Thursday, February 20, 2020

اسلام پسند بھائیوں سے میری شکایات

اسلام پسند بھائیوں سے میری شکایات

تزئین حسن 

سوال یہ ہے کہ جب میں خود اپنا شمار اسلام پسندوں میں کرتی ہوں تو میری توپوں کا رخ اسلام پسندوں ہی کی طرف کیوں رہتا ہے- یہ بات مجھے سوشل میڈیا پر فولو کرنے والے اکثر لوگوں کے لئے تعجب کا با عث ہوتی ہے- میرے ایک فیس بک قاری کا کہنا ہے کہ آپ کا دل حسین رضی الله کے ساتھ ہے اور تلوار آپ نے دوسری طرف والوں کی اٹھائی ہوئی ہے- میرا بہت درد مندی سے یہ کہنا ہے کہ یہ قلم تلوار نہیں، ڈاکٹر کا نشتر ہے. اسی لئے اپنی صفوں میں موجود خرابیوں کے لئے اٹھتا ہے- پچھلے دنوں حیا مارچ کے حوالے سے میری پوسٹ متنازعہ ہوئی تو سوچا کہ معاملے کو لٹکا ہوا نہیں چھوڑنا چاہئے کہ دوسرا بندہ غلط فہمی کا شکار ہو-  فیس بک اسٹیٹس میں آپ معاملے کے تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر تفصیل سے بات نہیں کر سکتے جس سے غلط فہمی پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے- حکم ہے اپنے بھائی کو بد گمانی سے بچاؤ، اس لئے وضاحت ضروری ہے-   

حیا ایمان کا جزو ہے اور اسکے حوالے سے آگاہی ایک اچھا کام ہے- میرا نکتہ صرف یہ ہے کہ خواتین اور مردوں کو شرم اور حیا کے درس کے ساتھ، قران کے ایک اور حکم "غض بصر" یعنی نظریں جھکا کررکھنے کی آگاہی کی بھی ضرورت ہے اور دوسرے جہاں حیا مارچ کے لئے خواتین نے آواز اٹھائی، وہاں خواتین کےحقوق کی پامالی پر بھی اسلام پسند خواتین اور مردوں کی توانا آوازکی ضرورت ہے، خصوصاً عورت مارچ کے تناظر میں- پاکستانی عورت کے اصل حقوق کو نظر انداز کر کہ ہم خود عورت مارچ کے لئے میدان خالی چھوڑ رہے ہیں-            


ایک چھوٹا سا نکتہ یہ ہے کہ یہ مارچ، معاشرے کو بےحیائی اور اخلاقی برائیوں سے آگاہی کے لئے منعقد کیا گیا- پاکستانی معاشرے میں روایتی طور پر شرم و حیا کو عورت کا زیور کہا جاتا ہے اور اسکا تصورعورت سے ہی وابستہ سمجھا جاتا ہے لیکن مرد کو روایتی طور پر پابندیوں سے مبرا سمجھا جاتا ہے- اسلامی جمعیت طلبہ با کردار قیادت پر مشتمل ہے اور اس بات کو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ ہمارا مذہب شرم و حیا کا تقاضا مرد اور عورتوں دونوں سے کرتا ہے- وہ زنا کی سزا مرد عورت دونوں کے لئے برابر مقرر کرتا ہے- یہ نہیں کہتا کہ مرد کی فطرت ہے اس لئے اسکے لئے کم سزا ہے- مذہب کے بر عکس ہمارے معاشرے کا عام روایتی مائنڈ سیٹ یہ ہے کہ عورت کی شرم و حیا اور حجاب معاشرے کی تمام خرابیوں اور بے حیائی کا حل ہے- اسی لئے غیرت کے قتل عام طور سے خواتین کے ہوتے ہیں- انکا قصور نہ بھی ہو تو بھی ہو جاتے ہیں- بھائی کے جرم کے بدلے انہیں ہی ونی کیا جاتا ہے- اس حوالے سے معاشرے میں  آگہی کی اشد ضروت ہے جسکے لئے اسلام پسند طبقات کو ہی آگے آنا ہو گا- ہم سیکولر اور لبرل طبقات سے یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ اسلام کے صحیح تصور سے عوام کو روشناس کروائیں گے-

ہمارے اسلامی بھائی جانتے ہیں کہ قران جہاں مرد اور عورت دونوں کو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت اور ستر کے احکامات دیتا ہے، عورت کو پردے کے احکامات دیتا ہے، وہیں مرد اورعورت دونوں کو مخالف صنف سے رابطے کے وقت "غض بصر" یعنی نظریں جھکا کر رکھنے کا حکم دیتا ہے- نکتہ صرف اتنا ہے کہ حجاب کے بارے میں ہمارا معاشرہ کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہ عورت پر فرض ہے، لیکن غض بصر جو کہ قران کی سورہٴ نور کا ہی ایک حکم ہے اسکے بارے میں معاشرے میں آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے اور اسی لئے راہ چلتی عورتوں کو گھورنے کو یہاں کا مرد اپنا حق سمجھتا ہے جسکا جواز عورت کے لباس کو بنایا جاتا ہے- حالانکہ مکمل حجاب اور نقاب میں رہنے والی خواتین بھی گواہی دیتی ہیں کہ انہیں بھی پاکستان کی سڑکوں اور پبلک ٹرانسپورٹ پر جنسی ہراسانی کا سامنا رہتا ہے- اس حوالے سے معاشرے کو دین کی صحیح تفہیم اور آگاہی دینے کی اشد ضرورت ہے- تو میرا نکتہ صرف اتنا تھا کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ غض بصرکے حوالے سے بھی کبھی مارچ کا انعقاد کیا جاتا کہ اسکی آگاہی بھی عام ہو- یہ تو تھا میرا ایک نکتہ- 

میرا دوسرا نکتہ عورت مارچ کہ حوالے سے تھا- حالیہ عورت مارچ کے تناظر میں ہمیں اسلامی احکامات اور آج کے چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے، اسلام میں عورت کے حقوق کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے- اسی طرح ہم عورت مارچ کا مقابلہ کر سکتے ہیں- 

اسلامی تنظیموں میں اس وقت عورت مارچ کو ایک بڑا چیلنج سمجھا جا رہا ہے جو میرے نزدیک ایک خوش آئند بات ہے کہ عورت مارچ اور لال لال کے نعروں سے اور کچھ ہو یا نہ ہو، ہم اسلام پسندوں کا فکری زنگ اس سے دور ہوگا- سوویت یونین کی پسپائی کے بعد ہم فکری طور پر سہل پسندی کا شکار ہو گئے ہیں- جماعت اسلامی اور اسکی ذیلی تنظیمیں نظریاتی، فکری، اور علمی محاذ پر پچھلے ستر سال سے ایسے فتنوں کا مقابلہ کرتی رہی ہیں اور نئے چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے یقیناً آئندہ بھی کرتی رہیں گی-  

میرا نکتہ صرف اتنا تھا کہ جہاں ہم شرم و حیا اور حجاب کے لئے خواتین کا مارچ منعقد کر رہے ہیں تو ہمیں انکے جائز اسلامی حقوق اور انکے مسائل کے حوالے سے بھی بات کرنے کی اشد ضرورت ہے- جہاں تک ہماری اسلام پسند طالبہ کا تعلق ہے تو وہ حجاب پردے شرم و حیا کے تصورات سے پوری طرح آگاہ ہے- جیسا کہ پچھلے دنوں محترمہ سمیعہ راحیل قاضی نے صوبہ سرحد کے ایک ضلع میں برقعہ کو لازمی قرار دینے پر تبصرہ دیا کہ پاکستانی خواتین کی اکثریت حجاب کرتی ہے، اس لئے انکے نزدیک حجاب کو لازم قرار دینا ایک نان اشو ہے- الفاظ مختلف ہو سکتے ہیں، میسج یہی تھا-          


ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت ہمارے کرنے کا کیا کام ہے؟ کیا ہمیں میرا جسم میری مرضی، سڑک تمھارے باپ کی نہیں ہے، کھانا خود گرم کر لو کے مقابلے میں عورت کے اصل مسائل مثلاً وراثت میں اسکے حق، اسکی شادی میں اسکی رضامندی، گھریلو تشدد، اسکے مہر، نان نفقے، اسکی مالی خود مختاری، اسکے ساتھ سڑکوں اور کالجوں کے باہر جنسی ہراسانی، اسکی شادی میں اسکے گھر والوں کو دبانے، انسے رسوم و رواج کے نام پر مالی فوائد حاصل کرنے کی کوشش، سسرال میں اسے اکیلا جان کر اسکے ساتھ طنز اور طعنے، اسکے ساتھ معاشرے کے تحقیرو تذلیل اور تفریق کا رویہ (جو اسکی پیدائش سے پہلے شروع  ہو جاتا ہے جب لڑکے کی پیدائش کے لئے وظیفے تجویز ہوتے ہیں) کے خلاف حیاء مارچ جیسے پلیٹ فارم سے آواز نہیں اٹھانی چاہئے؟ کیا کوئی ایسا مارچ منعقد نہیں ہونا چاہئے جس میں ان مسائل کے حوالے سے پلے کارڈز اسلام  پسند طالبات اور خواتین کے ساتھ ساتھ اسلام پسند مردوں نے بھی اٹھا رکھے ہوں؟ 

یاد رہے میں مارچ کے پلیٹ فارم اور پلے کارڈز کی بات کر رہی ہوں ورنہ جماعت اسلامی حلقہء خواتین کے بہت سے محکمہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے کام کر رہے ہیں اور تقریباً سب سے میرے قریبی روابط موجود ہیں- فلاح خاندان کی سربراہ عافیہ سرور کا بڑا پن ہے کہ مسلمان بچوں کی سیکس ایجوکیشن پر مشتمل میرے مضمون کو پڑھ کر مجھ سے رابطہ کیا- ان کی محبت ہے کہ جب امریکا آتی ہیں مجھے فون کرنا نہیں بھولتیں- 

جماعت اسلامی کی ویمن لیگل ایڈ سے تعلق رکھنے والی شگفتہ ضیاء میری اپنی خالہ ہیں، جن سے بچپن سےعورت کے ساتھ معاشرتی رویوں پر بات ہوتی رہی ہے- شاید انکی انٹلیکچوئل شخصیت اور بات چیت نے ہی اس قابل کیا کہ ان موضوعات پر قلم اٹھا سکے ہیں- "کیا طلاق گالی ہے" ان سے گفتگو کے بعد مضمون میں اس ادارے میں اپنے مسائل لیکر آنے والی بعض خواتین کی اسٹوریز کو بھی شامل کیا گیا ہے-
   
مجھ سے سماجی موضوعات کے حوالے سے لکھوانے کا سلسلہ شروع کروانے کا سہرا بتول کی ایڈیٹر صائمہ اسماء کو جاتا ہے، جنہوں نے تین سال پیشتر فرمائش کرکہ خواتین ڈے پر مجھ سے مضمون لکھوایا، جو بعد ازاں "خدا نہ خواستہ بیٹی نہ ہو جائے"  کے عنوان سے دلیل میں شائع ہوا- اس مضمون میں میرا بنیادی نکتہ یہی تھا کہ اگر مغربی فیمینزم سے اپنی عورت کو بچانا ہے تو ہمیں عورت کی تذلیل اوراسکے استحصال کو ختم کرنے کے لئے اورعورت کو حقارت کی نظر سے دیکھنے والے معاشرتی مائنڈ سیٹ میں تبدیلی لانی کے لئے کام کرنا ہو گا- صرف اسی طرح مسلم امہ کی فلاح ممکن ہے کہ اسکی نئی نسل کی ماں کو عزت کا مقام حاصل ہو- یاد رہے یہ مضمون ویمن مارچ سے کوئی دو سال پیشتر لکھا گیا-

ورکنگ ویمن کی سربراہ عابدہ فرحین اور روبینہ ناز کی فکری رہنمائی زمانۂ طالب علمی کی طرح آج بھی میرے لئے قیمتی ہے- انکی محبت ہے کہ رابطہ نہ بھی ہو تو سماجی موضوعات پر میرے مضامین پر تبصرے کے میسج بھیجنا نہیں بھولتیں- انسے جب بھی رابطہ ہوتا ہے خواتین کے حقوق اور معاشرے میں انکی حالت اور انہیں در پیش مسائل کے حوالے سے بات چیت ہوتی ہے، جسکے لئے یہ سب میری طرح بہت درمندی سے سوچتی ہیں- 

ترجمان القران کے نائب مدیر محترم سلیم منصورخالد خواتین کے حقوق کے داعی ہیں- پاکستان میں جنسی ہراسانی کے موضوع پرمیرا مضمون، جسکے متنازعہ موضوع کی وجہ سے میں اسے قابل اشاعت نہیں سمجھ رہی تھی،  اتفاق سے انکے ہاتھ لگا جسے ترجمان میں شائع  کر کہ انہوں نے عزت بخشی- انکی شفقت ہے کہ پروفیسر خورشید احمد صاحب کے ساتھ بیٹھ کر انہوں سینٹر مشتاق خان صاحب کے ساتھ میرا فیس بک لائیو سیشن دیکھا اور مجھے لیسٹر، برطانیہ سے فون کر کہ اس پر تبصرہ دیا- انکا کہنا تھا کہ مجھے تعجب صرف اس بات پر ہے کہ جماعت اسلامی کا حصہ نہ ہوتے ہوئے آپ کی جماعت اسلامی کے معاملات پر اتنی گہری نظر کیسے ہے- میں انہیں کیا بتاتی کہ مرشد مودودی کی جماعت سے میرا ناخن اور گوشت کا رشتہ ہے- اسے کوئی چاہے بھی تو الگ نہیں کر سکتا-   

اس اٹوٹ رشتے کے ساتھ ساتھ اس میں کوئی شک نہیں کہ اندر اور باہر موجود بہت سے لوگوں کی طرح مجھے بھی پالیسیوں پر سے بہت سے اختلافات رہتے ہیں، جسکا میں ایماندارانہ اظہار کرتی رہتی ہوں- 

خواتین کے خلاف زیادتیوں کے ساتھ ساتھ لاپتا افراد، اوئیغور تنازعہ،  کے حوالے سے مجھے اختلافات رہے ہیں اور صرف جماعت اسلامی سے ہی نہیں دیگر دینی جماعتوں سے بھی اور ان پر میں بے لاگ اپنی رائے دیتی رہی ہوں اور انشاللہ آئندہ بھی دیتی رہوں گی- جماعت اسلامی ایک سیاسی اور دینی جماعت ہے- عوام کو اس سے اختلاف کا حق حاصل ہے- اسکے کارکن کو سیاسی مخالفت کا جواب دلیل سے دینے کی تربیت کی ضرورت ہے- یہ میرا تیسرا نکتہ ہے- 

میرے آس پاس کی دنیا چاہے کینیڈا ہو امریکا ہو پاکستان یا انڈیا ہو، خوش قسمتی یا بد قسمتی سے اسلام پسندوں پر مشتمل ہے- یہی میری برادری ہے، یہی میرا خاندان ہے اور یہی میری دنیا ہے جسے میں مغرب سے بہت زیادہ جانتی ہوں اور اسی لئے سماجی حوالوں سے جب میرا قلم اٹھتا ہے تو میرا قاری اور موضوع انہیں اسلام پسندوں پر مشتمل دنیا ہے - جن لوگوں کو مجھ سے یہ توقع ہے کہ میں انکے ہر کام پر صدقے واری ہوتی رہوں گی ان سے معزرت. 

اس میں کوئی شک نہیں کہ میری توپوں کا رخ اسلام پسندوں کی جانب رہتا ہے کیونکہ میں خود اسلام پسندوں میں سے ہوں اور ہمیں دوسروں سے کہیں زیادہ اپنی صفوں کی کمزوریوں اور خرابیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے- یہی مرشد مودودی کا طریقہ اور تعلیمات تھیں- میرے سخت الفاظ سے جنکی دل آزاری ہوئی ہے ان سے معذرت لیکن  توپوں کا رخ آئندہ بھی اسی طرف رہے گا- 

نوٹ: میں پروفیسر خورشید احمد کی ذاتی طور پر شکر گزار ہوں کہ انھوں نے حالیہ عورت مارچ کے تناظر میں لکھے ہوئے میرے مضمون کی تحسین فرمائی اور لیسٹر برطانیہ سے مجھے تحسین کے کلمات بھجوائے-    


No comments:

Post a Comment