Monday, September 25, 2017

جرمن الیکشن: مرکل کی فتح یا شکست

جرمن الیکشن: مرکل کی فتح یا شکست 





انتخابات میں مرکل کی CDU کو 33 فیصد جبکے انکی سابق حلیف SPD  کو 20 فیصد اور پناہ گزین مخالف AFD کل 12 فیصد ووٹ لینے میں کامیاب ہوئی.

تزئین فرید  

کسی بھی جمہوری ملک میں کسی سیاسی پارٹی کا چوتھی مرتبہ انتخابات میں ایسی کامیابی حاصل کرنا کے اسکے بغیر کوئی دوسری پارٹی حکومت بنانے کا سوچ بھی نہ سکے سیاست کے ہر پیمانے سے ایک بڑی کامیابی ہے خصوصاً اس صورت میں جب اس سیاسی پارٹی کی باگ ڈور اس تمام عرصے میں ایک ہی لیڈر نے سنبھال رکھی ہو. اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ کہ مردوں کی اس دنیا میں وہ سیاسی لیڈر کوئی مرد نہیں عورت ہو اور اس سے زیادہ حیرت کا مقام یہ کے وہ عورت  بریکزٹ اور ٹرمپفکیشن کے اس دور میں پورے یورپ بلکہ مغربی دنیا میں نسل پرستی کے چڑھتے ہوے طوفان کے آگے ڈٹ جائے. اپنے اصولی مؤقف کی تائید میں وہ اس بات کی بھی پرواہ نہ کرے کے اسکے ملک میں اسکے غدار کہا جا رہا ہے. اسکی برقع میں ملبوس تصویریں سوشل میڈیا میں ہی نہیں دائیں بازو کی جماعتوں کے جلسوں میں بھی بڑی تعداد میں گردش کرتی نظر آئیں. تو ایسی صورت میں اگر چوتھی مرتبہ بھی یورپ کے اہم ترین ملک میں اقتدار کا ہما مرکل کے سر پر بیٹھ گیا تو باقی دنیا کو یہ سادہ سی حقیقت مان لینا چاہئے کہ انتخابات میں مرکل کو فتح ہوئی ہے مگر انٹرنیشنل میڈیا کا کیا جائے جو واقعات اور شواہد کو نظر انداز کر کہ یہ تاثر دے رہا ہے کہ مرکل کی پارٹی CDU کو تاریخ میں (1949 کے بعد سے) کبھی اتنے کم ووٹ  نہیں ملے جتنے اس انتخاب میں انکا مقدر بنے. یہی نہیں دائیں بازو کی نسل پرست جماعت اے ایف ڈی AFD جس نے کل ملا کرکوئی دس فیصد ووٹ لئے ہیں کو یہ کہ کر سراہا جا رہا کہ یہ شاندار فتح ہے کیونکے اس سے قبل اس نے کبھی پانچ فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں لئے جو جرمن پارلیمنٹ میں بیٹھنے کے لئے کم سے کم میرٹ ہے. 

 2015 کے آغاز میں فرانس کے جریدے چارلی ہیبڈو پر حملے کے بعد سے مغرب کی سیاست کلی طور امیگرینٹ مسئلے کے گرد گھوم رہی ہے. کینیڈا میں ہارپر نے نقاب کے مسئلے کو الیکشن اشو کے طور پر استمعال کیا، بریکزٹ ریفرینڈم میں اسی کو فوکس کیا گیا، ٹرمپ نے براہ راست مسلم مخا لف جذبات کو استمعال کیا، فرانس میں اور ہالینڈ  کے الیکشن میں بھی صورت حال یہی رہی اور اس میں کوئی شک نہیں کے کم از کم امریکا اور برطانیہ میں یہ سیاست دان عوام کی بڑی تعداد میں نسل پرستانہ جذبات کو ابھارنے یا پیدا کرنے میں کامیاب رہے اور اس کامیابی میں ایک بڑا کردار مغرب میں ہونے والے دہشت گرد حملوں نے بھی ادا کیا.

2015 کے آغاز میں فرانس کے جریدے چارلی ہیبڈو پر حملے کے بعد سے  دہشت گرد حملوں کا جو سلسلہ شروع ہوا تو اسکا سب سے بڑا فائدہ بظاہر جرمنی کی پرونازی تنظیم پگیڈا Pegida کو ہوا جو سوشل میڈیا کے ذریعے عوام میں امیگرینٹ مخالف نسل پرستانہ جذبات ابھار کر چھوٹے موٹے  مظاھرے کر رہی تھی مگر چارلی ہیبڈو پر حملے کے ساتھ ہی انکے جلسوں میں عوام کا جم غفیر نظر آنے لگا. بعد ازاں  پیرس اور برسلز کے حملے اور پھر خود جرمنی میں 2016 اور اسکے بعد 2017 میں بھی متعدد حملے ہوۓ. ان تمام حملوں کا براہ راست فائدہ دائیں بازو کو اس طرح ہوا کہ ان حملوں کے اصل مقصد پر ہی سوال اٹھنے لگا کہ جرم کا شک سب سے پہلے اسی پر جاتا ہے جسے سب سے زیادہ فائدہ پہنچے. اسکے ساتھ ساتھ پگیڈا اور دیگر اسلام مخالف اور پرو نازی جماعتیں شامی مہاجرین کی رہائش گاہوں اور کیمپوں پر حملے بھی جاری رکھے جنھیں مغربی اخبارات نے تقریباً نظر انداز کیا. 

اسکے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر مہاجرین کے خلاف نفرت اور نسل پرستی پر مبنی گفتگو Hate speech اتنی بڑھی کہ جرمن حکومت کو سوشل میڈیا کمپنیز کو ضابطہ اخلاق کا پابند بنانے کے لئے آئینی تبدیلی کرنی پڑی. اس سے قبل جرمن حکومت ہی کو فیس بک بلکہ براہ راست مارک زکربرگ پر مقدمہ بھی کرنا پڑا کہ وہ رپورٹ کرنے کے باوجود نفرت انگیز مواد کی اپنے پورٹل سے ہٹانے میں ناکام رہی ہے. 

یہ سب کچھ چلتا رہا مرکل کی مقبولیت میں کمی کی خبریں بھی دنیا میں گردش کرتی رہیں بلکے مارچ 2016 کے ریجنل انتخابات میں مرکل کی پارٹی کو شکست کا سامنا بھی کرنا پڑا اور اسی کے بعد یہ تجزیہ آنا شروع ہوے کہ اگر مرکل نے اپنی مہاجر پالیسی تبدیل نہ کی تو ان کا سیاسی کیرئیر اب تقریباً ختم ہے. مرکل کے ایک بہت مضبوط سیاسی حلیف سی ہورسٹ ہوفر نے انسے دوری اختیار کرنے میں اپنی عافیت جانی. 

اس سب کچھ کے جواب میں مرکل کا کہنا تھا کہ انکی مہاجر پالیسی مہاجرین سے زیادہ جرمنی کے فائدے میں ہے. جرمنی میں کم شرح پیدائش کی وجہ سے  پینشن لینے والے بوڑھوں کے مقابلے میں کام کرنے والےنوجوانوں کی تعداد سال بہ سال کم  ہوتی جا رہی ہے اور اسکا برا اثر براہ راست جرمن معیشت پر پڑ رہا ہے. مستقبل قریب میں جرمن معیشت اور تیزی سے بڑھتی ہوئی انڈسٹری کو لاکھوں کی تعداد میں کام کرنے والے نوجوانوں کی ضرورت ہے. مرکل اپنے پچھلے تین ٹرمز کے اقتدار میں جرمنی میں شرح پیدائش بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کر چکی ہیں. اس وقت بچے پیدا کرنے والی ماؤں اور فیمیلیز کو بلین یورو سے زیادہ سبسڈی کی مد میں دیا جاتا ہے. لیکن اسکے باوجود جرمن ماؤں کو اس بات پر راضی نہیں کیا جا سکا کے وہ زیادہ بچے پیدا کریں. یاد رہے جرمنی کا شمار اس وقت دنیا کے کم ترین شرح پیدائش رکھنے والے ممالک میں ہوتا ہے. ویسے یہ صرف جرمنی کا حال نہیں پورا یورپ اس وقت آبادی کے بحران کا شکار ہے. متعدد تھنک ٹینکس اس کے خوفناک نتائج سے آگاہ کرتے رہتے ہیں.

خیر ہم آتے ہیں اپنے اصل موضوع یعنی جرمن الیکشن کی طرف. مرکل کے خلاف آخری حربہ موجودہ اسمبلی  میں پارلیمنٹ کے آخری اجلاس  میں کھیلا گیا جب  ہم جنسوں کی شادی کے حق میں قرارداد پیش کی گئی. یاد رہے جرمنی بلکہ مغربی یورپ کے تمام ممالک میں ہم جنسی قانوناً جائز ہے اور اسکے خلاف بات کرنے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے. جرمن عوام کی اکثریت چاہے ہم جنس ہو یا نہ ہو اسکی حامی ہے لیکن اس وقت تک ہمجنسوں کی شادی کو قانونی حثیت حاصل نہیں تھی.  اس قرارداد کو الیکشن کے ایک اشو کے طور پر مرکل کے خلاف پیش کیا گیا کیونکہ مرکل ایک مقبول میگزین کے انٹرویو میں یہ اس بات کا اظہار کر چکی تھیں کہ وہ ہم جنسی کو پسند نہیں کرتیں. ہم جنسوں کی شادی کے حق میں قرارداد بھاری  اکثریت سے منظور ہوگئی. مرکل نے اپنی تقریر میں اپنی  پارٹی کے ممبران کو حق دیا کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ ڈالیں لیکن اپنا ووٹ ڈالتے ہوے انکا کہنا تھا کہ "شادی ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان ہوتی ہے." اخبارات کا کہنا تھا کہ مرکل اس امر پر خاصی افسردہ نظر آئیں کہ اس معمولی اشو کو الیکشن اشو کے طور پر استمعال کیا جا رہا ہے مگر اپنے اصولی مؤقف سے وہ یہاں بھی ایک انچ نہیں ہٹیں. 

الیکشن سے قبل مختلف پولنگ نتائج میں جو صورتحال سامنے آئ تھی نتائج اس سے مختلف نہیں مگر جرمن اخبار دیر اسپیگل سے لیکر برطانیہ کا گارڈین اور امریکا کے واشنگٹن پوسٹ تک کا کہنا ہے کہ اصل جیت AFD کی ہے. ایک اور بات جو بہت اہم ہے وہ یہ کے دوسرے نمبر پر آنے والی SPD جو اس سے پیشتر مرکل کی حلیف جما عت تھی نے مرکل کی CDU کے ساتھ الائنس کے بجائے اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے. تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مرکل اگر دوسری پارٹیوں کو ساتھ ملا کر حکومت بنا بھی لیتی ہیں تو انہیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا. انکا یہ بھی کہنا ہے کہ یورپ میں بھی انکی اہمیت ویسی نہیں رہے گی جیسی پہلے تھی حلانکے یورپی یونین کے دوسرے اہم ترین ملک فرانس کے صدر میکرون مرکل کے پوری طرح ہم خیال ہیں. بھر حال طاقتور مغربی میڈیا وہ جادو گر ہے جو ان انتخابات سے جو بھی نتیجہ اخذ کرنا چاہے کر سکتا ہے  
                ع جو چاہے آپکی نگاہ کرشمہ ساز کرے     

No comments:

Post a Comment