بنگلہ دیش میں اسلام پسندوں کو غداری کا الزام کیوں دیا جاتا ہے؟
تزئین حسن
تزئین حسن
شاہد اسلم کیسر ہمارے بنگالی نوجوان بھائ ہیں اور پاکستان سے بے انتہا محبت کرتے ہیں۔ یہ عرصہ تین سال سے میرے رابطے میں ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ انکے خاندان نے انہیں اردو زبان کی تعلیم بھی دلوائ۔ بہت اچھی اردو لکھتے اور بولتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ یہ 1971 کے دو دھائیوں بعد پیدا ہوئے۔ لیکن اکہتر کے تنازعے کے بارے میں بات کرنے کے لئے یہ میری طرح انتہائی پر جوش ہیں۔
شاہد اسلم کیسر ہمارے بنگالی نوجوان بھائ ہیں اور پاکستان سے بے انتہا محبت کرتے ہیں۔ یہ عرصہ تین سال سے میرے رابطے میں ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ انکے خاندان نے انہیں اردو زبان کی تعلیم بھی دلوائ۔ بہت اچھی اردو لکھتے اور بولتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ یہ 1971 کے دو دھائیوں بعد پیدا ہوئے۔ لیکن اکہتر کے تنازعے کے بارے میں بات کرنے کے لئے یہ میری طرح انتہائی پر جوش ہیں۔
یہ اکثر پاکستان کے دو لخت ہونے اور بنگلہ دیش کے قیام کو سیاست دانوں کی غلطی اور فوجی جرائم کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں پاک فوج کے جرائم کو اسلام دشمن عناصر اسلام پسندوں کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔
انکی شکایت ہے کہ بنگلہ دیش میں اسلام دشمن عناصر اب پاکستانی سیاستدانوں کے غلط فیصلے اور پاک فوج کے جرم کا ذمہ دار اسلام کو ٹھہراتے ہیں، جبکہ اسلام پسندوں نے فوجی جرائم میں انکا ساتھ کبھی نہیں دیا۔"
مجھے انکے اس بات سے اختلاف ہے کہ اسلام پسندوں نے فوجی جرائم کا ساتھ نہیں دیا۔ مجھے اس نامن کلیچر پر بھی اعتراض ہے جسکے مطابق جماعت اسلامی سے نظریاتی اختلاف رکھنے والوں کو اسلام دشمن کا خطاب دیا جاتا ہے۔ یہ ںسید مودودی کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
شاید بھائ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسلام پسند گروپوں نے جنگ کے دوران کبھی بھی پاکستانی فوج کا ساتھ نہیں دیا، وہ تو شیخ مجیب کے ہاتھ میں اقتدار اور بنگال کے عوام کے حقوق کی بحالی چاہتے تھے۔'
انکی اس بات کے دوسرے حصے سے مجھے اتفاق ہے، پہلے سے نہیں۔
1970-71 کے تنازعہ پر سب سے پہلے مجھے جن انٹرویوز کا موقعہ ملا پاکستان کے حمایتی بنگالی بھائ ییں۔ یہ آج بھی پاکستان سے شدید محبت کرتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی خاطر بہت تکلیفیں برداشت کیں اور یہ آج بھی بنگلہ دیش میں غدار تصور کئے جاتے ہیں۔ کم از کم انکے ریاستی بیانیے کے مطابق۔ ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ متحدہ پاکستان سے محبت کا یہ استعارہ دراصل اسلام پسند کہلانے والےہیں۔
یہاں یہ واضح کردوں کہ اسلام پسند اور اسلام دشمن کا نامن کلیچر میرا ایجاد کردہ نہیں بلکہ اسلام پسند کہلانے والوں کا اپنا ہے۔
سابق مشرقی پاکستان میں پاکستان کے حامیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ بلکہ اس کے ثبوت بھی موجود ہیں کہ اکثریت متحدہ پاکستان کی ہی حامی تھی۔ یہ دوسری بات کہ اسکے ساتھ ساتھ وہ بنگالی زبان، ثقافت کی بقا، اور سیاسی اور معاشی خودمختاری کے عوامی لیگ کے ایجنڈے کی متفقہ حامی تھی۔
جن چھ نکات جو غداری سمجھ کر پاکستان میں ڈسکس ہی نہیں ہونے دیا گیا ان میں علیحدگی کی نہیں صوبائ خود مختاری کی بات رھی۔ میرے نزدیک مجیب کے چھ نکات پاکستان کو متحد رکھنے کی آخری ترکیب تھے۔ مجیب نے الیکشن انہیں چھ نکات پر لڑا تھا اور جرنیلوں کی گواہیاں موجود ہیں کہ مجیب چھ نکات پر بھی بات کرنے پر کسی حد تک راضی تھا۔ گو میں نے انکا جتنا مطالعہ کیا مجھے وہ چھ نکات مشرقی پاکستان کے جغرافیہ اور معاشی حقائق کے حوالے سے پاکستان کی اہم ضرورت محسوس ہوئے۔ اس حوالے سے خرم مراد صاحب نے بہت پر مغز بحث کی ہے۔ جو میں اگلی کسی پوسٹ میں ڈسکس کرونگی۔
فی الحال شاہد بھائ کی اس شکایت کا جواب دوں (جی آپ ٹھیک سمجھے میں اس وقت بنگلہ دیش کی سیکیولر حکومت کا مقدمہ کر رہی ہوں) کہ وہ مغربی پاکستانی سیاستدانوں کے غلط فیصلوں اور پاکستانی فوج کے جرائم کو اسلام پسندوں کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔
پاک فوج کے جرائم کو بنگالی اسلام پسنوں کی بنیادی وجہ میرے نزدیک شاید یہ ہے کہ اسلام پسندوں نے پاک فوج کے جرائم سے کبھی براءت کا اظہار نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ پاک فوج کا دفاع کرتے رہے۔
آج بھی شاہد بھائ ہمیشہ سیاست دانوں کے غلط فیصلوں کی بات کرتے ہیں۔ جبکہ ملک کی باگ ڈور اور فیصلہ کن قوت تو پاکستان ملٹری کے ہاتھ میں تھی جس نے مجیب کی اکثریتی پارٹی کو چھوڑ کر بھٹو کے حق میں اپنا وزن ڈالا اور اس قدر ڈالا کہ بنگالی سویلینز کے مینڈیٹ کو بوٹوں سے کچلنے کی کوشش کی۔ یحییٰ خان اور اسکے ارد گرد کے جرنیل بھٹو کی ضد کی خاطر وہاں خون خرابے پر راضی ہو گئے۔
پاکستانی فوج نو مہینے تک براہ راست پاکستانی بنگالی شہریوں سے لڑتی رہی اور اسلام پسند اس فوج کے پیچھے کھڑے رہے۔ عوام کی اکثریت آپریشن کے آغاز سے پہلے متحدہ پاکستان کی حامی تھی لیکن جو کچھ وہ بھگتے رہے آہستہ آہستہ انکا وزن علیحدگی پسندوں کے پلڑے میں گرتا گیا لیکن اسلام پسند سولہ دسمبر تک پاک فوج کے پیچھے کھڑے رہے۔
سولہ دسمبر کے بعد بھی اسلام پسندوں نے پاک فوج کے جرائم سے برات کا اظہار نہیں کیا۔ مجھے کسی نے بتایا کہ جماعت اسلامی نے آج پچاس سال گزرنے تک بھی پاک فوج کا ساتھ دینے پر بنگالیوں سے معافی نہیں مانگی۔ اس مدے پر جماعت اسلامی کا بڑا دھڑا خود جماعت اسلامی سے الگ ہو گیا۔ معذرت کہ سولہ دسمبر سے پہلے آپ کسی کے بھی حمایتی تھے۔ سولہ دسمبر کے بعد آپ کو پاک فوج براءت کا اعلان کرنا چاہئے تھا۔ یہ میرے خیالات ہیں۔ اتفاق ضروری نہیں۔
No comments:
Post a Comment