Friday, December 7, 2018

خدا را پاکستانی بچوں سے انکی تاریخ کا شعور نہ چھینو


خدا را پاکستانی بچوں سے انکی تاریخ کا شعور نہ چھینو !!
تاریخ کا شعور ایک قوم کو جوڑنے میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ انگریزی کے معروف ادیب جارج اورویل کا قول ہے، ’’اگر کسی قوم کو تباہ کرنا چاہتے ہو تو اس سے اس کی تاریخ کا شعور چھین لو۔‘‘ اور ہم عملاً ستر سال سے یہی کر رہے ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں رہائش اور ہوم اسکولنگ کے دوران اپنے بچوں کی کتابیں پوری پوری پڑھنا میرا دلچسپ مشغلہ رہا۔ بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا اور خوشی ہوتی کہ یہ بچے خوش قسمت ہیں جنہیں اپنے بچپن میں ہمارے مقابلے میں بہت بہتر دینی اور دنیاوی نصاب میسر ہیں۔ شہر میں انگریزی میڈیم اسکول نہ ہونے کی وجہ سے بچے کوئی دو سو کلو میٹر دور تبوک شہر کے ایک انڈین اسکول میں رجسٹرڈ تھے، اور اسکول سسٹم کے تحت ان کا ممتحن سال میں ایک مرتبہ آکر امتحان لیتا، مگر بچوں کو پڑھانا اور نصاب کی تکمیل میری ذمہ داری تھی۔
غالباً 11-2010ء کی بات ہے۔ ہوا یوں کہ بچوں کے انگریزی کے انڈین نصاب میں بچندری پال نامی خاتون کے بارے میں ایک باب تھا۔ یہ بھارت کی پہلی خاتون تھیں جو ماؤنٹ ایورسٹ تک پہنچیں۔ بچوں کےلیے لکھے گئے اس مختصر سے مضمون میں مصنف نے کوہ پیما خاتون کی زندگی اور مشکلات سے لڑجانے والی فطرت کو بہت خوبصورتی سے کہانی کی صورت سمویا ہوا تھا۔ بھارتی نصاب پڑھاتے ہوئے میری کوشش ہوتی کہ جہاں ایسے موضوعات سامنے آئیں جن سے بچے کو اس کی قومی شناخت دی جارہی ہو اور اس پر فخر کرنا سکھایا جارہا ہو، وہاں میں بچوں کو پاکستانی کی حیثیت سے بھی موضوع کے حوالے سے شناخت دینے کی کوشش کروں۔ 'شناخت دینے' سے میرا مطلب ہے کہ بچہ پاکستانی ہونے پر فخر محسوس کرے۔ اس سے قطع نظر کہ ماؤنٹ ایورسٹ فتح کرنا کوئی قابل ذکر کام ہے یا نہیں، مجھے اپنے بچوں کو مطمئن کرنا تھا۔ انہیں بتانا تھا کہ پاکستانیوں نے بھی کتنے بڑے بڑے کام کر رکھے ہیں۔ 2011ء تک کسی پاکستانی خاتون نے ماؤنٹ ایورسٹ سر نہیں کیا تھا، مگر میرے علم میں تھا کہ مردوں میں یہ کام کوئی کرچکا ہے۔ مگر نصاب میں تو دور کی بات، نذیر صابر یا کسی دوسرے پاکستانی کوہ پیما کے بارے میں اخبارات میں بھی ایک آدھ مضمون ہی مشکل سے خانہ پری کے طور پر ہی شائع ہوا ہوگا۔ الیکٹرانک میڈیا کے کسی پروگرام کا کم ازکم مجھے علم نہیں۔ ہمارے مارننگ شوز کے اینکرز کو بھی شادی بیاہ کی رسموں اور ہانڈیوں سے فرصت نہیں۔ عام طور سے وہ صرف اداکاروں اور کرکٹرز ہی کو قوم کےلیے سلیبریٹیز بنا کر پیش کرتے ہیں۔ وہ دن گئے جب مستنصر حسین تارز سے مارننگ شو کروایا جاتا تھا۔
قصہ مختصر میں نے گوگل کیا اور فیس بک پر نذیر صابر صاحب سے رابطہ کیا۔ انہوں نے کمال شفقت سے مجھے اپنے بارے میں اور پاکستانی کوہ پیماؤں کے بارے میں ایک غیرمعروف عسکری اخبار کا لنک بھیجا جس کی مدد سے میں نے بچوں کو بتایا کہ پاکستان میں بھی ایسے کوہ پیما پائے جاتے ہیں جو ماؤنٹ ایورسٹ تک پہنچ چکے ہیں۔ میرا یقین ہے کہ اگر ہم اپنے بچوں سے قوم کےلیے اور دنیا کےلیے کوئی مثبت کام لینا چاہتے ہیں تو ہمیں انہیں پاکستانی کی حیثیت سے اپنی شناخت پر فخر کرنا سکھانا ہوگا۔ دنیا بھر میں نصاب اس کام کو انجام دیتا ہے اور میڈیا اسے سپورٹ کرتا ہے۔ آپ ذرا ہالی وڈ کی فلموں پر نظر دوڑائیے۔ معرکہ کہیں بھی ہو، آپ کو ہر جگہ امریکی ہیرو نظر آئیں گے؛ خصوصاً جب ایک سے زیادہ قومیں فلم کا موضوع ہوں، چاہے وہ دوسری جنگ عظیم میں برما کے محاذ کی بارے میں بننے والی فلم ’’برج آن دی ریور کوائی‘‘ ہی کیوں نہ ہو جس میں تاریخی طور پر امریکیوں کا کوئی کردار نہیں تھا۔ یہی حال بالی وڈ کا ہے کہ ان کے فوجیوں سے زیادہ بہادر کوئی نہیں ہوتا۔ لیکن اگر پاکستان میں پاکستانیوں کے کسی حقیقی کارنامے کا نام بھی لیں تو ہمارا روشن خیال طبقہ اسے پروپیگنڈا کہہ کر مسترد کردے گا۔ حسن نثار جیسے دانشور اسے قوم کو دھوکے میں رکھنا گردانیں گے۔
انڈین کورس میں باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ اس مقصد کی طرف پیش قدمی نظر آئی۔ چوتھی جماعت کے انگریزی کے نصاب میں کارگل کی جنگ میں کام آنے والے ایک سپاہی کے بارے میں پڑھ کر تعجب ہوا کہ بھارتی کورس کس قدرتازہ ترین موضوعات کے ذریعے اپنی قوم کی شناخت بنا رہا ہے۔ آج یہ بچے جب ایک سپاہی کو ہیرو کے طور پر دیکھیں گے تو کل ان کے دل میں بھی وطن کےلیے کچھ کرنے کی خواہش ہوگی۔ مضمون میں داستان گوئی کی جدید ٹیکنیکس کو بہت مہارت کے ساتھ اس سپاہی کا امیج بنانے اور بلند کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ ہمارے ہاں تو کارگل کی جنگ کو اب تک کرنٹ افیئرز ہی سمجھا جاتا ہے۔ ٹی وی ٹاک شوز یا اخباری مضامین میں مخالف کو زیر کرنے کے لیے ہی اس پر بات ہوتی ہے۔ پچھلے دنوں ایک بھارتی اخبار میں ہی ایک چھوٹی سی خبر کارگل کی جنگ میں کام کرنے والے کسی بھارتی  پائلٹ کی تھی جس کا کہنا تھا کہ ایک پاکستانی ائیر فورس افسر  نے اس کی جان بچائی۔ وہ ایسے کہ کسی حملے میں پسپائی کے نتیجے میں جب وہ پاکستانی سپاہیوں کے ہاتھوں پکڑا گیا تو اسے اپنی موت یقینی نظر آنے لگی، لیکن مذکورہ  افسر نے یہ کہہ کر اس کی حفاظت کی کہ یہ جنگی قیدی ہے اور اسے مارنا غلط ہے۔ سبحان اللہ جینوا کنونشن کا ڈھول بجانے والوں ایک منہ پر یہ طمانچہ ہے۔ کیا اسی ایئر فورس افسر پر کوئی باب ہماری کسی نصاب کی کتاب میں شامل نہیں کیا جا سکتا ،جس میں دین کے جنگی اصولوں کے بارے میں بھی ہمارے بچوں کو معلومات دی جائیں کہ جنیوا کنونشن سے چودہ سو سال پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جنگ کے لیے روانہ ہونے والے لشکروں کو کیا ہدایت دی تھیں۔  ابھی کچھ عرصے پہلے  ہارورڈ کے ریسرچ ریسورسز کی ویب سائٹ پر جینو  سائیڈ کی تاریخ پر ایک ریسرچ پیپر پڑھنے کا اتفاق ہوا ، جس میں حضرت ابو بکر  صدیق کی مذکورہ تقریر کے اقتباسات نقل کے گئے تھے کہ  انہوں  نے عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں،  جنگ میں حصہ نہ لینے والوں کے ساتھ ساتھ دشمن کی سر زمین کے درختوں کو  نقصان پہنچانے  تک سے  منع فرمایا تھا - یہ  وہ وقت تھا جب  ماحولیات پر بحث  کا آغاز ہونے میں  بھی کوئی چودہ سو سال باقی تھے- کسی کو نہیں معلوم تھا کہ اوزون لیئر ٹوٹنے والی ہے- 
میں نے اسی زمانے میں ایک انڈین چینل پر ایک ٹیلی فلم کارگل میں کام آنے والے سپاہی کے والدین کے بارے میں دیکھی۔ یاد رہے کارگل کے ایڈونچر کو اس وقت کم ہی عرصہ گزرا تھا۔ ہمارے ہاں کب ہم نصاب میں ذہن سازی کے لیے داستان گوئی کو ذریعے کے طور پر استعمال کریں گے۔ چلیے کارگل نہ سہی، آپ زلزلے کے امدادی کاموں کے دوران شہید ہونے والے کسی فوجی یا سویلین پرکوئی ڈاکیومنٹری بنا لیجیے۔ایک دور میں پی ٹی وی پر ’’الفا براوو چارلی‘‘ اور ’’دن‘‘ جیسے سیریل آتے تھے۔ اب تو پرائیویٹ چینلز کی بھرمار کے باوجود ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں ملتا کہ قوم اور اسکے بچے پاکستان کے فائدے کو اپنا فائدہ سمجھنا شروع کردے۔
اسی طرح ساتویں صدی عیسوی میں گجرات کے ساحل پر فارسی بولنے والے آتش پرستوں کا پہنچنا اور گجرات کے راجہ کا انھیں اس شرط پر پناہ دینا کے وہ مقامی ثقافت اپنائیں گے، پر بھی ایک سبق انگریزی نصاب کا حصہ تھا۔ یاد رہے یہ آتش پرست دور فاروقی میں ایران کی فتح کے بعد انڈیا ہجرت کر گئے تھے اور بعد ازاں پارسی کہلائے، حالانکہ یہ آج تک اپنے آپ کو زرتشت یا Zorastrian کہتے ہیں۔
مجھے یاد ہے اس کے علاوہ ایک معلومات عامہ بلکہ کرنٹ افئیرزکی کتاب بھی ہوتی جس میں امیتابھ بچن، ثانیہ مرزا اور سچن ٹنڈولکر کا باتصویر تذکرہ تھا۔ ہمارے ہاں جاوید میاں داد اور شاہد آفریدی کے بارے نصاب میں تذکرے کا تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس سے آگے بڑھ کر نورالہدیٰ شاہ ، انورمقصود، معین  اختر ، بشریٰ انصاری ، پا کستان کو اسکوائش اور ہاکی میں عالمی تمغے دلوانے والے کھلاڑیوں کے نام بھی کبھی نصاب میں دیکھنے میں نہیں آتے۔ علی معین نوازش علی سمیت بےشمار پاکستانی طلبہ نے کیمبرج سسٹم کے تحت اے اور او لیول کے امتحانات میں متعدد عالمی ریکارڈ قائم کیے اور ثابت کیا کے پاکستانی بچوں کو صحیح سمت اور رہنمائی ملے تو یہ "کوئی مقابلہ نہیں دور دور تک" کی مثال بن جاتے ہیں۔ مگر نصاب میں ان کا تذکرہ تو دور کی بات پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی خانہ پری کے طور پر ہی ان کا تذکرہ کرتے ہیں۔ اصل بریکنگ نیوز بالی ووڈ کے فنکاروں کو آنے والی چھینکوں کے بارے میں ہوتی ہیں جنھیں ہماری آئندہ نسلوں کے لیے سلیبریٹیز یا رول ماڈل کا درجہ دلوانا مقصود ہے۔ ایک مضمون بھارت کی ایسی خاتون کے بارے میں تھا جنہوں نے بچے نہ ہونے کا غم مٹانے کے لیے درخت لگانے شروع کر دیے اور بعد ازاں کوئی بین الاقوامی ایوارڈ حاصل کیا۔ یاد رہے یہ نصاب بھارت کے دو سرکاری نصابوں میں سے ایک تھا۔
عرفہ صدیقی سمیت پاکستان سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں لوگوں نے دنیا بھر میں اور خود پاکستان میں بیشمار خدمات انجام دیں مگر ان کو نصاب میں پذیرائی دینا ہماری پریکٹس نہیں۔ ایسے میں ثمینہ بیگ یا کسی بھی پاکستانی کوہ پیما کے بارے میں کوئی مضمون اگر سرکاری یا پرائیویٹ کسی بھی نصاب میں شامل ہوگا تو مجھ سمیت بہت سے اپنی شناخت پر فخر کرنے والے پاکستانیوں کو خوش گوار حیرت ہوگی۔ ہمارے ہاں مغرب کی تقلید میں ملالہ اور گلالئی کی بہن پر بات کرنا تو فخر کا باعث سمجھا جاتا ہے، مگر جو پاکستانی خواتین معمولی وسائل میں غیر معمولی کام کر رہی ہیں ان کا ذکر شاید ہی کیا جاتا ہو۔ پچھلے سال پاکستان کے ایک انتہائی مؤقر انگریزی اخبار میں کے ٹو بیس کیمپ تک پہنچنے والی ایک ٹیم کے بارے میں مضمون پڑھ کر بہت افسوس بلکہ صدمہ ہوا کہ ایڈیٹر کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ کے ٹو دنیا کی دوسری سب سے اونچی پہاڑی چوٹی ہے؛ یا کسی وجہ سے انہوں نے اس حقیقت کا اظہارمناسب نہیں سمجھا۔ مضمون کے آغاز میں کے ٹوکا تعارف محض پاکستان کے سب سے بلند پہاڑ (K2 — the highest mountain in Pakistan) کے طور پر کروا کرعزت افزائی کی گئی تھی۔ ایسی خبریں یا مضامین جب پاکستانی میڈیا میں نظر آتے ہیں تو سچی بات ہے، دل بہت بے چین ہوتا ہے کہ پاکستانی نصاب اور میڈیا قوم کے بچوں اور بڑوں کو پاکستانی سر زمین اور شناخت پر فخر کرنا کیوں نہیں سکھاتے؟ پاکستانی الیکٹرونک نیوز میڈیا دنیا کا سرگرم ترین میڈیا ہے مگر پاکستانی سر زمین، معاشرے اور ثقافت کے مثبت پہلو سامنے لانے میں اس کا کیا کردار ہے؟ اس بات کی تو امید ہی فضول ہے کہ ہمارے بچوں کو چھوڑ، پڑھے لکھے بڑوں کو بھی یہ حقیقت معلوم ہو کہ دنیا میں آٹھ ہزار میٹر سے بلند کل چودہ چوٹیاں ہیں جن میں سے پانچ پاکستان میں ہیں۔ سوشل میڈیا پر کسی حد تک استثنیٰ ہے اور کچھ معلومات موجود ہیں لیکن نصاب اور میڈیا کا اس میں شاید ہی کوئی کردار ہو۔
اس حقیقت کا بھی کم ہی لوگوں کو علم ہے کہ دنیا کے بلند ترین تین پہاڑی سلسلے ہمالیہ، قراقرم اور ہندو کش، تینوں قراقرم ہائی وے پر جگلوٹ کے مقام پر ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ قراقرم ہائی وے پر، جسے پاکستان میں شاہراہ ریشم بھی کہا جاتا ہے، ایک سبق ہمارے بچپن میں اردو کے نصاب کا حصہ تھا مگر بہت سی سادہ حقیقتیں نظر سے اوجھل تھیں۔ میں سوچتی ہوں کہ اگر بھارت میں ایسی ایک بھی چوٹی ہوتی تو کیا بھارت کے بچوں سے یہ حقیقت اس طرح اوجھل رکھی جاتی؟ 2014ء میں کینیڈا منتقلی کے بعد راکیز کے پہاڑی سلسلوں میں گلیشیئرز کے پانیوں کے بہاؤ سے وجود میں آنے والی خوبصورت کھائیوں جنھیں انگریزی میں Canyons کہا جاتا ہے تک سفر کرنے کا تجربہ ہوا تو بعد ازاں ریسرچ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ دنیا کی سب سے گہری کھائیاں قراقرم ہائی وے اور دریائے سندھ کے سنگم پر پائی جاتی ہیں۔ پاکستان کے نصاب یا میڈیا میں کبھی ایسی کوئی بات پڑھنے یا سننے کو نہیں ملی۔
پچھلے سال انڈیا میں موئن جودڑو کے نام سے بننے والی ایک فلم کے ریویو یوٹیوب پر دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ بہت بڑی کاسٹ سے بننے والی اس کمرشل فلم میں ہیرو کو دریائے سندھ کے کنارے امری نامی شہر کا باسی بتایا گیا جو فلم کے آغاز میں کسی مقصد کے لیے موئن جودڑو کا سفر کرتا ہے۔ ریویو میں بھارتی ناظرین فلم کا پریمئیر دیکھنے کے بعد اپنی قدیم تہذیب پر فخر کا اظہار کر رہے تھے۔ ہسٹوریکل ایپک کہلانے والی صنف کی اس فلم میں ظاہر ہے کہیں بھی یہ نہیں بتایا گیا کہ موئن جودڑو کے کھنڈرات آج موجودہ پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ یہ فلم پاکستان میں بھی یقیناً دیکھی گئی ہوگی، مگر شاید کم ہی لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ امری کے کھنڈرات حیدرآباد کے قریب واقع ہیں۔ خود حیدرآباد میوزیم میں تاریخ کی اس اہم دور کے بارے میں امری سے دریافت شدہ نوادرات کی چند انتہائی بھونڈی نقلیں موجود ہیں۔ اصل نوادرات کہاں پائے جاتے ہیں اس کا علم یا تو اللہ کو ہے یا انہیں بیچ کھانے والوں کو۔
دوسری طرف بھارت صرف نصاب کے ذریعے ہی نہیں، بالی وُڈ کی مدد سے بھی اپنی تاریخ کے ذریعے قوم کو شناخت دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ موجودہ پاکستان کے علاقوں کی تاریخ کو ہندوستان کی تاریخ ثابت کر رہا ہے۔ کوئی 2005ء کی بات ہے، میتھ میٹکس کی تاریخ کے بارے میں ایک مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ دنیا کے قدیم ترین mathematician یعنی ریاضی دان کا تعلق انڈیا کے علاقے موئن جودڑو اور ہڑپہ سے تھا۔ پاکستان کے خطوں کی قدیم تاریخ بھارت کی تاریخ سے کہیں زیادہ زرخیز ہے۔ قدرت کی ستم ظریفی ہے کہ انڈیا کا نام جس دریا کے نام سے لیا گیا، وہ اور اس کے کنارے ابھرنے والی دنیا کی قدیم ترین تہذیب کی تمام نشانیاں آج موجودہ پاکستان میں پائی جاتی ہیں۔ مگر اس سے بڑھ کر ہماری بدقسمتی کہ ہمارا نصاب اس تاریخ کو اپنی تاریخ ماننے سے عملاً انکاری ہے۔ اگر اس کا تذکرہ بھولے بھٹکے کسی سبق کا حصہ بنایا بھی جاتا ہے تو ایسے جیسے ہم شرمندہ ہوں کہ پاکستان پر یہ وقت بھی آیا تھا جب یہاں بت پرستی ہوتی تھی، اور لوگ اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذھب پر یقین رکھتے تھے۔
ہمارے سرکاری نصاب کی تشکیل دینے والے عناصر نے ارادتاً نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے پیش نظر ہمارے اس شاندار ماضی سے صرف نظر کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ موئن جودڑو اور ہڑپہ کے بارے میں ایک آدھ مضمون خانہ پری کےلیے موجود ہے، مگر یہ مضامین بچوں کو پاکستان کی تاریخی شناخت پر فخر کرنا سکھانے کےلیے قطعی ناکافی ہیں۔ یہ بجا ہے کہ آج پاکستان میں رہنے والی بیشتر آبادی مسلمان ہے، مگر برصغیر میں ہم میں سے بہت سوں کی جڑیں بہت پرانی ہیں؛ کہیں کہیں ظہورِ اسلام سے بھی بہت پرانی۔ اور آج ہم جس سرزمین پر موجود ہیں، ہمارے دین کے ساتھ ساتھ اس کا متنوع اور شاندار ماضی بھی ہماری شناخت ہے۔ ہمارا دین ہمیں اپنی تاریخی شناخت پر فخر کرنے سے منع نہیں کرتا۔ دوسری طرف اسلامی تاریخ بھی سرکاری نصاب میں انتہائی مختصر اور محدود پڑھائی جاتی ہے۔ مجھے کراچی کے جنریشنز اسکول میں 13-2012 میں اے اور او لیول کے اسٹاف کو اسلام کے ابتدائی ادوار اور قرونِ وسطیٰ کی تاریخ پر لیکچر دینے کا اتفاق ہوا تو اندازہ ہوا کہ سرکاری نصاب سے بہت بہتر اور جامع اسلامیات کا کورس کیمبرج سسٹم کے بچے پڑھتے ہیں۔ سیرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم میں صرف غزوات کا تذکرہ ہی او لیول کے کورس میں بہت مفصل ہے۔ تاریخ کا شعور ایک قوم کو جوڑنے میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ انگریزی کے معروف ادیب جارج اورویل کا قول ہے، ’’اگر کسی قوم کو تباہ کرنا چاہتے ہو تو اس سے اس کی تاریخ کا شعور چھین لو۔‘‘ اور ہم عملاً ستر سال سے یہی کر رہے ہیں۔
چند سال پیشتر بی بی سی کی ڈاکیومنٹریز The Story of India اور The Foot Steps of Alexander دیکھ کر بے چینی ہوئی کہ سکندرِ اعظم نے تو کبھی موجودہ انڈیا کی سرزمین پر قدم ہی نہیں رکھا، وہ تو ستلج کے پار کبھی گیا ہی نہیں، وہ تو موجودہ جہلم سے ہی دریائے سندھ کے ذریعہ مکران کے ساحل اور وہاں سے ایران چلا گیا تھا۔ بین الاقوامی نیوز میڈیا بھی انڈیا کے امیج کو بنانے کے لیے تاریخ کو توڑ مروڑ کر اپنی مرضی کی تصویر دکھانا چاہتے ہیں- اس کے خیبر کے راستے موجودہ پاکستان میں داخلے، اٹک، جہلم، اور چترال اور سوات کے علاقوں تک پہنچنے پر سب تاریخیں متفق ہیں۔ یہ صحیح ہے کے وہ ہند و پاک کی تقسیم سے کوئی دو ہزار سال پہلے اس علاقے میں وارد ہوا مگر اس وقت بھی انڈیا کسی ایک حکمران کے تحت متحد نہیں تھا۔ پتہ نہیں ہم میں سے کتنے ٹیکسلا میں بسائے جانے والے یونانی شہر کے بارے میں جانتے ہوں گے جس کے بہت سے نوادرات برطانوی ماہر قدیمہ کی مہربانی سے آج ٹیکسلا کے میوزیم میں پائے جاتے ہیں۔ مگر بچوں کو نصاب میں ان کے بارے میں بتانے کی کسے فرصت، کہ تاریخ کے یہ ابواب کہیں ایمان کو کمزور کرتے ہیں تو کہیں سیکولرازم اور لبرلزم کی ان بنیادوں کو جو نہیں چاہتیں کہ ہم اپنے ماضی پر فخر کریں۔
یاد پڑتا ہے کہ کوئی ایک دہائی قبل اردو کے سب سے بڑے روزنامے میں ایک مضمون پڑھنے کا موقع ملا جس کے مطابق سکندرِاعظم کے حوالے سے مقدونیوں نے پاکستان میں کوئی یادگار تعمیر کرنا چاہی تو اس پر یہ اعتراض سامنے آیا کہ سکندر کی فوجوں نے تو حملہ کیا تھا اور تباہی مچائی تھی، وہ ہمارا ہیرو نہیں ہوسکتا؛ اس لیے ایسی کسی تعمیر کی گنجائش نہیں۔ غیر ملکی افواج ظاہر ہے یہی کیا کرتی ہیں، لیکن ایسی کوئی یادگار تعمیر ہوتی تو کم از کم ہمارے بچوں کو یہ توعلم ہوتا کے تاریخ کے اس اہم باب سے ہمارا بھی کوئی تعلق بنتا ہے۔ ہم بھی اتنے اہم تھے کہ سکندر کو یہاں آنے کی ضرورت پڑی۔ 
تاریخ کس چڑیا کا نام ہے اور یہ کیوں اہم ہے یہ جان کر ہم کیا کریں گے؟ مگر نپولین کے سنے سنائے اقوال دہرانا ہم کار خیر جانتے ہیں- تاریخ سے نا واقفیت کے با عث ہم  اکثر  نپولین کے اسلام اور قران اور پیغمبر اسلام کے بارے میں متاثر کن مگر بد نیتی پر مبنی اقوال جو اس نے مصر کی مہم کے دوران جامعہ الازہر کے علماء کو شیشے میں اتارنے کے لئے کہے تھے، ایک دوسرے کو سنا کر خوش ہوتے ہیں- الازہر کے اسکالرز کو تو اس سے کیا مرعوب ہونا تھا، خود نپولین کو اپنا عسکری صلاحیتوں سے مالا مال با صلاحیت عسکری دست راست قاہرہ میں چھوڑ کر بھاگنا پڑا بعد ازاں الازہر کے ایک میڈیکل اسٹوڈنٹ نے بغیر کسی آتشیں ہتھیار اسے قتل کر دیا- امت مسلمہ کے اس مایہ ناز سپوت کے ساتھ کیا ہوا ، یہ سن کر مغرب اور مشرق جمال خشوگی کو بھول جائیں گے مگر ہم مسلمانوں کو تاریخ پڑھنے کی فرصت کہاں؟ کوئی سلیمان الحلبی نامی اس نوجوان کو نہیں جانتا  جس نے نپولین کے دست راست فرنچ افواج کے کمانڈر کو آتشیں اسلحہ کے بغیر اپنے انجام کو پہنچایا- اور نہ کوئی یہ جانتا ہے کہ نپولین کو فلسطین میں عکا کے قلعہ کے ناکام محاصرے کے بعد بھاگنا پڑا تو اس نے جنگی قیدیوں کو کس بے رحمی سے مارا- لیکن اس سے قبل برطانیہ کے رچرڈ دی لائن ہارٹ بھی عکا شہر میں ایسا ہی کر چکے تھے- مغربی محققین نے صلاح الدین کی سخاوت بھی ریکارڈ کی اور رچرڈ اور نپولین کی سفاکی بھی - 
دنیا بھر میں تاریخی کھنڈرات کو سیاحت کے فروغ اور اس سے زر مبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کےلیے قومی سطح پر منصوبہ بندی ہوتی ہے، اور ہم نے اسے نظریاتی بنیادوں پر کفر اورایمان کا مسئلہ بنا دیا ہے۔گندھارا کی خوبصورت تہذیب کے بارے میں بھی جو سوات، تخت بائی، پشاور، ٹیکسلا، شاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ افغانستان اور وسط ایشیا تک پھیلی ہوئی تھی، ہم بچوں کو کچھ بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ انگریز کی مہربانی سے پشاور میوزیم ان بیش قیمت نوادرات سے ابلا پڑ رہا ہے، اور اب جو کچھ دریافت ہو رہا ہے اور بہت کچھ ہو رہا ہے وہ ہمارے کرپٹ سیاستدانوں اور حکمرانوں کے طفیل سیدھا باہر برآمد ہو رہا ہے۔ اور وہ ڈالر بھی جو اس نیک کام سے حاصل ہوتے ہیں۔
غالباً پرویز مشرف کے دور میں اسلام آباد میں پاکستان کی تاریخ کے مختلف ادوار کے حوالے سے ایک میوزیم تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ کوشش قابل تعریف ہے، لیکن ایسے میوزیم ہر صوبے میں ہونے چاہییں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 2012 میں راقم کے مشاہدے کے مطابق خود راولپنڈی کے پڑھے لکھے گھرانوں کے بچے اور بڑے بھی اس میوزیم کے وجود سے واقف نہیں تھے۔ یہ بھی ہمارے میڈیا کی مہربانی ہے جو دنیا کے سرگرم ترین میڈیا کے طور پر معروف ہے۔
ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ نصاب کی ان کمیوں کو دور کرنے کےلیے آکسفورڈ جیسے اداروں کو سامنے آنا پڑتا ہے جو پاکستان کے شاندار ماضی کو اس کے بچوں کےلیے مرتب کرتی ہیں، تب بھی ایک طبقہ مذہب کے نام پر اعتراض کرتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ پر آکسفورڈ پریس کی شائع کردہ پیٹرموس نامی مصنف کی لکھی ہوئی آکسفورڈ ہسٹری آف پاکستان سے زیادہ جامع اور عام فہم نصابی کتاب میری نظر سے نہیں گزری۔ لارج سائز پر تین حصوں میں شائع شدہ ان تصاویر سے مرصع کتاب میں پتھر کے ادوار سے لےکر دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کے مختصر تعارف کے بعد سندھ کی تہذیب، ہندو مت اور بدھ مت کی مختصر تاریخ، سکندر اعظم کی آمد اور گندھارا تہذیب سے لےکر مسلمانوں کی برصغیر آمد ، انکی مختلف سلطنتوں کا بیان اور اس کے بعد تقسیم پاکستان کےمراحل کو بڑے ہی دلچسپ اور سادہ انداز میں سمویا گیا ہے۔ یہ کتاب چند سال پیشتر پری اے اور او لیول کے طلبہ کو چھٹی سے نویں تک پڑھائی جاتی تھی۔ غالباً اگلے مراحل کی تیاری کے لیے۔ مگر پاکستان کا سرکاری نصاب سندھ بورڈ ابھی تک تیس چالیس سال پہلے کے فرسودہ نصاب پر مشتمل ہے۔ (میں نے آخری مرتبہ 2013 میں اس کا مشاہدہ کیا۔ شاید اب کوئی تبدیلی آئی ہو) کاش ہمارے سرکاری نصاب مرتب کرنے کےذمہ دار محکمے اور ان کے لاکھوں روپے کی تنخواہ لینے والے افسران کو کبھی خیال آئے کہ وہ کیمبرج سسٹم کی کتابوں پر نظر ڈال کر ہی سرکاری نصاب کو اپ ڈیٹ کریں۔
یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ نوجوان پاکستان کی آبادی کا ساٹھ فیصد ہیں۔ اگر ہم ان سے پاکستان کی ترقی کےلیے کوئی مثبت کردار ادا کروانا چاہتے ہیں تو ہمیں انہیں اسلام اور پاکستانیت کا شعور دینا ہوگا۔ انہیں اپنے دین کے ساتھ ساتھ اس سر زمین پر فخر کرنا سکھانا ہوگا۔ پاکستان سے انتہا پسندی کو ختم کرنے کےلیے بھی پاکستانی نوجوان کو مثبت مقاصد اور سرگرمیوں کی ضرورت ہے۔ اس کےلیے نصاب اور میڈیا، دونوں کا کردار اہم ہے۔ خواندگی کی شرح بڑھانے میں بھی نصاب کے ساتھ ساتھ میڈیا کا کردار ہونا چاہیے۔ نصاب کو جدید خطوط پر استوار کرنا اور اس طرح کرنا کہ نوجوان فرقہ واریت اور لسانی تعصب سے بالا تر ہو کر ایک پاکستانی کے طور پر اپنی شناخت کا ادراک کریں، وقت کی انتہائی اہم ضرورت ہے۔ انتہاپسندی کا خاتمہ کے لئے ، ہمیں اپنے بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی پاکستانیت کی شناخت دینی ہو گی۔ اور اس کے لیے انہیں اسلامی تاریخ کے ساتھ ساتھ اس سرزمین کی تاریخ کا بھی شعور دینا ہو گا جس میں ان کی جڑیں موجود ہیں۔

No comments:

Post a Comment