فلسطین کا مسئلہ اختصار کے ساتھ سمجھا کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے اپنا اور سعودی حکومت کا مضبوط موقف بھی سامنے لے آئے
تزئین حسن
پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کروانے کے خواہش مند اکثر ایسے جملے بولتے ہیں: اسرائیل کو زندہ رہنے کا حق ہے، اسرائیلیایک حقیقت ہے، ہمارے اسے تسلیم کرنے نہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا-"
ایسے جملوں کے پیچھے اسرائیل کا یہ پروپیگنڈا چھپا ہوتا ہے کہ "اسرائیل اعلیٰ اخلاقی اصولوں پر قائم ایک ننھی سی امن پسند ریاست ہے جو ایسی ریاستوں میں گھری ہوئی ہے جو اسکے خون کے پیاسے ہیں اور جو اسکے وجود کو اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں-"
فلسطینیوں کے حق میں بات کرنے والوں کو یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ گھسی پٹی باتیں کر رہے ہیں- جب عربوں نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تو ہمیں کیا اعتراض-
ایک اور اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ فلسطینی خود کوئی ڈیل کرنے پر راضی نہیں ہیں- یہ بھی اسرائیلی پروپیگنڈے کی بنیاد پر ہی کہا جاتا ہے- یعنی سارا مسئلہ یہ ہے کہ مظلوم فلسطینی خود امن قائم کرنا نہیں چاہتے یا اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنا نہیں چاہتے- اگر وہ اسرائیل کو تسلیم کر لیں تو کوئی مسئلہ نہیں رہے- اسرائیل تو انہیں انکا حق دینا چاہتا ہے، وہ خود ضد پر اڑے ہوئے ہیں-
یہی بات کئی دھائیوں سے اسرائیل عربوں کے بارے میں بھی کرتا رہا-
ایسا کہنے والوں کو یہ بات معلوم نہیں کہ ٢٠٠٢ کی عرب سمٹ میں تمام عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی آفر کی تھی اگر اسرائیل ١٩٦٧ کی جنگ سے پہلے کی سرحدوں پر واپس چلا جائے اور فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آ جائے- اور عربوں کی یہ آفرآج بھی برقرار ہے-
دسمبر چار کو سعودی وزیر خارجہ نے اے ایف پی کو انٹرویو دیتے ہوئے یہی بات دہرائی ہے کہ اسرائیل سے تعلقات کرنے سے پہلے فلسطینی ریاست کا وجود میں آنا ضروری ہے-
لیکن دسمبر٦ کو بحرین سمٹ میں شاہ فیصل کے بیٹے ترکی الفیصل نے اس بحث کو جس حقیقت پسندی سے سمیٹا ہے اس نے دنیا کو حیران کر دیا ہے-
ایک ایسے وقت میں جب اسرائیل سعودی تعلقات اوراعلیٰ عہدے داران کی مملکت کے نئے تعمیر شدہ شہر نیوم کی خبریں زبان زد عام ہیں اور اس بات کی توقع کی جا رہی ہے کہ سعودی عرب جلد ہی اسرائیل کو تسلیم کر لے گا، سعودی شہزادے ترکی الفیصل نےبحرین سیکورٹی سمٹ میں میں اسرائیل کو بلاگ تنقید کا نشانہ بنا کراسرائیل اور دنیا کو حیران کردیا- انکا سچ سفاک بھی ہے اور بے لاگ بھی-
"انکا کہنا ہے کہ اسرائیل دنیا میں اپنا یہ تصور قائم کرنا چاہتا ہے کہ وہ اعلیٰ اخلاقیاتی اصولوں پر استوار ایک چھوٹی سی امن پسند ریاست ہے جسکے وجود کو خطرہ ہے اور جو خون کے پیاسے دشمنوں سے گھری ہوئی ہے جو اسکے وجود کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہتے ہیں-"
"[جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ] اسرائیل نے سیکورٹی کے معمولی خدشات کو بہانہ بنا کر فلسطینیوں کو کنسنٹریشن کیمپ میں قید کیا ہوا ہے، جو کہ وہاں کسی قسم کے انصاف سے محروم سڑ رہے ہیں -"
انکا جہاں دل چاہتا ہے [فلسطینیوں کے]گھروں کو مسمار کرتے ہیں اور جس کو دل چاہتا ہے قتل کرتے ہیں-"
ترکی نے اسرائیل کے "غیرتسلیم شدہ نیوکلئیر اثاثوں" کو بھی تنقید کا نشان بنایا- انکا یہ بھی کہنا ہے کہ "اسرائیل دوسرے ملکوں میں اپنے میڈیا آؤٹ لیٹس کے ذریعے سعودی عرب کو بدنام (demonise اینڈ denigrate ) کرتا ہے-"
"اسکے بعد اسرائیل چاہتا ہے کہ ہمارے [سعودیہ کے] ساتھ دوستی کرے-"
انکا کہنا ہے کہ "اس تاثر کے برعکس اسرائیل مشرق وسطیٰ کی آخری نو آبادیاتی (یعنی کولونیل ریاست ہے)- ہم کسی کھلے ہوئے زخم کو پین کلرز (درد کش ادویات) سے نہیں بھر سکتے-
ہم پھر یاد دلا دین کہ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا جب سعودی حکمران اسرائیل کے حمایتی یہودیوں سے تعلقات استوار کر رہی ہے اور پاکسستان سمیت بہت سے مسلم ممالک پر یہ دباؤ ہے کہ وہ فلسطین کا مسئلہ حل ہونے سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کر لے-
سعودی شہزادے نے مملکت کی سرکاری پوزیشن واضح کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین اور اسرائیل کے مسئلے کاحل ٢٠٠٢ کی ڈیل میں مضمر ہے جسکے مطابق سارے عرب ملک اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے اگر اسرائیل فلسطین کو ١٩٦٧ کی جنگ سے قبل کے بارڈرز کے مطابق ریاست قائم کرنے کا حق دے دیتا ہے-
ترکی نے کو ایک کھلا ہوا زخم قرار دیتے ہوئے کہا کہ آپ ایک کھلے ہوئے زخم کا علاج آپ ایک کھلے ہوئے زکم کا علاج درد کش ادویات سے نہیں کر سکتے-
یاد رہے اسرائیل کے وزیر خارجہ بھی اس سمٹ میں آن لائن شریک تھے- ترکی کے خطاب کے فوراً بعد انہوں نے شرکاء سے مخاطب ہو کر ترکی کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ "وہ نہیں سمجھتے سعودی شہزادے کا بیان مشرق وسطیٰ میں آنے والی حالیہ تبدیلیوں کا ترجمان ہے-"
یہ جواب اسرائیل کو تسلیم کروانے والے ان لوگوں کو جواب بھی جو کہتے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کرلینا چاہیے کیونکہ اسرائیل کو بھی زندہ رہنے کا حق ہے- انکی تقریر کی ایک خوبی یہ ہے کہ انہوں نے اسرائیل کے مسئلے کو بہت اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے-
یاد رہے عربوں کو یا پاکستان کو اسرائیل کو تسلیم کرنے پر اعتراض نہیں بلکہ جوں کا توں تسلیم کرنے پر اعتراض ہے-
اسرائیل چاہتا ہے کہ یروشلم کو اسرائیل کا دار الخلافہ مانتے ہوئے اسکے کنٹرول میں جتنے علاقے ہیں، ان پر اسے پورا تصرف حاصل ہو اور وہ فلسطینیوں کے ساتھ جو سلوک کرنا چاہے اس حق کو تسلیم کیا جائے- اس کے خلاف کوئی بات سننے پر وہ نہ صرف راضی نہیں بلکہ ایسے تمام لوگوں کو وہ یہود مخالف قرار دیتا ہے- اسکا کہنا ہے کہ اسرائیلی ریاست پر کسی قسم کی تنقید در اصل یہودی قوم سے نفرت کے تحت کی جاتی ہے- حالانکہ دنیا کی کسی ریاست پر تنقید اس قوم سے نفرت کے زمرے میں نہیں آتی-
یاد رہے ترکی الفیصل شاہ فصل کے بیٹے ہیں اور ٢٣ سال تک سعودی انٹلیجنس میں کلیدی عہدے پر فائز رہنے کے بعد برطانیہ اور امریکا میں سفیر کی حسیت میں بھی کام کر چکے ہیں- یہ جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے علاوہ کیمبرج اور لندن یونیورسٹی کے بھی تحصیل یافتہ ہیں- یہ امریکی سفارت کے دوران بش سے ایران سے پر امن مذاکرات شروع کروانے کے حق میں زور ڈالتے رہے ہیں- جسکے بعد وائٹ ہاؤس انتظامیہ نے انہیں بش سے ملنے کا ٹائم دینے سے انکار کر دیا تھا- یہی نہیں بش ریاض کو پیغامات بھجوانے کے لئے اپنے من پسند سابق سفیر بندر بن سلطاں (جنھیں بش سے قریبی تعلقات کے با عث بندر بش بھی کہا جاتا تھا) کو استمعال کرتے رہے- اس صورتحال پر ترکی الفیصل نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا-
گو سعودی ریاست کے موجودہ سیٹ اپ میں ترکی کے پاس کوئی عہدہ نہیں ہے لیکن بحرین سیکورٹی سمٹ میں انکی تقریر اور ٤ دسمبر کو سعودی وزیر خارجہ کے بیان سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ افواہوں کے برعکس سعودی حکومت کا سرکاری موقف بھی یہی ہے کہ ١٩٦٧ کی جنگ سے قبل کی سرحدوں میں فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل سے تعلقات معمول پر نہیں لائے جائیں گے- اے ایف پی کے مطابق یہی موجودہ سربراہ شاہ سلمان کا موقف بھی ہے-
اب دیکھنا یہ ہے کہ ایسے میں ولی عہد کی اسرائیل نوازی کب تک سعودی ریاست کو اس اصولی موقف پر ٹھہرنے دیتی ہے-
No comments:
Post a Comment