Friday, October 26, 2018

الله شاید ہمارے ساتھ آسان معاملہ کرے

الله شاید ہمارے ساتھ آسان معاملہ  کرے

تزئین حسن 

کل رات دیر تک سنکیانگ یعنی مشرقی ترکستان کے ایغور مسلمانوں کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی 1999کی 94 صفحات پر مشتمل رپورٹ پڑھتی رہی- ظلم کی ایسی روح فرسا داستانیں ہیں کہ میرے جیسے عملیت پسند نسبتاً غیر جذباتی صحافی کا قلم انہیں بیان کرنے سے قاصر ہے- یاد رہے یہ آج کی لکھی ہوئی رپورٹ نہیں آج سے ١٩ سال پہلے مرتب کی گئی ہے اور ١٩٩٠ کی دہائی کی گرفتاریوں، مختصر یا بغیر مقدمہ سزاؤں، قید کے دوران تشدد، اور گرفتاریوں کا پس منظر انفرادی طور پر بیان کیا ہے- اسکے ساتھ ساتھ ان وجوہات اور چینی حکومت کی ان ظالمانہ پالیسیوں کا  تفصیل سے جائزہ لیا ہے جو وہاں پچھلے ستر سال سے شدید بیچینی کا سبب بن رہی ہیں- مذہبی پابندیوں کے علاوہ معاشی طور پر بھی سنکیانگ کے ترک نسل کے باشندوں پر ایسی پابندیاں ہیں جو ترکستان میں رہنے والی چینی نسل کی قوموں پر نہیں جسکی وجہ سے اوغیر چین کی  پسماندہ ترین قوم بن کر رہ گئی ہے- جہاں تک چین کے اس الزام کا تعلق ہے اور جسے مغربی پریس بھی دہراتا رہا ہے کہ سنکیانگ کے مسلمان باشندے دہشت گردی میں ملوث ہیں تو ایمنسٹی کی اس تفصیلی رپورٹ سے اور جو کتابیں اور ریسرچ پیپرز اس وقت میرے زیر مطالعہ ہیں، انکے مطابق علیحدگی کے جذبات ترکستان کے مسلم باشندوں میں شروع سے موجود رہے ہیں- بلکہ موجودہ کمیونسٹ حکومت کے قبضے سے بہت پہلےسے جب چنگ سلطنت نے اٹھارویں صدی میں اس علاقے پر قبضہ کیا- غیر جانبدار مصنفین اس بات پر متفق ہیں کہ چین کی ظالمانہ نو آبادیاتی یعنی کولونیل پالیسیوں اور خصوصا ً مذہبی پابندیوں کے با عث وقت گزرنے کے ساتھ یہ جذبات مسلسل بڑھتے ہی رہے ہیں- لیکن اسکے باوجود محقیقین کا کہنا ہے کہ چین کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں جہاں خود چینی نسل کے لوگوں نے احتجاج کے دوران تشدد کا راستہ اختیار کیا، چین کا رویہ سنکیانگ کے مسلمانوں کے ساتھ بہت سخت ہوتا ہے- دوسرے علاقوں میں مظاہرین کی پر تشدد کا روائیوں کو بھی نظر انداز کیا جاتا ہے جبکہ متعدد مواقع پر سنکیانگ میں پر امن احتجاج کو بھی پولیس تشدد کر کہ مظاہرین کو بھی جوابی کاروائی پر مجبور کر دیتی ہے- اور اسکی وجہ یہ ہے کہ صوبے میں بڑی تعداد میں تیل اور گیس کے ذخائر اور یورپ اور ایشیا کے سنگم پراسکی اسٹرٹیجک جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے یہ صوبہ چین کے لئے بہت اہم ہے اور چین مسلسل مسلم اکثریت جو اب اقلیت میں بدلنے والی ہے، خوف زدہ  ہے- 
محققین نے اس بات پر بھی بحث کی ہے کہ چینی حکومت تاریخ کو بھی تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور سرکاری سرپرستی میں جو تاریخ مرتب کی جا رہی ہے اسکے مطابق یہ صوبہ قبل مسیح سے چین کی ملکیت رہا ہے- کیمبرج اور دوسرے مغربی اشاعتی اداروں پر چین کا سنسرشپ دباؤ کی خبریں اب سامنے آ چکی ہیں- کیمبرج نے چین کے دباؤ کو قبول بھی کر لیا ہے اور چین کے بارے میں ٣٠٠ آرٹیکلز کو اپنے تحقیقی مجلہ سے نکال دیا گیا ہے یا چین کے قاریوں کے لئے بلاک کر دیا ہے جس پر اسے سب و شتم کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے- چین کا یہ خوف کہ جو کچھ وہ یہاں کے مسلمانوں کے ساتھ کر رہا ہے وہ دنیا کو معلوم نہ ہو حکومت کو سنسر شپ کے حوالے سے عجیب و غریب اقدامات کرنے پر مجبور کر تا رہا ہے مثلاً بیروں ملک حکومتوں پر دباؤ کے وہ ایغور اور ترک نسل کے باشندوں کو واپس بھیجیں. ان میں تھائی لینڈ، مصر، کمبوڈیا اور عرب امارات کے بارے میں خبریں ہیں کہ انہوں نے ایغور مسلمانوں کو گرفتار کیا ہے اور کہیں کہیں چین کو واپس بھی کیا گیا ہے- ایغور مسلمانوں سے پاسپورٹ واپس لے لئے گئے ہیں- آپکے موبائل فون پر کوئی بیرونی کونٹیکٹ ہونا آپکو قید کرنے کے لئے کافی ہے- ایغور مسلمان چین سے فرار نہیں ہو سکتے- 

٢٠١٤ میں کنمنگ نامی شہر میں جو چاقو سے حملہ ہوا اور جسے دہشت گردی کی بڑی واردات بلکہ چینی نائن الیون کا نام دیا گیا اسکے بارے میں نک ہولڈ اسٹاک نامی مصنف، جس نے انگلش ٹیچر کی حیثیت سے تین سال چین اور ایک سال کاشغر میں  قیام کیا، کا کہنا ہے کہ مارے گئے اور گرفتار دہشت گرد کہلانے والے سارے لوگ وہ تھے جو ایک گروپ کی صورت میں تھائی لینڈ کے راستے چین سے فرار ہونا چاہتے تھے- ان میں سے کچھ لوگ پکڑے گئے تھے- اور یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے گرفتاری پر موت کو ترجیح دی اور مرنے سے پہلے چند لوگوں کو مار کر دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کی- نہ تو انکے پاس چاقو کے علاوہ کوئی دوسرا ہتھیار تھا اور نہ ہی انکا تعلق دہشت گردی کے کسی منظم نیٹورک سے تھا- گرفتاری کے بعد قید خانے میں جو کچھ ہوتا ہے اس سے بچنے کے لئے بہت سے لوگ خود کشی کی کوشش کرتے رہے ہیں- اسکا علاج چینی انتظامیہ نے یہ کیا ہے کہ تفتیش اور تشدد کے دوران انہیں ایک سخت دھاتی ہیلمٹ پہنایا جاتا ہے کہ وہ اپنا سر دیوار سے مار کر خود کو ختم نہ کر لیں- ایمنسٹی کے مطابق تشدد کے یہ طریقے جن کو میں بیان کرنے سے قاصر ہوں، تاریخ میں اور خود چین کے کسی دوسرے علاقے میں انکے استعمال کی کوئی مثال نہیں ملتی- 


١٩٩٧ کے رمضان میں جو کچھ ایک امام کی بلا جواز گرفتاری اور پر امن احتجاج پر بھا ری پولیس کی نفری کا تشدد کا ذکر پڑھ کر یاد کرنے کی کوشش کی کہ  میں اس وقت کیا کر رہی تھی؟ پاکستانی پریس کا کیا کردار تھا؟ اس وقت تو سی پیک کا بھی کوئی ذکر نہیں تھا کہ چین سے تعلقات خراب ہونے کا خطرہ ہوتا- اس احتجاج کے مظاہرین کو مرد، عورت اور بچوں کی تمیز کے بغیر فروری کی سخت سردی میں برفیلے پانی کے تالاب میں کھڑے ہونے پر مجبور کیا گیا- اسکے بعد ننگے پاؤں برف پر دوڑنے کا حکم دیا گیا- دو گھنٹے کے بعد ان میں سے کچھ لوگوں کو ہسپتال لے جایا گیا اور فراسٹ بائٹ کے نتیجے میں ضائع ہونے والے اعضاء کو کٹوانے کے بعد گھر جانے کی اجازت دے دی گئی- باقی کو گرفتار کر لیا گیا- گرفتار افراد میں سے بڑی تعداد کو بغیر مقدمہ اور دفاع کے حق کے سزائے موت دی گئیں- کچھ کی سزاؤں کے پبلک ریلی میں اعلان کے فوراً ریلی سے ہی انہیں پھانسی گھاٹ لے جایا گیا- اپیل کا قانون موجود ہے لیکن سزائے موت کے پلٹ جانے کی کوئی روایت نہیں ملتی- لیکن جس نوعیت کا تشدد جیل میں ہو رہا ہے، تو یہ سزائے موت  پانے والے خوش قسمت محسوس ہوتے ہیں-       

دنیا اس وقت سعودی عرب کے ایک صحافی کے ساتھ شقی القلبی پر حیران ہے لیکن چین میں لاکھوں افراد کے ساتھ کم از کم بیس سال سے جو کچھ کیا جا رہا ہے، اس پر خاموشی نہیں تو احتجاج بھی نہ ہونے کے برابر ہے- عالمی میڈیا کی اس غیر متوازن کوریج معیارات کی وجوہات نا قابل فہم ہیں- لیکن عالمی میڈیا کو کیا کہا جائے شرمندگی تو اپنے وجود پر بھی ہوتی ہے کہ چین کا پڑوسی ہوتے ہوئے ہم بے خبر رہے- 

اور اب جو صورتحال ہے اس میں تو کوئی احتجاج کا سوچ بھی نہیں سکتا لیکن ٨٠ اور ٩٠ کی دہائی میں بھی ٩٩ فیصد احتجاج چین کی معاشی پالیسیوں اور بلا جواز بغیر الزام گرفتاریوں کے خلاف ہوتے تھے اور مظاہرین کے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہوتا- واحد ہتھیار جو دہشت گرد کہلانے والے استعمال کر سکتے ہیں وہ چاقو ہے- اس سے بہت زیادہ پر تشدد کاروایاں تبت میں ہوئیں ہیں لیکن عالمی دباؤ کی وجہ سے چین کا اب انکے ساتھ بہت بہتر رویہ ہے-  

کولوریڈو یونیورسٹی کی ازابیلا اسٹائن ہاور نامی ایک محقق کا کہنا ہے کہ تبت کے مقابلے میں سنکیانگ کے مسلمانوں کو عالمی سماجی سپورٹ نہ ہونے کے برابر ملی ہے اور اسکی وجہ یہ ہے کہ تبت کے مقابلے میں عالمی میڈیا میں سنکیانگ کی کوریج بہت کم ہے اور پھر نائن الیون کے بعد چین نے سنکیانگ میں بغیر وسائل غیر منظم علیحدگی کی تحریک کو اسلامی انتہا پسندوں اور القاعدہ سے جوڑا- جس پر امریکا نے بھی مشرقی ترکستان اسلامی تحریک کو دہشت گرد تنظیم مان لیا- جب کہ تمام غیر جانبدار محقیقین اور مصنفین اس بات پر متفق ہیں کہ کسی قسم کی کوئی ملیشیا موجود نہیں جیسی کہ ہمیں کشمیر میں نظر آتی ہیں- تشدد کی کاروائیاں مظاہرین اور پر امن احتجاج پر پولیس کے رد عمل پر  جوابی رد عمل کا نتیجہ ہوتی تھیں- یہی بات ایمنسٹی نے بھی ثبوتوں کے ساتھ مذکور کی ہے اور  چینی اقلیتوں  اور ترکستان پر تحقیق کرنے والے مصنفین جیمز ملورڈ، نک ہولڈ سٹاک ، بوونگدوں گارڈنر نے اپنی کتابوں اور مختلف تھنک ٹینکس کی رپورٹس میں مذکور کی ہیں-   

مجھے کچھ معاملات میں  انسانی حقوق کی تنظیموں سے شکایات ہیں لیکن اس رپورٹ پر ایمنسٹی کو دعائیں دینے کا دل چاہ رہا ہے-  لیکن ان غیر منظم مظاہرین کے ساتھ یہاں تک کے کم عمر بچوں کے ساتھ بھی جیل میں جو کچھ ہوا وہ بیان کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہی- رپورٹ کا لنک دے رہی ہوں- اگر کوئی لکھنے والا اسکے کچھ حصوں کو اردو قاری کے لئے ضبط تحریر کرنے میں تعاون کر سکے تو الله شاید ہماری دنیا اور آخرت میں ہم سے بھی آسان معاملہ کرے-    
 https://www.amnesty.org/download/Documents/144000/asa170181999en.pdf

2 comments:

  1. Allah tumhain tumharay gumaan s berh ker afiyat aur salamti de. Ameen

    ReplyDelete
  2. بچپن سے چین کا مثبت تصور ہمیں دیا گیا..."پاک چین دوستی زندہ باد" کے نعروں کے علاوہ بھی کچھ حقائق ہیں جن سے پاکستان جیسی مسلم ریاست کو نابلد نہیں ہونا چاہیے..میں نے تو سنا ہے کہ چین وہاں کے مقیم مسلمانوں کی صحیح تعداد بھی سامنے نہیں آنے دیتا...

    ReplyDelete