Friday, December 7, 2018

آبادی میں اضافہ: قوموں کے لئے رحمت یا زحمت؟

آبادی میں اضافہ: قوموں کے لئے رحمت یا زحمت؟


تزئین حسن

رائے حارث منظورکا تعلق راولپنڈی شہر سے ہے، وہ2004 ء میں پیدا ہوا، 2012ء میں اس کے والدین نے اسے چوتھی جماعت میں اسکول سے اٹھا لیا اور گھر میں پڑھانا شروع کردیا۔ اگلے سترہ ماہ میں حارث نے پانچویں جماعت سے لے کر کیمبرج سسٹم کے تحت اولیول کا امتحان جو عام طور سے بچے پندرہ سے سترہ سال کی عمر میں پاس کرتے ہیں صرف نو سال کی عمر میں پاس کرکے ورلڈ ریکارڈ قائم کیا۔

یاد رہے کہ کیمبرج یونیورسٹی کا یہ سسٹم نوے ممالک میں رائج ہے، ہر سال لاکھوں بچے اس امتحان میں بیٹھتے ہیں۔ حارث اس امتحان میں ریکارڈ بنانے والا پہلا پاکستانی بچہ نہیں تھا، اس سے قبل چنیوٹ سے تعلق رکھنے والی ستارہ بروج اکبر نے گیارہ سال کی عمر میں او لیول کا امتحان پاس کیا۔ دنیا کی کم عمر ترین مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل مرحومہ ارفع کریم کا تعلق بھی پاکستان سے تھا۔2013ء ہی میں ہارون طارق نے تین سال کے عرصے میں 47 او لیول کورسز پاس کر کے ایک اور عالمی ریکارڈ بنایا۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی بچوں کو اس میدان میں عالمی ریکارڈ قائم کرنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ مڈل اور لوئر مڈل کلاس گھرانوں کے ان بچوں کو جب مناسب رہنمائی اور ڈائریکشن ملتی ہے تو یہ کوئی مقابلہ نہیں دور دور تک کی مثال بن جاتے ہیں-


پاکستان کم عمر ترین آبادی والا ملک
آج کم عمر اور با صلاحیت آبادی کسی بھی حوالے سے ملک کا سرمایہ تصور کی جاتی ہے، دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک اپنی آئندہ ترقی کے لئے جوان آبادی کو ضروری سمجھتے ہیں جو بلند شرح پیدائش کے بنا ممکن نہیں۔ ہماری تحقیق کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کی کم عمر ترین آبادی والے ممالک میں ہوتا ہے۔ کنٹری میٹر نامی ادارے کے اعدادوشمارکے مطابق اس وقت جرمنی میں اوسط عمر 45.9، امریکہ میں 37.6، روس میں 38.7، جاپان میں 46.3، جبکہ چین میں37 سال اور ترکی میں 31.5 سال ہے۔
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ 2017 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی اوسط عمر 22 سال اور بھارت کی اوسط عمر 26.5 سال ہے۔اس طرح پاکستان کی آبادی ان تمام ملکوں سے زیادہ جوان ہے- مگر یہ بات یاد رہے کہ آبادی ملکی ترقی کے لئے سرمائے کا کردار اُسی وقت کر سکتی ہے جب ہم اسے موثر پلاننگ کے ساتھ مناسب تعلیم اورتربیت دے کر ملکی معیشت کا حصہ بنانے میں کامیاب ہوں۔ اسکے لئے سرکاری سطح پر بھی اقدامات کی ضرورت ہے اور این جی اوز یعنی غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے بھی جس کا ایک بہت بڑا نیٹورک پاکستان میں پہلے سے موجود ہے-

آئیے! آبادی کے حوالے سے دنیا بھر کے مختلف ملکوں کو درپیش مسائل کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔
سن 2017 میں شائع ہونے والی یورپ کی آبادی کے بارے میں ’برلن انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن اینڈ ڈویلپمنٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی آبادی میں یورپ خصوصاً یورپین یونین کا حصہ معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپی معیشت اس وقت دنیا کی کامیاب ترین معیشت ہے لیکن اس رپورٹ اور متعدد تحقیقات کے مطابق دنیا میں سب سے کم شرح پیدائش اِس وقت یورپ میں ہے اور سب سے زیادہ اوسط عمر بھی یورپ میں ہی ہے۔ یاد رہے کہ یورپ میں لاتعداد تحقیقی ادارے اور تھنک ٹینکس مستقبل میں آبادی کی کمی سے پیش آنے والے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے مصروف عمل ہیں لیکن تاحال خبریں کچھ اچھی نہیں ہیں۔

مذکورہ بالا رپورٹ کے مطابق جرمنی میں آنے والی نسلوں میں کام کرنے والے آہستہ آہستہ پنشن لینے والے بوڑھوں کے مقابلے میں کم ہوتے جائیں گے اور مینوفیکچرنگ اور خدمات کی انڈسٹری کو مطلوبہ افرادی قوت نہیں مل سکے گی۔ یاد رہے کہ یورپی یونین کی آبادی اس وقت بھی روس کی آبادی سے تین گنا اور امریکا کی آبادی سے ڈیڑھ گنا زیادہ ہے۔

باقی یورپ کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔خوش حال یورپ اور بہت سے دوسرے مغربی ممالک کے ارباب اختیار آبادی میں مسلسل کمی سے شدید تشویش کا شکار ہیں۔ صورت حال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کسی قوم کی بقا کے لئے آبادی کی شرح پیدائش میں جس کم سے کم اضافہ کی ضرورت ہوتی ہے اکثر مغربی ممالک اس حد تک نہیں پہنچ پاتے۔ مغرب کی لاتعداد یونیورسٹیز اور تھنک ٹینکس میں اس موضوع پر تحقیق ہو رہی ہے۔ اس وقت یورپ بالخصوص جرمنی خوش حالی اور معاشی ترقی کے رول ماڈل ہیں لیکن اگر آبادی میں کمی کی شرح اسی رفتار سے جاری رہی تو چند دہائیوں بعد باقی یورپ آبادی میں کمی کی وجہ سے معاشی بحران کا سامنا کر سکتا ہے۔

زندہ قومیں آنے والے مسائل کے حل ایک آدھ صدی پہلے تحقیق کے ذریعے ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ’برلن انسٹیٹیوٹ‘ کے ڈائریکٹر رینہر کولینگس کا یہ کہنا ہے کہ عالمی منظر نامہ میں اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لئے یورپ کو آنے والے دور میں جن جدید اور اختراعی خیالات و افکار اور تجدیدی عمل پسندی کی ضرورت ہے وہ نوجوانوں کے بغیر ممکن نہیں جن کی تعداد بہت تیزی کے ساتھ کم ہو رہی ہے۔

برلن انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق اکیسویں صدی میں معاشی خوشحالی کے لئے سب سے اہم سرمایہ زرعی زمینیں، قدرتی معدنیات یا انڈسٹریل پلانٹس نہیں بلکہ ملک کی افرادی قوت میں شعور اور آگاہی اور اس کی فنی صلاحیتیں ہیں۔ رینہر کا کہنا تھا:’’ اب وہی ملک اور خطے ترقی کریں گے جو اپنے انسانی سرمائے کو مسلسل ترقی دینے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ خدمات اور معلومات پر قائم اس نئی دنیا میں باقی ممالک خسارے میں ہوںگے۔ یعنی محض آبادی میں اضافہ نہیں بلکہ اسے انسانی سرمائے میں بدلنے کے لئے علم، شعور، آگاہی اور فنی تربیت دینا ناگزیر ہے۔ اس انسانی سرمائے کی تشکیل میں تعلیمی نظام کا بہت بڑا کردار ہے۔ سوال یہ کہ وطن عزیز میں اس انسانی سرمائے کی ترقی کے لئے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟ کیا ہم ایک ہجوم اور بھیڑ اکٹھی کر رہے ہیں یا اس سمت کوئی مثبت پیش قدمی ہو رہی ہے؟


بھارت اور پاکستان کا موازنہ

پچھلے دنوں انڈیا کے معروف رائٹر، سفارت کار اور اب سیاستدان ششی تھرور کی ایک ٹیڈ ایکس ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ وہ اس بات پر بہت نازاں نظر آتے ہیں کہ انڈیا ایک بہت ہی جوان آبادی کا حامل ملک ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق انڈیا کی 29.5 فیصد آبادی 15 سال سے کم عمر ہے جبکہ جرمنی کی صرف 13 فیصد آبادی، ترکی کی 26 فیصد، سعودی عرب کی تقریباً 30 فیصد اور امریکا کی 20 فیصد آبادی 15 سال سے کم عمر ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کی 35 فیصد آبادی 15 سال سے کم عمر ہے۔ اس طرح پاکستان ان تمام ممالک سے زیادہ کم عمر لوگوں کا ملک ہے۔


انسانی سرمایے یا مستقبل کی افرادی قوت کے حوالے سے پاکستان کو اللہ نے مالا مال کر رکھا ہے کہ اس کی جوان آبادی ان تمام ممالک سے زیادہ جوان ہے لیکن یہ آبادی اسی وقت ہمارا سرمایہ بن سکتی ہے جب ہم موثر پلاننگ سے مناسب تعلیم اور تربیت دے کر اپنی معاشرت اور معیشت دونوں کی بہتری کے لئے استعمال کر سکیں۔ تاہم جب پاکستان میں تعلیم اور تربیت کے منظر نامہ کا جائزہ لیتے ہیں تو صورتحال زیادہ روشن نظر نہیں آتی۔


جہاں تک نوجوانوں میں شرح تعلیم کا سوال ہے تو پاکستان میں15 سے 24 سال کے لڑکوں میں81 فیصد جبکہ لڑکیوں میں تقریباً 70 فیصد خواندہ افراد ہیں جبکہ انڈیا اپنی کثیر آبادی اور مسائل کے باوجود اس معاملے میں ہم سے آگے ہے۔ ہندوستانی لڑکوں میں یہ شرح 92 فیصد جبکہ لڑکیوں میں 87 فیصد ہے۔ یعنی بھارت کی ناریاں تعلیم کے معاملے میں ہمارے لڑکوں سے آگے ہیں۔

سعودی عرب شرح تعلیم کے لحاظ سے پاکستان اور بھارت سے آگے



تعجب کی بات یہ کہ سعودی عرب جیسا قدامت پسند ملک تعلیم کے معاملے میں بھارت اور پاکستان دونوں سے آگے ہے جہاں نوجوان لڑکوں میں شرح تعلیم 94 فیصد اور لڑکیوں میں91 فیصد ہے۔ یہ تمام اعداد و شمار کنٹری میٹر نامی ویب سائٹ سے لئے گئے ہیں جو آبادی کے حوالے سے تازہ ترین اعداد و شمار مرتب کرنے کا دعویٰ رکھتا ہے۔ ہم پسند کریں یا نہ کریں بہرحال ٹیکنالوجی، ریسرچ اور میڈیا کے شعبے میں بھارت اپنی کثیرآبادی، بے انتہا غربت اور لا تعداد مسائل کے باوجود عرصہ تیس سال سے اپنی افرادی قوت کو بہت تیزی سے آگے لا رہا ہے۔

کیا آبادی میں کمی ملکی ترقی میں واقعی رکاوٹ ہے؟

دوسری طرف وطن عزیز میں یہ خیال ایک عقیدے کی مانند پھیلا ہوا ہے کہ ہماری بڑھتی ہوئی آبادی ہماری ترقی کی راہ میں حائل ہے مگر جب ہم بین الاقوامی منظر نامہ کا جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ چین اور بھارت اس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا میں پہلے اور دوسرے نمبر پر ہیں، عرصے سے تیز ترین جی ڈی پی کے لحاظ سے بھی دنیا بھر میں ٹاپ پر ہیں۔ سوال یہ کہ اگر آبادی ہی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے تو یہ دونوں ممالک یہاں تک کیسے پہنچے؟

اس کا جواب معروف ٹیکنالوجی فرم ’ایپل‘ کے سی ای او ٹم کک دیتے ہیں، دسمبر2017 ء کے اواخر میں گلوبل فورچیون فورم کے دوران ان کا کہنا تھا کہ چین کی سب سے بڑی خوبی اس کی افرادی قوت کی کوالٹی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چین کے بارے میں یہ تاثر کہ یہ محض سستی لیبر مہیا کرنے والا ملک ہے، اب ختم ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چین میں دو ملین ایپلیکیشن ڈویلپرز موجود ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ چین کے لوگ انجینرنگ اور مینوفیکچرنگ کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں اور بہترین کاروباری سمجھ کے مالک ہیں۔

انڈیا کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی انتخابی مہم کے دوران سو کروڑ کی آبادی کا ذکر اپنی طاقت کے اظہار کے طور پر کرتے رہے ہیں۔ آج کی دنیا میں جہاں جنگیں معاشیات کی بنیاد پر لڑی جاتی ہیں اور جہاں cut-throat competition کا محاورہ زبان زد عام ہے تو بلا شبہ سو کروڑ کی مارکیٹ کو کسی بھی ملک کی طاقت گردانا جائے گا اور انڈیا شدید غربت کے باوجود بھی اپنی اس طاقت کو بیرونی تعلقات اور معاشی معاہدوں میں بخوبی مؤثر طریقے سے استعمال کر رہا ہے۔

اس کے علاوہ ہم اکثر اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک سے لے کر امریکا، کینیڈا اور یورپ تک کے شاپنگ مالز چین کی مصنوعات سے بھرے ہوتے ہیں۔ جب انڈیا اور چین اپنی آبادی کو اپنی معیشت کی بہتری کیلیے استعمال کرسکتے ہیں توکیا بڑھتی ہوئی آبادی صرف پاکستان ہی کی ترقی میں رکاوٹ ہے؟

کیا ہم اب بھی اسی فرسودہ سوچ کے پیچھے چلتے رہیں گے؟
آج عالمی منظر نامے میں یہ ایک فرسودہ سوچ ہو کر رہ گئی کہ کثیر آبادی ترقی کی راہ میں حائل ہے مگر ہمارے منصوبہ ساز اب تک اسی نکتے پر اٹکے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم موجودہ آبادی کو اور مستقبل کے سٹیٹیکل ڈیٹا کو سامنے رکھ کر نوجوان آبادی اور لامحدود وسائل کی بنیاد پر تربیت فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کریں۔بلاشبہ نوجوانوں کی تعلیم اور تربیت کا بہتر انتظام نہ ہو ، انھیں ریاست کے معاشی نظام کا کارآمد حصہ نہ بنایا جا سکے تو یہ بڑھتی ہوئی آبادی کئی مسائل کو جنم دی سکتی ہے مگر اسی بڑھتی ہوئی آبادی کی مناسب تعلیم اور تربیت کی تھنک ٹینکس اور ریسرچ سینٹرز کے ذریعے مؤثر پلاننگ کر لی جائے تو ان مسائل سے نمٹنا بھی آسان ہو جائے اور ہم اپنی افرادی قوت کو مثبت طور پر ملک کی ترقی کے لئے بھی استعمال کر سکیں۔


بہبود آبادی کے حوالے سے موجودہ حکومت کے اقدامات نے مجھے اس فیچر کی یاد دلا دی جو کوئی ڈیڑھ سال پہلے لکھا-


خان صاحب آپ تو خود آبادی کے حوالے سے اس مغربی منظر نامہ سے واقف ہیں- صوبہ سرحد کے تعلیمی منظر نامہ میں آپکے اقدامات سے توقع تھی کہ آپ اب ملکی سطح پر نوجوانوں کی مناسب تربیت کے لئے کا اقدامات پلان کریں گے- آپ بھی اسی گھسی پٹی ساٹھ کے عشرے کی سوچ کے پیچھے چل پڑے؟



No comments:

Post a Comment