Friday, October 19, 2018

اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں - حصہ پنجم


اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں - حصہ پنجم
تزئین حسن
ماونگ زارنی بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے محقق ہیں اورفی الوقت لندن اسکول اکنامکس میں پڑھاتے ہیں. انکا تعلق برما کے ایک بدھسٹ خاندان سے ہے جو برما کی ملٹری جنتا سے وابستہ ہے. وہ برما کے منڈالے نامی علاقے میں پیدا ہوے اور اسکول سے یونیورسٹی تک برما میں ہی تعلیم حاصل کی لیکن تعلیم کے لئے امریکا منتقل ہونے سے قبل وہ کبھی کسی روہنگیا سے نہیں ملے یہاں تک کے انھوں نے کبھی روہنگیا نامی قوم کا نام تک نہ سنا اور نہ ارکان کہ سفر کیا. پچیس سال کی عمر میں ١٩٨٨ میں انھیں ماسٹرز کے لئے کیلیفورنیا بھیج دیا گیا جہاں ٢٠١٠ میں انھیں اپنی ایک کولیگ ایلس کولے کے ذریعے برما کی روہنگیا کمیونٹی کے بارے میں معلوم ہوا اور وہ باقائدہ تحقیق اور ثبوت حاصل کرنے کے بعد یہ ماننے پر آمادہ ہوے کہ روہنگیا نامی قوم انکے اپنے دیس میں کسی قسم کے انسانی حقوق کے بغیر کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے. انکا کہنا ہے کہ انکا تعلق برما کے خوشحال، مراعات یافتہ اور تعلیم یافتہ طبقے سے تھا اسکے باوجود وہ شمالی ارکان میں رہنے والی روہنگیا کمیونٹی کے وجود سے بےخبر رہے. اسکی ایک وجہ ارکان نامی صوبے کا جغرافیہ ہے جو برما کے دوسرے علاقوں سے ایک دشوار گزار پہاڑی سلسلے کے ذریعے کٹا ہوا ہے. انکا کہنا ہے کہ دوسری وجہ یہ ہے کہ تقریباً پچھلے ساٹھ کی دھائی سے برمی ملٹری جنتا نے اس علاقے میں صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے داخلے پر پابندی لگائے رکھی. انکے مطابق اسکی تیسری وجہ یہ ہے کہ برما کی حکومت دو ملین سے زائد روہنگیا مسلمانوں کو برمی نسل تسلیم نہیں کرتی، انہیں حقارت سے بنگالی کہا جاتا ہے اور انہیں ایک وائرس یعنی پھیلنے والی بیماری سمجھا جاتا ہے. اس کے برعکس برمی آئین کے مطابق ١٣٥ نسلوں کو ethnic minority کا درجہ دیکر قانونی تحفظ دیا گیا ہے جبکہ ڈاکٹر زارنی کا کہنا ہے کہ ان میں سے بہت سی نسلیں محض گاؤں اور دریاؤں کے نام ہیں.



مستند حوالوں کے باوجود، برمی حکومت ڈھٹائی کے ساتھ برما میں مسلمانوں کے تاریخی وجود سے انکاری ہے اور ملکی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی لابیوں کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے کہ بنگالی مسلمان برما میں انگریزی راج کے زمانے میں آئے اور یہ غیر قانونی معاشی مہاجرین ہے جنکا برما کی سرزمین سے کوئی تعلق نہیں. ڈاکٹر زارنی کا کہنا ہے کہ یہ برمی حکومت کی روہنگیا قوم کے خلاف کامیاب مہم ہے کے برما میں کوئی روہنگیا کے بارے میں نہیں جانتا.




برما کے روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ آج کیا ہو رہا ہے؟ ٢٥ اگست ٢٠١٧ سے لیکر ان سطور کے قلمبند ہونے تک (تیرا ستمبر) تین لاکھ ستر ہزار سے زائد روہنگیا برمی بنگلہ دیش بارڈر کے ذریعے پڑوسی ملک میں پناہ لینے پر مجبور ہیں. سوال یہ ہے کہ اپنے اٹھارہ سے بیس دن کے قلیل عرصے میں اتنی بڑی تعداد کو کس چیز نے مجبور کیا کے وہ اپنے گھروں کھیتوں اور زمینوں کو جہاں انکے آباؤ اجداد ایک صدی سے زائد عرصے سے آباد تھے کو چھوڑ کر پڑوسی ملک کا رخ کریں؟



ڈاکٹر زارنی ضمیر کے قیدی ہیں اور ان لوگوں میں سے ہیں جو سچ کے آگے اپنے ہموطنوں، ہم مذہبوں اور یہں تک کے اپنے خاندان کے بزرگوں پر کڑی تنقید سے باز نہیں رہتے. روہنگیا قوم کے وجود سے آگاہی کے بعد وہ چین سے نہیں بیٹھے. انہوں نے اپنی کولیگ ایلس کولے کے ساتھ ملکر تین سال کی تحقیق کے بعد Slow Burning Genocide Of Rohingya کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھا جو ٢٠١٤ میں شائع ہوا. مقالے میں برمی ملٹری کے افسران، انسانی حقوق کی تنظیمیں جو برما میں کام کر چکی ہیں، اور خود روہنگیا عوام کے انٹرویوز شامل ہیں.



مقالے میں واقعاتی شہادتوں کے ساتھ ثابت کیا گیا کہ برمی حکومت ارکان کے صوبے میں صدیوں سے بسنے والے روہنگیا کے ساتھ پچھلے ٤٠ سال سے جو اقدامات کر رہی ہے وہ اقوام متحدہ کی Genocide کے چارٹر (١٩٤٨ Rome Convention ) کی نسل کشی تعریف پر پوری اترتی ہے. انکا کہنا ہے ارکان میں میں فرقہ وارانہ فسادات نہیں جیسا کے برمی حکومت تشدد کی ہے لہر کے بعد دعوه کرتی ہے بلکہ حکومت کی سرپرستی میں فوج کی پوری طاقت اور انفرا اسٹرکچر کو استمال کر کے EthnicCleansing ہو رہی ہے یعنی ایک نسلی گروہ کا صفایا کیا جا رہا ہے اور دراصل روہنگیا مسلمانوں کا ہولوکوسٹ ہو رہا ہے. انکا یہ بھی کہنا ہے کہ جس طرح روہنگیا کو برما کی شہریت اور سرکاری سہولتوں سے محروم کیا گیا وہ جنوبی افریقہ کے aparthied regime جیسا رویہ ہے جو وہاں کے سیاہ فام باشندوں کے ساتھ رکھا گیا کہ ایک ہی ملک میں رہنے والے دو مختلف گروہوں کے ساتھ حکومتی سطح پر بے انتہا تفریق اور نا انصافی کی جا رہی ہے. انکا یہ بھی کہنا ہے کے روہنگیا باشندےغزہ فلسطین کی طرح Open air prisons میں زندگی گزار رہے ہیں. انکا یہ بھی کہنا ہے کے روہنگیا باشندوں کو دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودیوں اور بعض دوسرے انسانی گروہوں کی طرح گھروں سے نکال کر اسی طرح کیمپوں میں دھکیلا گیا ہے جیسے یہودیوں کو اوشوٹز جیسے کنسنٹریشن کیمپس میں محصور کیا گیا تھا.













No comments:

Post a Comment