تزئین حسن
رابرٹ فسک کے کالم سے پتہ چلا کہ بیس اگست کو اسرائیلی صحافی یوری اونری کا 94 سال کی عمر میں اچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہو گیا- اپنی نو عمری میں اسرائیل کی مملکت کے لئے جنگ کرنے والا یہ سپاہی، فلسطین کے ساتھ امن قائم کرنے کے لئے بھی ہمیشہ سنجیدہ محسوس ہوا- ھمیشہ بغیر کسی لگی لپٹی کے اسرائیل کا کچا چٹھا کھول کر دنیا کے سامنے رکھا- صیہونی تھا مگر میں اسے ہمیشہ سچ بولنے والا پایا- 2006 میں اس نے اپنے کالم Muhammad's Sword میں جس طرح پاپ بینیڈکٹ کو آڑے ہاتھوں لیا اور اسلام کے تلوار سے پھیلنے کے الزام کا جس طرح دفاع کیا، خود تاریخی حوالوں کے ساتھ عیسائیت کو جس طرح لتاڑا، شاید ہی آج کا کوئی مسلمان اسکالر کر سکے- سچ مانیں تو مجھے ایسا محسوس ہوا کے انہوں نے اسلام قبول کر لیا ہے- الله اپنا کام جس سے لینا چاہتا ہے لیتا ہے- ایک ایسے وقت میں جب مسلم دنیا میں علم اور دلیل کے ساتھ مغرب کے ہتھکنڈوں کے خلاف، اسلام کا دفاع کرنے والے مفقود ہیں ایک صیہونی اسرائیلی نے ایک نہیں کئی موقعوں پر فلسطینیوں، اسلام اور مسلمانوں اور سب سے بڑھ کر میرے سرکار صلیٰ الله علیہ وسلم کا دفاع تاریخی حوالوں کے ساتھ کیا- بار بار مغرب کو آئینہ دکھایا- انکے ایک کالم سے پتہ چلا کہ اسرائیل کی مملکت کے شائع شدہ اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل میں مقبول ترین نام 'محمد' ہے- وہ رفعنا لک ذکرک شاید اسی کو کہا گیا ہے- ایک کالم میں انہوں نے اسرائیل کے ایک سابق وزیر اعظم چائم ویظمین کی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوے یہ ثابت کیا کہ فلسطین سے بے داخل کئے جانے والے عرب ہی در اصل وہ بنی اسرائیل ہیں جنہوں نے بعد ازاں حضرت عیسیٰ کی تعلیمات سے متاثر ہو کر عیسائیت قبول کی اور انکی اکثریت نے دور فاروقی میں فلسطین کی فتح کے بعد اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا- یہی اس سر زمین کے اصل وارث ہیں- انہیں کے کالمز سے یہ بھی پتہ چلا کہ عام تاثر کے برعکس کے یہودیت میں تبلیغ جائز نہیں، قرون وسطیٰ کے ادوار میں یہودیت کی تبلیغ ہوتی تھی اور کسی دور میں مشرقی یورپ اور روس کے ایک بڑے حصے پر حکومت کرنے والے ایک بادشاہ نے اپنی رعایا سمیت یہودیت کو قبول کیا جو بعد ازاں اشکنازی کہلائے اور پورے یورپ میں پھیل گئے- اس طرح اشکنازی یہودیوں کے بنی اسرائیل سے تعلق ہونے کے دعوے کی تردید ہوتی ہے- ان کی کتاب ١٩٤٨، میں انہوں نے اسرائیلی کم عمر فوجیوں کی فلسطینیوں کے خلاف برین واشنگ کے بارے میں تفصیل سے بتایا ہے-
یہ ایک بچے کے طور پر پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمنی سے فلسطین آئے- انہوں نے ١٩٤٨ میں اسرائیل کی طرف سے عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے ساتھ کام کیا- اس جنگ کے دوران اپنے تجربات اور تاثرات پر ایک کتاب لکھی- اسرائیلی فوج کی حرکتیں کھول کھول کر دنیا کے سامنے رکھیں- یہ اسرائیل کی کیبنٹ کے رکن بھی رہے- اور ایک عرب کے لئے انہوں نے کیبنٹ میں اپنی سیٹ خالی کر دی- یہ یاسر عرفات کے ساتھ ملاقات کرنے والے پہلے اسرائیلی سیاست دان بھی تھے-
میرا ان سے پہلا تعارف ٢٠٠٨ میں انکے کالم Muhammad's Sword کے ذریعے ہوا- مطالعہ بے حد وسیع تھا- اپنے موقف کے حق میں اتنے پرانے پرانے حوالے تاریخ اور لٹریچر سے لیکر آتے کہ حیرت ہوتی تھی یہ شخص کیا کیا جانتا ہے- ٢٠٠٨ کے بعد سے ان سے مختصراً خط و کتابت بھی رہی اور دانش کے موتی بھی انکے کالمز سے حاصل ہوتے رہے-
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ دھڑک بغیر کسی مصلحت کے سچ بولنے کو عالمی میڈیا کبھی منہہ نہیں لگاتا چاہے وہ یہودی صیہونی ہی کیوں نہ ہو- انکا جو یہ اپنی وفات تک لکھتے رہے بہت سے متبادل میڈیا
ایک سچ بولنے والا دنیا سے اٹھ گیا- سچی بات ہے مجھے اپنا ذاتی نقصان محسوس ہو رہا ہے- یہ ایک بچے کے طور پر پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمنی سے فلسطین آئے- انہوں نے ١٩٤٨ میں اسرائیل کی طرف سے عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے ساتھ کام کیا- اس جنگ کے دوران اپنے تجربات اور تاثرات پر ایک کتاب لکھی- اسرائیلی فوج کی حرکتیں کھول کھول کر دنیا کے سامنے رکھیں- یہ اسرائیل کی کیبنٹ کے رکن بھی رہے- اور ایک عرب کے لئے انہوں نے کیبنٹ میں اپنی سیٹ خالی کر دی- یہ یاسر عرفات کے ساتھ ملاقات کرنے والے پہلے اسرائیلی سیاست دان بھی تھے-
میرا ان سے پہلا تعارف ٢٠٠٨ میں انکے کالم Muhammad's Sword کے ذریعے ہوا- مطالعہ بے حد وسیع تھا- اپنے موقف کے حق میں اتنے پرانے پرانے حوالے تاریخ اور لٹریچر سے لیکر آتے کہ حیرت ہوتی تھی یہ شخص کیا کیا جانتا ہے- ٢٠٠٨ کے بعد سے ان سے مختصراً خط و کتابت بھی رہی اور دانش کے موتی بھی انکے کالمز سے حاصل ہوتے رہے-
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ دھڑک بغیر کسی مصلحت کے سچ بولنے کو عالمی میڈیا کبھی منہہ نہیں لگاتا چاہے وہ یہودی صیہونی ہی کیوں نہ ہو- انکا جو یہ اپنی وفات تک لکھتے رہے بہت سے متبادل میڈیا
No comments:
Post a Comment