Friday, October 19, 2018

اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں- حصہ سوئم

اسی عطار  کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں- حصہ سوئم 

کیا روہنگیا دہشت گرد ہیں؟ انسانی حقوق کی تنظیموں اور مغربی ذرائع ابلاغ کا حقیقی چہرہ 

تزئین حسن 


آشوٹز کے باغیوں کو جنہوں نے چار جرمن گارڈس کو مارا دنیا دہشتگرد نہیں کہتی تو روہنگیا عوام جو چالیس سال سے ہولوکوسٹ کا سامنا کر رہے ہیں دہشت گرد کیوں کہا جا رہا ہے؟

اب آیئے اس مسئلے کے اس پہلو کی طرف جسے برمی حکومت اور میڈیا روہنگیا کے خلاف استمعال کر رہا ہے اور حالیہ اسٹیٹ سپانسرڈ تشدد کو وار آن ٹیرر کا روپ دے رہا ہے. اس میں کوئی شک نہیں کہ روہنگیا مسئلہ کو انٹرنیشنل میڈیا اور حقوق انسانی کی عالمی تنظیمیں ہی دنیا کے سامنے لیکر آئیں ورنہ برما کے روہنگیا تو درکنار پوری مسلم دنیا کی آواز نہ ہونے کے برابر ہے. مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ برما کی حکومت کی طرح انٹرنیشنل میڈیا یہاں تک کے حقوق انسانی کی عالمی تنظیمیں حالیہ تشدد کی لہر کی دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈ اؤن کے طور پر تصویرکشی کر رہے ہیں. اگست کے اواخر میں بحران شروع ہونے کے بعد انٹرنیشنل میڈیا کی جتنی بھی رپورٹس سامنے آئیں وہ ابتدا ہی میں یہ واضح کرنا ضروری سمجھتی ہیں کہ روہنگیا ملیشیا کے باغیوں نے ٢٥ سے زائد پولیس اسٹیشنز پر حملہ کر کے ١٢ پولیس افسران کو ہلاک کر دیا جسکے بعد برمی فوج نے دہشتگردوں کے خلاف کریک داؤن شروع کیا اور اسکے نتیجے میں روہنگیا کمیونٹی کو بڑی تعداد میں اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑا. یہ بات تواتر کے ساتھ بغیر سورس کا ذکر کے دہرائی گئی ہے جو بین الاقوامی صحافتی اصولوں کے خلاف ہے.

ایک طرف باغیوں کے پولیس سٹیشن پر حملے اور ١٢ پولیس اہل کاروں کی ہلاکت کو نہتے روہنگیا عوام کے خلاف فوجی آپریشن کے جواز کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف برمی حکومت کا یہ موقف ہے کہ یہ مسلمان دہشت گرد (جنھیں برمی حکومت تحقیر سے بنگالی کا نام دیتی ہے) خود اپنے گھروں کو جلا رہے ہیں اور اپنی مرضی سے ہجرت کر رہے ہیں. اور فوج علاقے کو دہشتگردی سے پاک کرنے کے لئے کاروائی کا حق رکھتی ہے.

اس حوالے سے لندن اسکول آف اکنامکس کے استاد (جو برمی اور بدھسٹ ہونے کے باوجود روہنگیا ایکٹوسٹ ہیں) ڈاکٹرماونگ زارنی کا کہنا ہے کہ ہولوکوسٹ کے دوران ١٩٤٤ میں ایک دفعہ اوشوٹز نامی جرمن کنسنٹریشن کیمپ میں بھی قیدیوں نے بغاوت کی اور چار جرمن گارڈز کو مار ڈالا. دنیا اگر ان قیدیوں کو دہشتگرد نہیں کہتی تو روہنگیا باغیوں کو جو چالیس سال سے مسلسل Genocide کا سامنا کر رہے ہیں دہشتگرد کیوں کہا جا رہا ہے؟ 


اس حوالے سے انٹرنیشنل میڈیا اس حقیقت کو نظر انداز کر جاتا ہے کہ ایسے حالات پہلی مرتبہ نہیں پیش آئے کہ برما کے مسلمانوں کو لاکھوں کی تعداد میں پڑوسی ممالک ہجرت کرنا پڑی ہو. 1978 سے وقفے وقفے سے سرکاری سرپرستی میں انکے خلاف تشدد کے ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں کہ آج لاکھوں کی تعداد میں  روہنگیا مسلمان دنیا میں بکھرے ہوے ہیں. راقم خود سعودی عرب میں قیام کے دوران مدینے میں ایک فیملی سے مل چکی ہے جسکا کہنا ہے کہ وہ  ١٩٧٠ کے عشرے میں برما سے بھاگ کر کراچی آئے اور وہاں سے سعودی عرب.  مکّہ شہر میں بڑی تعداد میں غیر قانونی برمی آباد ہیں. ٢٠١٥ میں سعودی عرب کی حکومت نے اعلان کیا کے وہ مملکت میں مقیم چار لاکھ غیر قانونی برمی باشندوں کو اقامہ اشو کر رہی ہے.  اسی طرح کراچی کے علاقے ارکان آباد میں بھی ستر اور اسی کی دھائی سے لا تعداد برمی مقیم ہیں جنھیں فسادات کی وجہ سے برما چھوڑنا

اقوام متحدہ نے روہنگیا عوام کو دنیا کی سب سے زیادہ مظلوم اقلیت قرار دیا مگر تکلیفدہ بات یہ کہ کہ حالیہ واقعات میں بین الاقوامی میڈیا کے کچھ آؤٹ لیٹ انہیں انتہا پسند اور دہشت گرد ثابت کرنے پر تلے ہوے ہیں. اس سلسلے میں تواتر سے کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کی حکومت انکی سرپرستی کر رہی ہےاور اس طرح برمی انتہا پسندوں اور فوج کی انسانیت سوز کاروایوں کو جواز فراہم کیا جا رہا ہے. 

یہ بات صحیح ہے کہ قیام پاکستان کی جدو جہد کے دوران اراکان کے مسلمانوں کی یہ خواہش رہی کہ انھیں پاکستان کے شامل کیا جائے  اور اس سلسلے میں روہنگیا مسلمانوں کے ایک وفد نے ١٩٤٦ میں قائد اعظم سے ملاقات بھی کی لیکن چونکے ١٩٣٧ کے بعد سے برما برٹش انڈیا کا ایک صوبہ نہیں رہا تھا اور برطانوی راج کی طرف سے ایک علیحدہ نو آبادی قرار د گیا تھا اور ارکان کا صوبہ انتظامی لحاظ سے چتاکونگ سے جڑا ہوا ہونے کے باوجود برما کا صوبہ مانا جاتا تھا اس لئے مسٹر جناح نے ان سے معذرت کر لی.  


یہ بھی حقیقت ہے کہ اسکے باوجود ١٩٤٧ سے ١٩٦١ تک  ارا کان کے مجاہدین اپنے محدود وسائل کے باوجود نسبتاً زیادہ خود مختاری یا  مشرقی پاکستان کے ساتھ الحاق کی مسلح جدو جہد کرتے رہے لیکن یہ تحریکیں ١٩٥٠ کے اواخر اور ١٩٦٠ کے اوائل ہی میں دم توڑ گئیں کیونکہ  انہیں کسی قسم کی کوئی سرپرستی پاکستان کی طرف سے نہیں ملی. بنگلادیش کی پاکستان سے علیحدگی کے بعد برمی ملٹری حکومت کے ظلم و ستم اور تفریقی پالیسیوں کے نتیجے میں یہاں  اسلامی تشخص میں اضافہ ہوا جسکے خلاف برمی ملٹری نے ١٩٧٨ میں آپریشن ڈریگون کے نام سے حالیہ آپریشن ہی کی طرح کاروائی کی جسکے نتیجے میں بہت دو سے ڈھائی لاکھ  روہنگیا مسلمانوں کو بنگلادیش اور دوسرے ممالک میں پناہ لینی پڑی. اقوام متحدہ نے انھیں پناہ گزین قرار دیا اور انکے لئے ریلیف آپریشن شروع کیا گیا.

No comments:

Post a Comment