Sunday, September 24, 2017

علیحدہ کردستان کے لئے ریفرینڈم: آج فیصلہ ہو جائےگا



اگر کردوں کو علیحدہ وطن مل سکتا ہے تو بد ترین نسل کشی کا شکار برما کے روہنگیا کو کیوں نہیں؟

تزئین حسن 

آج شمالی عراق کے شہر اربیل میں قائم کردہ کردستان ریجنل گورنمنٹ عراق سے علیحدگی اختیار کرنے کےلئے ریفرنڈم منعقد کر رہی ہے۔ نیو ورلڈ آرڈر کے تحت عراق کو شیعہ، سنی اور کرد تین حصّوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ نیا نہیں۔ یہ مشرق وسطیٰ کی نئی تقسیم کا منصوبہ ہے۔ اس کی بازگشت 2003ءمیں عراق پر امریکی حملے کے بعد سے اکثر سنائی دیتی رہی ہے۔ 99.8 فیصد کرد ایک دہائی قبل ایک ریفرنڈم میں عراق سے علیحدگی کے حق میں رائے دے چکے ہیں۔ اگریہ ریفرنڈم منظور ہوگیاتو کردوںکو ، جو فی الوقت دنیا کی سب سے بڑی بے ریاست قوم ہیں، ایک وطن مل جائے گا جوکرد قوم کی دیرینہ آرزوو ¿ں کی تکمیل ہوگی۔ بلومبرگ کے مطابق اگر کردستان خود مختار ریاست کے طور پر وجود میں آ جاتا ہے تو یہ دنیا میں تیل پیدا کرنے والی دسویں بڑی ریاست ہو گی۔ایک رپورٹ کے مطابق کردستان ریجنل گورنمنٹ اس وقت امریکا اور چین کے علاوہ متعدد ممالک کو تیل فراہم کر رہی ہے۔ 
ترک صحافی اور تجزیہ نگار مہمت علی گلر کا کہنا ہے کہ امریکا ’گریٹر کردستان‘ کے منصوبے پر قدم بہ قدم آگے بڑھ رہا ہے۔روسی نیوزایجنسی ’سپوتنک‘ کو دئیے جانے والے انٹرویو میں ان کاکہنا ہے کہ شام میں کرد ملیشیا کو دا عش کے خلاف استعمال کرنے کا مقصد یہی تھا کہ انھیں مستحکم کرکے ایک کرد ریاست قائم کی جائے۔ امریکا کردوں کو دا عش کے خلاف سب سے موثر اتحادی قراردیتاہے۔ امریکا کرد رضاکاروں کو نہ صرف ٹریننگ بلکہ بھاری پیمانے پر عسکری امداد بھی فراہم کر رہا ہے۔ گلر کے مطابق پینٹاگون کرد ملیشیا کو با قاعدہ ایک فوج کی حیثیت دلا رہا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ خطے کے امن کےلئے ضروری ہے کہ امریکی بالادستی کو روکنے کےلئے انقرہ اور دمشق ایک دوسرے کے قریب آئیں۔ ایک اندازے کے مطابق کرد قوم کی آبادی تین سے ساڑھے چار کروڑ ہے، وہ صرف عراق ہی نہیں ترکی، شام، آرمینیا، ایران اور وسطی ایشیا کی بعض ریاستوں میں بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ یورپ اور امریکا میں بھی مقیم ہیں۔ یورپ میں آباد 15 لاکھ کردوں میں سے نصف جرمنی میں ہیں۔ 
بین الاقوامی مبصرین کے نزدیک عراق کی صورت حال اس قدر غیر یقینی ہے کہ اس ریفرنڈم کا نتیجہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ماضی قریب میں برطانیہ میں اسکاٹ لینڈ کی علیحدگی اور اس سے پہلے کینیڈا میںکیوبیک نامی علاقے کی علیحدگی کےلئے ریفرنڈم ناکام ہو چکے ہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ علیحدگی کےلئے منعقد ہونے والے سارے ریفرنڈم ناکام ہی ہوتے ہیں۔ نو برس قبل کوسووو کی سربیا سے علیحدگی کا ریفرنڈم کامیاب ہوا،آج کوسووو علیحدہ مملکت کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔ یاد رہے کہ عراق کینیڈا یا برطانیہ نہیں، یہاںکی آبادی 2003ءسے دنیا میں سب سے بدترین حالات سے گزر رہی ہے۔ 
سیکر نامی ایک امریکی جیو ملٹری تجزیہ نگار لکھتا ہے کہ کرد واحد گروہ ہے جو امریکا کو گراو ¿نڈ پر میسر ہے، امریکا اسےضرور استعمال کرے گا۔ اس کا کہنا ہے:”مجھے یقین ہے کہ امریکا شام کو تقسیم کرے گا کیونکہ امریکی جس چیز کوکنٹرول نہیں کر سکتے اسے توڑ دیتے ہیں“۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکا کردستان کے ذریعہ شام کو کمزور کرکے ترکی اور ایران پر دباو ¿ بڑھانا چاہتا ہے۔ روس اس منصوبے کے خلاف ہے۔ اسکے علاوہ ایران اور ترکی بھی داخلی کرد بغاوتوں کے ڈر سے اس منصوبے کے خلاف ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا کردستان کی علیحدہ ریاست کے مقامی خواب یا دنیا کی ڈوریں ہلانے والوں کے بیرونی منصوبے پورے ہونے کے بعد اس علاقے کے حالت میں کچھ بہتری آئے گیاور کیا مقامی آبادی اس کے بعد چین کا سانس لے سکے گی؟ خطے کے دوسرے فریقوں کے علاوہ بین الاقوامی سیاست کے کھلاڑی اس متوقع تبدیلی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟اور خطے کے سیاسی منظر نامے میںکیا تبدیلی آ سکتی ہے؟ خود عراق، ترکی، شام اور عراق میں موجود دوسری سیاسی اور عسکری قوتیں جن میں داعش بھی ایک اہم فریق ہے،کے آزاد اور خود مختار کردستان کے حوالے سے کیا خدشات پائے جاتے ہیں؟
’کردستان ریجنل گورنمنٹ‘ پہلی خلیجی جنگ کے دو سال بعد امریکا ہی کے تعاون سے وجود میں آئی، اسکے بعد سے اپنا جمہوری وجود برقرار رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ فی الوقت اس کی آئینی حیثیت عراق کے ایک فیڈرل ریجن کے طور پر ہے۔ عراقی آئین کے مطابق فیڈرل ریجن داخلی معاملات میںآزاد ہوتے ہیں جبکہ بغداد کی مرکزی حکومت بین الاقوامی معاملات کی ذ مہ دار ہے۔
سن 2014ء میں دا عش کے شامی علاقے پر قبضے کے بعد کردستان ریجنل گورنمنٹ نے تیل کی دولت سے مالا مال کرکوک کے علاقے پر کنٹرول حاصل کرکے اسے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ یہاںکردوں کے علاوہ بڑی تعداد میں عرب اور ترکمان بھی آباد ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صدام کے زمانے میں آبادی کے توازن کو حکومت کے حق میں کرنے کےلئے یہاں عربوں کو ایک منصوبہ کے تحت بسایا گیا جس کے نتیجے میں90 ءکے عشرے میں یہ عرب اکثریتی علاقہ ہوگیا ۔ حالیہ برسوں میں عراقی عرب خود بھی شمال سے علاقے کی نسبتاً پر امن صورت حال کی وجہ سے ادھر کا رخ کرتے رہے ہیں۔
صدام حسینکے بعد جلا وطن کرد بڑی تعداد میں علاقے میں واپس آئے اور عربوں نے علاقہ چھوڑدیا مگر آبادی کے حالیہ تناسب کے بارے میں کچھ کہنا ہے۔ اس علاقے کو ’بارود سے بھری کان‘ بھی کہا جاتا ہے جہاں کسی بھی وقت خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے۔ کردستان کی علیحدگی کے بعد یہاں رہنے والے عربوں میں بے چینی لازمی ہے جو حالات میں خرابی کا با عث بن سکتی ہے۔ عراق میں امریکی حملے کے نتیجے میںانتہا پسند قوتوں کے طاقتور ہونے کے بعد کسی بھی علاقائی تنازعہ میں ان کی مداخلت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بے چینی علاقائی عربوں کو بغاوت پر آمادہ کر سکتی ہے یا داعش بذات خود اس تنازعہ میں کود سکتی ہے جو مقامی آبادی کے مسائل میں مزید اضافے کے ساتھ ساتھ امن و امان کو تباہ کرنے میں بھی یقیناً اپنا حصہ ڈالے گی۔ 
کردستان ریجنل حکومت جمہوری رویوں کے فقدان اور کرپشن کے باوجود باقی عراق کے مقابلے میں بہت بہترکام کر رہی ہے۔ بین الاقوامی صحافی مائیکل جے ٹوٹن نےحالیہ برسوں میں متعدد بار علاقے کا دورہ کیا اور کردستان کو امریکی ریاست کینساس سے زیادہ محفوظ پایا۔ ان کا کہنا ہے:”اگر آپ بغداد یا موصل سے آ رہے ہیں تو یہ سویٹزرلینڈ جیسا ہے“۔
کردستان انتظامی لحاظ سے چار حصوں میں تقسیم ہے۔ ان میں سے دوھک، اربیل اور سلیمانیہ باقی عراق کے بر عکس صدام حسین کا تختہ الٹنے کے بعد سے مسلح تنازعات سے پاک ہیں مگر کرکوک اب بھی جنگ زدہ خطہ ہے، یہاں تنہا سفر کرنا خطرناک ہے۔ موت، اغوا، کے علاوہ آپ کی کار کو کسی دھماکے سے اڑائے جانے کا بھی خطرہ ہے۔ بعض اوقات کرد حکوت کی سرکاری پناہ میں سفر کرنے والے بین الاقوامی مبصرین کو بھی کار بم دھماکوں سے اڑا دینے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ امن عامہ کی ابتر صورتحال کے باوجود تیل کی دولت کے سبب کرد حکومت کے ساتھ ساتھ کرکوک بھی بغداد کی وش لسٹ میں بھی شامل ہے۔ اس بات کا امکان بھی ہے کہ بغداد میں موجودہ امریکی کٹھ پتلی حکومت کو اندرونی مسائل سے فرصت ملے تو وہ بھی کرکوک حاصل کرنے کی کوشش کرسکتی ہے۔ بغداد حکومت کی یہ خواہش پوری ہوناآسان نہیں۔ ماضی میں صدام حسین کی طاقتور فوج کو کردستان میں شدید مشکلات کا سامنا رہا تھا۔کرکوک کی زبردستی خود مختار کردستان میں شرکت بھی مسائل کھڑی کر رہی ہے اور کرتی رہے گی۔ 

ترکی کے تحفظات 
اس معاملے کا ایک اہم فریق ترکی بھی ہے جس کے کردار کو عراق اور شام کی علاقائی سیاست کے تناظر میں نظر انداز نہیںکیا جا سکتا۔ کرد علیحدگی پسند جدوجہد کو بغدادکی کٹھ پتلی حکومت سے زیادہ خطرہ بلا شبہ ترکی سے ہے۔ ترکی عرصہ سے اپنے ہاںکرد علیحدگی پسند تنظیم PKK سے نمٹ رہا ہے۔ PKK جسے مارکسسٹ لیننسٹ ورکرز پارٹی بھی کہا جاتا ہے، اس وقت شام میں داعش کے خلاف سرگرم اور امریکا سے عسکری امداد بھی وصول کررہی ہے جس پر ترکی کو داعش کے خلاف اتحادکا حصہ ہوتے ہوئے بھی شدید تحفظات ہیں۔ترکی نے کرکوک کی کردستان میں شمولیت پر اپنے تحفظات ظاہر کئے۔ رواں سال جون میں صدرایردوان کے نمائندہ نے شمالی عرا ق کی خود مختاری کے ریفرنڈم پر گہرے صدمے کا اظہار کیا۔ صدر ایردوان کا کہنا ہے کہ شمالی عراق کی آزادی خطے کی سالمیت کےلئے خطرہ ہو گی۔ یاد رہے کہ ترکی میں کرد علیحدگی پسندوں کی دہشت گردی کے باوجود ایردوان اور کردستان کے صدر مسعود برزانی کے درمیان سفارتی تعلقات موجود ہیں۔ ترکی کا کہنا ہے کہ کرکوک عراقی آئین کے مطابق عراقی شہر ہے اور کردستان کی حدود سے باہر ہے۔ ترکی بجا طور پر خود مختار کردستان سے خطرہ محسوس کر رہا ہے کیونکہ یہ اس کے ہاں بھی کرد بغاوت میں شدت پیدا کر نے کا با عث بن سکتا ہے۔ 

امریکا کا کردار
کردوں نے 2003ءکے امریکی حملے میں صدام کے خلاف امریکا کا ساتھ دیا تھا۔ امریکی قبضے کے بعد بننے والی ’عراقی گورننگ کونسل‘ میں بھی کرد شیعوں کے ساتھ شامل رہے۔ کرد تنظیم PKK فی الوقت امریکا کی سب سے مستحکم اور قابل اعتماد اتحادی جانی جاتی ہیں۔ دا عش کے خلاف کاروائیوں میں اس نے اپنی عسکری صلاحیتوں کو خوب منوایا۔ امریکا کےلئے یہ بات اطمینان بخش ہے کہ PKK ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا ’حزب اللہ‘ سے فاصلہ رکھے ہوئے ہے، مستقبل میں بھی ان دونوں عسکری تنظیموں کے قریب آنے کا کوئی امکان نہیں۔ اس کے علاوہ کرد روس کے بھی قریب نہیں ہیں۔وہ دا عش سے یا سلفی تنظیموں سے بھی دور ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ بھی بظاہر آزاد کردستان کی مخالفت کر رہی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک آزاد کردستان کے مقابلے میں امریکا کا حمایت یافتہ کردستان زیادہ مستحکم ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کردستان امریکا کے ایک سیٹلایٹ ملک کے طور پر ابھرتا ہے یا ایک واقعی آزاد ریاست کے طور پر۔اس خطہ کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے اسے شام اور عراق کی بیلکنایزیشن(Balkanization) کہا جا رہا ہے جس کے منصوبہ سازوں کے یقیناً اپنے اپنے خواب ہوںگے، وہ اس خودمختاری سے فوائد سمیٹنے کےلئے مستعد ہوںگے۔
جس نئے مشرق وسطیٰ کی تعمیر کا اعلان 2006ءمیں امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ کونڈو لیزا رائس نے اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میںکیا تھا،اس کےلئے مشرق وسطیٰ میں انتشار اور شورشیں پھیلانا بہت ضروری تھا۔ افغانستان اور عراق پر امریکی حملہ، عراق کے انتظامی اور شہری انفراسٹرکچر اور اداروں کی تباہی، دنیا کے دوسرے بڑے تیل پیدا کرنے والے ملک میں غربت، بدحالی اور بھوک کے علاوہ مذہبی مقامات پر حملوں کے ذریعہ فرقہ واریت کے پھیلاو ¿، عراق کے گلی کوچوں کے علاوہ ابو غریب جیسے مقامات میں عراقیوں کی ذلت نے جس انتہا پسندی کو جنم دیا ، اس کے نتائج یہی نکلناتھے بلکہ اسرائیل میں مقیم صحافی جوناتھن کوک کے بقول ’یہ سب نتائج حملے کے منصوبہ سازوں کے پلان کے عین مطابق ہیں‘۔ 

اگرگریٹر کردستان وجود میں آ جاتا ہے تو یہ ایک طرح سے امریکا کی ’سیٹیلائٹ سٹیٹ‘ ہوگا جو اپنی حفاظت کےلئے امریکی فضائیہ کا محتاج ہوگا۔ امریکا اور دوسری بالادست طاقتوں کی حکمت عملی نئی نہیں، عراق کو سلطنت عثمانیہ سے الگ کرکے جوکٹھ پتلی حکومت آج سے پورے سو سال پہلے بنائی گئی تھی، وہ بھی برطانیہ کی اسی طرح محتاج تھی۔ نائن الیون کے بعد افغانستان اور عراق میں جو حکومتیں بنائی گئیں، ان کا بھی یہی حال ہے۔ ایسی حکومتوں کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ملک کے اصل سیاسی سٹیک ہولڈرز ایسی حکومت کے خلاف بغاوتیں کرتے رہتے ہیں، ملک میں خانہ جنگی جاری رہتی ہے،کیونکہ منصوبہ سازوںکی منصوبہ بندی کا مقصد یہی ہوتا ہے



یہاں بس ایک سوال جواب کا طلبگار ہے اگر کردوں کو علیحدہ وطن مل سکتا ہے تو بد ترین نسل کشی کا شکار برما کے روہنگیا کو کیوں نہیں؟ اسکی بات نہ اقوام علم کے ایوانوں میں ہو رہی ہے نہ تیل پیدا کرنے والے ممالک کے سربراہان کے محلوں میں!

1 comment:

  1. Bitter truth with excellent analysis Tazeen, so happy to see you as a emerging critic .

    ReplyDelete