Tuesday, June 18, 2019

ہمارے دم سے ہی سارا جہان بدلے گا

ہمارے دم سے ہی سارا جہان بدلے گا 

تبدیلی کے اصل سفیر حکومتوں کی تبدیلی کے انتظار میں نہیں رہتے، اپنا کام کرتے رہتے ہیں-
 
تزئین حسن  

پچھلے دنوں فیس بک پر ایک وڈیو کلپ دیکھنے کا اتفاق ہوا  جس میں کسی پاکستانی ادارے کی جانب سے پاکستان کی با اثر ترین خواتین کی فہرست دی گئی تھی- ان دس خواتین کو کس بنیاد پر با اثر ترین خواتین کہا گیا تھا مجھے نہیں معلوم م9گر اس میں تین چار برانڈڈ لان کی انٹرپرائزز کی مالک تھیں- ایک کا تعلق کسی بہت مہنگے اسکول کی چین سے تھا- ایک واحد نام جس پر میں کسی حد تک متفق تھی انکا تعلق ایک نجی چینل سے تھا- اس سے قبل ایسی فہرستوں میں اداکارہ میرا کا نام بھی شامل ہوتا تھا-  میرے نزدیک لان کا کاروبار  کرنے   والیاں یا ایک مخصوص طبقے کی تعلیم سے وابستہ خواتین کسی بھی طرح با اثر نہیں ہو سکتیں جب تک وہ بڑے پیمانے پر معاشرے کے ہر طبقے کی سوچ میں تبدیلی نہ لا سکیں- لوگ انھیں بظاہر تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن انکے نظریات اور حلیے کے مطابق اپنی سوچ اپنے لباس اور معمولات میں تبدیلی نہ لے آئیں-  آئیے دیکھتے ہیں اس ملک میں تبدیلی کی اصل کنگ میکر خواتین کا تعلق کس گروپ سے ہے- 

یہ نوے کی دہائی کے آغاز کی بات ہے، کراچی یونیورسٹی کے سلور جوبلی گیٹ سے گزریں تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کسی فیشن شو میں آ گئے ہیں- نت نئے فیشن، خوبصورت رنگوں سے مزین پیراہن میں ملبوس نو عمر دو شیزا ئیں- گویا کسی میلے یا شادی میں شرکت کا اہتمام ہے- ایسے میں اگر بس اسٹاپ پر کوئی نقاب پوش طالبہ نظر آ جاتی تو اس سے صرف حلقہ اور اسکے کالج یونیورسٹی کا نام پوچھنے کی ضرورت ہوتی- ہمیں ایک سو ایک فیصد یقین ہوتا کہ یہ ہماری ہی ساتھی ہے اور کارکنان کے باہمی تعلقات کے موضوع پر خرم جاہ مراد کا پمفلٹ اس نے بھی پڑھ رکھ ہوگا- نتیجہ یہ ہوتا کہ حلقے کا نام معلوم کرنے کے بعد بے گانگی کے کسی شائبے کے بغیر جب تک بس نہ آ جاتی مختلف موضوعات پر اپنائیت سے تبادلۂ خیال ہوتا- 

ہو سکتا ہے جامعہ کراچی اور پنجاب کے بڑے میڈیکل کالجز میں صورتحال کچھ مختلف ہو، مگر بعض مقامات ایسے بھی تھے کہ پورے پورے کالج میں اکا دکا لڑکی نقاب یا اسکارف میں نظر آتی- اپنے حلیے اور نظریات کی وجہ سے ہم میں سے تقریباً ہر فرد اکیلا پن محسوس کرتا اور ایسے میں اپنا کوئی بھی ساتھی کہیں بھی نظر آجاتا اس کے لئے محبت کے سوتے پھوٹ پڑتے- یہ اکیلا پن صرف تعلیمی اداروں میں نہیں گلی محلے اور خاندان میں بھی تکلیف دیتا لیکن طاقت ور تحریکی لٹریچر، ساتھیوں کی صحبت، اور ذمہ داران کی محبت کے اثرات کچھ ایسے تھے کہ ہم اپنے نظریات کے لئے جان کی بازی لگا سکتے تھے اور ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے تیار تھے-

مجھے یاد ہے ایف ایس سی کے فرسٹ ایئر میں میری سندھی قوم پرست رہنما رسول بخش پلیجو کی بیٹی سے دوستی تھی- کالج گھر سے کوئی تین میل دور تھا لیکن میں اور سنیہ (نام تبدیل کر دیا گیا ہے) کبھی کبھی سیاسی اور نظریاتی بحثوں میں اتنا الجھے ہوتے کہ گھر تک پیدل آ جاتے- سنیہ کی امی میرے ابو کے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھاتی تھیں اور وہ لوگ کیمپس میں ہی رہتے تھے-  پلیجو سے انکی علیحدگی ہو چکی تھی- سنیہ قوم پرست ہونے کے ساتھ ساتھ پکی کمیونسٹ تھی- مجھے اس اعتراف میں کوئی باک نہیں کہ میرے پاس کمیونزم کے حق میں اس کے  دلائل کا کم ہی جواب ہوتا تھا اور اگر تھا تو شاید ابلاغ کا سلیقہ نہ تھا- 

میری والدہ اور پھپو دونوں کی وجہ سے گھر کے ماحول پر مذہبی رنگ غالب تھا لیکن فلسفہ پڑھانے والے میرے والد کا جھکاؤ بائیں بازو کی طرف تھا- ہمارے گھر میں اکثر ترقی پسندوں کے اجتماعات ہوتے- گھر میں مذہبی اور سیکولر دونوں طرح کا لٹریچر موجود تھا لیکن ہم پھر بھی ڈائجسٹ لٹریچر اور کرائم فکشن سے اپنی علمی پیاس بجھاتے -  

ایسے میں کالج کے سال اول کے بعد چھٹیوں کے دوران جان محمد عباسی کے گھر حیدرآباد شہر کی تربیت گاہ میں شرکت کا موقعہ ملا تو دل کی حالت بدلنی شروع ہو ہے- چھٹیوں کے بعد کالج پہنچے تو اتنی تبدیلی آ چکی تھی کہ وومنز گارڈ کی ٹریننگ کے دوران معترضین کو صاف بتا دیا کہ آپ ہمیں نکالنا چاہیں تو نکال دیں لیکن یہ چادر اب نہیں اترے گی- ویمن گارڈز کے اسٹاف کے ساتھ ایک ایمان افروز رسہ کشی پورے ایک سال چلی لیکن وہ طویل قصہ پھر کبھی سہی-  سنیہ کو بھی جلد اندازہ ہو گیا کہ اب ہم اسکے کسی کام کے نہیں رہے- مجھے یاد ہے اس دور کی ایک کالج کی کلاس فیلو دو تین سال بعد لطیف آباد کے علاقے میں ایک درس میں ملی تو اسکا کہنا تھا کہ ہم آپس میں باتیں کرتے تھے کہ تزئین کا یہ جوش چند روز کا ہے اسکے بعد یہ صحیح ہو جائے گی- 
  
اسٹیشن روڈ پر ریشم گلی کے سامنے بیگم جلیس کے گھر، عفت جمیل باجی کے دروس، عذرا جمیل (ناظمہ شہر) اور دیگر ذمہ داران سے باہم ملاقاتیں اور ساتھ ساتھ خطبات، پردہ، اور دیگر کتب نے تیزی سے ذہن سازی کا آغاز کیا لیکن مجھے یاد ہے زندگی کی سمت تبدیل کرنے کا اصل فیصلہ میں نے سید مودودی رح کی 'سود' پڑھ کر کیا جسکا مشورہ میرے مشکل سوالات کو دیکھتے ہوے مجھے عذرا باجی نے ہی دیا تھا- آج سوچتی ہوں کتنا صبر تھا ان میں میرے جارحانہ سوالات کو برداشت کرنے کا- سود کے پہلے ہی باب میں مختلف معاشی نظاموں کی خرابیوں پر بحث کر کہ اسلام کے معاشی نظام کے اصول واضح کیے گئے تھے جس نے میرے ذہن کے باقی شدہ ابہامات کو بخوبی دور کر دیا- پھر بھی پروفشنل کالج میں پردے کے خیال سے کچھ خوف محسوس ہوتا تھا تو ایسے میں دھان پان سی نبیلہ باجی نے رول ماڈل کا کام کیا جو اس دور میں مہران انجینرنگ یونیورسٹی میں بیچلر آف آرکیٹکچر کے فائنل ائیر کی طالبہ تھیں اور بہت اعتماد سے چہرے کا پردہ کرتی تھیں-
  
مارچ میں دریائے سندھ کے کنارے سکھر کے ایک اسکول میں صوبائی تربیت گاہ اٹینڈ کی تو مختلف موضوعات پر کچھ اور ایمان افروز پروگرام سننے کا موقعہ ملا، مزید ذمہ داران سے تفصیلی ملاقاتیں کیں تو آشفتہ سری کچھ اور بڑھ گئی- پتہ نہیں یہ دلیل کی طاقت تھی، ابلاغ کی سادگی، ساتھیوں کا خلوص یا مقصد پر یقین کہ اسکے بعد شہادت حق "تھی" اور ہم- اس مختصر سے دور میں جو کچھ سمیٹا آج تک زندگی کے سفر میں وہ زاد راہ ایک قیمتی سرمائے کی مانند کام آ رہا ہے-

جس سال میں نے داؤد انجینرنگ کالج جوائن کیا اسی سال کلاسز سے کوئی دو مہینے پیشتر اپریل میں بہت سوچ سمجھ کر پردہ شروع کیا- جون
لائی میں میری پھپو کی بیٹی کی شادی تھی- خاندان والے مجھے اور میری بڑی بہن کو پہلی ہی تقریب میں دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے- اس وقت تک وسیع و عریض خاندان کی واحد پردہ کرنے والی خاتون میری پینسٹھ سالہ پھپو (میمونہ وزیر علی) تھیں- ایسے میں کسی نوجوان پروفیشنل کالج کی طالبہ سے ایسے طرز عمل کے اظہار پر تعجب قدرتی امر تھا- ملا جلا رد عمل تھا مگر یہ وہ وقت تھا جب مہاجر قومیت اور ایم کو ایم کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا اور آپکا پردہ محض ایک مذہبی فریضے کی تکمیل نہ تھی بلکہ آپکے سیاسی نظریات کا اعلان تھا اور اسکی قیمت آپکو ایک تکلیف دہ سماجی تنہائی کی صورت چکانی پڑتی تھی- 

مجھے یاد ہے ہماری ایک قریبی عزیزہ کا تبصرہ تھا،" دیکھتے ہیں ان لڑکیوں کی شادیاں کیسے ہوتی ہیں" انکا یہ تبصرہ بے محل نہیں تھا-  پردہ کرنے والی بے شمار لڑکیوں کے ماں باپ کے سامنے یہ سوال منہہ کھولے کھڑا تھا کہ اس دور میں جب پڑھے لکھے گھرانوں میں پردے کا رواج تقریباً زیرو ہو گیا ہے، ہم اپنی اعلیٰ تعلیم یافتہ بچیوں کے لئے رشتے کہاں سے ڈھونڈیں گے- مگر یہاں بھی اس طاقت ور تحریکی لٹریچر کی نظریاتی اساس، تحریک کا نظام تربیت اور ذمہ داران کی بندھائی ہوئی ہمت تھی جو ہر طرح کے دنیوی نقصانات کو نظر انداز کر کہ الله کی راہ میں بڑھنے کا حوصلہ دیتی تھی-
     
ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کا ماحول آج سے بہت مختلف ہوتا تھا-مجھے یاد ہے ١٩٩١ میں، کراچی یونیورسٹی ہوسٹل میں تین ماہ گزارنے کا موقعہ ملا تو وہاں اٹک سے تعلق رکھنے والی، ملک کے ایک معروف تعلیمی ادارے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی ائے) کی ایک طالبہ نینا ہمارے قریبی حلقے میں تھی- نینا بتاتی تھی کہ ایک دفعہ اس نے آئ بی اے میں پریزنٹیشن دی تو ٹیچر کا کہنا تھا کہ آئندہ آپ پریزنٹیشن کے لئے آئیں تو لپ اسٹک لگی ہوئی ہونی چاہیے- ایک دفعہ وہ آئی بی اے کے کسی ڈنر میں ہماری ایک صومالی ہوسٹل میٹ توددہ کو ساتھ لے گئی- توددہ سیاہ رنگت کے ساتھ دلکش نقوش رکھنے والی لڑکی تھی جو میری معلومات کے مطابق سر نہیں ڈھکتی تھی- تقریب میں کسی لڑکے نے اس دور میں آئی بی اے کے ماحول اور رواج کے مطابق اخلاقاً  توددہ سے ہاتھ ملانے کی کوشش کی تو اس کے انکار پر کچھ مضحکہ خیز سی صورت حال ہو گئی- مجھے یاد ہے رات گئےہوسٹل کی سیڑھیوں پر مدھم پیلی روشنی میں یہ واقعہ سناتے ہوے نینا ہنستے ہنستے بے حال ہو گئی تھی- اسکا کہنا تھا کہ تزئین میں سوچتی ہوں اگر توددہ کے بجائے تمہیں لے جاتی تو کیا ہوتا- اشارہ میرے سخت پردے اور مخالف صنف سے اس سے زیادہ سخت طرز عمل کی طرف تھا- ایسے میں چہرے کے پردے کے ساتھ انجینرنگ کی تعلیم کے باوجود کارپوریٹ ورلڈ کا حصہ بننا بھی نا ممکن نہیں تو ایک مشکل امر ضرور تھا- 

میرا فائنل ایئر شروع ہوا تو پوری دنیا میں کمپیوٹر اور کمیو نیکیشن ٹیکنولوجیزکا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا- مائکرو سوفٹ کے بانی بل گیٹس کا نام انجینرنگ اور ٹیکنولوجی کے اداروں میں سلیبریٹیز کی طرح لیا جاتا تھا- فائنل پروجیکٹ شروع ہوا تو ہمارے ایڈوائزر سیف الدین ہیرانی جو کراچی میں ہی نہیں پورے ملک میں مائکرو پراسیسر کے ماہر سمجھے جاتے تھے، کسی وجہ سے داؤد کالج چھوڑ کر یونیورسٹی روڈ پر واقع سوئس حکومت اور پی سی ایس آئی آر کے قائم کردہ ایک ادارہ IIEE میں پڑھانے لگے تھے- انہوں نے پروجیکٹ کی تکمیل کے دوران مجھے IIEE جوائن کرنے کی دعوت دی تو مجھے بہت عجیب محسوس ہوا کہ شاید سیف صاحب نے میرے سخت پردے پر غور نہیں کیا- کوئی غیر ملکی اور خصوصاً مغرب سے تعلق رکھنے والا مجھے کیسے ملازمت دے سکتا ہے- لیکن پھر میں نے قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا- مجھے یاد ہے اس ادارے کے پیرانہ سال سوئس سربراہ فرٹز گیزر (جو بعد ازاں ١٩٩٤ میں کراچی ہی میں ٹارگٹ کلنگ کے ایک حادثے میں مارے گئے) نے ایک گھنٹے کے زبانی انٹرویو کے دوران مجھ سے پوچھ پوچھ کر پورے سرکٹ بورڈ کا نقشہ ڈیوائسز سمیت کاغذ پر منتقل کر لیا- ایسا محسوس ہوتا تھا کہ انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایک چہرے کا پردہ کرنا والی لڑکی یہ کام کر سکتی ہے- انکا پوچھنا تھا کہ پروجیکٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے آپ 'I' (میں) کے بجائے 'we' کا لفظ کیوں استعمال کر رہی ہیں؟ میرا بے ساختہ جواب تھا، 
'.I and my six group fellows'
"میں اور میری چھ گروپ فیلوز-" 
انکے لہجے سے مزید حیرت ٹپکنے لگی،  
?All of them were girls
(کیا وہ  سب لڑکیاں تھیں؟)
میرے اقرار پر انکا فوری رد عمل تھا
In Pakistan it is not possible!
(پاکستان میں ایسا ممکن نہیں)
میرا بر جستہ جواب تھا،
We made it possible!
(ہم نے اسے ممکن بنا دیا )
بعد میں سیف صاحب کو معلوم ہوا کہ مجھے فائنل ایئر کی کمیونیکیشن انجینرنگ کلاس پڑھانے کو دی جا رہی ہے جو ساری لڑکوں پر مشتمل ہے تو وہ میری درخواست پر فرٹز گیزرسے الجھ پڑے کہ اس کا تو ابھی فائنل ایئرکا رزلٹ بھی نہیں آیا، یہ فائنل ایئر کے لڑکوں کو کیسے فیس کرے گی- لبرل سوچ کے مالک سیف الدین ہیرانی کے بقول، سوئس ایگزیکٹو کا جواب تھا، 


.She can do everything. She is very confident.
'وہ بہت با اعتماد ہے- وہ سب کچھ کر سکتی ہے-'     

مجھے اعتراف ہے کہ والدین کی تربیت کے بعد اس اعتماد میں پردے کا بہت ہاتھ تھا جسکا سبب صرف اور صرف تحریک اور اسکا لٹریچر تھا- 
اپنی پہلی ملازمت میں انجینرنگ کے فائنل سمسٹر کے طلبہ کو پڑھانا میرے لئے بہت فخر کا با عث تھا مگر اسکے شرعی پہلو کے حوالے سے میں الجھن کا شکار تھی- محترم خرم جاہ مراد اس دور میں منصورہ میںجمعیت طالبات کی قرانی کلاس لے چکے تھے جو میری بڑی ہمشیرہ نے بھی اٹینڈ کی تھی- ان سے رجوع کیا تو انکا کہنا تھا : "اسلامی تاریخ میں ہمیں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ خواتین محدثین نے مسجد میں بیٹھ کر مردوں کو تعلیم دی ہے- میں کوئی مفتی تو نہیں لیکن میری رائے میں اگر فتنہ کا خطرہ نہیں تو اس میں کوئی خرابی نہیں-"  

انٹرویو کے بعد حیدرآباد پہنچنے پر مجھے میری دوست اور گروپ لیڈرثمینہ کا خط موصول ہوا-اس نے لکھا تھا کہ فرٹز گیزر نے مجھے اور سلمیٰ (ہماری ایک اور قریبی دوست اور گروپ فیلو) کو صرف یہ جان کر بغیر انٹرویو اپائنٹ کیا کہ ہم تمہارے گروپ سے ہیں - مجھے یاد ہے سوئییزرلینڈ سے کوئی وفد آتا تو فرٹز گیزر ہم خواتین ٹیچرز کو بہت فخر سے اس سے ملواتے-         
٢٠٠٥میں میں نے آئی بی اے جوائن کیا تو وہاں اسٹاف میں تو خیر طالبات میں بھی شاید صرف ایک لڑکی میری طرح نقاب لیتی تھی- اس کے بارے میں کسی نے بتایا کہ اسکے دو بھائی گونتا ناموبے میں مقیم ہیں- لیکن طالبات کی ایک معقول تعداد اسکارف کا اہتمام کرتی- میری طالبات میں ایسی بھی تھیں جو آئی بی اے کے اس وقت کے ڈریس کوڈ کو نظرانداز کر کہ سلیو لیس اور مختصر ترین کیپری میں نظر آتیں مگر انکی تعداد کم تھی- یہ پرویز مشرف کا دور تھا اور میڈیا نیا نیا آزاد ہوا تھا- پاکستانی معاشرہ نائن الیون کے بعد دو حصوں میں تقسیم ہوتا جا رہا تھا- روش خیالی اور بنیاد پرستی، دونوں سمت سے رسہ کشی جاری تھی اور میری ذاتی رائے میں امریکی اقدامات کے نتیجے میں مؤخر الذکر کا پلڑا بھاری تھا- 
یہ وہ وقت تھا جب کثیر تعداد میں کراچی سمیت ملک کے ہر شہر میں دینی تنظیموں نے سر اٹھا لیا تھا- افغانستان اور بعد ازاں عراق پر امریکی حملوں، باجوڑ کے مدرسے میں ڈرون حملے میں کثیر تعداد میں بچوں کی شہادتوں، قبائلی علاقوں میں تواتر کے ساتھ امریکی ڈرون حملوں  کے نتیجے میں انتہا پسندی اور دہشت گردی ملک عزیز پر اپنے پنجے گاڑ چکی تھی- گو پردے کا انتہا پسندی سے کوئی تعلق نہیں مگر لال مسجد کا سانحہ ہوا تو پردے اور انتہا پسندی کے درمیان بھی تعلق جوڑنے کی ناکام کوشش کیجانے لگی- 

لیکن اس سے بہت قبل ہی معاشرے میں پردہ کی قبولیت عام ہو گئی تھی- اسے اپنانا اتنا آسان ہو گیا تھا کہ بہت سی ایسی لڑکیاں بھی جن کا  تحریک اسلامی چھوڑ کسی بھی تنظیم سے تعلق نہ ہوتا وہ بھی اپنے ذاتی انتخاب اور مرضی کی بنیاد پر اسے اپنانے لگیں- انہیں یہ خوف دامن گیر نہ ہوتا کہ انھیں اپنے تعلیمی اداروں یا خاندانوں میں کسی تنہائی یا کسی دنیوی نقصان کا سامنا کرنا پڑے- جاب انٹرویوز میں پردے سے متعلق کسی سوال کا سامنا کرنا پڑے گا یا بغیر بتاۓ اسکارف یا پردے کی بنیاد پر مسترد کر دیا جائے گا- 

٢٠١٢ میں مشرق وسطیٰ میں پانچ سال گزارنے کے بعد میں نے دوسری مرتبہ آئی بی اے جوائن کیا تو ان سات سالوں میں تبدیلی کہاں سے کہاں پہنچ گئی تھی-آئ بی اے سٹی کیمپس کی نئی تعمیر شدہ بلڈنگ میں مردوں کی مسجد سے متصل خواتین کی نماز کے لئے مخصوص وسیع ہال میں جانے کا اتفاق ہوتا تو نماز کے اوقات میں مسجد کھچا کھچ طالبات سے بھری ہوئی ملتی- یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اب اسکارف اور نقاب والی طالبات کو گننا اتنا آسان نہیں رہا تھا- 

کوئی ٢٠١٤ کی بات ہے ایک پاکستانی ٹی وی سیریل دیکھنے کا اتفاق ہوا، جس میں اسکارف کے موضوع کو مرکزی خیال بنایا گیا تھا- کہانی کچھ یوں تھی کہ ایک لڑکی کا کزن بچپن کی دوستی کے باوجود اس سے شادی کرنے سے صرف اس لئے انکار کر دیتا ہے کہ وہ اسکارف پہنتی ہے- لڑکا برطانیہ میں تعلیم کے دوران کسی پاکستانی نژاد فیملی کی لڑکی سے شادی کر لیتا ہے- لیکن بعد ازاں اپنے والدین کی انڈرسٹنڈنگ اپنی بیوی سے نہ ہونے پر اور کچھ دوسرے حوالوں سے اپنے فیصلے پر پچھتاتا ہے اور اسکارف والی ہیروئن اسکی عزت افزائی کرتی ہے- یعنی اب حجاب سے متعلق موضوعات شو بز اور اسکرین کی زینت بھی بننے لگے ہیں گو کہیں کہیں منفی انداز میں مگر مثبت نمائندگی بھی بہر حال موجود ہے- 


کچھ عرصہ قبل آئی بی اے کے میتھمیٹکس ڈیپارٹمنٹ کے ڈین ڈاکٹر شاہد قریشی نے (جن کے ساتھ مجھے آئی بی اے میں براہ راست کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے) کراچی یونیورسٹی کی  میتھمیٹکس فیکلٹی کی کسی تقریب کی تصویریں فیس بک پر شئیر کیں تو گروپ فوٹوز میں چار پانچ لیکچرر یا پروفیسر خواتین نقاب اور کچھ اسکارف میں نظر آئیں- 

یہ تبدیلی کہاں سے چلی تھی اور کہاں پہنچ گئی ہے- مگربہت کم لوگوں کو اسکا ادراک ہو گا کہ اس تبدیلی کا اصل آغاز کئی دہایوں پیشتر دراصل ان باہمت روحوں نے کیا جن میں دریا کے پانی کے مخالف سمت جانے کا حوصلہ تھا- 

ع بن ہلکی موج مگر ایسی، جس موج پہ دریا ناز کرے  
حجاب معاشرے میں خاموشی کے ساتھ سرایت کر گیا ہے کہ  آج ملک میں تو خیر بیرون ملک اور خصوصاً مغربی ملکوں میں اسکارف پاکستانی اور مسلم امیگرنٹس کا شعار ہو گیا ہے-  میں جب کینیڈین راکیز کے پہاڑوں میں اسکارف اور نقاب والی خواتین کو ٹریکنگ کرتے دیکھتی ہوں تو میرا دل فخر سے تن جاتا ہے- مغرب کے ڈیپارٹمنٹل اسٹورز کی چینز میں آج ایک پروڈکٹ حجاب بھی نظر آتی ہے جسے صرف مسلم خواتین ہی نہیں، خود مغربی خواتین بھی بڑے پیمانے پر (چاہے سینہ ڈھکنے کے لئے ہی سہی ) اختیار کر رہی ہیں-  مغربی تہذیبی برتری کے دعوے دار آج ان تبدیلیوں سے لرز رہے ہیں- آج نائیکے NIKE اورمارکس اینڈ سپنسر جیسے مغرب ٹریڈ مارکس حجابی پروڈکٹس کو اپنی پروڈکٹ لائن کا حصہ بنا رہے ہیں تو میں کیوں اسکا کریڈٹ ان بچیوں کو نہ دوں جنہوں نے اسلام کے اولین دور کی خواتین کی سنت کو اس وقت زندہ کیا جب مغربی کلچر اور تعلیم کے اثر سے سر یا چہرہ ڈھانکنا دقیانوسیت کا استعارہ اور متبادل ہو گیا تھا-

آج یہ سب کچھ جو بہت عرصے سے میرے قلم سے نکلنے کے لئے بے تاب تھا (کم از کم دس سال سے) اس لئے یاد آیا کہ پچھلے تیس سال میں پاکستانی معاشرے میں اس پہلو سے ہماری اقدار میں جو تبدیلی آئی ہے، اس میں ان بچیوں کا بہت کردار ہے، جنہوں نے پہلی دفعہ ایسے وقت میں اپنی یونیورسٹیز، پروفیشنل کالجوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں کسی دنیوی نقصان، سماجی تنہائی کے خوف کو نظر انداز کر کہ صرف اور صرف الله کی رضا کو اپنا مطمح نظر بنایا- جنہوں نے تپتی دو پہروں میں ٹھنڈے کمروں کے سکون پر دروس کی دعوت کے لئے لوگوں کے دروازے کھٹکھٹانے کو ترجیح دی- جنہوں نے تقریبات میں پردے کی بو بو ہونے کے طعنے برداشت کیے- جن کے نزدیک انکے نظریات انکے دنیوی مستقبل سے زیادہ اہم تھے، جنکی زندگی میں  اگر کسی چیز کی اہمیت تھی تو وہ شہادت حق تھی اور بہت سوں کی زندگی میں آج بھی ہے- آج اگر اسکارف حلقہ وار دروس سے نکل کر ٹی وی اسکرین پر آ گیا ہے، ائرپورٹس، شاپنگ مالز، ملکی اور غیر ملکی اداروں کے سیمینارز سے ہوتا ہوا وزیر اعظم ہاؤس تک پہنچ گیا ہے تو یہ تبدیلی کسی طالبان حکومت کی جبری نافذ کی ہوئی نہیں ہے، یہ ذہنوں کی تبدیلی ہے جو ہمارا اصل کام ہے- چاہے حکومت میں کوئی بھی ہو- تبدیلی کے اصل سفیر حکومتوں کی تبدیلی کے انتظار میں نہیں رہتے، اپنا کام کرتے رہتے ہیں- پاکستان کی اصل با اثر خواتین یہی ہیں- 

ہمارے دم سے ہی سارا جہان بدلے گا 
کہ حرف حق ہی زمین و زمان بدلے گا 
(شاعر:حارث خلیق)

نوٹ: یہ بات یاد رہے کہ حجاب اور نقاب کا تعلق مذہبی انتہا پسندی سے جوڑنے کی کوشش ہمیشہ کی جاتی رہی ہے جو میرے نزدیک صحیح نہیں- انتہا پسندی ایک بالکل مختلف رویے کا نام ہے جس سے ہمیں بچنے کی کوشش کرنی چاہیے- اس پر انشاللہ آئندہ ایک تفصیلی مضمون تحریر کروں گی-  

No comments:

Post a Comment