Tuesday, September 26, 2017

امریکی فوج میں جنسی تشدد کے واقعات

امریکی فوج میں جنسی تشدد کے واقعات  
امریکا کا دفاع کرنے والے اپنا دفاع کرنے میں ناکام 

تزئین حسن 
بیس سالہ ماریا فرانسس لیٹربیخ امریکی فوج میں ملازم تھی۔ اس کی تعیناتی نارتھ کیرولینا کی میرین بیس پر تھی جہاں سے وہ 14 دسمبر2007ءمیں لاپتہ ہو گئی۔ گیارہ جنوری 2008 ءکو پولیس نے اس کی جلی ہوئی لاش اس کے کمانڈنگ افسر لارین کے گھرکے پچھلے صحن سے دریافت کی۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق ماریا آٹھ مہینے کی حاملہ تھی۔ اس کی سوتیلی ماں کا کہنا تھا کہ ماریا نے مرنے سے کچھ عرصہ قبل اسے بتایا کہ اسے اس کے کمانڈنگ افسر نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا لیکن اس کے رپورٹ کرنے پر بھی فوجی انتظامیہ نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ ماریا کی ماں کا کہنا تھا کہ ماریا نے اس سے بھی پہلے جنسی ہراسانی اور زیادتی کے خطرے کے با عث اپنے بیس سے تبادلے کی درخواست دی تھی جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔ اگر اس کی بات پر یقین کر کے اس کا تبادلہ کر دیا گیا ہوتا تو اس کا ریپ اور بعد ازاں قتل نہ ہوا ہوتا۔ یادرہے کہ اعداد و شمار کے مطابق امریکی فوج میں ہر سال جنسی تشدد، زیادتی، ریپ اور جنسی ہراسانی کے ہزاروں واقعات ہوتے ہیں۔ پینٹاگون کی ایک رپورٹ کے مطابق فوجی خواتین دشمن کے حملوں سے ہلاکت کے مقابلے میں اپنے ساتھیوں اور افسران سے ریپ کے خطرے کا زیادہ شکار ہیں۔
اسٹیٹ آف آرٹ ٹیکنالوجی اور جدید ترین عسکری وسائل سے بھرپور امریکی ملٹری 15 لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ یہ دنیا کا سب سے طاقتور اور منظم ادارہ ہے۔ امریکی فی الوقت دنیا کی واحد سپر پاور، دنیا کی ترقی یافتہ اور مہذب ترین قوم گردانی جاتی ہے۔ دوسری طرف امریکی ذرائع ابلاغ مسلم دنیا میں عورتوں پر زیادتی کے حوالے سے نوحہ کناں رہتے ہیں لیکن اسی امریکی معاشرے کے طاقتور ترین ادارے میں جو امریکا کی حفاظت اور اسکی اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے مسلسل سرگرم ہے،کے فوجیوں کے اپنے ہی فوجیوں پر مظالم کی داستان حیرت انگیز بھی ہے اور امریکی تھنک ٹینکس کے لئے تشویش کا با عث بھی۔ 

ہیلن بینیڈکٹ کولمبیا جرنلزم اسکول کی پروفیسر ہیں، دس سے زائد کتب کی مصنفہ ہیں، انھوں نے 2009ءمیں عراق اور افغانستان میں تعینات امریکی فوجی خواتین کے ساتھ رکھے جانے والے ناروا رویہ پر’ The Lonely Soldier ‘ نامی کتاب تصنیف کی۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی فوج میں ان رحجانات کا بڑا سبب عورتوں سے نفرت کا شدید کلچر ہے۔ مصنفہ نے کتاب میں عراق میں تعینات پانچ خواتین کی آپ بیتیوں کے ذریعہ فوجی خواتین کو در پیش صورت حال کو قارئین پر واضح کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ویت نام میں بڑی تعداد میں پراسٹیٹیوٹس( prostitutes ) موجود تھیں جو عراق میں نہیں تھیں ، اس لئے عراق میں خواتین سپاہیوں کو بھیجا گیا۔

یاد رہے جنسی زیادتی کا شکار صرف خواتین فوجی ہی نہیں بلکہ مرد فوجی بھی اس زیادتی کا شکاررہے ہیں۔ مئی 2012ءمیں شائع ہونے والی امریکی ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس کی سالانہ رپورٹDepartment of Defense Annual Report on Sexual Assault in the Military: Fiscal Year 2010 کے مطابق صرف 2010ء میں ایک لاکھ آٹھ ہزار سے زائد امریکی فوجی خواتین اور مرد مختلف نوعیت کے جنسی تشدد کا شکار رہے جن میں سے 68 ہزار سے زائد نے اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ذہنی اور جسمانی تکلیف کو دور کرنے کے لئے کم از کم ایک مرتبہ ملٹری کلینکس کا رخ کیا۔ 

اہم بات یہ ہے کہ ان جنسی زیادتیوں کو انتظامیہ کو رپورٹ کرنے کا رحجان نہ ہونے کے برابر ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق صرف پانچ میں سے ایک خاتون جبکہ پندرہ میں سے ایک مرد فوجی اپنی اعلیٰ قیادت کو اپنے اوپر ہونے والی زیادتی کی رپورٹ کرتا ہے۔ اس سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ 90 فیصد سے زیادہ شکایات کو مسترد کر دیا جاتا ہے اور صرف آٹھ فیصد کیسز کی تفتیش ہوتی ہے جن میں سے سزائیں محض دو فیصد کو ہوتی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ امریکا جیسے ملک کے فوجی ان واقعات کو کیوں رپورٹ نہیں کرنا چاہتے؟ جو رپورٹ کرتے ہیں ان کی شکایات کو کیوں مستردکیا جاتا ہے؟ اس سے بڑھ کر یہ کہ دنیا کی طاقتور ترین فوج جنسی تشدد کے ان رحجانات پرکیوں قابو نہیں پا سکی؟ 18 مئی 2015ءکو شائع ہونے والی ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ Embattled: Retaliation Against Sexual Assault Survivor in the US Milatary کا کہنا ہے کہ یو ایس ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس کے ایک سروے کے مطابق گزشتہ سال جنسی حملوں کے 62 فیصد متاثرین جنہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو رپورٹ کیا، کا کہنا ہے انہیں شکایت کے بدلے میں افسران کی دشمنی اور برا رویہ، اپنے ساتھیوں کے طنز اور طعنے، انتظامی ایکشن یا سزا کی صورت میں رپورٹ کے انتقامی کاروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت بڑی تعداد میں جنسی حملے کے متاثرین فوج کو چھوڑ بھی دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس سروے میں صرف حاضر سروس ممبر شامل کے گئے تھے، جن خواتین یا حضرات نے ان حملوں کے نتیجے میں فوج کو چھوڑ دیا یا انھیں شکایات کرنے پر ملٹری چھوڑ دینے پر مجبور کر دیا گیا، وہ ان میں شامل نہیں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق انتقامی کارروائی کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو گی“۔ انتقامی کارروائی کے اسی ڈر کی وجہ سے زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کی اکثریت ان واقعات کو رپورٹ نہیں کرتی لیکن PTSD یعنی POST TRAUMATIC STRESS AND DISORDER کا شکار ہو جاتی ہے جس سے فوج میں ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔

سابق امریکی وزیردفاع لیون پنیٹا کے مطابق ہر سال 19000 مرد اور فوجی عورتوں جنسی حملوں کا شکار ہوتی ہیں جن میں سے صرف 3200 رپورٹ ہوتے ہیں۔ 2010ء کے اعداد و شمار کے مطابق 3198 کیسسز کو پراسیس کیا گیا اور سزائیں صرف 244 کو ہوئیں یعنی جن حملوں پر سزائیں دی گئیں وہ کل تعداد کا ایک اعشاریہ تین(1.3) فیصد سے بھی کم بنتے ہیں۔

سن 2012 میں ایوارڈ وننگ ڈائریکٹر کربی ڈک نے The Invisible Warکے نام سے امریکی فوج میں ہونے والی جنسی زیادتی کے واقعات پر ایک ڈاکومنٹری بنائی جس نے صحافت کے ساتھ سیاسی حلقوں میں بھی ہلچل مچا دی۔ 
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکی فوج میں جنسی تشدد اور زیادتیوں کا کلچرشروع ہی سے موجود ہے جنہیں فوج کی اعلیٰ قیادت کی سرپرستی حاصل ہے کیونکہ انہیں خاموشی سے برداشت کیا جاتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنسی حملوں سے کہیں زیادہ تکلیف دہ پہلو انہیں رپورٹ کرنے پر فوج کے اعلیٰ حکام کی طرف سے اپنایا جانے والا رویہ ہے جس میں سزا مجرم کے بجائے شکایت کرنے والے کو ملتی ہے۔
ستمبر 2011ءمیں 28 فوجیوں نے، جن کا دعویٰ ہے کہ انھیں فوجی سروس کے دوران ریپ کیا گیا، نے اس وقت کے وزیردفاع رمسفیلڈ پر براہ راست مقدمہ کیا۔ مدعیوں کا کہنا تھا کہ وزارت دفاع کی اعلیٰ قیادت کی غفلت ان مجرموں کو سزا نہ ملنے کی ذمہ دار ہے، نتیجتاً ریپ کا یہ کلچر فوج میں فروغ پا رہا ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ عدالت نے یہ کیس جس نے Cocia vs Rumsfield کے نام سے شہرت حاصل کی، سننے سے ہی انکار کر دیا۔ 
اس سلسلے میں پچھلی تین دہائیوں میں متعدد بڑے بڑے سکینڈل سامنے آئے جن میں جنسی زیادتی سے زیادہ فوج کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے انھیں نظر انداز کرنے اور متاثرین کی شکایت کو مسترد کر دینے کے ساتھ ساتھ خود شکایات کرنے والوں کو دھمکیوں کے ذریعے اپنی شکایات واپس لینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ شکایات کرنے والوں کو فوج سے نکال دینے، ان کا عہدے کم کر دینے اور ملازمت میں ان کی پروموشن روک دینے کے متعدد واقعات بھی موجود ہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی وجہ سے متاثرین کا دعویٰ ہے کہ ان واقعات کی روک تھام ممکن نہیں ہو رہی اور یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر لوگ اپنی ملازمت ختم ہو جانے کے خوف سے ان واقعات کو رپورٹ نہیں کرتے۔ 
 Cocia vs Rumsfield صرف ایک سکینڈل ہے جس میں 25 خواتین اور تین مرد فوجیوں نے وزیردفاع پر براہ راست مقدمہ کیا کہ انہیں فوجی انتظامیہ سے انصاف نہیں ملا اور اس کے لئے فوج کی اعلیٰ قیادت براہ راست ذمہ دار ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ بہت مختصر کارروائی کے دوران عدالت نے کیس سننے سے انکار کرتے ہوئے اسے خارج کر دیا۔

جنسی زیادتی کے سلسلے میں Tailhook اسکینڈل نے بھی 1991-92ءمیں بہت شہرت حاصل کی جس میں 1991 میں آٹھ ستمبر سے 12ستمبر کے دوران لاس ویگاس کے ہلٹن ہوٹل میں پہلی خلیجی جنگ پر ہونے والے سمپوزیم کے دوران 83 خواتین اور سات مرد فوجیوں پر ان کے اپنے سو سے زائد ساتھیوں نے جنسی حملے کیے۔ ان حملوں کے ثبوت تصویروں اور وڈیوز کی صورت میں موجود تھے۔ یہ واحد سکینڈل تھا جس کے نہ صرف ذمہ داران کو سزائیں دی گئیں بلکہ جن افسران نے انہیں روکنے کی کوشش نہ کی ان میں سے بھی متعدد افراد کا طویل فوجی کیرئیر سزاو ¿ں کے ذریعے ختم کیا گیا۔

اسکے علاوہ امریکی ائیرفورس کا 2003ءکا ایک سکینڈل بھی بہت مشہور ہوا جس میں ائیر فورس کی خواتین نے ایک نامعلوم ای میل کے ذریعہ ارباب اقتدار سے رابطہ کیا۔ بعد ازاں تحقیقات کے نتیجے میں ائیر فورس کی بارہ فیصد خواتین نے دعویٰ کیا کہ انہیں ان کے سینئر افسران نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا لیکن اس سلسلے کا سب سے بڑا سکینڈل 1996ءکا ابرڈین گراو ¿نڈ سکینڈل کہلاتا ہے جس میں سو سے زائد حاضر سروس افسران پر مقدمہ چلا اور کئی افسران پر جرم ثابت ہونے کے بعد سزائیں بھی ہوئیں۔

یکم مئی2017ءکو امریکی ٹی وی چینل سی این این(CNN ) کے مطابق2016 ءمیں فوج میں جنسی حملوں میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ رئیر ایڈمرل این برکھارڈٹ جو امریکی فوج میں جنسی حملوں کے بچاو ¿ کے حوالے سے بننے والے ادارے کی ڈائریکٹر ہیں، کا کہنا ہے کہ”جنسی حملے ہماری ملٹری کی اقدار کی خلاف ورزی ہے اور انہیں برداشت نہیں کیا جانا چاہئے“۔

حالیہ برسوں میں امریکا میں اس حوالے سے نئی قانون سازی کی گئی ہے خصوصاً ماریا فرانسس لیٹر بیخ کے کیس کے بعد ان شکایت کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے جس سے زیادتی کے کیسز کی رپورٹنگ میں اضافہ ہوا ہے، شکایات پر مقدمہ چلانے اور کورٹ مارشل کی تعداد بھی بڑھی ہے لیکن اس کے باوجود امریکی فوج اب تک اس مسئلے سے نکل نہیں سکی۔ ایک دلچسپ بلکہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان واقعات کو عورتوں پر ظلم یا حقوق نسواں کے تناظر میں نہیں دیکھا جاتا۔

بڑھتا ہوا جنسی تشدد صرف امریکی فوج ہی کا نہیں بلکہ دنیا کے بیشترمعاشروں کا مسئلہ ہے جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔ یاد رہے اس وقت انڈیا میں ریپ کے بڑھتے ہوے واقعات کی وجہ سے  دہلی کو ریپ کیپیٹل آف تھے ورلڈ بھی کہا جاتا ہے". ہیلن بینیڈکٹ کا کہنا ہے کہ اس مسئلے سے نکلنے کے لئے حکومتی پالیسی سازوں اور میڈیا کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ صحافیوں کو نئے زاویوں سے اس مسئلے پر روشنی ڈالنی چاہیے مثلا ً کیا پورن لٹریچراور ویب سائٹس امریکی فوج اور معاشرے بلکے دنیا بھر میں جنسی تشدد کی ذمہ دار ہیں؟ 

No comments:

Post a Comment