Thursday, March 21, 2019

زبردستی کی شادیاں ہماری مذہبی اور معاشرتی اقدار اور کریم کا اشتہار اسرائیل کا ایجنڈا




زبردستی کی شادیاں ہماری مذہبی اور معاشرتی اقدار اور کریم کا اشتہار اسرائیل کا ایجنڈا 
لیکن سوچنے کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے سے غیر اسلامی رویوں کے خلاف جدوجہد کب شروع ہوگی؟

تزئین حسن 

پاکستانی قوم کے مسائل بھی بہت گھمبیر ہیں، ابھی ویلینٹائن ڈے پر سب و شتم ختم نہیں ہوا تھا کہ سوشل میڈیا پرعورت مارچ کے خلاف گالیوں کا نہ ختم ہونے  سلسلہ شروع ہو گیا گو اسکی باز گشت ابھی باقی ہے- تین دن پہلے  سوشل میڈیا پر  کریم نامی کمرشل ٹیکسی سروس کے اس بل بورڈ کی تصویر گردش کر رہی ہے- زبردستی کی شادی پر خاموش رہنے والے ہمارے معاشرے کے ضرورت سے زیادہ حساس طبقات اس ہورڈنگ پر لکھی تحریر پربرا فروختہ ہورہے ہیں جسکے مطابق شادی سے بھاگنے والی لڑکیاں کریم کی بائیک سروس کال کر سکتی ہیں-
کریم، جو میری اطلاعات کے مطابق اہل وطن کو سستی اور معیاری ٹرانسپورٹ سروس فراہم کر رہا تھا، پر ہمارے کلچر، اخلاقی اور مذہبی اقدار کو تبدیل کرنے کے انٹرنیشنل ایجنڈے پر کام کرنے کا الزام ہے- اس بات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ کریم کا بائی کاٹ کیا جائے- اس میں قابل غور لفظ 'مذہبی اقدار' ہیں- سمجھ نہیں آتا کہ ہمارا معاشرہ جو دین کے شعائر سے متصادم کلچرل روایات کو خاموشی سے برداشت کرتا ہے ایسے موقعوں پر اچانک اتنا حساس کیوں ہو جاتا ہے کہ  اسے مذہب اور ثقافت دونوں اسلام کے اس قلعہ میں شدید خطرے میں  نظر آنے لگتے  ہیں-

سوال یہ ہے کہ کیا لڑکیاں کریم کے اشتہار کی وجہ سے بھاگیں گی یا اس لئے بھاگیں گی کہ وہ شادی نہیں کرنا چاہتیں یا اس فرد سے کرنا نہیں چاہتیں جس سے انکی شادی کی جا رہے ہے؟ اگر وہ شادی پر راضی نہیں تو کیا مذہب اسکی اجازت دیتا ہے کہ انکی زبردستی شادی کر دی جائے؟ اور کیا واقعی شادی کے دن بھاگنے والی لڑکیوں کی تعداد  میں اضافے کے لئے ہمیں کسی مغربی  ایجنڈے کی ضرورت ہے؟  ہمارے اپنے معاشرتی رویئے جنھیں عین دین سمجھا جاتا ہے ایسے واقعات کے لئے تحریک نہیں بنتے؟  
ہم ایک مزاحیہ سچویشن کے اشتہار میں استعمال  پر اتنے حساس ہیں لیکن زبردستی کی شادی کے وقت پر ہماری خاموشی معنی خیز ہے-  ٹویٹر اور فیس بک کھول کر دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ کریم کے اس اشتہار پر  پاکستانی معاشرہ کا ایک طبقہ تڑپ اٹھا ہے لیکن سوال یہ کہ جب واضح مذہبی اقدار کو پامال کیا جا رہا ہوتا ہے، اس وقت ہماری حساسیت کہاں جاتی ہے-
اگر اشتہار کی اس مزاح کے پیرائے میں بیان کردہ تحریر کو سنجیدگی سے لیا جائے تو  بھی شاید ہی اس بات سے اتفاق کیا جا سکے کہ  یہ ہمارے کلچر کی نمائندگی نہیں کرتا -  کم از کم شادی کے دن گھر سے بھاگنے کی روایت  سویئڈن ، روس یا   اسرائیل  سے تو ہر گز بر آمد  نہیں ہوئی -
مگراس سے بڑھ کر سوال یہ ہے کہ  کیا ایسی  شادیاں ہمارے مذہب کی نمائندگی کرتی ہیں جس میں لڑکیاں  چھوڑ لڑکوں تک کا نکاح گن پائنٹ پر انکی مرضی کے بغیر کر دیا جاتا ہے- اور معاشرہ زوجین سے یہ امید کرتا ہے کہ وہ اس رشتے کو مرتے دم تک نبھائیں گے اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والی 'جائز' اولاد سے اسلام کے اس قلعہ کو مستحکم کیا جائے گا- 
 کیا سوشل میڈیا پر کریم کے  اس بے ضرر اشتہار کا تعلق مغربی سازشوں سے جوڑنے والوں کو ان شادیوں سے مذہبی احکامات روایت پر کوئی ضرب پڑتی محسوس نہیں ہوتی  یا انہوں نے کبھی ان شادیوں اور انکے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد کی شرعی حیثیت کے بارے میں غور کرنے کی کوشش کی جو فریقین کی مرضی کے بغیر انجام پاتی ہیں؟
چند سال پہلے پسند کی شادی کے موضوع پر ایک ٹی وی ٹاک شو پرایک خاتون عالمہ کی بات مجھے بہت پسند آئی- انکا کہنا تھا، 'پتہ نہیں آپ نے کن لوگوں کو بلا کر بٹھایا ہے اور یہ کیا باتیں کر رہے ہیں(اشارہ ان مرد عالم کہلانے والوں کی طرف تھا جو اظہار خیال کر رہے تھے کہ دین میں پسند کی شادی کی گنجائش ہے یا نہیں) ،  پسند کے بغیر تو اسلام میں شادی ہوتی ہی نہیں ہے-"   اس بات سے بڑے سے بڑا دینی عا لم انکار نہیں کر سکتا کہ بالغ بچے کو اسکا اچھا برا بتانا والدین کا فرض اور حق ہے لیکن اسکی مرضی کے بغیر اسکی شادی کی شرع میں اجازت نہیں  مگر معاشرہ  کا ایک خاص طبقہ جو ہر چیز میں مذہب کو لیکر آتا ہے یہ سمجھنے پر راضی نہیں-
ہمارے معاشرے میں زبردستی کی شادی کی روایت اتنی عام ہے کہ پڑھے لکھے  خاندان  تک بعض اوقات اسے ایک معمولی چیز سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں- پچھلے دنوں کینیڈا میں ایک جاننے والی خاتون پاکستان سے اپنے بیٹے کے لئے نند کی بیٹی بڑے چاؤ سے بیاہ کر لائیں لیکن لڑکی نے کینیڈا پہنچ کر لڑکے کے ساتھ رہنے سے  انکار کر دیا- اسکا کہنا تھا کہ میں نے والدین کو شادی سے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ میں کسی اور کو پسند کرتی ہوں اور میرے ساتھ اب تک زبردستی کی گئی ہے- لڑکی نے تین ماہ تک اپنے نکاحی شوہر کو ہاتھ بھی نہ لگانے دیا اور بلآخر پاکستان واپس چلی گئی- خاتون جو ایک مذہبی اور سماجی تنظیم کی با قاعدہ رکن تھیں ظاہر ہے اس صورت حال پر بہت  دکھی تھیں لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ انہیں لڑکی کے والدین کے طرز عمل میں کوئی دینی یا شرعی قباحت محسوس نہیں ہوئی- انکا کہنا تھا کہ اگر والدین نے شادی کر دی تھی تو لڑکی کو نبھانا چاہیے تھا-  

یہ رویئے ہمارے معاشرے میں اتنے راسخ ہیں کہ بسا اوقات انکا عکس ہمیں اینٹرٹینمنٹ میڈیا پر بھی نظر آتا ہے-  سب نہیں لیکن ایسے ڈرامے بڑی  تعداد میں پاکستانی چینلز کی زینت بننے لگے ہیں جن میں ماں اپنے بیٹے کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی پسند کی لڑکی کو چھوڑ کر والدین کی پسند کو اپنا شریک حیات بنائے- مذہب میں ماں کی حیثیت کو بنیاد بنا کر کہانی کو کچھ ایسے ترتیب دیا جاتا ہے کہ یہ پیغام دیا جائے کہ یہ بہت احسن عمل ہے- حالانکہ در پردہ ماں کی نیت یہ ہوتی ہے کہ پسند کی شادی کی صورت میں بیٹے بہو کی اچھی انڈرسٹنڈنگ کی وجہ سے بیٹا ماں کے ہاتھ سے نکل جائے گا- 

ایسے ڈرامے لکھنے اور پسند کرنے والے یہ بات نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اگر اسکی وجہ سے انکی اولاد اپنے شریک حیات کے ساتھ ایڈجسٹ نہ کر سکی یا اپنی پہلی پسند سے تعلق ختم نہ کرنے کی وجہ سے کسی گناہ کا شکار ہوئی تو کون ذمہ دار ہو گا- دو دھائیوں پہلے شاید لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو بھول کر زبردستی کے شریک حیات کے ساتھ اپنی زندگی کسی نہ کسی طرح گھسیٹ لیتے تھے لیکن سوشل میڈیا کے اس دور میں یہ بات تقریباً نا ممکن ہو گئی ہے- نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فریقین اور انکے بچوں سمیت کئی زندگیاں خراب ہوتی ہیں- بعض  اوقات ایک فریق بیچارہ صرف لا علمی میں مارا جاتا ہے-

پچھلے دنوں استخارے کے موضوع کو مرکزی خیال بنانے والے ایک ڈرامے میں دکھایا گیا کہ کہ ایک لڑکی کی شادی اسکی دادی کے استخارے کی بنیاد پر ایک بڑی عمر کے انتہائی سلجھے ہوے دولتمند رشتے دار  سے کر دی جاتی ہے جبکہ وہ اپنے کسی  کلاس فیلو  سے شادی کرنا چاہتی ہے جو اسی کی عمر کا ہے لیکن اتنا دولت مند اور ذمہ دار نہیں- لڑکی استخارے سے قبل اپنے گھر والوں کو اپنی پسند سے آگاہ کر دیتی ہے اور یہ بھی کہ وہ  بڑی عمر کے اس رشتے کو پسند نہیں کرتی- دلچسپ امر یہ ہے کہ کہانی میں اس بڑی عمر  کے صاحب کو اس حد تک مثالی شوہر دکھایا گیا ہے کہ چند سال بعد جب انہیں علم ہوتا ہے کہ انکی منکوحہ کسی اور کو پسند کرتی تھیں تو وہ انہیں طلاق دیکر انکی شادی انکے پسندیدہ لڑکے سے کروا دیتے ہیں-(کیونکہ پلاٹ کا یہ حصہ ڈرامے کے مرکزی خیال سے ہم آہنگ ہے اس لئے اس پر کوئی معترض نہیں ہوا ) بعد ازاں یہ شادی لڑکے کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے بلآخر ختم ہو جاتی ہے اور وہ دوبارہ اپنے پہلے زبردستی کے شوہر سے شادی کر لیتی ہیں-  ڈرامے کا پس پردہ یا کھلا پیغام یہ تھا کہ شادی ہمیشہ صرف والدین کی مرضی سے ہونی  چاہیے اور استخارہ کی حیثیت ان معاملات میں فیصلہ  کن ہے-  ڈرامہ یہ پیغام دینے میں کامیاب تھا کہ شادی میں لڑکی سے پوچھنا ایک بیکار سا عمل ہے جسکی والدین کی مرضی اور استخارے کے آگےکوئی   حیثیت نہیں- کیا یہ پیغام ہماری دینی تعلیمات سے متصادم نہیں؟ اور ایسے ڈراموں سے دینی اقدار کو خطرہ نہیں؟ اگر ہے تو کیا انکے خلاف کوئی آواز اٹھتی ہے؟
یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ ایسے ڈراموں میں زبردستی کے شوہر مثالی شوہروں سے بھی کچھ بڑھ کر ہوتے ہیں جو امارت کے ساتھ ساتھ اعلیٰ ظرفی، متانت، بردباری، کے بلند ترین معیارات کے حامل ہوتے ہیں- جبکہ حقیقی زندگی میں نہ تو زبردستی کی شادی کے شوہر اتنی نفیس طبیعت کے مالک ہوتے ہیں جتنا ڈرامے میں دکھایا جاتا ہے نہ ہی سسرال والے اتنے وسیع دل کے مالک-  
ایسے ہی ایک اور ڈرامے میں دکھایا گیا کہ ایک  مولوی صاحب اپنی بیماری کے دوران بیٹی کا رشتہ اس سے بغیر  پوچھے مندرجہ بالا صفات کے حامل بڑی عمر کے ایک فرشتے سے طے کر دیتے ہیں- "خود سر " اور  'کم عمر'  لڑکی جو اتفاق سے کسی کو پسند نہیں کرتی مگر اپنے حسن پر بہت نازاں ہوتی ہے، شادی سے پہلے اپنی ماں کو واضح طور پر بتا دیتی ہے کہ وہ اس شادی پر راضی نہیں- یہاں تک کہ اپنے مثالی شوہر کو بھی شادی کی رات اپنے خیالات سے آگاہ کر دیتی ہے- اگلی چند قسطوں میں یہ دکھایا جاتا ہے کہ لڑکی مسلسل اپنے شوہر، سسرال والوں، گھر والوں یہاں تک کہ بچوں تک کو بغیر کسی وجہ کہ شدید تنگ کرتی ہے، جبکہ اسکے ارد گرد موجود یہ سبھی لوگ برداشت اور برد باری کی مثال ہوتے ہیں- شوہر اسکی بے جا منفی رویئے  کے باوجود شادی کی پہلی ہی رات (حسن اور معصومیت کی وجہ سے ) اسکے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ  اپنے سسرال کے مالی معاملات کی ذمہ داری بھی اٹھانے لگتا ہے لیکن لڑکی شیطان صفت ہوتی ہے اور آخرکار دو بچوں کی موجودگی میں اپنی ماں کے بے حد سمجھانے بجھانے کے باوجود چھوٹی سی بات کو بہانہ بنا کر طلاق کا مطالبہ کرتی ہے- طلاق کے بعد وہ اپنی ماں سے پہلا  مطالبہ یہ کرتی ہے کہ میری شادی کروا دیں جسے سلجھی ہوئی نیک سیرت ماں بے غیرتی اور بے حیائی گردان کر مسترد کر دیتی ہے- بلآخر "خود سر" لڑکی اپنی ایک دوست اور اسکے شوہر کی مدد سے ایک نوجوان اور خوبصورت لڑکے سے شادی کرتی ہے جو پہلے شوہر جتنا اچھا ثابت نہیں ہوتا ہے لیکن اب وہ  اسکے ساتھ گزارا کرنے پر مجبور ہے- اس سے قطع نظر کہ لڑکی کتنی 'خود سر' تھی اور اس نے اپنے گھر والوں اور سسرال والوں کو اپنی حرکتوں سے کتنا تنگ کیا، اس ڈرامے کا بنیادی پیغام یہ تھا کہ اگر والدین چاہیں تو وہ بیٹی کی مرضی کے خلاف اسکی شادی کر سکتے ہیں  اور لڑکیوں کو چپ چاپ آواز نکالے بغیر ایسی شادیوں کو نبھانا چاہئے- اسلام کے واضح قوانین کے باوجود ہمارا میڈیا بھی روایتی غیر اسلامی سوچ کو ہی  پروان چڑھا رہا ہے -  دلچسپ بات یہ کہ میڈیا کی بے حیائی کے خلاف آواز اٹھانے والے دین پسند  طبقات ڈراموں میں ایسے رویوں کے خلاف کبھی آواز اٹھاتے نظر نہیں آتے جو دین سے براہ راست متصادم ہیں لیکن اگر مذاق میں کسی لڑکی کو شادی کے دن گھر سے بھاگتے ہوے دکھا دیا جائے تو انکو آگ لگ جاتی ہے-  
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس موضوع پر بہت واضح احادیث موجود ہیں اور اگر کسی عالم سے دریافت کریں تو وہ بھی ایسی شادیوں کے حق میں فتویٰ نہیں دیگا- مگر ایسے موقعوں پر مذہب کے ٹھیکے داروں کو نہ دین کے احکامات یاد آتے ہیں نہ احادیث اور اسکی وجہ یہ ہے کہ کلچر اور روایات کو دین سمجھ لیا گیا ہے اور اسے ہی نافذ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے-
 اس سے آگے بڑھ کر روایتی سوچ (اسٹیریو ٹائپنگ) کی حد  اور ستم ظریفی یہ ہے کہ معروف ماڈل اور اداکارہ وینا ملک نے بھی اپنے ٹویٹ میں اس اشتہار کو ’’فاسد‘‘ گردانتے ہوئے، کریم انتظامیہ سے فوراً اسے ہٹانے اور قوم سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔ سوشل میڈیا پر اس ہورڈنگ بورڈ کے خلاف مہم چلنے کے چند گھنٹوں بعد ہی یہ بورڈ ہٹا دیا گیا۔ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے سے غیر اسلامی رویوں کے خلاف جدوجہد کب شروع ہوگی؟ ہم کب ان عوامل پر غور کرنا شروع کریں گے جن کی وجہ سے شادی کے دن ایک لڑکی کو گھر سے بھاگنے کا غیر دانشمندانہ فیصلہ کرنا پڑے۔ اس سے بھی بڑھ کر، ہم معاشرے کی انتہا پسندانہ سوچ کے خلاف کب جہاد شروع کریں گے؟

No comments:

Post a Comment