Friday, August 16, 2019

نیّر زیدی واشنگٹن


Nayyar Zaidi

تزئین حسن 

بچپن سے جنگ اور اخبار جہاں کے صفحات پر ایک نام دیکھتے رہے نیّر زیدی جسکے ساتھ واشنگٹن کچھ ایسے جڑا ہوتا کہ نام کا ہی حصہ محسوس ہوتا- ٢٠٠٨ میں انہیں امریکا میں گرفتار کیا گیا - مجھے کوئی تین سال پیشتر ایک پٹیشن نیٹ پر ملی تھی جسے کوئی چالیس کے قریب لوگوں نے سائن کیا تھا- پٹیشن کے ساتھ ایک تفصیلی ماموں بھی تھا جس پر کوئی تاریخ موجود نہیں-  اور کوئی حوالہ بھی موجود نہیں کہ دی گئی معلومات کہاں سے لی گئی ہے- لنک 

نیّر زیدی ورجینیا میں کوئی بیس سال سے زائد عرصے سے مقیم تھے اور جنگ، اخبار جہاں، جیو، بی بی سی اردو، اور بہت سے دوسرے میڈیا کے لئے سیاسی تجزیہ کاری کرتے تھے-   

مضمون کے مطابق انہیں ایف بی آئ نے با قائدہ ایک جرم میں ملوث کر کہ اغوا کیا اور یہ ایک طرح سے وار آن ٹیرر کی سفاکیوں کا شکار ہوئے-  

مضمون کے مطابق انہیں ایف بی آئ نے نائن الیون کے بعد اپنا انفارمنٹ یعنی جاسوس بننے کا آفر کی جسے انہوں نے مسترد کر دیا- اسکے کچھ عرصے بعد انہیں دہشت گردی کے الزام میں ملوث کرنے کی کوشش کی گئی اور انکی اپنی جاسوسی کی گئی- انکی فون اور انٹرنیٹ وغیرہ کوٹیپ کیا گیا-  ایڈورڈ سنو ڈن  اور کچھ دیگر گھر کے بھیدیوں نے اس بات کو بےنقاب کیا ہے کہ امریکی حکومت کے محکمے ایسی حرکتوں میں ملوث رہے ہیں- اب یہ بات خود امریکا میں بھی تسلیم شدہ ہے-

پٹیشن کے ساتھ دیئے گئے مضمون کے مطابق ٢٠٠٣ میں سی این این کے جوناتھن مین نامی اینکر نے نیّر زیدی کے ساتھ انسائٹ ود جوناتھن مین میں انٹرویو بھی کیا-  اس انٹرویو کی ٹرانسکرپٹ ریکارڈ اور وڈیو ہٹا دی گئی ہے- اگر آپ نیّر زیدی اور جوناتھن مین کو گوگل کریں تو اس انٹرویو کا ٹرانسکرپٹ لنک سامنے آتا ہے لیکن پیج کام نہیں کر رہا کا انگریزی میسج سامنے آتا ہے-  لنک  

مضمون کے مطابق ٢٠٠٨ میں نیر زیدی کو ایک فون کال موصول ہوئی جس کے مطابق ایک ماں نے اپنی تیرا سالہ بیٹی کے بارے میں بتایا کہ وہ کسی بوڑھے آدمی کے ساتھ جنسی صحبت کرنا چاہتی ہے- نیّر زیدی نے ماں اور بیٹی سے پرائیویٹ پلیس پر ملنے سے انکار کر دیا لیکن تجسس سے مجبور ہو کر ایک پبلک پلیس یعنی ایک پارکنگ لاٹ میں ملنے کی آمادگی ظاہر کی- وقت مقررہ پر جیسے ہی وہ پارکنگ لاٹ میں گاڑی سمیت داخل ہوے وہاں موجود بڑی تعداد میں ایف بی آئ کے نمائندوں نے بغیر کسی وارنٹ کے انہیں گرفتار کر لیا- 

مضمون کے مطابق ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے انٹرنیٹ پر ایک تیرا سالہ بچی کو جنسی صحبت کے لئے بھلا پھسلا کر راضی کیا اوراب اس سے ملنے یہ وہاں پہنچے تھے- انکی گرفتاری اور اس الزام کی تصدیق انٹرنیٹ پر موجود دوسرے مضامین سے بھی ہوتی ہے- لنک       

انٹرنیٹ پر موجود دوسرے مضامین کے مطابق الزام میں یہ بات بھی صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ فون پر لڑکی کی ماں کی جگہ ایف بی آئ کا کوئی انڈر کور ایجنٹ موجود تھا- 

نیّر زیدی کو وارنٹ کے بغیر گرفتار کیا گیا اور ٢٣ مارچ کو تین بعد جب جج کے سامنے پیش کیا گیا تو اس وقت بھی انکے خلاف کوئی پولیس وارنٹ موجود نہیں تھا جو کہ امریکی آئین کی پانچویں ترمیم کی خلاف ورزی ہے- اسکے علاوہ انہیں کسی گرینڈ جیوری کے سامنے بھی پیش نہیں کیا گیا- 

مضمون کے مطابق امریکی انٹیلی جنس ایجنسیز نے انکے وکلاء کو ہراساں کیا اور بلآخر نیّر زیدی نے اپنا کیس خود لڑنے کا فیصلہ یہ جانتے ہوئے کیا کہ امریکا میں یہ بات  ہمیشہ مدعا علیہ کے خلاف جاتی ہے- 




یاد رہے  ان پر اٹھارہ سال سے کم عمر  یعنی ایک تیرا سالہ بچی کو غیر قانونی (امریکی قانون کے مطابق ) جنسی سرگرمی کے لئے اکسانے، ترغیب دینے،  ورغلانے، جبر کرنے کا الزام ہے- 



انٹرنیٹ پر ہی ارشاد سلیم، دیس پردیس نامی ویب سائٹ کے ایڈیٹر  کا بہت صاف اور شستہ انگریزی میں لکھا ہوا ایک اور مضمون بھی موجود ہے- مضمون پر نام موجود نہیں لیکن مصنف کا کہنا ہے کہ جولائی کے مہینے میں نیّر زیدی کی شریک حیات شاہین نے ان سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ وہ کوئی تین مہینے سے جیل  میں ہیں- شاہین نے ان صاحب کو نیّر زیدی کی جیل میں ہونے والے رابطوں کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا- پھر ان صاحب کو نیّر زیدی کی فون کال اوہائیو جیل سے موصول ہوئی جس میں انکی درخواست تھی کہ اس معاملے کو پبلک کیا جائے-   

ارشاد سلیم کے مطابق نیّر زیدی کا کہنا تھا کہ وہ اس سے قبل اوہائیو جیل میں ان قیدیوں کے لئے آواز اٹھانے کے سلسلے میں ریسرچ کرنے آئے تھے جنھیں انصاف ملنے میں رکاوٹ کا سامنا تھا لیکن آج وہ خود اوہائیو جیل میں ایک قیدی کی حسیت سے موجود تھے- 

ارشاد سلیم کے مطابق انہوں نے کیس پر تبصرہ کے بغیر نیّر زیدی کو اخلاقی مدد دینے کا وادا کیا اور ان دستاویزات کو تفصیلی طور پر دیکھنے کا بھی وعدہ کیا- اسکے بعد انہوں پاکستانی ایمبیسی واشنگٹن کے پریس اتاشی کیانی سے رابطہ کیا جس پر کیانی نے انہیں انفارم کیا کہ انہیں حال ہی میں پاکستانی سفیر حسین حقانی سے نیّر زیدی کی گرفتاری کی اطلاع ملی ہے اور حسین حقانی بھی اس پر "تشویش زدہ" ہیں-

نیٹ ہی پر موجود ایک اور مضمون میں ڈیلی ٹائمز کے حوالے سے کہا گے اہے کہ نیّر زیدی سے ٢٠٠٣ میں ایف بی آئ نے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ انکے گھر کے فون نمبر سے نائن الیون کے بعد دس مختلف بیروں کالز کی گئیں جن میں انڈیا، پاکستان، چین، ہالینڈ اور تھائی لینڈ شامل ہیں- اور یہ نمبر نائن الیون کی واردات میں شامل تفتیش ہیں- ان سے کہا گیا کہ وہ اپنی ٹیلی فون بک ایف بی آئے سے شئیر کریں- نیّر زیدی نے اس درخواست یا حکم کی تعمیل سے انکار کر دیا-  اس سے قبل نیّر زیدی سے امریکی انٹیلی جنس حکام نے ١٩٩٥ میں بھی رابطہ کیا تھا جب یہ پی ٹی وی کے لئے کام کرتے تھے اور انہیں انفرمنٹ بننے کی آفر کی تھی جسے انہوں نے مسترد کر دیا تھا- 

اس پٹیشن کے مطابق ( جو ان سب مضامین سے زیادہ لیٹیسٹ ہے)، نیّر زیدی تاحال جیل میں ہیں- 

نائن الیون کے بعد امریکا میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کے واقعات سامنے آئے ہیں اور انھیں اپنی معلومات کی سورسز شئیر کرنے کے احکامات بھی موصول ہوے ہیں جیسے نیو یارک ٹائمز کی صحافی جنہوں نے عراق میں بارے پیمانے پی تباہ پھیلانے والے ہتھیاروں کی تصدیق پر مبنی مضامین بغیر سورس کا نام لئے شائع کیے- لیکن نیّر زیدی کا معاملہ مختلف تھا- انکے کسی مضمون سے امریکی پالیسی سازوں نے استفادہ نہیں کیا تھا- جہاں تک بات تیرا سالہ لڑکی کو جنسی زیادتی کے لئے ورغلانے کی ہے تو اگر واقعی نیّر زیدی اس قسم کا کردار رکھتے تھے تو انہیں لڑکی سے کسی پرائیویٹ جگہ ملنا چاہیے تھا- کسی بھی  فیملی رکھنے والے بظاہر با عزت پاکستانی کی ترجیح ایسے معاملات میں یہی ہو گی-     

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنگ گروپ جو اس وقت جیو کو بھی چلا رہا تھا نیّر زیدی کی گرفتاری پر کوئی آواز کیوں نہیں اٹھائی؟ بیبی سی اردو اور دیگر میڈیا بھی اس پر خاموش رہے- نیّر زیدی کی فیملی جو یقیناً امریکی شہری ہے وہ کیوں خاموش ہے- نیّر زیدی کوئی تیس سال سے میڈیا میں سرگرم تھے انکے لا تعداد دوست احباب امریکا، پاکستان اور دنیا بھر میں موجود ہونگے- وہ کیوں خاموش ہیں؟ خود حسین حقانی جو امریکی سفیر تھے انھوں نے اس معاملے میں کیا کیا-    

پاکستان میں کسی صحافی تنظیم نے اس گرفتاری اور پھر جیل میں سزا پر احتجاج نہیں کیا جبکہ یہ وہ دور تھا جب "سب سے پہلے" کی دوڑ نے پاکستانی ٹی وی چینلوں کو چکرا کہ رکھا ہوا تھا- پاکستانی میڈیا انتہائی سر گرم میڈیا تھا، پابندیاں بھی نہ ہونے کے برابر تھیں- 

میری ذاتی رائے میں نیّر زیدی کی فیملی کو امریکی حکام نے ہراساں کر کہ خاموش رہنے پر مجبور کیا کہ ایسی کسی بھی احتجاجی تحریک میں انکا کردار مرکزی ہونا تھا- اور انکے عملی تعاون کے بغیر کوئی احتجاجی تحریک شروع نہیں کی جا سکتی تھی- 

کسی کو انکے بارے میں کچھ معلوم ہے؟ جنگ گروپ یا جیو یا کوئی بھی صحافی تنظیم انکے لئے کچھ کر رہی ہے؟ کوئی انکی فیملی کو جانتا ہے؟

نیّر زیدی سے نائن الیون کے بعد ہونے والی انویسٹیگیشن کے بارے میں لنک. 

No comments:

Post a Comment