Wednesday, February 6, 2019

سرمیلا بوس کی کتاب اور ان پر سب و شتم ... تزئین حسن


سرمیلا بوس کی کتاب اور ان پر سب و شتم ... تزئین حسن

سرمیلا بوس کی کتاب ٢٠١١ میں منظر عام پر آئی- اس کتاب کی وجہ سے سرمیلا کو پوری دنیا میں مخالفت اور سب و شتم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ انہوں نے غیر جانبداری اور ثبوت و شواہد کے ساتھ جن لوگوں کا دفاع کیا ہے انہوں نے انہیں بری طرح نظر انداز کر دیا ہے- یہ میرے ملک کی کتنی بد نصیبی ہے کہ ہم ثبوت و شواہد کے بغیر بات کرنے والے چیخ چیخ کر بات کرنے والے مقریرین کے بیانات پر تو فوراً یقین کر لیتے ہیں لیکن کسی کی سالوں کی محنت کی ہماری نظر میں کوئی قیمت نہیں-

باقی دنیا میں سرمیلا پر الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے پاک فوج سے پیسے لئے ہیں- حامد میر سرمیلا کے بارے میں کہتے ہیں کہ انکا خاندان ہمیشہ سے مسلمانوں کے خلاف تھا، اس لئے انہوں نے بنگالی مسلمانوں کے خلاف یہ کتاب لکھی ہے- میں حامد میر کا ایک سینئر صحافی کی حیثیت سے احترام کرتی ہوں مگر انکی اس بات سے اتفاق نہیں کر سکتی- سرمیلا نے انکی طرح ١٩٧١ کے حالات پر صرف بیان بازی نہیں کی بلکہ گراؤنڈ لیول پر جا کر متاثرین کے انٹرویوز کے ہیں اور سالوں اس موضوع پر تحقیق کی ہے- وہ کلکتہ میں پیدا ہوئیں اور اس جنگ کے وقت ایک بچی تھیں لیکن انکے ہندو بنگالی ڈاکٹر والد نے مشرقی پاکستان کے فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد اپنی پریکٹس چھوڑ کر سرحد پر جا کر آپریشن کے متاثرین کے لئے کلینک قائم کیا- سرمیلا کی اپنے بچپن میں اس تنازع کی یادداشتیں ان بنگالی ہندو اور مسلمان مہاجرین کی مصیبتوں کی ہیں جو پاک فوج کے آپریشن کی وجہ سے کلکتہ میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے- ایک تحقیق نگار کا کسی موضوع سے جذباتی تعلق ہونا ممنوع تو نہیں لیکن دیکھا یہ جاتا ہے کہ وہ اس تعلق کی وجہ سے کہیں جانبدار تو نہیں ہو گیا- اور کیا اس جانبداری کی کوئی وجہ ہے؟ کلکتہ میں پرورش پانے والی آکسفورڈ اور کیمبرج جیسے اداروں سے منسلک تحقیق نگار جسکا مذہب ہندو مت اور نسل بنگالی ہے، وہ پاک فوج کے حق میں جانبداری کا مظاہرہ کیوں کرے گی-

یہ اور بات ہے کہ انکے بیانیہ نے بھارت اور بنگلہ دیش کے بیانیہ کو بہت نقصان پہنچایا ہے- جاننے والے جانتے ہیں کہ بنگلہ دیش کے اسکول کے نصاب میں پاکستان سے نفرت کرنا سکھائی جاتی ہے- ١٤ اگست کو ہم نے چتا کانگ سے تعلق رکھنے والے ایک بنگلادیشی شہری کا انٹرویو کیا تھا - اسکا کہنا تھا کہ ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ جتنا بنگلادیش سے محبت کرنا ضروری ہے اتنا ہی پاکستان سے نفرت کرنا بھی ضروری ہے- ایسے میں اگر کوئی نفرت، تعصب اور مبالغہ پر بیانیہ میں خلل ڈالے اور ثبوتوں کے ساتھ ڈالے تو اسکے لئے انکے کیا جذبات ہو گے-

پھر یہ بات بھی یاد رہے کہ اس نے پاک فوج کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے بری نہیں کیا بلکہ اسکا کہنا یہ ہے کہ جہاں پاک فوج کے افسران نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے، پاک فوج کا اپنا کام ہے کہ ان خلاف ورزیوں کے خلاف تحقیقات کروائے اور ان لوگوں کو سزائیں دی جائیں-وہ پاکستان کے حامی بنگالی رضاکاروں کو بھی بری نہیں کرتیں- دسمبر میں جنگ کے آخری دنوں میں بڑی تعداد میں عوامی لیگ کے حامی بنگالی انٹلیکچوئل حضرات کے قتل عام کے حوالے سے جو شواہد انکو ملے انکے مطابق ان انٹلیکچوئلز کو انکے گھروں سے رضاکاروں نے ہی اٹھایا تھا- ایک جگہ انکا کہنا ہے کہ پاک فوج کے کچھ افسران زندگی اور موت کا فیصلہ کرنے والے یعنی خدا بن گئے تھے- انہوں نے یہ بات زور دیکر کہی ہے کہ پاک فوج اگر بدنامی کا دھبہ خود پر سے ہٹانا چاہتی ہے تو اسے اپنے ان افسران کے خلاف غیر جانبدارانہ تحقیقات کر کہ انہیں کفر کردار تک پہنچانا ہو گا- انکا یہ بھی کہنا ہے کہ پاک فوج کے پاس سب ریکارڈ موجود ہو گا- اس لئے وہی اس کام کو انجام دے سکتے ہیں-

حامد میر کے بر عکس سرمیلا نے محض بیان بازی نہیں کی بلکہ وہ اس دور کے عالمی میڈیا، امریکی صدر اور ہنری کسنجر کی گفتگو، خود بھارتی فوج کے افسران کے بیانات، عوامی لیگ کے حامی بنگالی اور مکتی باہنی کے ممبرز، پاکستان کے حامی بنگالی اور غیر بنگالی اور سب سے بڑھ کر بنگلادیش میں موجود متاثریں کے انٹرویوز سے شہادتیں لیکر آئی ہیں- انکا ذہانت سے پر تجزیہ ٹھوس ثبوت و شواہد پر مبنی ہے- انکے بیانیہ کو بنگالی مسلمانوں سے نفرت قرار دیکر مسترد کرنے سے پہلے حامد میر کو اس کتاب کو تعصب کی عینک اتار کر پڑھنا ضرور چاہیے- مگر حامد میر اب صحافت کی دنیا میں اس مقام پر فائز ہو چکے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں (اور بڑی تعداد میں انکے چاہنے والے بھی ) کہ انکا کہا پتھر پر لکیر ہے چاہے اسکے لئے شواہد نہ دے سکیں-

اس تمام معاملے کی سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان میں سرمیلا کو بری طرح نظر انداز کیا گیا- میری اطلاعات کے مطابق پاک فوج کی ہر لائبریری میں سرمیلا کی کتاب کی کاپیاں موجود ہیں لیکن اسکے باوجود کتاب کی سیل اتنی کم تھی کہ آکسفورڈ جیسے کمرشل پبلشر نے اسکا اردو ترجمہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا- کبھی کسی ٹی وی چینل پر اس کتاب سے متعلق کوئی پروگرام نشر نہیں ہوا- حامد میر کے منفی بیان کے علاوہ کبھی کسی اینکر سے اس کے بارے میں نہیں سنا- سرمیلا کو پاکستان کے کسی چینل پر انٹرویو کے لئے بلایا گیا اسکا بھی راقم کو کوئی علم نہیں- اگر کسی کو اس بارے میں کوئی معلومات ہیں تو ضرور بتائیں-

یہ کتاب تحقیق کی دنیا میں کیا مقام رکھتی ہے اسکا اندازہ اس امر سے ہو سکتا ہے کہ امریکا کے وڈرو ولسن سینٹر میں اس کتاب پر پورا سیشن رکھا گیا جس میں سرمیلا کے ساتھ جنگ کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو بھی بلایا گیا- اس کتاب پر بنگالی اور بھارتی ریسرچرز نے جو اعتراضات کے اس پر سرمیلا کو ایک اور ریسرچ پیپر لکھنا پڑا- یہ بھی یاد رہے کہ سرمیلا کا کہنا ہے کہ میں ہر معترض کا جواب نہیں دے سکتی- انہوں نے اس پیپر میں صرف تین محقیقین کو جواب دیا ہے جنہوں نے ان پر جانب داری کا الزام لگایا تھا-

سرمیلا نے صرف مستند حقائق اکٹھے نہیں کے بلکہ انکا تجزیہ اعلیٰ درجہ کی ذہانت کی مثال ہے- اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایسے حالات میں جہاں پاک فوج کو پوری دنیا میں بدنام کیا جا رہا ہے اسکا بہترین دفاع ہے- یہ کام سرمیلا سے پہلے کسی پاکستانی تحقیق نگار کا تھا- مگر تحقیق کس چڑیا کا نام ہے، یہ جانننے والے ہم میں انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں اور جو ہیں انکی بھی کوئی سنتا نہیں ہے- ہم گفتار کے غازی ہے، گستاخی رسول کے مسئلے پر جان دینے کے دعوے کر سکتے ہیں مگر میرے سرکار صلیٰ الله پر جو پہلی وہی نازل ہوئی ان الفاظ کو نظریات کا جامہ پہنا کر اپنی معاشرتی زندگی کا حصہ نہیں بنا سکتے-

یہ کتاب لندن کے علاوہ پاکستان میں بھی شائع ہوئی ہے اسے آکسفورڈ پبلشرز پاکستان نے چھاپا ہے-

No comments:

Post a Comment