Tuesday, August 18, 2020

حیات بلوچ قتل: ذمہ دار کون؟

حیات بلوچ قتل: ذمہ دار کون؟
تزئین حسن
ہم میں سے ہر فرد جو ملکی سلامتی کے نام پر چند اداروں پر تنقید پر ناگواری محسوس کرتا ہے، حیات بلوچ اور دیگر ہزاروں ماورائے عدالت ہونے والے بہیمانہ قتل (جسے شہادت کہا جانا چاہیے) اور گمشدگیوںمیں شریک ہے- وہ تمام سیاسی قوتیں بھی اس قتل میں شریک ہیں جو اداروں کے غیر آئینی اقدامات کی خاموش رہ کر حمایت کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ہم اداروں سے تصادم نہیں چاہتے- اس سانحے کی جو دلخراش تفصیل سامنے آئ ہے، ایسے واقعات اس سے قبل ہم مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی فوج کے مظلوم کشمیریوں سے ظالمانہ رویئے کے بارے میں سنتے تھے اور شئیر کرتے تھے- پچھلے تین سال میں متعدد مرتبہ بلوچ بھائیوں نے مجھ سے رابطہ کیا کہ میں بلوچستان کے حالات پر لکھوں- ان ماورائے عدالت اموات پر لکھنے میں جو چیز مانع ہوئ وہ یہ تھی کہ میں وہاں کے حالات پوری طرح جانے بغیر جلد بازی میں کچھ لکھنا نہیں چاہتی تھی- لیکن اس واقعہ میں تربت پولیس اور فرنٹیر کور (ایف سی) دونوں کے بیانیہ مظلوم خاندان کے بیانیہ کی تصدیق کررہے ہیں- ایف سی اور پولیس کے بیانات کے بعد اب کوئی جواز نہیں کہ اس واقعہ پر خاموش رہا جائے- اہم بات یہ ہے کہ یہ بلوچ نوجوانوں کا پہلا اور آخری ماورائے عدالت قتل نہیں- بلکہ یہ ٹپ آف دا آئس برگ ہے جو ہمیں بلوچ خاندانوں کو در پیش حالات کو پوری طرح سمجھنے میں مدد دے گی- اس امر کا تذکرہ بھی بے جا نہ ہوگا کہ ایسے واقعات قبائلی بیلٹ، سرائیکی پٹی، ساہیوال اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں بھی رونما ہوتے رہے ہیں لیکن جس دیدہ دلیری سے پبلک مقام پر اس جواں رعنا کو اسکے باپ کے سامنے موت کی گھاٹ اتارا گیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان کے حالات اس سے بہت زیادہ خراب ہیں جیسے سننے میں آتے ہیں-
تربت پولیس کی پریس ریلیز کے مطابق 13 اگست کو آبسر روڈ پر بلوچی بازار کے مقام پر ایف سی کی دو گاڑیوں پر دھماکہ ہوا تھا، جس پر ایف سی کے اہلکار نے قریبی باغات میں موجود محمد حیات کو اپنی سرکاری رائفل سے گولیوں کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں محمد حیات ہلاک ہوگئے۔ انکے والد کے مطابق، ایف سی کی گاڑیوں پر دھماکے کے بعد فرنٹیئر کور کے اہلکار باغیچے میں گھس آئے اور انھوں نے حیات کو تھپڑ مارے، اس کے ہاتھ، پاؤں باندھے اور روڈ پر لا کر اسے آٹھ گولیاں ماری گئیں جس سے وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا۔‘ والد کا کہنا ہے کہ اس موقع پر انھوں نے فرنٹیئر کور کے اہلکار سے منتیں کیں کہ ان کے بیٹے کو چھوڑ دیں کہ 'وہ صرف باغیچے میں کام کر رہا ہے مگر انھوں نے ایک نہ سنی اور انتہائی بے دردی کے ساتھ پہلے تشدد کیا گیا اور پھر گولیاں ماری دیں۔' (بی بی سی اردو) تربت پولیس نے ایک ایف سی اہل کار کو گرفتار کر لیا ہے اور انکا کہنا ہے کہ فرنٹئیر کور تحقیقات میں پورا تعاون کر رہی ہے لیکن مقتول کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ بے قصور حیات کو باغ سے لے جانے والے تمام ایف سی اہل کار اس قتل کے ذمہ دار ہیں اور ان سب کی گرفتاری عمل میں آنی چاہیے-
بی بی سی کے مطابق حیات بلوچ اپنے خاندان کے پہلے فرد تھے جو یونیورسٹی تک پہنچے- کراچی یونیورسٹی میں تعطیلات کے باعث وہ اپنے آبائی علاقے میں تھے اور کھجور کے ایک باغ میں اپنے والد کا ہاتھ بٹا رہے تھے جس سے انھیں اپنے تعلیمی اخراجات پورا کرنے میں بھی مدد ملتی- گریجویشن کے بعد انکا سی ایس ایس کرنے کا ارادہ تھا- ہر ہونہار بیٹے کی طرح وہ کوئی مقام حاصل کر کہ اپنے خاندان کے ابتر مالی حالات کو بدلنے کی خواہش رکھتے تھے- انکے ہم جماعتوں اور استاد کے مطابق وہ نہ صرف انتہائی محنتی اور ذہین طالب علم تھے بلکہ غیر نصابی سرگرمیوں اور طلبہ کی فلاح کے لئے رضا کارانہ سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے- اسکے علاوہ بلوچستان سے علاج کے لئے کراچی آنے والے مریضوں کی مدد کے لئے فنڈ ریزنگ وغیرہ بھی کرتے تھے اور خون کا انتظام بھی کروایا کرتے تھے- انکے ساتھیوں کے مطابق انھوں نے دیگر طلبہ کے ساتھ ملکر چند ماہ قبل خود کشی کے مسئلے پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا جسکی آج کے حالات میں بہت ضرورت ہے- ایسے مثبت سوچ کے طالب علم نوجوان کا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں وقتی رد عمل میں قتل بلوچستان کا ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کا نقصان ہے- لیکن اہم بات یہ ہے کہ یہ پہلا اور آخری قتل نہیں ہے- اس سے قبل پچھلے ستر سال میں ملک عزیز کے متعدد حصوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں ایسے لاکھوں نہیں تو ہزاروں قتل ہو چکے ہیں- لیکن اس سے بھی زیادہ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایسے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات پر ہمارے سیاسی لیڈران، سول سوسائٹی اور عوام میں رد عمل نہ ہونے کے برابر ہے اور اسکی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے اس قلعہ میں اسلام اسلام کی رٹ میں ہم آئین اور قانون کی اہمیت کا شعور ہی بھول گئے ہیں- معزرت کے ساتھ کے دائیں بازو کی جماعتیں ملکی اداروں پر تنقید کو ملک کی سلامتی کے خلاف گردانتی ہیں- تینوں بڑی سیاسی قوتوں کو معلوم ہے کہ جب تک مقتدرہ قوتوں کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکیں گی، حکومت میں آنا نا ممکن ہے- اس سے آگے مذہبی بیانیہ بھی پہلے تو اصل اشوز کو سامنے آنے میں رکاوٹ ہے اور دوسرے وہ بھی مذہبی عقیدت کے ساتھ اداروں کی پشت پر کھڑا رہتا ہے-
کوئی ادارہ احتساب اور قانون سے بالاتر نہیں ہونا چاہیے- جب میں ایسی باتیں کرتی ہوں تو مجھے کہا جاتا ہے یہ ٹیکسٹ بک بیانیہ ہے، ملک ایسے نہیں چل سکتے- ہر ملک میں قانون اور آئین کی خلاف ورزی ہوتی ہے- بجا ارشاد لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کے آئین اور قانون کو ہی ردی کا ٹکرا سمجھ لیا جائے- ایسا کہنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اسلامی نظام کو تمام خرابیوں کا حال جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں- کیا اسلامی نظام بھی آئین اور قانون کو مصلحت اور ملکی سلامتی کے نام پر چند افراد یا ادارے احتساب سے بالا تر ہونگے؟
ذیل میں تین سال قبل لکھ ہوئے ایک کالم کا کچھ حصہ نقل ہے جو حیات بلوچ کے بہیمانہ قتل کے پس منظر پر بھی عین اسی طرح پورا اتر رہا ہے جیسا نقیب محسود، اور ساہیوال واقعہ پر-
"اس سے قبل ہم لاپتا افراد کے سلسلے میں جب بھی آئین اور قانون کے احترام کی بات کرتے تھے، ہم سے کہا جاتا تھا کہ ملکی سلامتی کےلیے قانون توڑنا مخصوص اداروں کےلیے جائز ہونا چاہیے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کینیڈا جیسے ملک میں بیس بیس سال سے مقیم پڑھی لکھی پاکستانی نژاد دوستوں سے جو پاکستان میں ماورائے عدالت گرفتاریوں کو، جنہیں اصل میں اغوا کہا جانا چاہیے، ملکی سلامتی کے نام پر اداروں کا حق سمجھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فلاں ادارہ کوئی غلط کام نہیں کرسکتا۔ وہ دشمنوں سے ہماری حفاظت کر رہا ہے۔ اسے احتساب سے بالا تر ہونا چاہیے۔ جب ہم کسی ایک ادارے یا چند اداروں کو قانون توڑنے کی اجازت دیتے ہیں تو دراصل اس ملک کے عوام کے دلوں سے قانون کا احترام ختم کرتے ہیں۔ جب سیاسی مخالفت کی بنیاد پر ایک ڈکٹیٹر کے آئین معطل کرنے کی حمایت کی جاتی ہے تو ہم دراصل اپنی قوم کی تباہی کا گڑھا خود اپنے ہاتھوں سے کھود رہے ہوتے ہیں۔"
ایک ماورائے عدالت قتل محض ایک قتل نہیں ہوتا بلکہ ملک کی بقا کا مسئلہ ہوتا ہے- جب ایک فرد کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو ہر فرد کے انسانی حقوق خطرے میں ہوتے ہیں- خدا کے واسطے یہ بات سمجھیں کہ قران ہمیں انصاف کی بات کرنے کا حکم دیتا ہے- اسکے بغیر کوئی اسلامی یا سیکولر نظام نہیں چل سکتا- قوانین کے احترام کے بغیر دنیا کا کوئی ملک نہیں چل سکتا- اور اسکی سب سے بڑی ذمہ داری قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عائد ہوتی ہے- اگر انہیں احتساب سے بالا سمجھ کر لا محدود اختیارات دے دئیے جائیں تو بد امنی کا دروازہ خود ہی کھل جاتا ہے-
کاش پاکستانی قوم جذباتی کر دینے والے مقریرین کی سننے کے بجائے، اپنے قانونی اور آئینی حقوق اور فرائض کا شعور بیدار کرنے والوں کی باتیں سنے- الله کے عذاب کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کسی قوم سے آئین اور قانون کی حکمرانی کا شعور اٹھا لیا جائے۔ میرے نزدیک شعور کے فقدان میں حکومت اور اس کے اداروں کے ساتھ ساتھ میڈیا، قوم کی علمی اور دینی قیادت کرنے والے، تعلیمی نظام، سب ذمہ دار ہیں جو ایک شہری کو اس کے حقوق و فرائض کا شعور دینے میں ناکام ہیں۔ ہم سب عافیہ صدیقی، نقیب الله، خلیل کے خاندان اور دہشت گردی کے نام پر غائب ہونے اور مارے جانے والوں کے مجرم ہیں۔


No comments:

Post a Comment