Sunday, January 19, 2020

کفر ٹوٹا خدا خدا کر کہ

کفر ٹوٹا خدا خدا کر کہ 
تزئین حسن 
بلاخر مولانا فضل الرحمان لاپتہ افراد کے حق میں پہلی دفعہ آواز اٹھانے پر راضی ہو ہی گئے- اس اقدام کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے- لیکن حیرت ہے مولانا پچھلے بیس سال سے   سے مسلسل پاکستانی سیاست اور زیادہ تر اقتدار کے حلقوں سے انتہائی قریب رہے ہیں- انہیں بیس سال میں پہلی دفعہ اس مدے پر آواز اٹھانے کا خیال آیا؟ یا شاید اس لئے فوج اور ایجنسیوں کے ظلم قریب کی عینک سے دکھائی دے رہیں ہیں کہ  اس دفعہ یہ منتخب نہ ہو سکے  اور اقتدار کی کڑاہی سے گھی نکلنے کا موقعہ سیدھی انگلیوں سے نہیں مل سکا - 

مولانا ایک تیر سے ایک سے زیادہ شکار کرنے کے عادی ہیں- وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس وقت لاپتہ افراد کے لواحقین کا غم و غصہ ایک ایسے threshold پر جا پہنچا ہے کہ اسے کیش کروانے کا ایک اچھا موقعہ ہے- اس اقدام سے یہ پی ٹی ایم کو گھر بھیج سکتے ہیں اور فوج کو مستقبل کی بہت سی ممکنہ مشکلات سے نکال سکتے ہیں- اس مدے پر آواز اٹھانے سے خود مولانا کو بھی پورے ملک میں شدید پزیرائی ملے گی دھرنے کے لئے مزید ایندھن بھی اور لاپتہ افراد کے لواحقین کی دعائیں بھی- مگر بنیادی سوال پھر وہی ہے کہ سوال یہ ہے کہ ان بے بسوں کی آہ و زاریاں کے پی کے اور بلوچستان میں مضبوط موجودگی کے باوجود کیوں نظر نہیں آئیں- اگر مولانا اور انکے دھرنے کی واہ واہ کرنے والوں کی یاد داشت خراب نہ ہو تو یاد دلاؤں کہ  ٢٠١٨ کے الیکشن کے بعداسمبلی کے پہلے اجلاس میں بلوچ نیشنلسٹ لیڈر اختر مینگل نے یہ مسئلہ اٹھایا اور انکا کہنا تھا کہ ہم سے زیادہ ایجنسیوں نے جمعیت علماء اسلام اور جماعت اسلامی کے لوگوں کو اٹھایا ہوا ہے لیکن یہ دونوں جماعتیں اس مسئلے پر کسی طرح بولنے پر راضی نہیں- اختر منگل کی اس بات کا نہ جماعت اسلامی نے جواب دینے کی ضرورت محسوس کی نہ ہی مولانا فضل الرحمان نے-  

کیونکہ ان دونوں جماعتوں کے متبعین اپنے قائدین کے پیچھے اندھوں کی طرح عقیدت اور احترام کے ساتھ چلتے ہیں- جمیعت علماء اسلام تو خیر جماعت اسلامی میں بھی عرصہ  تیس سال سے شخصیت پرستی کو ٹریڈ مارک بنانے کی شعوری کوششیں کی گئی ہیں- شخصیت پرستی کے خلاف سید مودودی کے واضح اقوال کے باوجود امیر کی ایک ایک ادا پر قربان کارکنان سوچنے سمجھنے کی اہلیت سے محروم دکھائی دیتے ہیں- کیا سید مودودی یا میں طفیل کے زمانے میں امیر کو ٹریڈ مارک بنانے کا کی سوچ سکتا تھا؟ 
لیکن اس حقیقت کو بھی جاننے والے جانتے ہیں کہ اب لاپتہ افراد کے متاثرین کا غم و غصہ سوشل میڈیا پر بھی چھلکنے لگا تھا اور پی ٹی ایم بھی سخت سنسر کے باوجود اسی مسئلے کو لیکر مقبولیت کی چوٹی پر جا بیٹھی تھی- اور مولانا کو تو سنسر کا بھی ڈر نہیں بس پاک فوج سے  مفاہمت ختم ہونے کا ڈر اور لحاظ تھا جو اس الیکشن میں ہارنے کے بعد نہ رہا-
لیکن جماعت اسلامی اس وقت بھی احتیاط کے پیش نظر  فائدے نقصان کو تولتی ریہ گئی- سچ ہے ایسے موقعوں پر مشاورت سے زیادہ فرد واحد کی ڈکٹیٹر شپ کام آتی ہے جو آ گئی-    
فوج سے مفاہمت 
بھر حال دیکھنا یہ ہے کہ اب اپنی مری ہوئی سیاست کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے اس مدے کو اٹھایا جا رہا ہے یا یہ واقعی مظلوم کو اسکا حق دلوانے میں سنجیدہ ہیں- اگر سنجیدہ ہیں تو یہ تو منوا ہی لیں گے کیونکہ دھرنا بہت کامیاب جا رہا ہے ماشااللہ . سب سے زیادہ لاپتہ افراد کے مسئلے سے دیوبندی مدرسوں سے تعلق رکھنے والے انکے اپنے متبعین متاثر جو اندھوں کی طرح انکے پیچھے چلتے رہے ہیں- ان بیچاروں کیتو کبھی ان سے یہ سوال بھی کرنے کی ہمت نہ ہوئی کہ حکومت میں ہوتے ہوئے ہمارے حق میں کیوں  نہیں بولتے- خیر آج بولے تو سہی-

ویسے آپس کی بات ہے اس بات پر مولانا اور ایسے تمام سیاسی لیڈران پر مقدمہ نہیں ہونا چاہیے جو آئین اور قانون کی بلا دستی کی بات کرتے ہیں اور فوج اور ایجینسیوں سے تصادم کے ڈر سے ڈیڑھ دھائی تک یہ ظلم ہوتا دیکھتے رہے- آج اپنا اقتدار چھنا تو ان مظلوموں کی مظلومیت کیش کروانے کا خیال آیا- کاش کسی کو عمران خان کا ہی احتساب اس موضوع پر کرنے کا خیال آتا-

No comments:

Post a Comment