Thursday, January 24, 2019

ساہیوال واقعہ: ہم سب مجرم ہیں!

ساہیوال واقعہ: ہم سب مجرم ہیں!

تزئین  حسن

الله کے عذاب کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کسی قوم سے قانون اور آئین کی حکمرانی کا شعور چھین لیا جائے-

ساہیوال واقعہ نے اس قوم کی آنکھوں سے اسکی نیندیں چین لی ہیں- اس سے قبل عوامی جذبات کا ایسا مظاہرہ زینب قتل پر دیکھنے میں آیا تھا- فرق یہ تھا کہ انسانیت کو شرما دینے والا وہ جرم ایک نا معلوم ملزم نے کیا تھا اور یہ عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے تنخوادر ملکی ادارے کے ملازمین نے- سوشل میڈیا غم وغصے سے لبریز رلا دینے والی پوسٹوں سے بھرا پڑا ہے، جو ایک عام پاکستانی کے جذبات کی نمائندگی کر رہی ہیں- ہرایک یہ پوچھ رہا ہے کہ وطن عزیز میں ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟ ہر فرد یہ محسوس کرتا ہے کہ خلیل کے خاندان کے ساتھ ایسا ہو سکتا ہے تو کل میرے بچوں کو بھی یہ دیکھنا پڑ سکتا ہے- حکومت پر سب و شتم بجا کہ یہ اسکے فرائض میں شامل ہے کہ ملک کے عوام کی حفاظت کرے- لیکن ان جرائم میں حکومت کے علاوہ ہم نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہے- پاکستانی شہری، میڈیا، ہماری علمی اور دینی قیادت کرنے والے اور تعلیمی نظام سب اس جرم میں شریک ہیں- ہم سب مجرم ہیں-

اس سے قبل ہم لا پتہ افراد کے سلسلے میں جب بھی آئین اور قانون کے احترام کی بات کرتے رہے ہیں، ہم سے کہا جاتا ہے کہ ملکی سلامتی کے لئے قانون توڑنا مخصوص اداروں کے لئے جائز ہونا چاہیے- ان میں نامور پاکستانی یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل دانشور کہلانے والے بھی شامل ہوتے ہیں اور دینی اور سیاسی جماعتوں کے تربیت یافتہ پڑھے لکھ کارکنان بھی- مجھے حیرت ہوتی ہے کینیڈا جیسے ملک میں بیس بیس سال سے مقیم پڑھے لکھے پاکستانی نژاد دوستوں سے جو پاکستان میں ماورائے عدالت گرفتاریوں جنھیں اصل میں اغوا کہا جانا چاہیے کو ملکی سلامتی کے نام پر اداروں کا حق سمجھتے ہیں- انکا کہنا ہے کہ فلاں ادارہ کوئی غلط کام نہیں کر سکتا- وہ دشمنوں سے ہماری حفاظت کر رہا ہے- اسے احتساب سے بلا تر ہونا چاہیے- اسے بدنام کرنے کی کوشش نہ کریں- جب ہم کسی ایک ادارے یا چند اداروں کو قانون توڑنے کی اجازت دیتے ہیں تو در اصل اس ملک کے خواص وعوام کے دلوں سے قانون کا احترام ختم کرتے ہیں- جب سیاسی مخالفت کی بنیاد پر ایک ڈکٹیٹر کے آئین معطل کرنے کی حمایت کی جاتی ہے تو ہم در اصل اپنی قوم کی تباہی کا گڑھا خود اپنے ہاتھوں سے کھود رہے ہوتے ہیں-

جمہوری اقدار کا تعلق صرف ووٹ سے نہیں، یہ ہمیں یہ بھی سکھاتی ہیں کہ ملک کا حکمران طبقہ بھی اسی آئین پرعمل کرنے کا پابند ہے جو عام افراد پر لاگو ہوتا ہے- مغربی دنیا ان جمہوری روایات کو تیرھویں صدی کے میگنا کارٹا سے جوڑتی ہیں لیکن میرے سرکار صلیٰ الله پر جو کتاب ساتویں صدی میں اتری، اس نے عوام میں ایسا آئینی شعور پیدا کیا جو روم اور ایران پر حکومت کرنے والے سیدنا عمر رضی الله کو بھی احتساب سے بالا تر نہیں سمجھتی تھی- عوام میں آئینی شعور کا یہ حال تھا کہ ایک بڑھیا بھی وقت کے حکمران کو آئین کی یاد دلا کر ٹوک سکتی تھی (کہ جب الله اور اسکے رسول نے مہر پر حد نہیں لگائی تو عمر تم کون ہوتے ہو؟)- جمہوریت کی ایک اور اہم قدر آزادی اظہار بھی ہے- امریکی آئین کی پہلی ترمیم میں اظہار آزادی سے متعلق شق اٹھارویں صدی کے اواخر میں شامل کی گئی- لیکن اس وقت بھی یہ بحث تھی کہ حکمرانوں کے خلاف بات کرنا اس آزادی میں شامل ہونا چاہیے یا نہیں- لیکن ساتویں صدی میں ایک عام لڑکا پبلک میں سیدنا عمر رضی الله سے یہ سوال کر سکتا تھا کہ تمہارا کرتا مال غنیمت کے مختصر کپڑے میں کیسے بن گیا؟

لیکن ان جمہوری اقدار کی پاسداری اسی وقت ممکن ہے جب عوام میں اس آئین کا اور اسکی اہمیت کا شعور ہو- دوسروں کو کیا کہوں- اپنی ساری زندگی پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود آئین کی اہمیت کا شعور مجھے خود اس وقت ہوا جب مجھے امریکی آئین پڑھنا پڑا- طلبہ کو شروع سے معاشرتی علوم اور مطالعہ پاکستان پڑھایا جاتا ہے جسے انگریز کے جانے کے بعد وقتاً فوقتاً محدود کیا جاتا رہا ہے- لیکن مجھے کبھی یاد نہیں کہ آئین کی اہمیت پر کوئی مضمون میری رسمی تعلیم میں کبھی شامل رہا ہو- مشرقی پاکستان میں پاکستان کی شکست کی ذمہ داری وہاں موجود مختصر سی انتہائی محدود وسائل میں آدھے ملک کا دفاع کرنے والی فوج پر ڈال کر ہم ہمیشہ جنرل نیازی کو گالیاں دیتے رہے لیکن اسکے اصل ذمہ دار قانون کی پاسداری نہ کرنے والے، اکثریتی پارٹی کو اقتدار منتقل نہ کرنے والے تھے- تین طرف سے انڈیا کی سرحدوں سے گھری فوج کب تک اپنے عوام سے لڑ کر اقتدار کی بھوک مٹا سکتی تھی-

افواج پاکستان کا شمار دنیا کی پروفیشنل ترین افواج میں ہوتا ہے- یہ بات قوم کے لئے ہمیشہ فخر کا با عث رہی ہے- میرا دل ہمیشہ اس بات پر مضطرب رہتا ہے کہ ١٩٧١ میں مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا، اسے بھارت اور بنگلادیش نے پوری دنیا میں پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے (خود امریکی ریکارڈز کے مطابق کئی سو گنا بڑھا چڑھا کراستعمال کیا-) اگر پاکستانی حکومت کے ادارے، حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کی سفارشات کے مطابق غلط کاریوں میں ملوث فوجی افسران کا کورٹ مارشل کر کے اور انہیں اپنے دفاع کا حق دیکر، قانون کے مطابق سزائیں سنا دیتی تو ہمارے دشمنوں کو تمام عالم میں اس زہریلے پروپیگنڈے کا موقع نہیں ملتا- شاید وہ اسکے بعد بھی خاموش نہ ہوتے مگر کم از کم ہمارا ضمیر تو مطمئن ہوتا، ہمارے پاس تو اپنی ذمہ دارانہ طرز عمل کے ثبوت ہوتے لیکن ہم نے ادارے کو بد نامی سے بچانے کے لئے غلط راستہ اختیار کیا- کبوتر کی طرح اپنی آنکھیں بند کر لیں- اور خود اس ادارے کے جائز دفاع کے حق سے بھی دست بردار ہو گئے- خیسور واقعہ کا الزام اس پروفیشنل فوج کے دامن پر ایک اور دھبہ ہے لیکن اس دھبے کو صرف فوج ہی تحقیقات اور قانون کے مطابق سزا کے ذریعے دھو سکتی ہے- لیکن اگر اسے نظر انداز کیا گیا تو یاد رکھیں ہم پہلے ہی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر کے اس ادارے کو بہت بدنام کر چکے ہیں-

دینی جماعتیں سیاست سے کسی طرح دست بردار ہونے پر راضی نہیں لیکن یہ بھی آئین اور قانون کی حکمرانی کے مسئلے پر اداروں پر تنقید کو گناہ سمجھتی ہیں،اور خاموشی اختیار کرنے کو مصلحت کا تقاضا جانتی ہیں- بلکہ انکے ذمہ داران کا صاف کہنا ہے کہ ہم فوج سے تصادم نہیں چاہتے- اور اسی لئے بعض اوقات اپنے کارکنان کے ماورائے عدالت اغوا اور بعد ازاں ما ورائے عدالت قتل پر بھی خاموش رہتی ہیں- اور ایسا آج سے نہیں کوئی دو دھائیوں سے ہو رہا ہے- کیا اس طرز عمل کے بعد بھی عوامی سیاست کرنے کا جواز بنتا ہے؟ موجودہ قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں بلوچستان کے سیاسی رہنما اختر منگل کا کہنا تھا کہ ہم سے زیادہ دینی جماعتوں کے کارکنان خفیہ اداروں کی قید میں ہیں لیکن باوجود توجہ دلانے کے یہ جماعتیں اس مسئلے پر آواز اٹھانے پر راضی نہیں- ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم اور اسکی قیادت میں اس کا شعور ہی نہیں پایا جاتا کہ یہ کیوں اہم ہے کہ ملزم کا بہر صورت ٹرائل ہونا چاہیے- انسانی حقوق کے چارٹر، اسلامی قانون اور پاکستانی آئیں کے مطابق یہ ملزم کا حق ہے- عدالتی کاروائی اور ملزم کو اپنے دفاع کا حق دیئے بغیر اسے غائب کرنا یا ماورائے عدالت قتل کرنا دونوں غلط ہیں-

ہم کم علم، بے شعور اور جذباتی قوم ہیں- ہماری قیادت کرنے والے چند مخصوص اشوز پر جذباتی کر کہ ہمیں رلا دیتے ہیں لیکن ہم ان اصولوں کو سمجھنے پر راضی نہیں جو کسی سر زمین پر انسانی زندگی کی با وقار بقا کے لئے لازم و ملزوم ہیں- ہم آج تک عافیہ صدیقی کی امریکی قید کو روتے ہیں مگر یہ سمجھنے پر راضی نہیں کہ عافیہ کو امریکا کے حوالے کرنے والے، جب سے اب تک چالیس ہزار پاکستانیوں کو غائب کر چکے ہیں اور وہ کوئی غیر نہیں ہیں، ہمارے اپنے ادارے ہیں- ان میں سے ہر فرد عافیہ ہی کی طرح کا انسان تھا- اسکے بھی بچے اور والدین تھے- ہماری سیکولر چھوڑ دینی جماعتوں کے مقریرین عافیہ صدیقی کے مسئلے پر مجمعوں کو رلا دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر اپنے ماننے والوں کو یہ نہیں بتاتے کہ اصل جرم ماورائے عدالت گرفتاری ہے- اصل جرم قانون توڑنا ہے جو کسی امریکی سے پہلے ہمارے اپنے اداروں نے توڑا ہے- ہمیں ملکی سلامتی اور مذہب کے نام پر انکی بے جا حمایت نہیں کرنی چاہیے-

ہمارے دین اور کتاب کے مطابق انصاف کی بات کرنے کا حکم دیا گیا ہے، لیکن ہمارے علماء اور مقریرین سماجی انصاف کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کم نظر آتے ہیں- جب ایک فرد کے بنیادی انسانی حقوق کو پامال کیا جاتا ہے تو دنیا کے ہر فرد کے انسانی حقوق خطرے میں ہوتے ہیں- لیکن ہم انسان اور مسلمان ہو کر ان غائب ہونے والوں اور ماورائے عدالت قتل ہو جانے والوں پر خاموش رہ کر قانون اور آئین کی دھجیاں بکھیرنے والے اداروں کی پیٹھ تھپکتے ہیں-

ہمارے ہاں ادارہ سازی نہیں وقتی جوش اور جذبے کو فوقیت حاصل ہے- تعریف کے مطابق ادارے دراصل اصولوں کی بنیاد پر بننے والے قوانین ہیں جنکا تسلسل کسی بھی انسانی معاشرے کی بقا کے بنیادی لوازم میں سے ہے- جب ہم ملکی سلامتی کے نام پر چند مخصوس اداروں کو قانون توڑنے کی حمایت کرتے ہیں تو در اصل عوام کے دل سے قانون کے احترام کو ختم کرنے کے جرم میں شریک ہوتے ہیں- چند سال قبل ہجویری یونیورسٹی کی ایک ٹیڈ ایکس ٹاک میں معروف صحافی جاوید چودھری نے بابائے قوم قائد اعظم کے چند واقعات شئیر کیے جنکے مطابق متحدہ ہندوستان میں قائد نے انگریز کے قوانین کے مطابق سائیکل پر لائٹ نہ لگانے والوں سے کہا تھا کہ وہ مستقبل میں پاکستانی مملکت کی شہری بننے کے اہل نہیں کیونکہ وہ قانون کا احترام نہیں کرتے- دور حاضر کے عظیم مفکر ابو الاعلیٰ مودودی نے اپنے پیرو کاروں کو قائد کی طرح ہر حال میں ملکی قانون کے احترام کا سبق دیا لیکن آج مجھے کوئی ایسی سیکولر یا دینی قیادت نظر نہیں آتی جو اپنے کارکنان کو آئین کی اہمیت کے نظریے سے مسلح کرے-

نقیب کی خوبصورتی اور بچوں کی معصومیت پر پاکستانی عوام کے جذبات اپنی جگہ مگر کیا اس سے قبل جو لوگ مارے گئے وہ کیا کسی کے بچے نہ تھے؟ یا ان کے اپنے معصوم بچے نہ تھے؟ اور مرنے سے زیادہ جو لوگ تا حال غائب ہیں؟ انکے خاندانوں کی تڑپ کا کسی کو انداز ہے؟ یہ مرنے والوں سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے- اور اس سب کے ذمہ دار اصل میں قانون توڑنے والے ادارے اور اس قانون شکنی پر خاموش رہنے والی سیاسی، دینی اور علمی قیادت اور خود عوام ہیں-

الله کے عذاب کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کسی قوم سے آئین اور قانون کی حکمرانی کا شعور اٹھا لیا جائے- میرے نزدیک شعور کے فقدان میں حکومت اور اسکے اداروں کے ساتھ ساتھ میڈیا، قوم کی علمی اور دینی قیادت کرنے والے، تعلیمی نظام سب ذمہ دار ہیں جو ایک شہری کو اسکے حقوق و فرائض کا شعور دینے میں ناکام ہیں- ہم سب عافیہ صدیقی، نقیب الله ، خلیل کے خاندان اور دہشت گردی کے نام پر غائب ہونے اور مارے جانے والوں کے مجرم ہیں- تزئین حسن

No comments:

Post a Comment