جنھیں نسلاً ایغور کہا جاتا ہے- انکی عورتیں آج بھی نقاب اور حجاب کرتی ہیں- انکے بازاروں میں مشرق وسطیٰ کے بازاروں کی طرح مصالحے، اشیاء خورو نوش اور تازہ تندور کی روٹیاں، اور مویشی کھلے عام فروخت ہوتے ہیں- کچھ عرصہ قبل چینی کمیونسٹ پارٹی کی حکومت نے کاشغر کا تاریخی مرکز مسلمانوں سے بزور خالی کروا لیا- اس سے قبل شہر کے مرکزی علاقے کی تنگ گلیوں میں عورتیں حجاب پہن کر اور داڑھی والے مرد ٹوپیاں پہن کر روز مرہ کے کام انجام دیتے نظر آتے تھے- پچھلی چند دھائیوں میں چین نے ان مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے- یاد رہے چین میں ایک دوسری نسل کے مسلمان بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں جو 'ہوئی' مسلمان کہلاتے ہیں- قارئین کو یاد ہو گا ہم نے رمضان میں ایک 'ہوئی' مسلمان کا انٹرویو بروڈ کاسٹ کیا تھا- ان مسلمانوں کی اکثریت چینی نسل کی ہے یا یہ آٹھویں صدی کے بعد باہر سے آئے ہوے مسلمانوں کی چینیوں سے شادیوں کے نتیجے میں وجود میں آئے- یہ مسلمان چین میں مذہبی آزادی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں- یہ بھی یاد رہے کہ ہوئی مسلمانوں کی ثقافت چینی نسل کی ثقافت سے بہت قریب ہے-

بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہو گی کہ چین کی مسلم آبادی سعودی عرب کی مسلم آبادی سے زیادہ ہے- اور اسکی وجہ یہ ہے کہ چینی مسلمانوں کا رابطہ باہر کی دنیا سے نہ ہونے کے برابر ہے- چین سنکیانگ کے صوبے کو خود مختار صوبے کا نام دیتا ہے لیکن یہاں کا مسلمان ایک قیدی کی زندگی گزار رہا ہے- مہذب ممالک میں مجرم قیدیوں کو بھی اسکے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہوتی ہے لیکن ترک نسل کا یہ چینی اپنے گھر اور محلوں میں بھی اپنے مذہب پر عمل پیرا نہیں ہو سکتا ہے-

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق چینی حکومت نے تقریباً ایک ملین ایغور مسلمان مردوں کو کنسنٹریشن کیمپس میں مقید کر رکھا ہے جہاں انکی برین واشنگ کی جا رہی ہے- ان کیمپس کو چین نے ری ایجوکیشن کیمپس کا نام دیا ہے جہاں انہیں اپنے مذہب سے نفرت کرنا سکھائی جاتی ہے- بی بی سی کے مطابق اس وقت ایغور علاقوں کی گلیاں سنسان پڑی ہیں- مرد اور نو عمر لڑکے بہت کم گھر کے باہر نظر آتے ہیں- بی بی سی ہی کے مطابق یہ دنیا کی سب سے زیادہ نگرانی والی جگہ ہے- بی بی سی ہی کے مطابق چینی اس پروگرام کو transformation through education کا نام دیتے ہیں-

تیل اور گیس کے قدرتی وسائل سے مالا مال، یہ چین کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اسکا رقبہ فرانس کے رقبے کا تین گنا بتایا جاتا ہے- یہ چین کا سب سے زیادہ ملیٹرائزڈ علاقہ بھی ہے جہاں ڈیجیٹل آلات کے ذریعے مسلمانوں کی مسلسل مانیٹرنگ ہو رہی ہے- یہاں تک کہ مسجدوں میں face recognition ڈیوائسز لگے ہوے ہیں جو مساجد میں نماز ادا کرنے والوں کی تصویریں ریکارڈ کرتے ہیں- ان حالات میں کتنے مسلمان مساجد میں نماز ادا کرنے کا رسک لیتے ہون گے- عالمی ذرائع ابلاغ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سال رمضان میں مساجد میں نماز ادا کرنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی ورنہ روایتی طور پر یہاں رمضان ایک تہوار کی طرح منایا جاتا ہے- ٢٠١٤ میں حکومت کی طرف سے اس ریجن میں روزے پر پابندی لگائی گئی- رمضان کے مہینے میں روزے داروں کو حکومت کی طرف سے دعوتوں میں کھانے کا حکم دیا گیا- تعمیل نہ کرنے والوں کو ملازمت سے برخواست کرنے، جرمانے یا جیل کی قید کا سزاوار ٹہرایا گیا-

ایک طرف چینی حکومت بڑی تعداد میں چین کے دوسرے علاقوں سے آبادی کو یہاں منتقل کر رہی ہے جن میں ایک بڑی تعداد رٹائرڈ فوجیوں کی ہے جنھیں زرخیز زمینیں دیکر یہاں بزنس اور زراعت کی اجازت دی گئی ہے اور انہیں reserved فوجی کا اسٹیٹس بھی دیا گیا ہے- اس طرح آبادی کا توازن چینی حکومت اپنے حق میں کر رہی ہے اور اس سابقہ فوجی بیک گراؤنڈ رکھنے والی آبادی سے ایغور مسلمانوں کی نگرانی کا کام بھی لیا جا رہا ہے- دوسری طرف ایغور مسلمان مردوں کا برین واش کرنے کے لئے انھیں ری ایجوکیشن کیمپس میں منتقل کیا جا رہا ہے-

ایک فرنچ صحافی کی ٢٠١٤ میں بنائی ہوئی تفصیلی وڈیو کے مطابق جس میں اس نے پورا ہوم ورک کر کہ سیاح کے طور پر اس علاقے کا دورہ کیا اور متعدد انٹرویوز کیے، چین بڑی تعداد میں تین ہزار کلو میٹر دور سے چینی نسل ہان کی آبادی کو سنکیانگ منتقل کر رہا ہے- اس وقت اعداد و شمار کے مطابق چینی نسل کے افراد ١١ ملین کی تعداد میں ہیں-

امریکا کے برادرعبدالمالک مجاہد کا کہنا ہے کہ انھوں نے ٹورنٹو میں ایک ایغور بہن سے ملاقات کی جنکی چھ خالائیں یا پھپیاں سنکیانگ میں رہتی ہیں- چھ کی چھےآنٹیوں کے شوہروں کو ان کیمپس میں منتقل کر دیا گیا ہے اور عورتیں اور بچے مردوں کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں- بی بی سی کی وڈیو کے مطابق، ایک اور تشویشناک بات یہ ہے کہ اب تک ان جبراً کیمپوں میں منتقل شدہ افراد میں سے بہت کم کو رہا کیا گیا ہے-

اقوام متحدہ کی Genocide کی تعریف کے مطابق، کسی نسل کو جبری مذہبی عقائد یا ثقافت کی تبدیلی پر مجبور کرنا نسل کشی کے زمرے میں آتا ہے-

سوال یہ ہے کہ چین میں رہنے والے ان مسلمانوں کی نسل کشی کو روکنے کے لئے ہم کیا کر سکتے ہیں؟


پہلا قدم جو ہم اٹھا سکتے ہیں وہ اس مسئلے کے بارے میں اپنے ارد گرد کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کو آگاہی دینے کا کر سکتے ہیں اور اسکے لئے ہمیں خود اس مسئلے کے بارے میں مستند ذرائع سے معلومات حاصل کرنی ہوگی- یہ فیس بک پیج اسی لئے بنایا گیا ہے- ہماری کوشش ہوگی کے اس پیج پر ایغور مسلمانوں کے بارے میں تمام معلومات اکٹھی کر سکیں- اور ان سے رابطے کی بھی کوشش کریں-

دوسرا قدم ہم یہ اٹھا سکتے ہیں کہ اپنے اپنے ملکوں کے چینی سفارت خانے اور کونسلیٹ میں فون کر کہ اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں- یہ کام ای میل کے ذریعے بھی کیا جا سکتا ہے- جو زبان آپ بولتے ہیں، سمجھتے ہیں اسی زبان میں یہ کام کیا جا سکتا ہے-

پاکستانی چینی سفارت خانے کا فون اور فیکس نمبر
0092-51-8496178
Fax: 0092-51-8738767


کینیڈا چینی سفارت خانے کا فون اور فیکس کونٹیکٹ

613-789 3434 فون ext 232
613 -789 1414 فیکس

Email:consulate.can@gmail.com

امریکی چینی سفارت خانہ
+1 202-495-2266

اسکے علاوہ اپنے ممالک کی وزارت خارجہ کو بھی فون کر کہ یا ای میل کر کہ اس معاملے میں چینی حکومت پر دباؤ ڈالنے اور احتجاج ریکارڈ کروانے کا مطالبہ کر سکتے ہیں-

٢٠١٤ میں امریکی کانگریس میں چینی مسلمانوں پر رمضان کے روزوں پر پابندی کے خلاف ایک قرار داد منظور ہو چکی ہے- ہم امریکی سفارت خانے فون کر کے بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کروا سکتے ہیں-

اپنے ملکوں میں موجود چینی سفارت خانوں اور کونسلیٹ میں پر امن طریقے سے جمع ہو کر بھی احتجاج ریکارڈ کروایا جا سکتا ہے-
اسکے علاوہ سوشل میڈیا پر چینی مسلمانوں سے رابطے کی کوشش کریں- میری ذاتی اطلاعات کے مطابق چین نے کچھ علاقوں میں انٹرنیٹ سروس بھی معطل کر رکھی ہے-

یاد رکھیں سب سے بڑی ذمہ داری خود باخبر ہونا ہے اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کو ان مسلمانوں کی حالت زار سے آگاہی دینا ہے-


چین اس وقت سعودی عرب اور پاکستان سمیت تقریباً تمام مسلمان اور مغربی ملکوں سے بلینز آف ڈالرز کا بزنس کر رہا ہے- کیا پاکستانی اور سعودی حکومت کا یہ فرض نہیں بنتا کہ وہ دو طرفہ مذاکرات میں اس مسئلے کو اٹھائیں-

3 comments:

  1. بہت معلوماتی تحریر۔
    اللہ پاک آپ کو جزائے خیر دے۔ آمین

    ReplyDelete
  2. تحریر یقیناً معلوماتی ہے مگر کبھی بھی خصوصاً پاکستان اور عریبیا کبھی یہ کام نہیں کرینگے اللہ امت مسلمہ کے حال پر رحم کرے

    ReplyDelete
  3. اللہ رب العزت ان کے حال پر رحم فرمائے .

    ReplyDelete