Friday, October 19, 2018

اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں حصہ چہارم



اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں حصہ چہارم
تزئین حسن
روہنگیا مسلمان: ٹیکسٹ بک کیس آف Ethnic Cleansing یا ٹیکسٹ بک کیس آف صدیوں کی غفلت؟
اقوام متحدہ نے روہنگیا مسلمانوں پر برمی حکومت اور ملٹری کے ظلم و ستم کو Text Book Case of Ethnic Cleansing کا نام دیا ہے. اس سے قبل ٢٠١٣ میں انہیں Most Persecuted Ethnic Minority in theWorld کا ٹائٹل بھی مل چکا ہے. بظاہر یہ ان مظلوم و محقور اور  پسے ہوے مسلمانوں کے حق میں اٹھنے والی آواز کی کامیابی ہے لیکن اس سے انکی اصل حالت میں کتنی تبدیلی آئے گی یہ ہم سب جانتے ہیں. 

تقریباً  تین ملین کی اس کمیونٹی میں جوعالمی میڈیا کی مختلف رپورٹس کے مطابق ایک ملین سے زائد برما کے صوبے اراکان کے شمالی علاقے میں،  سات لاکھ سے زائد سے بنگلادیش میں ،  پانچ لاکھ  سے زائد  پاکستان میں اور چار لاکھ سے زائد سعودی عرب میں اور اسکے علاوہ ملائشیا اور تھائی لینڈ میں بھی مقیم ہیں،  انکی اپنی ذاتی آواز انٹرنشنل میڈیا اور اکیڈمیا یعنی علمی برادری میں کتنی ہے؟  انکی اپنی صفوں میں انکے حق میں بولنے والے اور مسلم دنیا میں انکے مسئلے کو بیان کرنے والے کتنے ہیں؟  پوری مسلم دنیا میں بین الاقوامی انسانی حقوق کی اصطلاحات کو سمجھ کر اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرنے کی صلاحیت کتنے لوگوں میں ہے؟  

برما کی حکومت کا دعوا ہے کہ روہنگیا غیر قانونی بنگالی مہاجر ہیں جنکا برما کی سرزمین پر کوئی حق نہیں. وہ اپنے دعوے کو صحیح ثابت کرنے کے لئے تاریخ کو مسخ کر کے پیش کر رہے ہیں. غیر جانبدار مورخین کے مطابق ارکان کے علاقے میں مسلم موجودگی آٹھویں صدی سے موجود تھی لیکن صورت حال یہ ہے کہ تین ملین روہنگیا عوام نے کبھی اپنی تاریخ کو تحقیق کر کے مرتب کرنے کی کوشش نہیں کی. پچھلے سو سالوں میں اراکان کی تاریخ، جغرافیہ، ثقافت، تھذیب، معیشت، اور معاشرت پر جتنی بھی تحقیق ہوئی وہ سب ان لوگوں نے کی جنھیں بلاشبہ ہم مسلم مخالف مانتے ہیں.  راقم کے نزدیک یہ ٹیکسٹ بک کیس آف Ethnic Cleansing یعنی نسلی صفایا تو ہے ہی ٹیکسٹ بک کیس آف صدیوں کی غفلت بھی ہے.

انٹرنیشنل میڈیا میں روہنگیا مسئلے کی کوریج :
آج انٹرنیشنل میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بظاھر روہنگیا کے مسلمانوں سے ہمدردی کر رہی ہیں لیکن ہم سب جانتے ہیں ان سب کے اپنے اپنے ایجنڈے ہیں. میں نے بحران کے آغاز سے جتنے بھی مضامین مغربی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے اس حوالے سے پڑھے ان کی اکثریت اس انسانی المیہ کو EthnicCleansing یعنی نسلی صفایا مانے کے باوجود اسے متنازعہ بنا رہے ہیں. یہ میڈیا کی ایک اسٹریٹیجی ہے کہ اگر اپنے ایجنڈے کے خلاف کسی بات کو رپورٹ کرنا ہی پڑے تو اسے متنازعہ بنا دو اور اتنی ambiguity پھیلاؤ کے اگر سفید کو کالا نہیں کر سکتے تو مٹیالا تو کر ہی دو کے قاری اور ناظر اتنا کنفیوز ہو جائے کہ کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہ رہے.  

اس وقت صورت حال یہ ہے کے کوئی ٢٠١٧ کے حالیہ واقعات کو روہنگیا باغیوں کے پولیس اسٹیشنز پر حملے اور بارہ پولیس اہل کاروں کی ہلاکت کا ریکشن قرار دے رہا ہے تو کوئی روہنگیا کو دہشت گرد ثابت کر کے انکو مظلوم کے بجائے ولن ثابت کر رہا ہے. کوئی روہنگیا میں انتہا پسندی کو پاکستان اور سعودی عرب کی مداخلت قرار دے رہا ہے. یہاں تک کے میڈیا کے علاوہ بظاہر غیر جانبدار انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی انتہا پسندی سے جوڑ کر برمی انتہا پسندوں اور ملٹری کے اس بہیمانہ انسانیت سوز تشدد کو انتہا پسندی اور اسکے خلاف کریک داؤن کا رنگ دے رہی ہیں. 

ایک سادہ جھوٹ کو ہزار بار بولا جائے تو وہ سچ بن جاتا ہے اور ایسے جھوٹوں کو پھر ہمارے ہاں کے حسن نثاری اور ھود بھائی دانشور پاکستان پر سب و شتم کے لئے استمعال کرتے ہیں اور لبرل پاکستانیوں کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ دنیا میں کہیں بھی کوئی غلط کام ہو رہا ہے اسکے تانے بانے پاکستان سے ملتے ہیں اور دنیا کی ہر خرابی کی جڑ  پاکستان ہے. راقم کا کہنا ہے کے یہ صدیوں کی غفلت ہے کے آج دنیا ہمیں ولن ثابت کر رہی ہے لیکن ہم میں کوئی اسکا جواب دینے والا بھی نہیں ہے. 

برمی مسلمانوں پر تحقیق 
برما کے بارے میں ریسرچ کرنے پر اسکے مسلمانوں کی تاریخ پر مجھے سب سے زیادہ تفصیلی کتاب ایک اسرائیلی مصنف موشے یگر کی ملی جو رنگون کی اسرائیلی ایمبیسی میں ملازم تھا اور اس نے ١٩٧٢ میں اپنے  ایم  اے MA کے تھیسز کے طور پر برما کے مسلمانوں پر تحقیقی مقالہ لکھا جو بعد ازاں کتب کے طور پر شائع ہوا. اگلے دس سال کے اندر اس نے برما، تھائی لینڈ اور فلپائن کے مسلمانوں پر ایک اور کتاب لکھی. اس کتاب کو پڑھ کر جو چیز شدت سے محسوس ہوتی ہے وہ یہ اسرائیل جیسے ملک کو جسے دنیا مسلم مخالف ملک سمجھتی ہے مسلمانوں پر کتابیں لکھنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں لیکن پاکستان اور مسلم دنیا کی یونیورسٹیوں میں ہمیں  یہ سوچ مشکل سے ملے گی کہ کوئی برما، فلپائن اور تھائی لینڈ کے مسلمانوں پر تحقیق کرنا چاہے گا. اسکے علاوہ مجھے اسرائیل کے ایم اے کے معیار کا بھی اندازہ ہوا. اس نوعیت کی ریسرچ ہمارے ہاں پی ایچ ڈی طلبہ بھی نہیں کرتے. ایسا نہیں ہے کہ مسلمان تحقیق نگار سرے سے موجود ہی نہیں لیکن مسلم دنیا میں عموماً انکے کام کو کتنا سیریس لیا جاتا ہے اور انہیں کتنا سپورٹ کیا جاتا ہے یہ ہم سب جانتے ہیں. ہمارے معاشرے میں ریسرچ کو وقت کا زیاں سمجھا جاتا ہے. اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی اسے ایک فضول مشغلہ گردانتے ہیں.  
    
راقم کے نزدیک یہ  Ethnic Cleansing  سے زیادہ یہ صدیوں کی غفلت کا ٹیکسٹ بک کیس ہے؟ اور یہ سب ایک ایسے مذھب کے مانے والوں کا حال ہے  جنکے رہنما جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کے بجائے یا بھاری فدیہ لے کر چھوڑنے کے بجائے انسے کہتا ہے  کہ اگر تم ہمارے کچھ آدمیوں کو لکھنا اور پڑھنا سکھا دو تو ہم تمہیں چھوڑ دیں گے. 

کیا علم کے حصول کی اس قدر اہمیت ہمیں کسی اور مذھب میں ملتی ہے؟ یہ اس مذھب کے ماننے والوں کا حال ہے جن کے پروردگار کا پہلا حکم ہے "پڑھ" .  جس قوم پر وحی کا پہلا لفظ اقرا ٔ  ہے اس قوم کے علماء اپنے ماننے والوں کو کہتے ہیں کے فرض تو صرف دین کا علم ہے. باقی دنیا کا علم فرض نہیں، آپشنل ہے.  اس قوم کا آج حال یہ ہے کے انکو باقی دنیا کی تو دور کی بات اپنی بھی خبر نہیں. پچھلے دو تین سو سال میں  مسلم دنیا کے بارے میں جو کچھ لکھا جا رہا ہے اسکا ٩٩.٩٩ فیصد مغرب میں لکھا جا رہا ہے. اور قوموں کی بقا کا یہی وہ راز ہے جسے ہم فراموش کر گئے ہیں. ہم نے حصول علم کو صرف شارٹ ٹرم مال حاصل کرنے کا نسخہ سمجھ لیا ہے. کوئی لونگ ٹرم پلاننگ کا تصور اور بصیرت نہ ہمارے لبرل  ہے سیکولر لیڈران میں موجود ہیں نہ ہی مذہبی طبقات میں. 

No comments:

Post a Comment