Sunday, October 11, 2020

غم نہ کر

 غم نہ کر 

تزئین حسن
 
رات دو بجے سے ایک دو مضامین پر کام کر رہے تھے. صبح بچوں کے سکول اور حسن کے جانے کے بعد سوئے تو 11 بجے آنکھ کھلی. عادت کے مطابق سب سے پہلے موبائل اٹھایا. کراچی سے ہماری دوست عزیز از جان نیٹ فرینڈ نصرت کا مختصر سا میسج جی میل پر تھا. ”تزئین میرا پرس چھین گیا.“

”اللہ رحم کرے نصرت.“ ہم نے اسے انّا للہ پڑھنے کی تلقین کی. نٹ کھٹ لیکن صاف گو نصرت سے ہماری دوستی کوئی دو تین ہفتے پہلےواٹس ایپ کے ایک ادبی گروپ پر ہی ہوئی تھی لیکن طبیعت میں کچھ ایسا اشتراک تھا کہ ہم بہت جلد ایک جان دو قالب بن گئے. تقریباً ہر روز رابطہ رہتا. ہم اپنے ایک پرانے سفرنامہ کی کمپوزنگ کر رہے تھے اور تنقیدی مگر مثبت نظر رکھنے والی نصرت رضاکارانہ طور پر اسے ایڈٹ کرنے میں ہماری  مدد کر رہی تھی. مادام روز بحث پر آمادہ ہوتیں،”تزئین یہ جو بات تم نے لکھی، یہ مجھے کچھ مناسب نہیں لگ رہی. یہ تمہاری شخصیت سے میل نہیں کھا رہی.“برا تو سچی بات ہے، ہمیں بہت لگتا. اپنی تحریر پر تنقید برداشت کرنا کوئی آسان کام نہیں. مگر ہمیں معلوم تھا کہ ایسے پرخلوص دوست فی زمانہ ایک لکھنے والے کے لیے کتنا بڑا سرمایہ ہوتے ہیں. ہم اپنی صفائی پیش کرتے مگر بسا اوقات آخر میں ہمیں ان کی بات ماننی پڑتی. ہمارے مختصر تعزیتی میسج کا جواب تھا، ”تزئین! میں مثبت رہنے کی کوشش کر رہی ہوں مگر دہشت، نفرت اور بےبسی اس وقت بہت شدید ہیں.“ ”مجھے اندازہ ہے. کیا موبائل بھی چھین گیا؟“ ہمیں مسلسل جی میل پر ان کے میسج سے تشویش ہوئی تو پوچھا. ”ہم ایک دفعہ پہلے بھی ڈکیتی کا سامنا کر چکے ہیں. اس کے معاشی، معاشرتی اور نفسیاتی اثرات ابھی تک محسوس ہوتے ہیں...اب پھر.. یعنی واقعہ کا جذباتی پہلو بھی نازک تھا، نصرت کے انگریزی میسج سے اس کی کیفیت عیاں تھی. ہم بستر پر بیٹھے اس کی ذہنی بےبسی اور تکلیف کو محسوس کر سکتے تھے.ہم اس وقت اپنی عزیز از جان دوست کے لیے کینیڈا میں بیٹھ کر کیا کر سکتے ہیں؟ ہمارا اپنے آپ سے سوال تھا. اس سے چیٹ کریں اور پاکستان میں اپنے لٹنے کے قصّے سنائیں، شاید ان سے ان کی کچھ اشک شوئی ہو؟ اور وہ اس تکلیف دہ حادثے کے اثرات سے مثبت انداز میں نمٹ سکیں.کچھ سوچ کر ہم نے انھیں میسج کیا:نصرت! ابھی ایک ہفتہ پہلے کینیڈا میں ہماری ایک جاننے والی دوست کا 27 سالہ بیٹا اچانک گھر کے اندر انتقال کر گیا. ماں اور بیٹا گھر میں اکیلے تھے. خوبرو اور فرمانبردار بیٹا دو سو کلومیٹر دور ایک الیکٹرک کمپنی میں انجنیئر تھا مگر دو تین مہینے پہلے اس کی ملازمت ختم ہو گئی تو گھر آ گیا اور ماں کے اردگرد منڈلاتا رہتا. بہت عرصے بعد ماں اور بیٹے کو اتنا وقت ساتھ گزارنے کا موقع ملا. ماں بیٹے میں پیار محبّت بھی ہوتا اور نوک جھونک بھی. دس محرم کی صبح ماں کے ساتھ بیٹھ کر اس نے اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ کی قرآنی کلاس اٹینڈ کی. ”امی آپ کے لیے ناشتہ بنا دوں؟“ اس نے پوچھا مگر ماں روزے سے تھی، انکار کر کے روز مرہ کے معمولات میں مصروف ہوگئی. تھوڑی دیر بعد خلاف معمول بیٹے کو قریب نہ پا کر اوپر نیچے دیکھا. آخر میں گیراج چیک کیا تو بیٹا بےہوش پڑا تھا. پانچ سال پہلے ایک ایکسیڈنٹ کے نتیجے میں ڈاکٹروں نے آکسیجن کی نالی گلے میں ڈالی تھی مگر اب باقی ساری رپورٹس نارمل تھیں. کبھی کبھی آکسیجن کا مسئلہ ہوتا تو ایمرجنسی میں لے کر جانا پڑتا. اور چونکہ ایسا دو تین دفعہ پہلے بھی ہوا تھا اس لیے کوئی غیر معمولی بات محسوس نہ ہوئی. اکہرے بدن کی ماں بصد مشکل جوان بیٹے کو گھسیٹ کر کمرے تک لے گئی. 911 اور بچے کے باپ اور دیگر بھائیوں کو فون کیا. اگلے آدھے گھنٹے میں 911 والوں نے پہنچ کر آکسیجن لگائی، CPR کیا اور IV لگا دی. باپ بھی پہنچ چکا تھا اور دیگر بھائی بھی. ماں کو کمرے سے نکا ل دیا گیا تو وہ لاؤنج میں بیٹھ کر سورہ یٰسین کا ورد کرنے لگی. کوئی ڈھائی گھنٹے بعد عملے نے اطلاع دی کے آپ کے بیٹے کا انتقال ہو گیا ہے اور ہم dead body لے کر جا رہے ہیں. انّا للہ کا ورد کرتی ماں نے صرف اتنی التجا کی کہ اس کی ایک بہن یونیورسٹی میں ہے، اور دوسری شادی شدہ اپنے گھر میں. انھوں نے نہیں دیکھا. ہو سکے تو تھوڑا ٹھہر جائیں. ٩١١ والے اپنے فرائض سے مجبور، رک سکتے تھے نہ مردہ جسم چھوڑ سکتے تھے. البتہ انّا للہ کے بارے میں دریافت کیا کہ یہ کیا بول رہی ہیں؟ انھیں بتایا گیا کہ ہمارے عقیدہ کے مطابق ہم اللہ کے ہیں اور ہمیں اللہ کی طرف پلٹ کر جانا ہے. کسی صدمے پر اسے پڑھنے کا حکم ہے اور ان لوگوں کے لیے خوشخبری کی بشارت دی گئی ہے جو اسے پڑھتے ہیں اور اپنے اللہ کو یاد کرتے ہیں. دوسرے دن ان سے تعزیت کے لیے گئی تو بس اتنا کہہ سکی،”فوزیہ باجی! اللہ نے آپ سے جنت کا وعدہ کیا ہے.ماں کا ری ا یکشن تھا، Really؟ انداز استفہامیہ تھا. میں نے اپنی زندگی میں کبھی اتنا مشکل وقت فیس نہیں کیا مگر جتنا تھوڑا بہت قرآن و سنت کا علم تھا، اس سے اتنا ضرور یقین تھا کہ اگر کوئی ماں اس موقع پر صبر کر سکتی ہے تو اللہ نے اس کے لیے کتنا بڑا اجر رکھا ہوگا. صبر کی پیکر ماں کا کہنا تھا اللہ کو میرے بیٹے کی یاد آ گئی، اس نے اسے اپنے پاس بلا لیا. بار بار ایک ہی بات کہتی کہ بس مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ بیٹے نے جاب ختم ہونے کی وجہ میرے ساتھ دو تین مہینے گزار لیے. اللہ کا بڑ ا کرم ہے، اب اس کی تمام رپورٹس بالکل نارمل تھیں. واقعی، اگر دوسروں کے دکھ پر نظر ڈالیں تو اپنے دکھ ہلکے محسوس ہوتے ہیں. اولاد رکھنے والے جانتے ہیں کہ موبائل، کیش، پراپرٹی کا نقصان یقیناً تکلیف دہ مگر اولاد کے دکھ کے آگے سب کچھ ہیچ. اللہ اپنے بندوں کی آزمائش جان، مال، عزت اور کبھی کبھی دوسرے طریقوں سے مسلسل کرتا ہے. بیٹے دے کر بھی آزماتا ہے اور لے کر بھی. ڈاکوؤں اور قاتلوں کے ذریعہ بھی آزماتا ہے اور طویل بیماریوں اور ایکسیڈنٹ سے اچانک موت سے بھی، قدرتی آفات سے بھی آزماتا ہے اور شیطان نما انسانوں کے ذریعہ بھی اور کبھی کبھی قید و بند کی صعوبتوں سے بھی کہ یہ دنیا فانی ہے. مگر ہم انسان چلّا اٹھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ہی کیوں؟ قرآن بار بار نبیوں کی مثال دیتا ہے. نبیوں اور پیغمبروں کو جو دعائیں سکھائی گئیں، ان سے روشناس کرواتا ہے. 

”میں اپنے رنج اور غم کی فریاد اللہ ہی سے کرتا ہوں. (سورہ یوسف)“
”میں مغلوب ہوگیا ہوں، میری مدد کر. (سوره نوح )“

”مجھے شیطان نے رنج اور دکھ پہنچایا. (القرآن)“”تو اپنے رب کے حکم کے انتظار میں صبر سے کام لے. بیشک تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے. (سوره طور)“'

”تم اپنی فوت شدہ چیزوں پر رنجیدہ نہ ہو جایا کرو (القران)“ 

ایسے مواقع پر سب سے بڑھ کر مجھے اللہ کے ایک بندے کی یاد آتی ہے جو پیدا ہوا تو اس سے پہلے اس کے باپ کو اللہ نے اپنے پاس بلا لیا، کچھ عرصے بعد ماں کو، پھر پیار کرنے والے دادا کو، شادی ہوئی تو ایک ایک کر کے بیٹوں کی وفات کا صدمہ، غمگسار بیوی اور زمانے سے لڑ جانے والے چچا کو، پھر بیٹیوں کی طلاقیں، اور شہر سے نکال دیا جانا، بعد ازاں ایک کو چھوڑ کر باقی تینوں بیٹیوں کی وفات کا صدمہ، سب سے بڑھ کر لوگوں کا اللہ کے پیغام کو قبول نہ کرنا، ساتھیوں کی تربیت اور امّت کا غم. سرکار دو عالم ﷺ سے جتنا تعلق غم کے مواقع پر بڑھ سکتا ہے شاید ہی زندگی میں کسی اور موقع پر ہو. اللہ ان کا دامن رحمتوں اور برکتوں سے بھر دے، اور ہمیں غم اور خوشی ہر موقع پر ان کے اسوہ پر چلنے کی توفیق دے. آخر میں جو دعا آپ ﷺ غم کے موقع پر پڑھتے، انّا للہ و انّا الیہ راجعون، اللھم اجرنی فی مصیبتی واخلف لی خیر منھا.”ہم اللہ کے ہیں اور ہمیں اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے. اے اللہ! مجھے اس مصیبت پر اجر دے اور مجھے اس کا بہتر نعم البدل دے.“

No comments:

Post a Comment