Thursday, November 22, 2018

مرتدین کے خلاف جنگیں .. تزئین حسن

مرتدین کے خلاف جنگیں .. تزئین حسن
کہتے ہیں عرب کی تاریخ میں کوئی خبر کبھی اتنی تیزی کے ساتھ نہیں پھیلی جتنی آ نحضرت صلیٰ الله علیہ وسلم کی رحلت کی. بہت کم اس بات کا ذکر کیا جاتا ہے کہ اس نازک وقت میں مکّہ اور مدینہ اور اسکے ادر گرد محدود علاقے کو چھوڑ کر پورا عرب بغاوت پر آمادہ ہو گیا تھا. آپکی وفات کے وقت تک پورا جزیرہ نما عرب مطیع ہوچکا تھا مگر رحلت کی خبر سنتے بہت سے قبیلے منحرف ہو گئے. عرب کے طاقت ور ترین قبیلے بنی تمیم کے سردار مالک ابن نویرہ نے زکوات دینے سے انکار کر دیا. نبوت کے کچھ دعویدار آنحضرت صلیٰ الله علیہ وسلم کی زندگی میں پیدا ہو گئے تھے اور کئی یہ خبر سن کر منظرعام پرآ گئے. مسیلمہ، اسود عنسی، طلیحہ، یہاں تک کہ ایک خاتون سجاح بھی اسکے دعویداروں میں شامل ہو گئیں.
مرتد کا لفظ رد سے نکلا ہے جسکا مطلب ہے لوٹا دینا یعنی وہ لوگ جنہوں نے دین کو لوٹا دیا. ان بغاوتوں سے نمٹنے کے لئے حروب الردة یعنی رد کرنے والوں کے خلاف اسلامی تاریخ میں مذکور جنگیں نہ صرف پورے جزیرہ نما عرب کو دوبارہ مدینے کی ریاست کے کنٹرول میں لے آئیں بلکہ سلطنت روم اور فارس پر فتوحات کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوئیں. یہ اسلامی تاریخ کے اہم ترین ابواب میں سے ایک ہے. آئیے دیکھتے ہیں مدعی نبوت کے ساتھ خلیفہ اول رضی الله اور اور انکے مشیر مستقبل کے خلیفہ دوئم رضی الله نے کیا کیا. نبوت کا سب سے طاقتوردعویدارمسیلمہ جنگ یمامہ میں ابو سفیان کی بیوی ہندہ کے غلام وحشی (جس نے فتح مکّہ کے بعد اسلام قبول کر لیا تھا) کے ہاتھوں مارا جاتا ہے. اسود عنسی بھی یمن میں مارا جاتا ہے طلیحہ شکست کے بعد بھاگ کر شام چلا جاتا ہے. شام کی فتح کے بعد اسلام قبول کر لیتا ہے، حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے. یہی نہیں ساسانی سلطنت کے خلاف جنگ قادسیہ، نہاوند اور جلوولہ کے معرکات میں حصہ لیتا ہے. سجاح جس نے روایات کے مطابق مسیلمہ سے شادی اور اتحاد کر لیا تھا مسیلمہ کے مارے جانے کے بعد اسلام قبول کر لیتی ہے. روایات سے ثابت ہے کہ ان دونوں کو معاف کر دیا گیا.
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نبوت کے دعوے سے بڑی گستاخی کیا ہو سکتی ہے؟ اور آنحضرت صلیٰ الله علیہ وسلم کی وفات کی خبر سنتے ہی مرتد ہو جانے والوں سے بڑا مرتد کون ہو سکتا ہے؟ یہ نہ صرف مرتد تھے بلکہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف ہتھیار بھی اٹھائے اور بہت بڑی تعداد میں مسلمانوں کے جانی نقصان کا با عث بنے. صرف ایک جنگ یمامہ میں شہید ہونے والے صحابہ کی تعداد اتنی تھی کہ مدینے کے ہر گھر میں سوگ تھا. حفاظ اتنی بڑی تعداد میں شہید ہوے کہ اسی جنگ کے بعد قران کی تدوین کی ضرورت محسوس ہوئی.
یہ بھی یاد رہے کہ جو لوگ ان خون آشام جنگوں کے بعد مطیع ہو گئے یا جنھیں غلام بنایا گیا انہیں بعد ازاں حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہہ نے خود مسجد کے منبر سے انکی آزادی کے لئے مہم چلائی اور انہیں مسلمانوں سے مشورے کے بعد غیر مشروط طور پر آزاد کر دیا. یعنی ان گستاخوں اور مرتدین کو معاف کرنے والے میرے اور آپکے جیسے مصلحت پسند مسلمان نہ تھے بلکہ آنحضرت صلیٰ الله علیہ وسلم کے قریب ترین ساتھی تھے. یہ بھی یاد رہے کے انہیں مرتدین نے جنھیں معاف کر دیا گیا نے بعد ازاں فارس اور روم کی سلطنتوں کے خلاف معرکوں میں جانفشانی کے ساتھ حصہ لیا. یہ بھی یاد رہے کہ انکی اولاد اور آئندہ نسلیں پوری دنیا میں پھیلیں اور اسلام کو قوت دینے کا با عث بنیں. یہ مالک ابن نویرہ کے قبیلے بنی تمیم کی ایک شاخ تھی جنہوں نے پہلی مرتبہ اٹلی کے جزیرے سسلی کو مسلم دنیا میں شامل کیا.
اب یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر نبوت کے دعویداروں اور مسلمانوں کے خلاف ہتھیار لے کر جنگ کرنے والے مرتدین کو معاف کر دیا گیا تو آج ہمارا رویہ مرتدین یا گستاخی کرنے والوں کے ساتھ کیا ہونا چاہیے؟ یہ بھی یاد رہے کہ انکے خلاف جنگ کی گئی اور انہیں مطیع کرنے کے بعد معاف کیا گیا. سوال یہ ہے کہ آنحضرت کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں کو ایسے ہی چھوڑ دینا چاہئے؟ اور آزادیٔ اظہار کے نام پر جو لوگ لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کر رہے ہیں انہیں خاموشی اور تحمل سے برداشت کرنا چاہئے یا انکے خلاف کوئی کاروائی ہونی چاہئے؟ اس سے بڑھ کر جو لوگ اسلامی شعائر کا سوشل میڈیا پر مذاق اڑا رہے ہیں اور کھلم کھلا نوجوانوں میں الحاد کی تبلیغ کر رہے ہیں انہیں اسکی اجازت ہونی چاہئے یا نہیں؟ 

No comments:

Post a Comment