Saturday, March 9, 2019

میں ان نعروں سے بری ہوں

میں ان نعروں سے بری ہوں مگر میں نے پاکستانی معاشرے کے ہر طبقے میں عورت کا استحصال دیکھا ہے-

تزئین حسن

پچھلے سال سے کسی خواتین ڈے کی مارچ کو بہانہ بنا کر جن میں کچھ نازیبا پلے کارڈز کا ڈسپلے ہوا، قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے- ہمارے فیس بکی دانشوران سے لیکر کالم نگاروں یہاں تک کے ڈرامہ لکھنے والوں تک کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور موضوع نہیں رہ گیا- ہم سب جانتے ہیں کہ گنتی کی یہ چند عورتیں پاکستانی عورت کی نمائندگی نہیں کرتیں- عام پاکستانی اور مسلم معاشرے کی عورت جن مسائل کا شکار ہے اس کا منہ یہ نعرے سنا کر بند کیا جا رہا ہے- ویسے تو وہ بیچاری پہلے ہی کچھ نہیں بولتی- لیکن اس سے آگے بڑھ کر میں یہ بھی دیکھ رہی ہوں کہ خواتین کے حقوق کی بحث کو ان گنتی کی چند خواتین اور انکے نا زیبا نعروں کا بہانہ بنا کرایک غلط سمت موڑ دیا گے ہے- یہاں تک کے انکے جائز حقوق کی بات کرنے کو بھی اس مارچ کی حمایت کا نام دیا جا رہا ہے-

میرا تعلق ایک پڑھے لکھے متوسط پاکستانی گھرانے سے ہے- میری  والدہ، 
والد، نانا، ماموں. پھپا، چچا، بڑے کزنز کے علاوہ شادی کے بعد میرے شریک حیات نے بھی میری تعلیم، ملازمت، سماجی خدمات، جہاد بلقلم کے لئے مجھے ہر طرح کے وسائل فراہم کے ہیں اور میری ہر طرح سے حوصلہ افزائی کی ہے- دوسری طرف میری ماں نے مجھے اس بات کی بھی تربیت دی کہ گھر سب سے زیادہ اہم ہے- آئندہ نسلوں کی تربیت آفس میں کام کرنے اور پیسہ کمانے سے زیادہ اہم ہے- میرا ان نعروں سے کوئی تعلق نہیں جو مذکورہ اور بہت زیادہ مذکورہ خواتین مارچ میں لگائے جا رہے ہیں- پانچ سال سے مغرب میں قیام کے با عث ایک پر تجسس صحافی کی حیثیت سے میں مغربی عورت کے مسائل اور معاشرے میں اسکی حیثیت کو بھی بہت قریب سے دیکھ رہی ہوں- 

لیکن خدا را اسکا مطلب یہ نہیں کہ آپ پاکستانی عورت کے مسائل کو 'میرا جسم میری مرضی' اور کھانا خود گرم کر لو' کا بہانہ بنا کر نظر انداز کر دیں- انکے جائز حقوق کو یہ کہہ کر نظر انداز کر دیا جائے کہ انہیں تو سارے حقوق اسی دن مل گئے تھے جس دن سورۂ نساء نازل ہوئی- سورہ نساء ہی نہیں پورا قران خواتین کے حقوق کی بحث جگہ جگہ چھیڑتا ہے- قران کے مصنف کا لہجہ تو اپنی اس کمزور مخلوق کے لئے محبت سے لبریز ہے لیکن مسلم معاشروں میں اس صنف نازک کو جس حقارت سے دیکھا جاتا ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا- یہ بات میں اپنے ذاتی تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر کہہ رہی ہوں- ہم اپنی بیٹی کو تو پڑھانا چاہتے ہیں لیکن دوسرے کی بیٹی کی عزت کرنے اور اسے اسکے جائز حقوق دینے پر آمادہ نہیں- قران کے اصولوں کو ایک طرف رکھ کر ہم عائلی معاملات میں ہندو مت کی پیروی کو دین سمجھتے ہیں- معاشرے کے ہر طبقے میں عورت کے ساتھ تفریق رکھی جاتی ہے اور یہ معاشرے کا مزاج ہے جسے عورت خود بھی سپورٹ کرتی ہے- ان گنتی کی چند خواتین نے خواتین کے حقوق کی بات نہیں کی، اصل عورت کا منہ بھی بند کر دیا ہے جو اپنے جائز حق کے لئے کچھ کہنا چاہتی ہے- 

خدا را ! ان چند خواتین کو بہانہ بنا کر معاشرے کے مختلف طبقات کی عورت کے مسائل کو نظر انداز نہ کریں- اسے اس کی وہ حیثیت دینے کے لئے جدو جہد کریں جو اسے قران کے مصنف نے اور میرے آقا صلیٰ الله علیہ وسلم نے دی ہے-

اور آخری بات یہ کہ گستاخی کے خاکوں اور فلموں کی طرح ان خواتین کے نعروں کی اشتہاری مہم چلانے کا ذریعہ نہیں بنیں-    

No comments:

Post a Comment