Tuesday, June 18, 2019

ایغور قوم کی نسل کشی



تزئین حسن

ذیل کا مضمون  راقم کے پچھلے چار مہینوں  میں لکھ گئے  متعدد مختصر اور  طویل مضامین پر مشتمل ہے- ،چونکہ ایک نشست میں نہیں لکھ گئے ، اس لئے قاری کو بے ربطی محسوس ہو سکتی ہے- ایغور سورسز سے ذاتی انٹرویوز اس سے قبل کہیں شائع نہیں ہوے -

تزئین حسن

یہ 2012ء کی بات ہے، کراچی کے ایک مہنگے اور معیاری اسکول کے اسٹاف کے ایک ٹریننگ سیشن کے دوران میں نے بر سبیل تذکرہ پوچھ لیا کہ اقبال کا یہ شعرکس کس نے سن رکھا ہے؟
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لیکرتا بہ خاک کاشغر
تمام شرکاء  کے ہاتھ کھڑے ہوگئے۔ میرا اگلا سوال تھاکہ آپ میں سے کون جانتا ہے کہ کاشغر کہاں واقع ہے؟ ہم پاکستانی اپنے پڑوس میں بسنے والے مسلمانوں سے اتنا بےخبر رکھے گئی ہیں کہ تقریباً تین درجن شرکاء جن میں سے بیشتر او اور اے لیول کی کلاسز بھی لیتے تھے، میں سے کوئی بھی اس سوال کا جواب نہ دے سکا کہ کاشغر جس کا حکیم الامت نے اپنے معروف ترین شعر میں ذکرکیا ہے، موجودہ چین کے سرحدی صوبے سنکیانگ  میں واقع ہے۔ چینی قبضے سے پیشتر یہ مشرقی ترکستان کہلاتا تھا۔ مقامی مسلمان اب بھی اسے مشرقی ترکستان ہی کہنے پر اصرار کرتے ہیں-  مغربی سیاح اسے  ثقافتی  اعتبار سے وسط ایشیا کا سب سے محفوظ  شہر قرار  دیتے تھے جو صدیوں بعد اسی طرز تعمیر کا حامل تھا۔ مجھے سن ٢٠٠٩ میں چین میں اسلام کی آمد اورمسلمانوں کے بارے میں لکھنے کا اتفاق ہوا تو میں یو ٹیوب پر قدیم شہر کی گلیاں اور اسکے باسیوں کی سادہ زندگی کو دیکھ کر اس کے فسوں میں کھو کر رہ گئی اور مجھے اعتراف ہے کہ آج تک اس ان دیکھے بلکہ صرف یوٹیوب پر دیکھے شہر کے عشق میں گرفتار ہوں-
مشرقی ترکستان کی مختصر تاریخ 
وسط ایشیا جسے آج بھی وہاں کے مسلم باسی ترکستان کہتے ہیں دو حصوں میں تقسیم ہے- مغربی ترکستان روس سے آزاد شدہ وسط ایشیائی ریاستوں پر مشتمل ہے جبکہ مشرقی ترکستان کو چین میں سرکاری طور پر ١٩٥٥ میں سنکیانگ خود مختار علاقے کا نام دیا گیا لیکن تا حال اسے  چین نے لاکھوں ترک نسل کے عوام کے لئے ایک اوپن ایئر قید خانہ بنا رکھا ہے- یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہو گی کہ اسلامی فوجیں آٹھویں صدی کے آغاز میں ہی دور امیہ میں ترکستان بلکہ اس سے آگے بڑھ کر چین کی سرحدوں تک پہنچ گئیں تھیں-  آٹھویں صدی میں قتیبہ بن مسلم کی سرکردگی میں وسط ایشیا اسلامی سلطنت کا حصہ بن گیا تھا- قرون اولیٰ کے معروف مورخ طبری کے مطابق قتیبہ بن مسلم کاشغر تک پہنچ گئے تھے مگر بعد ازاں حجاج بن یوسف کی وفات کی خبر سن کر پلٹ گئے- یہ بھی یاد رہے کہ خلافت عباسیہ کے دور میں چین کی سرحدوں پر جیتی جانے والی  جنگ طلاس کے دوران گرفتار کیے گئے دو چینی قیدیوں کے ذریعے ہی کاغذ سازی کی صنعت چین سے بغداد پہنچی- اس کاغذ سازی کی صنعت  کے مؤثر استعمال، عباسی حکمرانوں کی غیر متعصب علم دوستی، فارس کے علماء کی فراست، یونان کے فلسفہ، ہندوستان کی حکمت کے امتزاج سے اسلامی دنیا میں اس علمی اور فکری انقلاب کی بنیاد رکھی گئی جس نے بحر احمر سے بحر ہند اور بحر روم سے ایٹلانٹک تک علم کی روشنی بکھیر دی- غیر جانبدار یوروپی مورخین یورپ کی نشاط ثانیہ کو بڑی حد تک اسلامی دنیا کے اس انقلاب کا مرہون منت مانتے ہیں-  اس حوالے سے  جغرافیائی تبدیلیاں نہ لانے کے  باوجود بھی اس علاقے میں لڑی جانے والی سن 751  کی جنگ طلاس کو دنیا کی تاریخ میں بہت اہمیت حاصل ہے- رقبے میں فرانس سے دگنا، ایشیا اور یورپ کے سنگم اور قدیم شاہراہ ریشم پر واقع مشرقی ترکستان ہی وہ علاقہ ہے جسکے ذریعے بدھ مت، مسیحیت اور اسلام چین پہنچے- یہ آج بھی وسط ایشیا کی سب سے محفوظ ثقافتی نشانی ہے-  انڈیا، پاکستان افغانستان، کرغیزستان، قزاقستان، تاجکستان، روس، اور منگولیا سے  خطے کی متصل  سرحدیں اسے اسٹریٹجک اعتبار سے دننیا کے اہم ترین خطے کا درجہ دلواتی ہیں جو بیک وقت مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا،   یورپ سے رابطے میں کنجی کی حیثیت رکھتا ہے- یہاں کی منفرد اور محفوظ وسط ایشائی ثقافت کے ساتھ ساتھ یہاں کی قدرتی خوبصورتی بھی اسے سیاحت کے لئے پر کشش علاقے کا درجہ دیتی ہے- یہ چین کی ڈومیسٹک تیل اور گیس کی پروڈکشن کا سب سے بڑا مرکز ہے- اسکے علاوہ روس اور وسط ایشیا سے جو تیل برامد کیا جاتا ہے وہ بھی یہیں سے گزر کر چین کے صنعتی علاقوں تک پہنچتا ہے- صوبے پر چین کا کنٹرول چین کی معیشت کے لئے ناگزیر ہے- اس علاقے میں تیل اور دیگر معدنیات کی موجودگی اور یورپ، مشرق وسطیٰ اور ایشیا کے دیگر خطوں کے درمیان اسکی اسٹریٹجک اہمیت کی وجہ سے چین کسی قیمت بھی اسے کھونا نہیں چاہتا- چین کے حالیہ عالمی بیلٹ اینڈ  روڈ منصوبے کے حوالے سے جو پاکستان سمیت دنیا کے اڑسٹھ ممالک میں ایک ٹریلین ڈالر سے زائد انفراسٹرکچر منصوبوں پر مشتمل ہے، یہ علاقہ ناگزیر ہے- لیکن تجا نگاروں کے مطابق علاق کی اسٹریٹجک اہمیت، معدنیات  اور علمی انفراسٹرکچر منصوبہ یہاں کی  مسلم آبادی  کی بد قسمتی کا باعث بن گیا ہے اور چین کا جبر اس زمین کے مالک ایغور آبادی  پر اپنی انتہا کو پہنچ گیا ہے اور آج وہ نا قابل  بیان اذیت کی زندگی گزار رہے ہیں-
سنکیانگ میں  ایک اندازے کے مطابق 15 ملین ترک نسل کے مسلمان بستے ہیں جن میں سے اکثریت ایغور نسل کی ہے جو تیروہیں صدی سے یہاں آباد ہیں اور چین کے قبضے سے قبل علاقے کی آبادی کا ٩٥ فیصد تھے۔ پچھلی چند دہائیوں میں چین نے ان مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ ان کی عورتیں آج بھی نقاب اور حجاب کرتی ہیں۔ ان کے بازاروں میں مشرق وسطیٰ کے بازاروں کی طرح مصالحے، اشیائے خورو نوش اور تازہ تندور کی روٹیاں، اور مویشی کھلے عام فروخت ہوتے ہیں۔  کچھ عرصہ قبل چینی کمیونسٹ پارٹی کی حکومت نے ٹیڑھی میڑھی گلیوں پر مشتمل کاشغر شہر کا تاریخی مرکز سینکڑوں سالوں سے یہاں رہنے والے مسلمانوں سے بزور خالی کروا لیا اور اب اسے سیاحتی نقطہء نظر سے ڈیولپ کیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل اس  علاقے کی تنگ گلیوں میں عورتیں حجاب پہن کر اور داڑھی والے مرد ٹوپیاں پہن کر روز مرہ کے کام انجام دیتے نظر آتے تھے۔  یہاں کی ثقافت چین سے اس قدر مختلف ہے کہ یہ وسط ایشیا کا ایک حصہ معلوم ہوتا ہے-  یہ  چینی زبان نہیں بولتے، بلکہ وسط ایشیا کی دوسری ریاستوں کی طرح ترکی زبان کا ایک مخصوص ورژن بولتے ہیں- ایغور زبان آج بھی عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے- یہاں کے شہری علاقوں میں ترک نسل کے ایغور، قازق، کرغیر کے ساتھ ساتھ اب ہان نسل کے چینی بھی برابر کی  تعداد میں  آباد ہیں کیونکہ چین نے قبضے کے بعد باقاعدہ منصوبہ بندی سے ہرسال لاکھوں کی تعداد میں چین کی اکثریتی ہان نسل کے لوگوں کو یہاں ملازمتیں اور بہتر مراعات کے ساتھ بسایا ہے- چینی ہان نسل اور ترک نسل کے لوگوں میں اسکولوں ہسپتالوں ملازمتوں ہر جگہ بے پناہ تفریق رکھتی جاتی ہے- ترک نسل کو حقارت اور شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور ان پر اعتماد نہیں کیا جاتا- ان پر ناقابل یقین مذہبی پابندیاں  عائد کر دی گئی ہیں جنکا اکیسویں صدی کے کسی ترقی یافتہ ملک میں تو درکنار ت افریقہ کے کسی دور دراز ملک میں بھی اسکا تصور تک نہیں کیا جا  سکتا- اسکی وجہ تجزیہ نگار یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ ہے کہ چین یہاں کے عوام میں علیحدگی کے جذبات سے خوفزدہ ہے- مسلم دنیا سے گھرے ہوے اس علاقے میں آج ترک قوم کی ثقافت اور انہیں جوڑنے والی قوت اسلام کو خطرہ سمجھ کر اسکی مذہبی اور ثقافتی نشانیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کہانی تحریر کی جا رہی ہے لیکن صورت حال کچھ ایسی ہے کہ
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے  
 ہم وہ بے حس اور بد قسمت مسلمان ہیں جو چین کے پڑوس میں رہتے ہوے فلسطین، برما، کشمیر اور شام پر آہ و بکا کرتے ہوے ان مظلوم مسلمانوں کی بے بسی سے بےخبر ہیں-
 مغربی میڈیا کی رپورٹنگ کے مطابق ، ٢٠١٦ سے چینی حکومت بڑی تعداد میں اوئیغور شہریوں کو کیمپوں میں منتقل کر رہی ہے جہاں انہیں بد ترین جبر اور تشدد کا سامنا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ان کی تعداد ایک سے تین ملین سے بتاتی ہیں۔  کیمپوں سے باہر بھی ایغور باشندے آزاد نہیں- مغربی ذرائع ابلاغ اور جلاوطن یغور باشندوں کے مطابق جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے  یغور مسلمانوں کی کڑی نگرانی ہو رہی ہے، کسی بھی مذہبی سرگرمی میں حصہ لینے پر یغور مسلمانوں کو گرفتار کرکے کیمپوں میں پہنچا دیا جاتا ہے، ان کیمپوں سے اب تک بہت کم خوش نصیبوں کو نکلنے کا موقع ملا ہے،  جو چند افراد نکلنے میں کامیاب ہوئے،انہوں نے جنسی اور جسمانی تشدد، جبری ذہن سازی اور بنی نوع آدم کو چینی کمیونسٹ پارٹی کا غلام بنانے کی کی ہولناک داستانیں سنائی ہیں۔ کمیونسٹ حکومت کا کہنا ہے کہ چین کو دہشت گردی، انتہا پسندی اور علیحدگی پسندوں سے پاک کرنے کے لئے یہ اقدام ضروری ہے- ان کیمپس کے باہر چین میں رہو تو چینی بن کر رہو کا نعرہ بھی دیکھا گیا ہے- اب حالیہ اطلاعات کے مطابق کچھ حراستی کیمپوں کو لیبر کیمپس میں بدلہ جا رہا ہے جہاں ان بےبس انسانوں کو انکے گھروں سے دور کر کہ ان سے غلاموں کی طرح جبری کام لیکر چین اپنی ایکسپورٹ انڈسٹری کو مہمیز دینے کی تیاری کر رہا ہے- عالمی معیشت میں چین کی حسیت اکسیجن کی طرح گردانی جاتی ہے- ایسے میں مشرق وسطیٰ ہو یا جنوبی ایشیا، شمالی امریکا ہو یا مغربی یورپ سب چین کے معاشی دباؤ تلے اس طرح دبے ہوے ہیں کہ اگر کوئی آواز نکلتی بھی ہے تو زبانی کلامی شرم دلانے سے آگے مشکل ہی بات بنتی ہے- پھر بھی مسلمان ممالک کے مقابلے میں اقوام متحدہ، مغربی یورپ اور شمالی امریکا کی حکومتیں اس پر بھر پور احتجاج کر رہی ہیں- اقوام متحدہ کی طرف سے چین کو فوری طور پر ان کیمپوں کو بند کرنے کا بیان جاری کیا گیا ہے-   
  
راقم کو اس موضوع پر تحقیق کے دوران مذہب اور ثقافت پر پابندیوں، بغیر جرم اور مقدمہ قید و بند، بے رحمانہ جنسی تشدد، معاشی جبر، بچوں کو والدین سے الگ کرنے، زبردستی ابارشن اور برتھ کنٹرول کے استعمال، ایغور عورتوں کی چینی مردوں سے زبر دستی شادیایوں کی ایسی کی روح فرسا داستانیں جنھیں بیان کرنے سے الفاظ قاصر ہیں- کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں کے مصداق صورتحال اس حد تک خراب ہے کہ کسی کے جنازے میں سورہ فاتحہ یا قرآن مجید کی کوئی سورت پڑھنا اور اپنے بچے کا نام ’محمد‘ رکھنا، موبائل پر غیر ملک میں مقیم کسی دوست یا گھر والے کے رابطے کی موجودگی، شراب اور سؤر کے گوشت سے پرہیز، موبائل پرقران کریم کی کوئی ایپ رکھنا بھی ایسے جرائم ہیں جس پر حراستی کیمپوں میں پابند سلاسل کیا جاسکتا ہے۔ یاد رہے کہ ایسا ظلم اسرائیل اور کشمیر میں بھی نہیں ہو رہا، وہاں مسلمانوں کو کم از کم اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزرنے کی آزادی ہے۔ 
مگر یہ ظلم آج سے نہیں ہو رہا، راقم کے براہ راست انٹرویوز، مغربی محقیقین کے ریسرچ پیپرز اور کتابوں کے مطابق ایغور باشندے سن 1949 میں چین کے قبضے کے بعد سے شدید مذہبی پابندیوں، معاشی جبر اور استحصال کا شکار ہیں- میرے زیر مطالعہ کتب، ریسرچ پیپرز، انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹس نوے کی دہائی سے لیکر حالیہ برسوں میں لکھی گئیں ہیں جو چینی قبضے سے لیکر حالیہ برسوں تک چینی مظالم کی ہولناک کہانیاں سناتی ہیں-

اسکے علاوہ کینیڈا کی برٹش کولمبیا یونیورسٹی کے ایک چینی طالب علم نے ا حراستی مراکز کی تعمیر کے لئے اخبارات میں شائع ہونے والے ٹینڈروں، ملازمت کے اشتہارات کو سٹیلائٹ ڈیٹا سے ملا کر درجنوں حراستی مراکز کی معلومات کو اکٹھا کیا- بعد ازاں بڑی تعداد میں مغربی اداروں کے محقیقین نے بھی اس سمت میں کام کیا- بلاخر مہینوں انکار کرنے کے بعد چین نے اکتوبر ٢٠١٨ میں حراستی مراکز کی موجودگی کا اقرار کر لیا ہے- چینی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ حراستی مراکز معمولی جرائم میں ملوث لوگوں کی اصلاح اور تربیت کے لئے قائم کے گئے ہیں-  لیکن جلا وطن ایغور افراد کے بیانات کے مطابق یہاں بغیر کسی جرم یا الزام کے ڈاکٹرز، مورخین، انٹلیکچوئل حضرات، یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز، یہاں تک کہ علمی کھیلوں میں چین کو تمغے دلوانے والے کھلاڑی اور زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے ایغور شہری بے انتہا اذیت کی زندگی گزار رہے ہیں- اس اذیت میں انکے آزاد گھر والے یہاں تک کہ بیروں ملک مقیم جلا وطن ایغور بھی شریک ہیں جنھیں یہ تک نہیں معلوم کے انکے پیارے کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں-

راقم کو اکتوبر ٢٠١٨ سے آج کی تاریخ تک پاکستان، بلجیم، امریکا، ترکی، آسٹریلیا، فن لینڈ، افغانستان، کازکستان، اور کینیڈا میں متعدد اوئیغور افراد سے تفصیلی انٹرویوز کرنے کا موقعہ ملا جن میں ایک چوالیس سالہ قازق شہری عمر بیکالی ان خوش نصیبوں میں شامل ہیں جو کیمپ سے رہا ہوئے  اور بڑی تعداد میں مغربی ذرائع ابلاغ تک کیمپ کی اندرونی حالات کی تفصیلات پہنچانے میں کامیاب ہوے- یاد رہے ٢٠١٦ سے جاری اس کریک ڈاون کے دوران حراست میں لئے گئے لاکھوں افراد میں سے صرف چند غیر ملکی رہا کیے گئے ہیں جن میں اکثریت قازقستان کے اوئیغور نسل کے شہریوں کی ہے- انکا کہنا ہے کہ "کیمپوں میں تشدد غیر انسانی اور نا قابل برداشت" ہوتا ہے- اوئی غور افراد کو جانوروں کی طرح زنجیریں بندہ کر رکھا جاتا ہے، انھیں کھانے اور سونے سے محروم رکھا جاتا ہے اور اس حد تک پیٹا جاتا ہے کہ انکے جسم لہو لہان ہوکر سوج جاتے ہیں- انکا کہنا ہے کہ انہیں چار دن تک لٹکا کر رکھا گیا کیونکہ "میں نے کمیونسٹ پارٹی اور چینی صدر کی شان میں گانے سے انکار کر دیا-" انکا کہنا ہے 'ذہنی تکلیف اتنی زیادہ ہے کہ رہا ہونے کے بعد بھی اس ظلم کی وجہ سے میں رات کو سو نہیں سکتا-" زیر حراست افراد کو کھانا لینے سے پہلے چینی صدر زی پنگ کا شکریہ ادا کرنا ہوتا ہے- چینی قوم اور کمیونسٹ پارٹی کی محبت میں گانے گانا پڑتے ہیں-  اپنی زبان بولنے کی اجازت نہیں- چینی زبان کے اسباق وقت پر یاد نہ کرنے پر اس حد تک تشدد کیا جاتا ہے کہ کیمپوں میں خود کشی کے واقعات سامنے آ رہے ہیں- راقم نے جب ان سے رابطہ کیا یہ جاپان میں تھے اور اس روز جاپانی پارلیمنٹ میں انکی سماعت تھی- انگریزی واجبی ہونے کی وجہ سے زیادہ تبادلۂ خیال ممکن نہیں تھا- یہ تفصیل انکے مغربی اخبارات کو دیئے جانے والے انٹرویوز سے لی گئی ہے- لیکن ترکی کے سفر میں ایک رات استنبول کے سفا کوئی نامی علاقے میں انکی شریک حیات روشان گل سے ملنے جانا ہوا تو انھوں نے کمال محبت سے مجھے اس رات اپنے ساتھ رہنے کی دعوت دی- روشان گل کے امر بکالی سے چار بچے ہیں جو انکے ساتھ ترکی میں مقیم ہیں- بیکالی خود اس وقت ہالینڈ میں تھے لیکن فون پر روشان سے مسلسل رابطے میں رہے- ان سے تفصیلی انٹرویو کے وہ حصے جواب تک  انٹرنیشنل میڈیا میں نہیں آ سکے انشاللہ شئیر کروں گی-   

آزاد افراد بھی ان حراستی مراکز میں جانے کے تصور سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ ستمبر ٢٠١٨ میں ایغور زبان کے سرکاری اخبار کے ایڈیٹر نے آٹھویں منزل سے چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی- ریڈیو فری ایشیا کے مطابق اسکےامریکا میں مقیم جلا وطن سبق کولیگ نے بتایا کہ اسے تفتیش کے لئے بلایا گیا تھا- کولیگ کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ با لکل سیاسی آدمی نہیں تھا لیکن اس اہم منصب پر فیض ہونے کے با عث اسے معلوم تھا کہ اگر چینی ایک دفعہ کسی سے تفتیش شروع کر دین تو اسے چھوڑتے نہیں- غالباً اس منصب کی وجہ سے ہی وہ یہ بھی جانتا تھا کہ حراستی مراکز میں کیا ہوتا ہے اور اس نے دنیا سے چلے جانے کو حراستی مراکز پر ترجیح دی- آزاد افراد کو بھی شہروں، قصبوں اور گاؤں میں چینی زبان اور ثقافت کی کلاسیں اٹینڈ کرنی ہوتی ہیں- ان افراد میں بھی خود کشی کے واقعات سامنے آئے ہیں-

عمر واحد نہیں جنہوں نے قید سے چھوٹنے کے بعد عالمی ذرائع ابلاغ اور مغربی حکومتوں کو باخبر کیا- انتیس سالہ مہر گل ترسون ہیں جنہوں نے امریکی کانگریس کے سامنے کیمپس کی تفصیلات کی چشم   دی-یہ مصر میں اپنے شوہر کے ساتھ تعلیم کے حصول کے لئے مقیم تھیں، اپنے والدین سے ملنے کے لئے ترکستان پہنچیں تو انکے ایک ساتھ پیدا ہونے والے تین بچوں کو ان سے الگ کر دیا گیا اور انہیں کیمپ پہنچا دیا گیا جہاں انہیں انتہائی ہولناک تکالیف سے دو چار ہونا پڑا- جس وقت ترجمان ان کا بیان امریکی کانگریس کو پڑھ کر سنا رہی تھیں، ترسوں برابر میں بیٹھی آنسوؤں سے رو رہی تھیں- انکی باڈی لینگوج اور تاثرات سے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اپنے آپ کو رونے سے روکنے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن قید کے دنوں کی یادیں اتنی تکلیف دہ ہیں کہ وہ ضبط نہیں کر پا رہیں-  کیمپ میں حراست کے دوران ترسون کو کسی جرم کے الزام کے بغیر بے لباس کر کہ تفتیش کی جاتی- تفتیش کے دوران انہیں متعدد مرتبہ بجلی کے جھٹکے دیئے گئے- ترسوں کا کہنا ہے کہ میں نے "ان سے التجا کی کہ مجھے مار ڈالو"- انکا یہ بھی کہنا ہے کہ تشدد سے انکے ہاتھوں سے خون بہنے لگتا- ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک کمرے میں ساٹھ کے قریب خواتین قید تھیں اور ہمیں سونے کے لئے باریاں لگانی پڑتی تھیں- انکا یہ بھی کہنا ہے کہ وہاں خواتین کو کچھ کیپسولز زبردستی کھلائے جاتے تھے جس کے بعد کچھ خواتین کو خون آنا شروع ہو جاتا تھا اور کچھ کی ماہ واری  بند ہو جاتی تھی- ترسون کو شک ہے کہ یہ sterilization یعنی پیدائش اور افزائش نسل کو روکنے کی دوا ہوتی ہے- عورتوں کی افزائش نسل کی اہلیت ختم کرنے کی کوشش یا زبردستی بچے پیدا کرنے کی کوشش اقوام متحدہ کی جینو سائیڈ یعنی کسی قوم کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی تعریف پر پوری اترتی ہے-
چین میں قید سے باہر بھی مسلمان خواتین کو زبردستی برتھ کنٹرول استعمال کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے- یہی نہیں ایغور خواتین کو کئی دھائیوں سے زبردستی ابارشن پر بھی مجبور کیا جاتا رہا ہے- امریکا کی ایک یونیورسٹی کی ایغور طالبہ نے راقم کو بتایا کہ کوئی ١٥ سال پہلے اسکی والدہ کو زبردستی نو ماہ کے حمل کے باوجود ابارشن کے لئے ہسپتال لے جایا گیا لیکن اسکے اپنے والد چونکہ اسی ہسپتال میں ڈاکٹر تھے اس لئے انہوں نے بھاری رشوت دیکر جعلی رپورٹ بنوائی اور اسکی چھوٹی بہن کو ڈلیور کروا لیا گیا-  طالبہ کا کہنا ہے کہ ایک وقت تھا جب ایغور باشندے رشوت دیکر ظلم سے بچ جاتے تھے مگر اب ایسا ممکن نہیں- طالبہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسکی ١٥ سالہ بہن زبردستی اسکی والدہ سے الگ بورڈنگ ہاؤس میں رہنے پر مجبور ہے جہاں اسے اپنی زبان بولنے کی اجازت نہیں-  مسلمان بچوں کو اپنے گھروں میں رہ کر تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے- وہ صرف ویک اینڈ پر گھر آ سکتے ہیں- یاد رہے شمالی امریکا میں آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے مقامی قبائل کے بچوں کو زبر دستی والدین سے الگ کر کہ ریزدنشیل اسکولوں میں رکھا گیا تاکہ نئی نسل اپنے قبیلے کی ثقافت اور مذہبی روایات سے بےخبر رہے- شمالی امریکا میں مقامی قبائل کی پوری پوری نسلیں ذہنی طور پر ناکارہ ہو گئی ہیں اور سیٹلرز اپنی اس پالیسی کے مقصد میں کامیاب بھی رہے ہیں- مقامی نارتھ امریکی بچوں کو والدین سے الگ کر کہ ریزدنشیل اسکولوں میں رکھا گیا تاکہ انکی نسل کو پوری طرح یوروپی سیٹلرز کی ثقافت میں ضم کیا جا سکے اور زمین کا کوئی دعوے دار نہ رہے- اسی پالیسی پر چین اکیسویں صدی میں عمل درامد کر رہا ہے- یاد رہے اب انسانی حقوق کے تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ برطانوی استعمار کی یہ پالیسی در اصل جینو سائیڈ یعنی نسل کشی کے زمرے میں آتی ہے-

آسٹریلیا میں اسلامو فوبیا کے خلاف کام کرنے والے صحافی سی جے ویلرمین کا کہنا ہے کہ انہیں آسٹریلیا میں جلا وطن ایغور افراد نے بتایا کہ چینی حکومت ایغور بچوں کو خواہشمند چینی نسل کے لوگوں میں فروخت بھی کر رہا ہے- چین دنیا کا پہلا ملک نہیں جو ایک نسل کو ختم کرنے کل لئے اسکے بچوں کو والدین سے الگ کر رہا ہے تاکہ آئندہ نسل پچھلی نسل کی ثقافت زبان مذہب کو فراموش کر کے ایک نئی نسل میں تبدیل ہو جائے- سن پچاس کی دہائی  میں اسرائیل میں عرب یہودیوں کے بچوں کو اغوا کر کہ یوروپی یہودیوں کو فروخت کرتا رہا ہے- جوناتھن کک اور خود صیہونی تھنک ٹینکس کا تجزیہ یہ کہ بچوں کو والدین سے الگ اس لئے کیا گیا کہ اسرائیل میں عرب ثقافت نہ پنپ سکے اور عرب یہودی نسل صفحہ ہستی سے مٹ جائے- اس پالیسی کا مقصد یہ تھا سن ٢٠١٦ میں اسرائیلی پارلیمنٹ میں اس بات کا سرکاری سطح پر اعتراف کیا گیا- راقم کا ایک تفصیلی مضمون اس موضوع پر ایکسپریس سنڈے میگزین میں آ چکا ہے-

اسکے علاوہ حکومتی ٹینڈرز کے مطابق چینی حکومت بہت بڑی تعداد میں ایغور بچوں کے لئے یتیم خانے تعمیر کر رہی ہے- کیمپوں میں مقیم افراد کے بچوں کو یہاں تک کہ پاکستانی باپوں اور زیر حراست اوئیغور ماؤں کے بچوں کو بھی بڑی تعداد میں والدین کی زندگی میں ہی یتیم خانوں میں منتقل کر دیا گیا ہے-  یاد رہے سنکیانگ میں بڑی تعداد میں بزنس کے سلسلے میں جانے والے سینکڑوں پاکستانی افراد نے ایغور عورتوں سے شادیاں کر رکھی تھیں- ان میں سے بیشتر عورتوں کو چین نے زیر حراست لے لیا ہے- ماؤں کو بغیر کسی جرم یا الزام زیر حراست میں لینے کے بعد پاکستانی باپوں کے ویزا بڑھانے سے انکار کر دیا گیا ہے- جو باپ چین سے باہر مقیم تھے انہیں ویزا ہونے کے باوجود بارڈرز اور ائرپورٹس سے واپس کر دیا گیا ہے- بچوں کو انکے والدین سے الگ کرنا اور انکی زبان اور ثقافت سے روکنے کی کوشش بھی اقوام متحدہ کی جینو سائڈ کی تعریف پر پورا اترتا ہے- چین نے ایغور زبان کی تعلیم پر بھی پابندی لگا دی ہے- یہاں تک کہ پاکستان میں مقیم ایغور خاندانوں کو جو چین کے قبضے کے بعد سے لیکر اسی کی دہائی تک پناہ گزینوں کے طور پر پاکستان میں وارد ہوے کے کھولے گئے ایک ایغور اسکول کو بھی چین نے پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈالکر بند کروا دیا- 
نیو یارک سے نکلنے والے ایک اخبار ایپوچ ٹائمز کے مطابق استنبول میں مقیم  چون سالہ قازق خاتون نے جو ١٥ ماہ کیمپ میں گزرنے کے بعد ستمبر میں رہا ہوئیں نے کیمپوں میں بڑے پیمانے پر جنسی زیادتیوں کے واقعات سنائے- انکا کہنا ہے کہ خواتین کو ساری رات ریپ کیا جاتا ہے- مزاحمت کرنے والی خواتین کو  ایک انجکشن لگا یا جاتا  ہے جس سے فوری موت واقع ہو جاتی ہے-  انکا کہنا ہے کہ انہوں نے قید کے دوران ذاتی طور پر دو خواتین کی انجکشن کے ذریعے اموات دیکھیں- عمر بیکالی کا بھی کہنا ہے کہ انہوں نے قید کے دوران مختلف کمروں سے گارڈز کو [ڈیڈ] باڈیز گھسیٹے ہوے دیکھا ہے- ترسون کا بھی کہنا ہے کہ اچانک ساتھ رہنے والی خواتین غائب ہو جاتی تھیں اور پھر انکا کچھ پتہ نہیں چلتا تھا- خود انکی قید کے دوران انکے کمرے سے نو خواتین غائب ہوئیں- چشم دید گواہوں کے ان بیانات سے ثابت ہوتا ہے کہ جیل میں بڑے پیمانے پر اموات بھی ہو رہی  ہیں- جن میں زہریلے انجکشن، تشدد، کے علاوہ  صحت و صفائی کا مناسب انتظام نہ ہونے کے با عث بھی اموات ہو رہی ہونگی جن میں ضعیف اور بیمار افراد جو قید کی صعوبت کی برداشت نہیں کر سکتے میں اموات کا ہونا غیر معمولی بات نہیں- ترسون کا کہنا ہے کہ بعض خواتین ایک برس سے نہائ نہیں تھیں- جیل کے ٹایلیٹ میں بھی کیمرے نسب تھے جنکی وجہ سے قضائے حاجت کی تکمیل بھی انتہائی اذیت ناک تھی- 
جلا وطن ایغور باشندوں کے مطابق سن ٢٠١٧ سے ان کا اپنے گھر والوں، خاندان اور دوستوں سے رابطہ تقریباً ختم ہو گیا ہے- کاشغر سے تعلق رکھنے والے استنبول میں مقیم ایک ایغور باشندے نے راقم کو بتایا کہ اسے کچھ معلوم نہیں کہ اسکے گھر والے کس حال میں ہیں، قید میں ہیں یا قید سے باہر- بیروں ملک ایغور باشندوں کا رابطہ اس لئے بھی مشکل ہے کہ زیر حراست افراد کا ایک ان لکھا جرم یہ بھی گردانا جاتا ہے کہ انکے گھر والے، خاندان یا دوستوں میں کوئی ایغور ملک سے باہر مقیم ہے- یہ صورت حال اتنی زیادہ بڑھ گئی کہ کسی ایغور باشندے کے پاس کوئی غیر ملکی رابطہ نکلنا یا اسکا وہاٹسیپ یا کوئی دوسری ممنوعہ سوشل میڈیا ایپلیکیشن استعمال کرنا بھی اسے حراست میں لینے کے لئے کافی سمجھا جاتا ہے- ایغور آبادی کو اپنے موبائل پر ایک سرولینس ایپ یعنی نگرانی کرنے والی موبائل ایپ انسٹال کرنے کا حکم  ہے تاکہ انٹرنیٹ اور موبائل پر انکی سرگرمیوں کی مسلسل نگرانی کی جا سکے- اسکے علاوہ ایغور آبادی کو اپنی گاڑیوں میں جی پی ایس بھی لازمی لگانے کا سرکاری حکم ہے تاکہ انکی نقل و حرکت کی مسلسل نگرانی کی جا سکے- مارکٹس میں ایغور دکانداروں کو چینی گارڈز کی خدمات  اپنے ذاتی خرچ پر مستعار لینے کا بھی حکم ہے اور کلوز سرکٹ کیمرہ بھی اپنے خرچ پر لگانے کا حکم ہے- اسکے علاوہ چینی حکومت نے ایغور علاقوں میں  پبلک مقامات کے چپے چپے کو سرولینس کیمرہ سے کور کیا ہے- ایسا صرف مشرقی ترکستان میں کیا گیا ہے-  بیجنگ یا چین کے کسی اور حصے میں چینی حکومت کو ان انتظامات کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی- 
اس سب کا مطلب کوئی یہ نہ سمجھے کہ صرف مذہبی رحجان رکھنے والے افراد کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے شبے میں گرفتار کیا گے اہے- زیر حراست افراد میں اولین لوگ پڑھے لکھے  طبقات سے تعلق رکھتے ہیں جن میں سے اکثریت سیکولر طرز زندگی کے حامل تھی- طاہر امین کا تعلق ایک خوشحال اور پڑھے لکھ گھرانے سے ہے- انھوں نے دسمبر ٢٠١٨ میں راقم کو انٹرویو کے دوران  بتایا کہ انھوں نے سنکیانگ یونیورسٹی سے انگلش لٹریچر میں ماسٹرز کیا تھا اور ایک پاپولر میگزین میں لکھنے کے علاوہ اپنے دو اسٹارٹ اپ بھی چلا رہے  تھے اور ٹریننگ کے حوالے سے ایک نیا اسٹارٹ اپ شروع کرنے والے تھے-  وہ ایغور تاریخ اور ثقافت پر دو کتابوں کے بھی مصنف تھے-  ٢٠١٦ میں جب تبت کے کمیونسٹ پارٹی لیڈر کا تبادلہ سنکیانگ میں ہوا تو انکے سرکاری اداروں میں ملازمت کرنے والے دوستوں نے انہیں قبل از وقت وارننگ دی کہ پڑھے لکھے  اسکالر انٹلیکچوئل حضرت پر کریک ڈاون شروع ہونے والا ہے اس لئے بہتر یہ ہے کہ آپ ملک سے باہر چلے جائیں- طاہر فروری ٢٠١٧ میں اسرائیل کی حیفہ یونیورسٹی میں داخلہ لیکر ملک سے نکلنے میں کامیاب ہوے اور وہاں سے واشنگٹن پہنچے تا حال اپنی بیوی اور جان سے پیاری پانچ سالہ بیٹی سے رابطے میں نہیں-

بعض جلا وطن ایغور افراد نے راقم کو بتایا کہ انکے زیر حراست رشتے داروں کو کبھی کبھی ترکستان میں مقیم انکے گھر والوں سے فون پر بات کروائی جاتی ہے لیکن اس مختصر فون کال میں قیدی صرف اپنی خیریت بتاتا ہے، یہ نہیں بتا سکتا کہ وہ کب رہا ہو گا- مریم نے بتایا کہ اسکے ترکستان سے باہر مقیم ایک بھائی سے کبھی کبھی بات ہوتی ہے جسکا کہنا ہے کہ کوئی ایک مہینے سے ہر دو سے تین ہفتوں بعد والد کا فون والدہ کو آتا ہے- بی بی سی اردو کو انٹرویو دیتے ہوے ایک پاکستانی شوہر کا بھی کہنا ہے کہ اسکی بیوی کی مختصر فون کال سے اسے اسکی زندگی کا ثبوت ملتا ہے- نام نہ لینے کی شرط پر شوہر نے یه بھی بتایا کہ اسکی بیوی کا کہنا ہے کہ اسے مرد گارڈز کے سامنے بے لباس ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے-        
امریکا میں مقیم صالح حدیر نے راقم کو بتایا کہ وہ پانچ سال کا تھا جب ایک پناہ گزین کے طور پر اپنے خاندان کے ساتھ امریکا آ گیا لیکن اس وقت اسکے چھیاسی رشتے دار چین کے حراستی کیمپوں میں ہیں- اسکے دو کزنز کو بغیر کسی واضح  وجہ کے موت کی سزا دی گئی ہے لیکن رابطہ نہ ہونے کے با عث یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سزا پر عمل ہو گیا یا نہیں- اس سوال پر کہ آپ کو اس بات کا ڈر نہیں کہ آپکے میڈیا میں آواز اٹھانے پر آپکے رشتے داروں پر ظلم میں اضافہ ہو سکتا ہے صالح کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس اب کوئی چارہ نہیں رہا اپنی فیملی ختم ہونے کا رسک لیں یا اپنی پوری قوم ختم ہونے کا- صالح  حدیر نے راقم کو یہ بھی بتایا کہ ہماری صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے درخواست ہے کہ وہ خطے کا ذکر کرتے ہوے- سنکیانگ کے بجائے مشرقی ترکستان کے الفاظ استعمال کریں- ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوے انکا یہ بھی کہنا ہے کہ گو "بڑے پیمانے پر اموات کے ثبوت و شواہد نہیں ملے ہیں لیکن اسکا مطلب یہ نہیں نکالا جا سکتا کہ بڑے پیمانے پر اموات ہو نہیں رہیں ہیں- حراستی مراکز میں کیا ہو رہا ہے، دنیا کو اسکے بارے میں بہت کم معلوم ہے." انکا یہ بھی کہنا ہے کہ سیٹیلائٹ دیتا کے مطابق ہر حراستی مرکز میں ایک کریمٹوریم یعنی مردوں کو ٹھکانے لگانے کا اوٹومیٹک پلانٹ موجود ہے جہاں لاش کو سیکنڈوں میں راکھ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے-" 
مشرقی ترکستان پر ریسرچ کرنے والے ایک محقق ریان تھوم کے مطابق چین کے سرکاری اخبارات میں شائع ہونے والے ایک ٹینڈر میں ارمچی شہر میں موجود ایک کریمتوریم کے لئے پچاس مضبوط دل والے گارڈز کی بھرتی کے لئے اشتہار آیا ہے- ریان تھوم کا کہنا ہے کہ چین کے اقدامات کو دیکھتے ہوئے یہ بات نہ ممکن نہیں کہ چین بڑے پیمانے پر ایغور آبادی کو نازی جرمنی کی طرح ختم کرنے کی تیاری کر رہا ہو-  

خطے کی تاریخ تبدیل کرنے کی کوشش (اسکو اگر الگ سٹورے بنا کر باکس میں دے دو تو اچھا ہے) 
ماؤونگ زارنی برما میں پیدا ہونے والے بدھ مت سے تعلق رکھنے والے روہنگیا ایکٹوسٹ ہیں، انکا کہنا ہے کہ کسی نسل کو صفحہ ہستی سے مٹانے  کے لئے اسکی تاریخ کو تبدیل کرنا بھی بیحد ضروری ہوتا ہے- یاد رہے چینی حکومت عرصے سے اس علاقے کی تاریخ تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اسکا یہ کہنا ہے کہ مشرقی ترکستان کا علاقہ ہزاروں سال سے چین کا حصہ رہا ہے- انڈیانا یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر گارڈنر بوونگڈن نے اپنی ٢٠١٠ میں شائع ہونے والی کتاب
 Uighur: Strangers In Their Own Land
میں اس بات پر تفصیلی بحث کی ہے کہ کس طرح چین کا یہ دعوا غلط ہے کہ یہ علاقہ ہزاروں سال سے چین کا حصہ رہا ہے- کمیونسٹ پارٹی کے قبضے سے قبل یہاں چنگ سلطنت کا بھی قبضہ رہا لیکن اس سلطنت کو بھی چینی کمیونسٹ حکومت کا پیش رو سمجھنا غلط ہے- خود بیسویں صدی کے چینی ریکارڈز میں اس علاقے کو چین کا حصہ نہیں دکھایا گیا- اسکے علاوہ سنکیانگ کا لفظ کا مطلب ہی 'نئی  سرحد'  ہے یعنی وہ علاقہ جو پہلے چین کے قبضے میں نہیں تھا- یہ بھی یاد رہے مارکو پولو نے چودھویں صدی میں اس علاقے کا تذکرہ ترکستان کے نام کیا ہے- متعدد مغربی تحقیق نگاروں کے مطابق چنگ حکمرانی کے دوران بھی اس علاقے میں ہان چینی نسل کی آبادی نہ ہونے کے برابر تھی اور اس علاقے پر کنٹرول وسط ایشیا سے تجارت کے لئے ایک مجبوری تھی جسکو پیش نظر رکھتے ہوۓ یہاں عسکری چوکیاں قائم کی گئی تھیں- لیکن ١٩٤٩ میں چینی کمیونسٹ پارٹی نے جب اس علاقے پر قبضہ کیا تو اس وقت یہاں ہان چینی نسل کی آبادی دو سے چار فیصد تھی جو سن ٢٠٠٠ تک بڑھتے بڑھتے چالیس فیصد تک پہنچ گئی- اسکے علاوہ چین نے اس علاقے کو اس طرح انتظامی لحاظ سے تقسیم کیا کہ بیشتر یونٹس میں جو مںزو کہلاتے ہیں، خود مختاری جس کے حقدار ایغور تھے، ایغور آبادی کے بجائے دوسری اقلیتوں میں منتقل ہو گئی- بوونگڈن کا کہنا ہے کہ ایسا اس لئے کیا گیا کہ چین کو سب سے زیادہ ڈر ایغور نسل کے لوگوں سے ہی تھا اور ہے جو خطے میں اکثریت میں تھے-

میڈیا کا رویہ 
گو مغربی محقیقین نوے کی دہائی سے اس علاقے اور ایغور افراد پر تحقیقات سامنے لاتے رہے ہیں لیکن یہ ریسرچ کمیونٹی تک ہی محدود رہی ہیں- بہت عرصے تک مغربی میڈیا ایغور پر چینی استحصال کو نظر انداز کرتا رہا لیکن ٢٠١٦ کے بعد سے ایغور مسلمانوں کے حوالے سے بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی تنظیموں کی آوازیں بھی اب کافی بلند ہیں۔ لیکن راقم کی رائے میں صورت حال مغربی میڈیا کی رپورٹس سے بہت زیادہ خراب ہے- خصوصا ً مغربی میڈیا حراست کے دوران ریپ  اور اموات کی رپورٹنگ اس طرح نہیں کر رہا جس طرح کرنی چاہیے-

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی 1999 کی  رپورٹ (اسکا بھی اگر الگ باکس بن سکے تو زیادہ دلچسپ ہو گی)

ذیل میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ١٩٩٩ کی ایک رپورٹ کے بارے میں راقم کا ایک مضمون شئیر کیا جا رہا ہے جس سے اندازہ ہو گا کہ نوے کی دھائی میں بھی ہمارے ایغور بھائی کس تکلیف سے گزر رہے تھے- 

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ (یہ رپورٹ اگر الگ کہانی کی شکل میں شائع ہو سکے تو اچھا ہے ورنہ ایسے ہی ٹھیک ہے)  
کل رات دیر تک سنکیانگ یعنی مشرقی ترکستان کے ایغور مسلمانوں کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سن 1999 کی 94 صفحات پر مشتمل رپورٹ پڑھتی رہی- ظلم کی ایسی روح فرسا داستانیں ہیں کہ میرے جیسے عملیت پسند نسبتاً غیر جذباتی صحافی کا قلم انہیں بیان کرنے سے قاصر ہے- یاد رہے یہ آج کی لکھی ہوئی رپورٹ نہیں آج سے ١٩ سال پہلے مرتب کی گئی ہے اور ١٩٩٠ کی دہائی کی گرفتاریوں، مختصر یا بغیر مقدمہ سزاؤں، قید کے دوران تشدد، اور گرفتاریوں کا پس منظر انفرادی طور پر بیان کیا ہے- اسکے ساتھ ساتھ ان وجوہات اور چینی حکومت کی ظالمانہ پالیسیوں کا  تفصیل سے جائزہ لیا ہے جو وہاں پچھلے ستر سال سے شدید بیچینی کا سبب بن رہی ہیں- مذہبی پابندیوں کے علاوہ معاشی طور پر بھی سنکیانگ کے ترک نسل کے باشندوں پر ایسی پابندیاں ہیں جو ترکستان میں رہنے والی چینی نسل کی قوموں پر نہیں جسکی وجہ سے ایغورچین کی  پسماندہ ترین قوم بن کر رہ گئی ہے- جہاں تک چین کے اس الزام کا تعلق ہے اور جسے مغربی پریس بھی دہراتا رہا ہے کہ سنکیانگ کے مسلمان باشندے دہشت گردی میں ملوث ہیں تو ایمنسٹی کی اس تفصیلی رپورٹ سے اور جو کتابیں اور ریسرچ پیپرز اس وقت میرے زیر مطالعہ ہیں، انکے مطابق علیحدگی کے جذبات ترکستان کے مسلم باشندوں میں شروع سے موجود رہے ہیں- بلکہ موجودہ کمیونسٹ حکومت کے قبضے سے بہت پہلےسے جب چنگ سلطنت نے اٹھارویں صدی میں اس علاقے پر قبضہ کیا- غیر جانبدار مصنفین اس بات پر متفق ہیں کہ چین کی ظالمانہ نو آبادیاتی یعنی کولونیل پالیسیوں اور خصوصا ً مذہبی پابندیوں کے با عث وقت گزرنے کے ساتھ یہ جذبات مسلسل بڑھتے ہی رہے ہیں- لیکن اسکے باوجود محقیقین کا کہنا ہے کہ چین کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں جہاں خود چینی نسل کے لوگوں نے احتجاج کے دوران تشدد کا راستہ اختیار کیا، چین کا رویہ سنکیانگ کے مسلمانوں کے ساتھ بہت سخت ہوتا ہے- دوسرے علاقوں میں مظاہرین کی پر تشدد کا روائیوں کو بھی نظر انداز کیا جاتا ہے جبکہ متعدد مواقع پر سنکیانگ میں پر امن احتجاج کو بھی پولیس تشدد کر کہ مظاہرین کو بھی جوابی کاروائی پر مجبور کر دیتی ہے- اور اسکی وجہ یہ ہے کہ صوبے میں بڑی تعداد میں تیل اور گیس کے ذخائر اور یورپ اور ایشیا کے سنگم پراسکی اسٹرٹیجک جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے یہ صوبہ چین کے لئے بہت اہم ہے اور چین مسلسل مسلم اکثریت جو اب اقلیت میں بدلنے والی ہے، خوف زدہ  ہے- 
محققین نے اس بات پر بھی بحث کی ہے کہ چینی حکومت تاریخ کو بھی تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور سرکاری سرپرستی میں جو تاریخ مرتب کی جا رہی ہے اسکے مطابق یہ صوبہ قبل مسیح سے چین کی ملکیت رہا ہے- کیمبرج اور دوسرے مغربی اشاعتی اداروں پر چین کا سنسرشپ دباؤ کی خبریں اب سامنے آ چکی ہیں- کیمبرج نے چین کے دباؤ کو قبول بھی کر لیا ہے اور چین کے بارے میں ٣٠٠ آرٹیکلز کو اپنے تحقیقی مجلہ سے نکال دیا گیا ہے یا چین کے قاریوں کے لئے بلاک کر دیا ہے جس پر اسے سب و شتم کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے- چین کا یہ خوف کہ جو کچھ وہ یہاں کے مسلمانوں کے ساتھ کر رہا ہے وہ دنیا کو معلوم نہ ہو حکومت کو سنسر شپ کے حوالے سے عجیب و غریب اقدامات کرنے پر مجبور کر تا رہا ہے مثلاً بیروں ملک حکومتوں پر دباؤ کے وہ ایغور اور ترک نسل کے باشندوں کو واپس بھیجیں. ان میں تھائی لینڈ، مصر، کمبوڈیا اور عرب امارات کے بارے میں خبریں ہیں کہ انہوں نے ایغور مسلمانوں کو گرفتار کیا ہے اور کہیں کہیں چین کو واپس بھی کیا گیا ہے- ایغور مسلمانوں سے پاسپورٹ واپس لے لئے گئے ہیں-  کی واضح سے بھی ایغور مسلمان چین سے فرار ہونا تقریباً نہ ممکن ہے-
٢٠١٤ میں کنمنگ نامی شہر میں جو چاقو سے حملہ ہوا اور جسے دہشت گردی کی بڑی واردات بلکہ چینی نائن الیون کا نام دیا گیا اسکے بارے میں نک ہولڈ اسٹاک نامی مصنف، جس نے انگلش ٹیچر کی حیثیت سے تین سال چین اور ایک سال کاشغر میں  قیام کیا، کا کہنا ہے کہ مارے گئے اور گرفتار دہشت گرد کہلانے والے سارے لوگ وہ تھے جو ایک گروپ کی صورت میں تھائی لینڈ کے راستے چین سے فرار ہونا چاہتے تھے- ان میں سے کچھ لوگ پکڑے گئے تھے- اور یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے گرفتاری پر موت کو ترجیح دی اور مرنے سے پہلے چند لوگوں کو مار کر دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کی- نہ تو انکے پاس چاقو کے علاوہ کوئی دوسرا ہتھیار تھا اور نہ ہی انکا تعلق دہشت گردی کے کسی منظم نیٹورک سے تھا- گرفتاری کے بعد قید خانے میں جو کچھ ہوتا ہے اس سے بچنے کے لئے بہت سے لوگ خود کشی کی کوشش کرتے رہے ہیں- اسکا علاج چینی انتظامیہ نے یہ کیا ہے کہ تفتیش اور تشدد کے دوران انہیں ایک سخت دھاتی ہیلمٹ پہنایا جاتا ہے کہ وہ اپنا سر دیوار سے مار کر خود کو ختم نہ کر لیں- ایمنسٹی کے مطابق تشدد کے یہ طریقے جن کو میں بیان کرنے سے قاصر ہوں، تاریخ میں اور خود چین کے کسی دوسرے علاقے میں انکے استعمال کی کوئی مثال نہیں ملتی- 


١٩٩٧ کے رمضان میں جو کچھ ایک امام کی بلا جواز گرفتاری اور پر امن احتجاج پر بھا ری پولیس کی نفری کا تشدد کا ذکر پڑھ کر یاد کرنے کی کوشش کی کہ  میں اس وقت کیا کر رہی تھی؟ پاکستانی پریس کا کیا کردار تھا؟ اس وقت تو سی پیک کا بھی کوئی ذکر نہیں تھا کہ چین سے تعلقات خراب ہونے کا خطرہ ہوتا- اس احتجاج کے مظاہرین کو مرد، عورت اور بچوں کی تمیز کے بغیر فروری کی سخت سردی میں منفی درجہ حرارت میں باہر کھڑا کر کہ برفیلے پانی سے نہلایا گیا برفیلی زمین پر گھنٹوں کھڑے ہونے پر مجبور کیا گیا- اسکے بعد ننگے پاؤں برف پر دوڑنے کا حکم دیا گیا- دو گھنٹے کے بعد ان میں سے کچھ لوگوں کو ہسپتال لے جایا گیا اور فراسٹ بائٹ کے نتیجے میں ضائع ہونے والے اعضاء کو کٹوانے کے بعد گھر جانے کی اجازت دے دی گئی- باقی کو گرفتار کر لیا گیا- گرفتار افراد میں سے بڑی تعداد کو بغیر مقدمہ اور دفاع کے حق کے سزائے موت دی گئیں- کچھ کی سزاؤں کے پبلک ریلی میں اعلان کے فوراً ریلی سے ہی انہیں پھانسی گھاٹ لے جایا گیا- اپیل کا قانون موجود ہے لیکن سزائے موت کے پلٹ جانے کی کوئی روایت نہیں ملتی- لیکن جس نوعیت کا تشدد جیل میں ہو رہا ہے، تو یہ سزائے موت  پانے والے خوش قسمت محسوس ہوتے ہیں-       

دنیا اس وقت سعودی عرب کے ایک صحافی کے ساتھ شقی القلبی پر حیران ہے لیکن چین میں لاکھوں افراد کے ساتھ کم از کم بیس سال سے جو کچھ کیا جا رہا ہے، اس پر خاموشی نہیں تو احتجاج بھی نہ ہونے کے برابر ہے- عالمی میڈیا کی اس غیر متوازن کوریج معیارات کی وجوہات نا قابل فہم ہیں- لیکن عالمی میڈیا کو کیا کہا جائے شرمندگی تو اپنے وجود پر بھی ہوتی ہے کہ چین کا پڑوسی ہوتے ہوئے ہم بے خبر رہے- ایک مغربی مصنف مائیکل ڈلون نے چین کے بیرونی تعلقات کی حکمت عملی پر ایک کتاب لکھی ہے- کتاب کے مطابق چین اپنے سارے مسلم ہمسایوں اور دیگر طاقت ور مسلم ممالک سے اس مسئلے پر غیر جانبداری اور خاموشی کا وعدہ مختلف استریتجیز اور دباؤ استعمال کر کہ لے چکا ہے- مشرقی ترکستان پر ایک کتاب کے مطابق ١٩٥٥ میں ہی پاکستان کی حکومت سے بھی چین کی اس مسئلے پر درپردہ مفاہمت ہو چکی ہے- کینیڈا کے شہر ایڈمنٹن میں راقم کو انٹرویو دیتے ہوے مشرقی ترکستان کی جلا وطن حکومت کے صدر نے بتایا کہ انہوں نے پاکستان میں قیام کے دوران یہ خبر پڑھی کہ چند ایغور افراد جو اپنی جان پر کھیل کر پاکستان پہنچے تھے کو مقامی سپاہیوں نے پکڑ کر بارڈر پر موجود چینی گارڈز کو واپس کر دیا اور چینی گارڈز نے پاکستانی سپاہیوں کے سامنے ان سب کو موت کی گھات اتار دیا-   
اور اب جو صورتحال ہے اس میں تو کوئی احتجاج کا سوچ بھی نہیں سکتا لیکن ٨٠ اور ٩٠ کی دہائی میں بھی ٩٩ فیصد احتجاج چین کی معاشی پالیسیوں اور بلا جواز بغیر الزام گرفتاریوں کے خلاف ہوتے تھے اور مظاہرین کے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہوتا- واحد ہتھیار جو دہشت گرد کہلانے والے استعمال کر سکتے ہیں وہ چاقو ہے- اس سے بہت زیادہ پر تشدد کاروایاں تبت میں ہوئیں ہیں لیکن عالمی دباؤ کی وجہ سے چین کا اب انکے ساتھ بہت بہتر رویہ ہے-  
کولوریڈو یونیورسٹی کی ازابیلا اسٹائن ہاور نامی ایک محقق کا کہنا ہے کہ تبت کے مقابلے میں سنکیانگ کے مسلمانوں کو عالمی سماجی سپورٹ نہ ہونے کے برابر ملی ہے اور اسکی وجہ یہ ہے کہ تبت کے مقابلے میں عالمی میڈیا میں سنکیانگ کی کوریج بہت کم ہے اور پھر نائن الیون کے بعد چین نے سنکیانگ میں بغیر وسائل غیر منظم علیحدگی کی تحریک کو اسلامی انتہا پسندوں اور القاعدہ سے جوڑا- جس پر امریکا نے بھی مشرقی ترکستان اسلامی تحریک کو دہشت گرد تنظیم مان لیا- جب کہ تمام غیر جانبدار محقیقین اور مصنفین اس بات پر متفق ہیں کہ کسی قسم کی کوئی ملیشیا موجود نہیں جیسی کہ ہمیں کشمیر میں نظر آتی ہیں- تشدد کی کاروائیاں مظاہرین اور پر امن احتجاج پر پولیس کے رد عمل پر  جوابی رد عمل کا نتیجہ ہوتی تھیں- یہی بات ایمنسٹی نے بھی ثبوتوں کے ساتھ مذکور کی ہے اور  چینی اقلیتوں  اور ترکستان پر تحقیق کرنے والے مصنفین جیمز ملورڈ، نک ہولڈ سٹاک ، بوونگدوں گارڈنر نے اپنی کتابوں اور مختلف تھنک ٹینکس کی رپورٹس میں مذکور کی ہیں-   
مجھے کچھ معاملات میں  انسانی حقوق کی تنظیموں سے شکایات ہیں لیکن اس رپورٹ پر ایمنسٹی کو دعائیں دینے کا دل چاہ رہا ہے-  لیکن ان غیر منظم مظاہرین کے ساتھ یہاں تک کے کم عمر بچوں کے ساتھ بھی جیل میں جو کچھ ہوا وہ بیان کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہی- رپورٹ کا لنک دے رہی ہوں- اگر کوئی لکھنے والا اسکے کچھ حصوں کو اردو قاری کے لئے ضبط تحریر کرنے میں تعاون کر سکے تو الله شاید ہماری دنیا اور آخرت میں ہم سے بھی آسان معاملہ کرے-

ہم ان بے بس مسلمانوں کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟
یہ ایک طویل المدت اور صبر آزما کام ہے- فوری نتائج کے خواہشمند زحمت نہ کریں- لیکن صحیح سمت میں جدو جہد کی جائے تو با لکل نتائج نکلیں گے اور ان بے بس مسلمانوں کی مشکلات میں کمی ہو گی- یاد رکھیں چین انسانیت کے خلاف ان جرائم کو دنیا سے چھپانا چاہتا ہے اور وہ اس میں کامیاب بھی رہا ہے- اب جبکہ سب کچھ سامنے آ رہا ہے اور خود ایغور قوم نے اپنی خاموشی توڑ دی ہے، سب سے اہم کام یہ ہے کہ ہم خود انکے بارے میں آگاہی حاصل کریں اور اپنے ارد گرد کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کو آگاہی دیں- بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس پر اثر نہیں ہوتا مگر چین کو شرم دلانا بہت ضروری ہے-  ایغور مسلمانوں کے بارے میں ہر زبان میں فیس بک پیجز موجود ہے- انہیں جوائن کریں اور مصدقہ پوسٹس کو پھیلانے میں مددگار بنیں- جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ تصدیق کیسے کریں تو فیس بک اور دوسرے سوشل میڈیا چینلز پر ایغور افراد سے رابطے کی بھی کوشش بھی کی جا سکتی ہے-سب نہیں لیکن پڑھے لکھے اور مغربی ممالک میں مقیم ایغور کی بڑی تعداد  انگریزی جانتی ہے اور وہ دوسرے مسلمانوں سے  اپنی کہانیاں شئیر کرنا چاہتے ہیں اور اس بات پر افسردہ ہوتے ہیں کہ مسلمان ان پر گزرنے والی بپتا سے بے خبر اور بے نیاز ہیں- دوسرا قدم ہم یہ اٹھا سکتے ہیں کہ اپنے اپنے ملکوں کے چینی سفارت خانے اور کونسلیٹ میں فون کر کہ اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں- یہ کام ای میل کے ذریعے بھی کیا جا سکتا ہے- جو زبان آپ بولتے ہیں، سمجھتے ہیں اسی زبان میں یہ کام کیا جا سکتا ہے- اسکے علاوہ اپنے ممالک کی وزارت خارجہ اور امریکی سفارت خانے  کو بھی فون کر کہ یا ای میل کر کہ اس معاملے میں چینی حکومت پر دباؤ ڈالنے اور احتجاج ریکارڈ کروانے کا مطالبہ کر سکتے ہیں- ٢٠١٤ میں امریکی کانگریس میں چینی مسلمانوں پر رمضان کے روزوں پر پابندی کے خلاف ایک قرار داد منظور ہو چکی ہے- ہم امریکی سفارت خانے فون کر کہ اپنا احتجاج ریکارڈ کروا سکتے ہیں- یاد رکھیں سب سے بڑی ذمہ داری خود باخبر ہونا ہے اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کو ان مسلمانوں کی حالت زار سے  آگاہی دینا ہے- الله ہمیں ان بے بس مسلمانوں کے معاملے میں اپنا فرض ادا کرنے کی توفیق دے کہ جب اسکے سامنے حاضر ہوں اور سرکار صلیٰ الله علیہ وسلم سے ملاقات و تو شرمندہ نہ ہونا پڑے-



No comments:

Post a Comment