Thursday, November 22, 2018

ریل کی سیٹی سنی تو دل لہو سے بھر گیا

ریل کی سیٹی سنی تو دل لہو سے بھر گیا
تزئین حسن

سچی بات تو یہ ہے کہ ایک چھوٹے سے جزیرے سے نکل کر ساری دنیا پر حکومت کرنے والی اس قوم کی نوآبادیا ت میں جب ہم سفر کرتے ہیں یا انکی سر گزشت پڑھتے ہیں تو متاثر ہوے بغیر نہیں رہتے. چاہے وہ ما لاکنڈ ایجنسی کا درگئی جہاں ونسٹن چرچل نے اپنی پہلی پوسٹنگ کے دوران اپنی پہلی کتاب Malakand Field Force تصنیف کی. یا طورخم کا ا فغان بارڈر، کینیڈا میں مشرق سے مغرب تک ٤٠٠٠ کلومیٹر لمبی انتہائی دشوار گزر برفانی پہاڑی راستوں سے گزرتی ہوئی ریلوے لائن ہو، یا ساؤتھ افریقہ اور کینیا کے جنگلوں کو قطع کرتی ریل کی پٹریاں. ایسا لگتا ہے اس قوم کو مشکلات سے کھیلنے کا شوق تھا.

آج جب مالاکنڈ ایجنسی کے سفر کے دوران جب ہم درگئی کی ریلوے لائنز پر بان کے
پلنگ بچھے دیکھتے ہیں اور پاک افغان بارڈر پر تڑ ی مڑی ریل کی پٹریاں اور اپنی قسمت کو روتے ہوے درجنوں پل دیکھتے ہیں جو کبھی ریل کی سیٹی کی مسحور کن موسیقی سےلرزتے تھے تو ایک دفعہ تو دل میں یہ خیال ضرور گزرتا ہے کے انگریز واپس کیوں گیا اور یہ کالے انگریز کیوں بٹھا گیا جو اپنے فائدے کے لیے بھی پبلک انفراسٹرکچر بہتر بنانے میں پر تیارنہیں. سچ ہے پاک میں تو اب

ع ریل کی سیٹی سنی تو دل لہو سے بھر گیا

والی کیفیت ہوتی ہے جو حال ان شریفوں اور زرداریوں نے کیا ہے ملک کا اور اس سونے کا انڈا دینے والی مرغی کا جسے ریلوے کہا جاتا ہے.

No comments:

Post a Comment