Wednesday, January 23, 2019

ہم سب مجرم ہیں!

ساہیوال واقعہ: ہم سب مجرم ہیں!

تزئین حسن


الله کے عذاب کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کسی قوم سے قانون اور آئین کی حکمرانی کا شعور چھین لیا جائے-


تزئین حسن






ساہیوال واقعہ نے اس قوم کی آنکھوں سے اسکی نیندیں چین لی ہیں- اس سے قبل عوامی جذبات کا ایسا مظاہرہ زینب قتل پر دیکھنے میں آیا تھا- فرق یہ تھا کہ وہ انسانیت کو شرما دینے والا جرم ایک نا معلوم ملزم نے کیا تھا اور یہ عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے تنخوادر ملکی ادارے کے ملازمین نے- سوشل میڈیا غم وغصے سے لبریز رلا دینے والی پوسٹوں سے بھرا پڑا ہے, جو ایک عام پاکستانی کے جذبات کی نمائندگی کر رہی ہیں- ہر ایک یہ پوچھ رہا ہے کہ وطن عزیز میں ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟ ہر فرد یہ محسوس کرتا ہے کہ خلیل کے خاندان کے ساتھ ایسا ہو سکتا ہے تو کل میرے بچوں کو بھی یہ دیکھنا پپڑ سکتا ہے- حکومت پر سب و شتم بجا کہ اسکے فرائض میں شامل ہے کہ ملک کے عوام کی حفاظت کرے- لیکن ان جرائم میں حکومت کے علاوہ ہم نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہے- پاکستانی شہری، میڈیا، ہماری علمی اور دینی قیادت کرنے والے اور تعلیمی نظام سب بھی شامل ہیں- ہم سب مجرم ہیں-





اس سے قبل ہم لا پتہ افراد کے سلسلے میں جب بھی آئین اور قانون کے احترام کی بات کرتے تھے، ہم سے کہا جاتا تھا کہ ملکی سلامتی کے لئے قانون توڑنا مخصوص اداروں کے لئے جائز ہونا چاہیے- مجھے حیرت ہوتی ہے کینیڈا جیسے ملک میں بیس بیس سال سے مقیم پڑھی لکھی پاکستانی نژاد دوستوں سے جو پاکستان میں ماورائے عدالت گرفتاریوں جنھیں اصل میں اغوا کہا جانا چاہیے کو ملکی سلامتی کے نام پر اداروں کا حق سمجھتی ہیں- انکا کہنا ہے کہ فلاں ادارہ کوئی غلط کام نہیں کر سکتا- وہ دشمنوں سے ہماری حفاظت کر رہا ہے- ااسے احتساب سے بلا تر ہونا چاہیے - جب ہم کسی ایک ادارے یا چند اداروں کو قانون توڑنے کی اجازت دیتے ہیں تو در اصل اس ملک کے عوام کے دلوں سے قانون کا احترام ختم کرتے ہیں- جب سیاسی مخالفت کی بنیاد پر ایک ڈکٹیٹر کے آئین معطل کرنے کی حمایت کی جاتی ہے تو ہم در اصل اپنی قوم کی تباہی کا گڑھا خود اپنے ہاتھوں سے کھود رہے ہوتے ہیں-




میرا دل ہمیشہ اس بات پر مضطرب رہتا ہے کہ ١٩٧١ میں مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا، اس پر بھارت اور بنگلادیش نے پوری دنیا میں پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے استعمال کیا- اگر پاکستانی حکومت کے ادارے حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کی سفارشات کے مطابق غلط کاریوں میں ملوث فوجی افسران کا کورٹ مارشل کر کے انہیں اپنے دفاع کا حق دیکر قانون کے مطابق سزائیں سنا دیتی تو ہمارے دشمنوں کو تمام عالم میں اس زہریلے پروپیگنڈے کا موقع نہیں ملتا جو وہ آج کر رہے ہیں- شاید وہ اسکے بعد بھخموش نہ ہوتے مگر کم از کم ہمارا ضمیر تو مطمئن ہوتا لیکن ہم نے ادارے کو بد نامی سے بچانے کے لئے کبوتر کی طرح اپنی آنکھیں بند کر لیں- اور خود اس ادارے کے جائز دفاع کے حق سے بھی دست بردار ہو گئے -






دینی جماعتیں سیاست سے کسی طرح دست بردار ہونے پر راضی نہیں لیکن یہ بھی آئین اور قانون کی حکمرانی کے مسئلے پر اداروں پر تنقید کو گناہ سمجھتی ہیں،اور خاموشی اختیار کرنے کو مصلحت کا تقاضا جانتی ہیں- بلکہ انکے ذمہ داران کا صاف کہنا ہے کہ ہم فوج سے تصادم نہیں چاہتے- اور اسی لئے بعض اوقات اپنے کارکنان کے ماورائے عدالت اغوا اور بعد ازاں ما ورائے عدالت قتل پر بھی خاموش رہتی ہیں اور ایسا آج سے نہیں کوئی دو دھائیوں سے ہو رہا ہے- کیا اس طرز عمل کے بعد بھی عوامی سیاست کرنے کا جواز بنتا ہے؟ رواں قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں بلوچستان کے سیاسی رہنما اختر منگل کا کہنا تھا کہ ہم سے زیادہ دینی جماعتوں کے کارکنان خفیہ اداروں کی قید میں ہیں لیکن باوجود توجہ دلانے کے یہ جماعتیں اس مسئلے پر آواز اٹھانے پر راضی نہیں- ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم اور اسکی قیادت میں اس کا شعور ہی نہیں پایا جاتا کہ یہ کیوں اہم ہے کہ ملزم کا بہر صورت ٹرائل ہونا چاہیے- انسانی حقوق کے چارٹر، اسلامی قانون اور پاکستانی آئیں کے مطابق یہ ملزم کا حق ہے- عدالتی کاروائی اور ملزم کو اپنے دفاع کا حق دیئے بغیر اسے غائب کرنے یا ماورائے عدالت قتل کرنا دونوں غلط ہیں-






ہم کم علم اور جذباتی قوم ہیں- ہماری قیادت کرنے والے چند مخصوص اشوز پر جذباتی کر کہ ہمیں رلا دیتے ہیں لیکن ہم ان اصولوں کو سمجھنے پر راضی نہیں جو کسی سر زمین پر انسانی بقا کے لئے لازم و ملزوم ہیں- ہم آج تک عافیہ صدیقی کے امریکا کی قید کو روتے ہیں مگر یہ سمجھنے پر راضی نہیں کہ عافیہ کو امریکا کے حوالے کرنے والے، جب سے اب تک چالیس ہزار پاکستانیوں کو غائب کر چکے ہیں اور وہ کوئی غیر نہیں ہیں، ہمارے اپنے ادارے ہیں- ان میں سے ہر فرد عافیہ ہی کی طرح کا انسان تھا- اسکے بھی بچے اور والدین تھے- ہماری سیکولر چھوڑ دینی جماعتوں کے مقریرین عافیہ صدیقی کے مسئلے پر مجمعوں کو رلا دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر اپنے ماننے والوں کو یہ نہیں بتاتے کہ اصل جرم ماورائے عدالت گرفتاری ہے- اصل جرم قانون توڑنا ہے جو کسی امریکی سے پہلے ہمارے اپنے اداروں نے توڑا ہے-






ہمارے دین اور کتاب کے مطابق انصاف کی بات کرنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن ہمارے علماء اور مقریرین سماجی انصاف کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کم نظر آتے ہیں- جب ایک فرد کے بنیادی انسانی حقوق کو پامال کیا جاتا ہے تو دنیا کے ہر فرد کے انسانی حقوق خطرے میں ہوتے ہیں- لیکن ہم انسان مسلمان ان غائب ہونے والوں اور ماورائے عدالت قتل ہو جانے والوں پر خاموش رہ کر قانون اور آئین کی دھجیاں بکھیرنے والے اداروں کی پیٹھ تھپکتے ہیں-






ہمارے ہاں ادارہ سازی نہیں وقتی جوش اور جذبے کو فوقیت حاصل ہے- تعریف کے مطابق ادارے دراصل اصولوں کی بنیاد پر بننے والے قوانین ہیں جنکا تسلسل کسی بھی انسانی معاشرے کی بقا کے بنیادی لوازم میں سے ہے- جب ہم ملکی سلامتی کے نام پر چند مخصوس اداروں کو قوں توڑنے کی حمایت کرتے ہیں تو در اصل عوام کے دل سے قانون کے احترام کو ختم کرنے کے جرم میں شریک ہوتے ہیں- چند سال قبل ہجویری یونیورسٹی کی ایک ٹیڈ ایکس ٹاک میں جاوید چودھرے نے بابائے قوم قائد اعظم کے چند واقعات شئیر کے جنکے مطابق متحدہ ہندوستان میں قائد نے انگریز کے قوانین کے مطابق سائیکل پر لائٹ نہ لگانے والوں سے کھا تھا کہ وہ مستقبل میں پاکستانی مملکت کی شہری بننے کے اہل نہیں کیونکہ وہ قانون کا احترام نہیں کرتے- دور حاضر کے عظیم مفکر ابو الاعلیٰ مودودی نے اپنے پیرو کاروں کو قائد کی طرح ہر حال میں ملکی قانون کے احترام کا سبق دیا لیکن آج مجھے کوئی ایسی سیکولر یا دینی قیادت نظر نہیں آتی جو ہونے کارکنان کو آئین کی اہمیت کے نظریے سے مسلح کرے-




نقیب کی خوبصورتی اور بچوں کی معصومیت پر پاکستانی عوام کے جذبات اپنی جگہ مگر کیا اس سے قبل جو لوگ مارے گئے وہ کیا کسی کے بچے نہ تھے؟ یا ان کے اپنے معصوم بچے نہ تھے؟ اور مرنے سے زیادہ جو لوگ تا حال غائب ہیں؟ انکے خاندانوں کی تڑپ مرنے والوں سے کہیں بڑھ کر ہے- اور اس سب کے ذمہ دار اصل میں قانون توڑنے والے ادارے اور اس قانون شکنی پر خاموش رہنے والی سیاسی، دینی اور علمی قیادت اور خود عوام ہیں-





الله کے عذاب کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کسی قوم سے آئین اور قانون کی حکمرانی کا شعور اٹھا لیا جائے- میرے نزدیک شعور کے فقدان میں حکومت اور اسکے اداروں کے ساتھ ساتھ میڈیا، قوم کی علمی اور دینی قیادت کرنے والے، تعلیمی نظام سب ذمہ دار ہیں جو ایک شہری کو اسکے حقوق و فرائض کا شعور دینے میں ناکام ہیں- ہم سب عافیہ صدیقی، نقیب الله ، خلیل کے خاندان اور دہشت گردی کے نام پر غائب ہونے اور مارے جانے والوں کے مجرم ہیں- تزئین حسن

No comments:

Post a Comment