Friday, March 10, 2017

خدا نخواستہ کہیں بیٹی نہ ہو جائے!

خدا نخواستہ کہیں  بیٹی نہ  ہو جائے! 

Exclusive article on Women's Day written for Batool Magazine.
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر لکھے گئے اس مضمون کا مقصد دو معاشروں میں تقابل نہیں، بلکہ دردمندی کے ساتھ مسلم معاشروں کے ان غیر اسلامی رویوں کی نشان دہی کرنا ہے جن کی وجہ سے ہماری خواتین اور خصوصا بچیاں حقوق نسواں کے نعروں سے متاثر ہو سکتی ہیں. مصنفہ کے نزدیک معاشرے میں صنف نازک کی حیثیت اور کردار سے امت کا عروج و زوال جڑا ہوا ہے.
اسلام کے عروج کے سنہری دور کا تذکرہ آئے تو ہم ہارون الرشید اور مامون الرشید کو ضرور یاد کرتے ہیں. ہمارے خطیب اور مذہبی علمأ ہی نہیں بعض سیکولر اسکالر بھی اس دور کا تذکرہ فخر سے کرتے ہیں جب بغداد اسلامی دنیا کا سیاسی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ تمام دنیا کی علمی امامت کر رہا تھا. اس دور میں دین اور دنیا کے علوم کے حصول کی جو تڑپ مسلم دنیا میں پائی جاتی تھی، اسے معدوم ہوئے صدیاں بیت گئیں. بہت سے اسکالرز اس علمی زوال کا تعلق ہمارے سیاسی زوال سے جوڑتے ہیں مگر اس کی اسباب کی نشاندہی کرنے سے قاصر ہیں کہ جب یورپ نشاۃ ثانیہ کے مرحلے سے گزر رہا تھا تو ہم علمی زوال کا شکار کیوں ہو گئے؟ ہم ماضی کے رونے تو بہت روتے ہیں مگر ہمارے ہاں شاید ہی مسلم قوم کے عروج و زوال کے حوالے سے کوئی سنجیدہ تحقیق ہوئی ہو. دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ہارون اور مامون کو اکثر یاد کرنے والوں میں شاید ہی کوئی ہارون کی ماں خیزران سے واقف ہو اور مامون کی ماں زبیدہ کی زندگی کا احوال جانتا ہو. کوئی تعجب کی بات نہیں کہ جو قوم بیٹوں کو یاد رکھے مگر ماؤں کو بھول جائے، اسے آسمان ثریا سے اتار کر زمین پر پھینک دے. آئیں خواتین کے عالمی دن کے موقع پران ماؤں کو یاد کریں اور آقا صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے تشکیل کردہ معاشرے میں خواتین کی حیثیت پر ایک نظر ڈالیں اوران عوامل کو جاننے کی کوشش کریں جو قوموں کے عروج و زوال کا سبب بنتے ہیں.
کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ تمام طبقات کو ان کے حقوق ادا کیے جائیں اور سب کو ساتھ لے کر چلا جائے. خواتین کے حقوق کی بات آئے تو ہم یہ ثابت کرنے میں لگ جاتے ہیں کہ مغرب کے مقابلے میں اسلام نے خواتین کو وہ حقوق دیے جن کا اس سے پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا اور درحقیقت اس امر میں شک کی کوئی گنجا ئش بھی نہیں کہ میرے سرکار صلیٰ اللہ علیہ وسلم دوسرے پسے ہوئے طبقوں کی طرح ہم خواتین کے لیے بھی رحمت بن کر آئے. مگر اس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ دیگر معاشروں کی طرح مسلم معاشروں میں بھی عملی طور سے خواتین کی حالت دگردوں ہی ہے اور ایام جاہلیت سے تقابل کیا جائے تو اس میں بہت کم کوئی تغیر آیا ہے بلکہ بہت سے معاملات میں ہم تیزی کے ساتھ دور جاہلیت کی طرف مراجعت کر رہے ہیں. کوئی مانے یا نہ مانے اسلام کے اولین دور کے مقابلے میں آج کا مسلم معاشرہ عموما عورت کے وجود کو بہ حیثیت مجموعی تحقیر کی نظر سے دیکھتا ہے اور اسے وہ حقوق دینے پر تیار نہیں جو اسے اللہ اور اس کے رسول نے عطا کیے.
راقم ذاتی طور پر مغربی عورت کے عائلی معاملات میں مغربی معاشرتی رویوں سے بیزاری کی گواہ ہے، مگر ظاہر ہے کہ کسی دوسرے معاشرے کی خرابی ہمارے اپنے معاشرے کی خامیوں کو چھپانے کا ذریعہ نہیں بن سکتی. ہم کتنا بھی اسلام میں عورتوں کے حقوق کی مالا جپیں لیکن جب تک عملی طور پر معاشرے میں اس کی حیثیت کے حوالے سے تبدیلی نہیں آتی، ہم دنیا میں سر اٹھا کر جی سکتے ہیں نہ ہی مسلمانوں کے نشاة ثانیہ کے خواب کی تکمیل ممکن ہے.
فی الوقت ہمارے معاشرے میں تیزی کے ساتھ تبدیلی آ رہی ہے لیکن اس تبدیلی کو خیر کی طرف موڑنے کے لیے اور اپنے خاندانی نظام کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مسلم معاشروں کے ان کلچرل رویوں پر نظرثانی کریں جو براہ راست دین سے متصادم ہیں مگر انھیں دین کا حصہ سمجھا جاتا ہے اور یہ رویہ ہماری بچیوں کو دین سے دور لے جانے کا سبب بن سکتا ہے.
آئیے قرون وسطیٰ کی مسلم عورت کی حیثیت پر نظر ڈالتے ہیں. ہارون کی ماں خیزران ایک یمنی کنیز تھی. اسے بچپن میں کسی نے اغوا کر کے مکّہ لا کر بیچ دیا جہاں سے حج کے دوران دوسرے عبّاسی خلیفہ منصور کے نمائندوں نے اسے شاہی حرم کے لیے خرید لیا اور وہ بغداد پہنچ گئی، جہاں اس سے پہلی گفتگو کے بعد منصور نے اسے اپنے بیٹے اور ولی عہد مہدی کے حوالے کر دیا. خیزران نے بغداد ہی میں عصری علوم کی تعلیم حاصل کی جن میں حدیث، فقہ، فلکیات، ریاضی، شاعری، شامل تھے اور اپنے علم، سیاسی اور قانونی سمجھ بوجھ اور غیر معمولی ذہانت کے باعث مہدی کی پہلی خاندانی بیوی ریتہ (پہلے عبّاسی خلیفہ سفاح کی بیٹی جس کا شجرہ براہ راست آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عبّاس تک جاتا تھا) کی موجودگی میں تیزی کے ساتھ اقتدار کے مراحل طے کیے. مہدی سے شادی کے بعد خیزران نے امور سلطنت میں باقاعدہ حصہ لیا اور مسلم قوم کو ایسے وارث دیے جن پر وہ آج بھی فخر کرتی ہے.
Forgotten Queens of Islam نامی کتاب کی مصنفہ فاطمہ مرنیسی کے مطابق خیزران نے اپنے شوہر مہدی اور بیٹوں ہادی اور ہارون یعنی تین عبّاسی خلفاء کے دور میں اس دور کی سپر پاور پر بلاواسطہ حکومت کی. آج یہ امت اس ماں سے واقف نہیں مگر ایک دور تھا کہ اس کے نام پر سکّے ڈھلوائے گئے اور محل تعمیر کیے گئے. خاندان عبّاسیہ کے بادشاہ جس قبرستان میں دفن ہوتے، اس کا نام خیزران کے نام پر رکھا گیا. ہارون اس کے جنازے میں ننگے پاؤں قبرستان تک گیا. یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہارون کوئی حکومتی فیصلہ اپنی ماں سے مشورے کے بغیر نہ کرتا اور ایسا وہ علی الاعلان کرتا تھا اور اس میں کوئی شرم محسوس نہ کرتا. اسی طرح ہارون کی بیوی زبیدہ بھی امور سلطنت میں اس کی مشاورت کرتی رہی. ہم پھر یاد دلا دیں کہ عورت کی یہ حیثیت مسلمانوں کے انتہائی عروج کے دور میں تھی اور ان حقوق کے طفیل تھی جو میرے آقا نے اس پسے ہوئے طبقے کو عطا کیے.
خیزران کی بہو اور ہارون کی بیوی زبیدہ اس دور کی دیگر مسلم خواتین کی طرح مفاد عامہ کہ کاموں کی وجہ سے بہت معروف تھی. نہر زبیدہ کا تذکرہ تو ہم سب نے سنا ہے مگر حاجیوں کے لیے اس کی تعمیر کردہ بغداد سے مکہ تک 1800 کلومیٹر لمبی سڑک کو کم لوگ جانتے ہیں جس کے آثارعراق کی سرحد سے ملحق سعودی صوبے شمالیہ، حائل، اور مدینہ سے مکّہ تک آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں. زبیدہ نے اپنے ذاتی سرمائے سے حاجیوں کے لیے کنویں کھدوائے اور ٹھہرنے کے لیے قلعہ تعمیر کروائے. کہتے ہیں کہ صرف ایک منصوبے، نہر زبیدہ کی کھدائی میں سونے کے بیس لاکھ دینار خرچ ہوئے. تعمیرات کے دوران زبیدہ نے انجینئرز کو ہدایت کی کہ اگر کلہاڑی کی ایک ضرب کے لیے سونے کا ایک دینار بھی خرچ کرنا پڑے تو بھی ان منصوبوں کو تکمیل تک پہنچایا جائے. ان دونوں خواتین کا شمار اپنے دور کی انٹلیکچوئل خواتین میں ہوتا ہے. اس بات کا تذکرہ بھی برمحل ہوگا کہ زبیدہ نے اپنے سگے بیٹے امین کے مقابلے میں سوتیلے مگر سیاسی اور علمی لحاظ سے زیادہ قابل بیٹے مامون کی سیاسی حمایت کی جس کے دور میں تاریخ کے عظیم ترین تحقیقی مرکز دارالحکمہ کا قیام عمل میں آیا جہاں دنیا جہان کے علوم کی کتابوں کو عربی میں منتقل کیا جاتا. درالحکمہ کا سحر کچھ ایسا تھا کہ بغداد سے سپین تک مسلم قوم کتاب کی محبت میں گرفتار ہو گئی تھی.
ایسے تحقیقی مراکز آج مسلم دنیا میں کیوں نظر نہیں آتے؟ نرگس اپنی بےنوری پر کیوں روتی ہے؟ اس لیے کہ آج ایسی مائیں بھی نظر نہیں آتیں جو غلامی میں بھی درس و تدریس سے اپنا رشتہ نہ توڑ سکیں. جہاں مردوں کو کنیزیں بھی ایسی درکار ہوتی تھیں جو ان سے تاریخ، فلکیات، ریاضی، اور فلسفہ، شاعری اور ملکی سیاست اور قانون پر بحث کر سکیں. جی ہاں بغداد میں کنیزوں کی تربیت اور تعلیم کے لیے باقا عدہ ادارے موجود تھے. کنیز کی قیمت صرف اس کے حسن و جمال سے نہیں بلکہ اس کی ذہنی صلاحیت اور متعدد علوم پر اس کی مہارت سے لگائی جاتی تھی. اور اس عروج کے دور میں مسلمان بادشاہ ایسی کنیز کو خاندانی آزاد عورت پر ترجیح دیتے تھے جو سیاسی معاملات میں انھیں مشاورت دے سکے. مگر یہ عروج کے قصے ہیں. آج پستی میں گھری ہوئی مسلم قوم کے مذہبی طبقات اپنی عورتوں کو چاہے وہ آکسفورڈ یا کیمبرج سے بھی پڑھ آئیں علمی، دینی اور سیاسی معاملات میں بحث کا حق دینے پر راضی نہیں.
خیزران اور زبیدہ دونوں محض شاہی طبقات سے تعلق رکھنے کی وجہ سے کوئی غیر معمولی مثالیں نہ تھیں. مسلمانوں کے عروج کے دور میں ہر معاشرتی طبقے اور ہر جغرافیائی خطے میں لاتعداد ایسی خواتین گزری ہیں جنہوں نے علم و حکمت اور فہم و فراست کے ساتھ ملکی سیاست، تجارت اور مفاد عامّہ کے کاموں میں براہ راست حصہ لیا. مسلم دنیا کی پہلی یونیورسٹی کسی مرد نے نہیں بلکہ قیروان سے تعلق رکھنے والی فاطمہ بنت فہری نے نویں صدی عیسوی میں قائم کی.
میرے سرکار صلیٰ اللہ علیہ وسلم دنیا میں جو تبدیلیاں لے کر آئے تھے اس میں ایک بڑی تبدیلی معاشرے میں عورت کے اسٹیٹس میں بلندی تھی اور گو آج ہمارے مذہبی طبقات اس حیثیت کو عوام کے سامنے لانے میں متامل ہیں یا شاید خود بھی واقف نہیں مگر اس تبدیلی نے عورت کو جو طاقت اور رتبہ عطا کیا اس نے مسلم قوم کے عروج میں بہت بڑا کردار ادا کیا اور شاید ہمارا زوال بھی بہت حد تک صنف نازک کو معاشرے میں دیے جانے والے سٹیٹس سے جڑا ہوا ہے.
امریکا کے معروف نومسلم سکالر حمزہ یوسف کا کہنا ہے کہ ساتویں صدی سے تیرھویں صدی تک کی مسلم شخصیات کے بارے میں مرتب کی گئی سالانہ کتابوں میں ہمیں بڑی تعداد میں تعداد میں خواتین اسکالرز اور مدرسات کا تذکرہ ملتا ہے. لیکن تیرھویں صدی کے بعد ان کی تعداد کم ہوتے ہوتے معدوم ہوتی چلی گئی. شیخ حمزہ یوسف کے مطابق خواتین میں علم کے حصول کے شوق میں کمی آئی تو یہ ان کی نرینہ اولاد یعنی مردوں میں بھی منتقل ہوتی چلی گئی اور ان کا کہنا ہے کہ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ بالآخر مردوں سے بھی علم رخصت ہوا اور پوری امت پر جمود طاری ہوگیا. پھر آپ کتنا بھی ہارون اور مامون اور اس کے بغداد کو یاد کر لیں، جب تک عورت کو اس کی اصل حیثیت دے کر دوبارہ حصول علم کی سرگرمیوں میں مصروف نہ کریں گے تب تک مسلم دنیا میں کسی مثبت تبدیلی کا امکان نہیں.
آج روایتی طور پر مسلم معاشرے اور مذہبی طبقات عورت اور ماں کے رول کو گھر اور اس میں بھی اس کے کچن تک محدود رکھنے پر زور دیتے ہیں. اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کام اہم ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ صنف نازک کی ذہنی صلاحیتوں کا استعمال اور اس کی انٹلیکچوئل سرگرمی بھی اس کی اولاد کی ذہنی نشونما، علمی ترقی اور اس سے آگے قوموں کی بقا کی ایک اہم کڑی ہے. جو قومیں اس ناگزیر تعلق کو سمجھنے میں ناکام رہتی ہیں وہ کبھی نہیں پنپ سکتیں. یاد رہے انٹلیکچوئل سرگرمیوں سے راقم کی مراد پیسہ کمانا نہیں (جو بذات خود کوئی بری چیز نہیں) مگر جسے آج ذہنی پستی کا شکار مسلم معاشرہ علم کے حصول کا واحد مقصد سمجھتا ہے.
شیخ اکرم ندوی کا تعلق دارالعلوم ندوہ سے ہے، وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی طرف سے قرون وسطیٰ کی مسلم محدثات یعنی حدیث کی اسکالر خواتین پر تحقیق کر رہے ہیں. ان کا کہنا ہے کہ وہ اب تک 8 ہزار سے زائد مسلم محدثات کی سوانح مرتب کر چکے ہیں. ان میں ایسی محدثات بھی شامل ہیں جو مسجد میں بیٹھ کر مردوں کو درس دیتی تھیں، اور ایسی بھی جن سے حدیث کے بڑے بڑے ثقہ علما نے فیض حاصل کیا. یہاں تک کہ کچھ خواتین مسلم اسکالرز نے مسجد نبوی میں سرکار کے روضے میں مردوں کو درس دیے اور درس و تدریس اور علمی مقاصد کے لیے سفر بھی کیے. کیا آج کے مسلم معاشرے میں ہم اس بات کا تصور کر سکتے ہیں کہ خواتین اساتذہ مردوں کو دینی علوم کی تعلیم دیں؟ اور وہ بھی مسجد میں؟
یاد رہے قرون وسطیٰ میں حدیث کے علم کا شمار صرف دینی نہیں بلکہ دنیوی لحاظ سے اہم ترین علوم میں ہوتا تھا کیونکہ ملکی قانون کا سارا انحصار شریعت پر تھا. قران کی تشریح بھی حدیث کے ذریعہ کی جاتی اور فقہ اور قانون کا منبع بھی قرآن کے بعد یہی تھا، چاہے وہ کاروبار سلطنت ہوں یا تجارت، عائلی معاملات ہوں یا کسی اور شعبے سے ان کا تعلق ہو، ان کا فیصلہ کرنے کے لیے حدیث کا علم لازمی تھا.
آئیں اس حوالے سے آج کے مسلم معاشروں کا جائزہ لیتے ہیں. اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اب ہمارے متوسط اور اونچے طبقات میں بیٹیوں کی تعلیم کو بھی اتنی ہی توجہ دی جاتی ہے جتنے بیٹوں کی، اور ماشاءللہ ہماری بیٹیاں میڈیکل، انجینئرنگ، بزنس اور قانون سمیت ہر شعبے میں کارنامے انجام دے رہے ہیں لیکن عموما اس کے پیچھے بھی عموما ہماری مادی سوچ ہی کام کر رہی ہوتی ہے. ہم اس حصول علم کو معاش سے ہٹ کر کوئی حیثیت دینے پر راضی نہیں. انھی بچیوں کو ہمارے زن بیزار (misogynistic) کلچر کے زیر اثر بچپن سے جوانی تک کسی نہ کسی شکل سسرال کے طعنے بھی سننے پڑتے ہیں. معاشرہ انھیں یہ احساس دلائے بغیر نہیں رہتا کہ اس تعلیم و تربیت کا فائدہ کیا ہے جب ہانڈی چولہا ہی کرنا ہے. ہانڈی چولہے کا تذکرہ تحقیر کے ساتھ کر کے انہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ تمہارا کام یہی ہے. ضرورت اس بات کی ہے کہ بچیوں کو ماں کی حیثیت سے ان کے اہم کردار کا احساس دلا کر مستقبل کی اہم ذمہ داریوں کے لیے تعلیم اور تربیت کے زور سے آراستہ کیا جائے کہ اس کے بغیر قوموں کی بقا ممکن نہیں.
اس سارے قصے میں دین کی مالا جپنے والے بھول جاتے ہیں کہ اس معاملے میں ہمارا دین اور اسلامی تاریخ ہمیں کیا سکھاتا ہے؟ کیا واقعی قران اور حدیث سے ہمیں خواتین کے اس رول کی کوئی سند ملتی ہے جس میں ان کا کام صرف گھر کے کچن تک محدود ہو؟ کیا واقعی ہمارا مذہب حصول علم کو صرف حصول معاش کے ساتھ جوڑتا ہے؟ یہ سوچ پوری امت کی تباہی کا سبب بن گئی ہے. مگر ہم آج بھی اپنے زوال کے حقیقی اسباب سے نظریں چرا رہے ہیں.
ایک اور ستم ظریفی جو تعلیم دلوانے کے باوجود بسا اوقات دیکھنے میں آتی ہے، وہ یہ کہ عام طور سے عورتوں کو چاہے وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ کیوں نہ ہوں، انھیں فاطر العقل ہی سمجھا جاتا ہے. خصوصاً سیاسی بحثوں میں یا اہم فیصلوں میں انھیں بولنے کی اجازت نہیں ہوتی اور اگر کوئی خاتون ان بحثوں میں حصہ لے تو مرد اسے اپنی مردانہ سمجھ بوجھ کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں. اس کی طرف سے اختلاف رائے عموماً مردانگی کے لیے چیلنج تصور ہوتا ہے.
آئیے دیکھیں کہ میرے سرکار نے 23 سال میں جو معاشرہ تشکیل دیا، اس نے مردوں کو کیا سکھایا تھا. قرآن کے اولین مفسرین میں اور بڑی تعداد میں احادیث کے راوی عبداللہ بن عبّاس سے جب لوگ دینی احکامات کے بارے میں سوال کرتے تو کچھ مسائل میں وہ حضرت عائشہ رضی اللہ کے پاس جانے کا مشورہ دیتے. خلیفہ وقت حضرت عمر رضی اللہ جب مسجد کے منبر پر مہر کی حد باندھنا چاہتے ہیں تو ایک بوڑھی عورت انھیں چیلنج کرتی ہے کہ جس چیز پر اللہ اور اس کے رسول نے حد نہیں لگائی، آپ اس پر حد لگانے والے کون ہوتے ہیں. اور سیدنا عمرفاروق جن سے شیطان ڈرتا تھا اور جن کی بات خالد بن ولید جیسے سپہ سالار بلا تردد مانتے تھے، اپنی رائے سے وہیں کھڑے کھڑے رجوع کر لیتے ہیں. میرا اپنے مذہبی طبقوں سے یہ سوال ہے کہ آج کے مسلم معاشروں میں اس کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے؟
یہ بات بھی قبل غور ہے کہ مسجد کے منبر پر خواتین کو خلیفہ وقت کے احتساب کا حق حاصل تھا. آج تو مسلم دنیا کے کچھ حصوں میں خصوصاً ہند و پاک میں خواتین کے مسجد میں داخلے اور نماز کی اجازت پر بحث چل رہی ہے. چالیس کروڑ سے زائد مسلمانوں کی موجودگی کے باوجود خطے کی بہت کم مساجد میں خواتین کے لیے نماز کا انتظام ہے. دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے داخلے پر پابندی کے لیے دلیل بھی شرعی احکامات سے ہی لینے کی کوشش کی جاتی ہے. حالانکہ تمام معلوم حقائق کے مطابق سرکار کی زندگی میں ہی نہیں، چاروں خلفائے راشدین کی زندگی میں اور اس کے بعد جزیرہ نما عرب میں مساجد میں خواتین کی جگہ مخصوص رہی ہے اور آج بھی وہاں عورتوں کا مساجد میں نماز پڑھنا معمول ہے. مسجد میں داخلے پر پابندی سے آپ اپنی خواتین کو دینی اور سماجی لحاظ سے کمزور کرنے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہوتے ہیں.
شیخ اکرم ندوی کی رائے میں قرون وسطیٰ کے اواخر میں مسلمانوں میں بتدریج عورت کی حیثیت میں کمی اور اس کے لیے تحقیر کے جذبات یونانی فلسفہ سے متاثر ہونے کی وجہ سے در آئے کیونکہ یونانی فلسفہ بحیثیت مجموعی عورت کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے. اس رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ قرون وسطی کی مسلم عورت کا معاشرے کے علمی ارتقا میں جو کردار تھا، آج کی مسلمان عورت اس کا تصور مشکل سے ہی کر سکتی ہے. اور اس میں ہمارے معاشرتی رویوں کا بہت کردار ہے. ہمارے کلچر میں علم کے حصول کا شوق اسٹیٹس بڑھانے کے لیے ڈگری یا ملازمت کے حصول تک ہی محدود سمجھا جاتا ہے. زیادہ کتابیں پڑھنے والے کو ویسے بھی ہم سنکی سمجھتے ہیں اور سمجھنا بھی چاہیے کیونکہ جب سارا معاشرہ ھل من مزید کی دوڑ میں لگا ہوا ہو تو اس میں ایسے مشاغل کو وقت کا زیاں ہی سمجھا جاتا ہے جن سے مال حاصل کرنے کی امید نہ ہو. اصل توجہ کونٹنینٹل ڈشز سیکھنے، مہمانوں کو مرعوب کرنے اور سسسرال میں نمبر بنانے پر ہے کیونکہ ہمارا ایک آئیڈیل عورت کا تصور اسلام کی تعلیمات سے زیادہ ہندو معاشرے میں عورت کے کردار سے زیادہ قریب ہے جس میں عورت سے صرف قربانیوں کا مطالبہ ہوتا ہے. اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں خال خال exceptions نظر آتی ہیں مگر مسلم سوسائٹی بھی بحیثیت مجموعی انھی تصورات کو سپورٹ کرتی ہے. رہی سہی کسر ساس بہو کے ڈراموں نے پوری کر دی ہے. ہندو مذہب میں عورت کے کردار کی انتہائی عظمت اپنے شوہر کے ساتھ ستی ہو جانا شمار ہوتا تھا.
یہ صحیح ہے کہ انگریز نے ہندو معاشرے سے اس قبیح رسم کو ختم کیا اور مسلمانوں میں یہ تصور کبھی بھی نہیں رہا مگر آج بھی مسلم معاشرے میں بیوہ کی دوسری شادی عملی طور سے ناممکن تصور کی جاتی ہے حالانکہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے متعدد بیوہ اور مطلقہ عورتوں سے شادی کی اور اسلام کے اولین دور میں یہ ایک معمول تھا. تذکار صحابیات اٹھا کر دیکھیں تو ایک ایک صحابیہ کی متعدد شادیاں نظر آتی ہیں، جن میں سے اکثریت شوہروں کی جنگوں میں شہادت لیکن کچھ محض طلاق کی وجہ سے انجام پائی جاتی ہیں. آج ہمارے مرد دوسری شادی کی اجازت کے معاشرے میں اس کے رواج نہ ہونے پر تو ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں اور کچھ دینی حلقے دوسری شادی کے حق میں باقاعدہ مہم بھی چلا رہے ہیں مگر دوسری طرف صحابیات کی زندگی کے اس پہلو کو ہم بھول جاتے ہیں.
کیا ہم اس بات سے انکار کر سکتے ہیں کہ ہمارے گھرانوں میں بیٹوں اور بیٹیوں کے ساتھ تفریق نہیں کی جاتی؟ لڑکے کی پیدائش پر جشن اور لڑکی کی پیدائش پر سوگ کا سماں نہیں ہوتا؟ بچیوں کو ابتدائی عمر سے ہی سسرال کے طعنے نہیں دیے جاتے؟ اسلام کے واضح حق کے باوجود خلع کو ہم حرام نہیں سمجھتے؟ بیوہ کا شادی کرنا ہمارے معاشرے میں اچنبھا نہیں؟ طلاق یافتہ کا لفظ ہمارے ہاں عورت کے لیے گالی کی طرح نہیں استمعال ہوتا؟ اور اس سے بچنے کے لیے ہماری بچیاں کبھی کبھی ساری زندگی ظلم سہہ کر نہیں گزارتیں، لڑکی کے ماں باپ کو بسا اوقات ان تین لفظوں سے ڈرا کر بلیک میل نہیں کیا جاتا؟ ہمارا دین ہمیں کتنے بھی حقوق کیوں نہ دے، یہ سب ہمارے کلچر کا حصہ ہیں اور ان روایت کے خلاف مذہبی طبقات بھی بہت کم کوئی مؤثر کردار ادا کر سکے ہیں.
دین کی سمجھ بوجھ رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ رویے دین اور شریعت کی وجہ سے نہیں بلکہ دینی تعلیمات کے باوجود اور ان پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ مذہبی طبقات اور معاشرے میں بصیرت کی کمی کے سبب ہے. اور اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ لادینیت کے زیراثر، حقوق نسواں کی تنظیمیں انھی بدصورت رویوں کو مذہبی تعلیمات کا روپ دے کر کیش کروا رہی ہیں.
شاید کچھ لوگ میری اس بات سے اتفاق نہ کریں کہ مسلم معاشروں میں آج عورت کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے. ہمارے ہاں عورت کی آج کیا حیثیت ہے، اس کا صحیح تعین کرنا ہے تو صرف بیٹی کی پیدائش پر عام رویوں کا جائزہ لے لیجیے. یہ صحیح ہے کہ آج بیٹی کو زندہ درگور کر دینے کا رواج نہیں، لیکن بیٹی کی پیدائش پر سرکار کی بشارتوں کے باوجود افسردہ ہونے کا رواج ضرور موجود ہے. آج بھی بیٹے کو اسٹیٹس سمبل سمجھا جاتا ہے. بعض گھرانے یقیناً اس معاملے میں اپنے جذبات کا اظہار کرنے سے پرہیز کرتے ہیں مگر کبھی آپ اللہ کے ناموں کے خواص پر مبنی وظیفوں کی کوئی کتاب اٹھا لیں، اللہ کے کتنے نام ایسے ہیں جن کا مشورہ بیٹے کی پیدائش کے خواہشمند افراد کو دیا جاتا ہے. بیٹی کی پیدائش کے لیے وظیفہ شاید ہی نظر آئے گا. ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ اگر بیٹے کے لیے کی جانے والی یہ ساری دعائیں قبول ہو جائیں تو ہمارے بیٹوں کے لیے بیویاں ہمیں باہر سے امپورٹ کرنی پڑیں گی.
اس واحد مثال سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ چودہ سو سال بعد بھی ہم آج تک اس جاہلی معاشرے سے زیادہ قریب ہیں جس کی جڑیں اکھاڑنے کے لیے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے. بیٹی کی پرورش اور تربیت پر جنت کی بشارتوں کے باوجود آج بھی ہماری سوچ انھی رویوں کے ارد گرد گھوم رہی ہے. اور اگر برا نہ مانیں تو مذہبی سوچ کے حامل دینی گھرانوں کا حال بھی اس معاملے میں مختلف نہیں. ہم اس حقیقت کو بھی نظرانداز کرتے ہیں کہ اللہ نے کسی مصلحت سے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو بیٹے دیکر واپس لے لیے مگر آنحضرت کے اسوہ میں ہمیں کہیں بھی اس حوالے سے زبانی بیٹے کی خواہش کا ذکر نہیں ملتا نہ ہی اس کے لیے وظیفوں کی تاکید کی گئی ہے. حالانکہ آج کے مقابلے میں اس معاشرے میں بیٹوں کی اہمیت دنیاوی لحاظ سے بہت زیادہ تھی.
بیٹے کی خواہش کی ایک بنیادی وجہ جو سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ اسے ایک طرح سے گھر کی معاشی خوش حالی کا ضامن سمجھا جاتا ہے. رزق دینے والا صرف اور صرف اللہ ہے،اس عقیدے کے باوجود ہم معاش کو پیدا ہونے والے بچے کی جنس سے جوڑتے ہیں. لیکن اس رویہ میں ہمیں کوئی غیر اسلامی پہلو نظر نہیں آتا. اس خواہش کی ایک اور بنیادی وجہ بیٹی کی شادی پر دیا جانے والا جہیز ہے جو کبھی کبھی بوجھ بن جاتا ہے. اس جاہلانہ رسم کے خلاف گاہے بگاہے آوازیں اٹھتی رہتی ہیں مگر پھر بھی یہ ایک عفریت کی طرح مسلسل ہمارے معاشرے کو کھا رہا ہے. کچھ عملی کوششوں کے باوجود اب تک ہمارے دینی حلقہ اس حوالے سے معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی لانے میں کامیاب نہیں ہوا.
اسی طرح ماں کے حاملہ ہونے کے بعد بعض گھرانوں میں رواج ہوتا ہے کہ مسلسل ایک ہی دعا دی جاتی ہے کہ اللہ تمہیں چاند سا بیٹا دے. بہت کم گھرانوں میں نیک اور صحتمند اولاد کی خواہش اور دعا کا اظہار ہوتا ہے. یہ دعائیں اور خواہشات کرتے ہوئے یہ نہیں سوچا جاتا کہ چھوٹے بچے اور خاص طور سے بچیاں اس کا کیا اثر قبول کرتی ہیں. میری ایک بہت اچھی جاننے والی نے مجھے بتایا کہ جب ان کی دوسری بیٹی نے چھوٹی بہن کی خواہش کا اظہار کیا تو میری نند نے سرزنش کے طور پر اسے ایک زوردار تھپڑ لگایا. میں نے اپنے کانوں سے پڑھی لکھی خوش حال دیندار گھرانوں کی خواتین سے ”خدانخواستہ بیٹی نہ ہو جائے“ کہ الفاظ بھی سنے ہیں.
میں نے کہیں پڑھا کہ اسرائیل یا یہودی قوم میں جب عورت حاملہ ہوتی ہے تو اسے ذہنی اور علمی مشاغل میں مصروف رہنے کی تاکید کی جاتی ہے حتیٰ کہ ریاضی کی مشقیں کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے کہ اس سے آنے والا بچا یا بچی کی دماغی نشونما میں تیزی آتی ہے. ہمارے ہاں عورت حاملہ ہوتی ہے تو اسے مسلسل بچے کی جنس کے حوالے سے دباؤ کا سامنا ہوتا ہے کہ اگر لڑکی ہوگئی تو کیا ہوگا اور شوہر، معاشرہ، سسرال یہاں تک کے کبھی کبھی اس کا میکہ بھی دعا اور خواہش کی صورت میں اس دباؤ کو بڑھانے کا با عث بنتے ہیں. میری ایک قریبی دوست کے مطابق اس کی بہن اپنے دوسرے حمل کے دوران شدید ذہنی دباؤ کا شکار رہی، یہاں تک کے اکثر اس کا بلڈ پریشر شوٹ کر جاتا کیونکہ اس دوران اس کا شوہر اسے یہ کہتا رہا کہ اب عیسی خان (یعنی بیٹا) آئے گا. ان بدصورت رویوں کے بعد ہم اس ماں سے کیا توقع رکھتے ہیں کہ وہ اولاد کی تربیت میں مثبت کردار ادا کر سکے گی؟ پھر اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کیا جاتا ہے کہ یہودی قوم آج دنیا پر حکومت کیسے کر رہی ہے.
اس میں کوئی شک نہیں کے کچھ گھرانے اس معاملے میں بہت سلجھے ہوے رویے کا اظہار کرتے ہیں مگر عموماً بیٹی کی ماں اور کبھی کبھی باپ کو بھی براہ راست طعنے اور تضحیک کا سامنا رہتا ہے. لوگ براہ راست خدا کی مصلحت اور حکمتوں پر اعتراض کرتے ہیں. ایسے جملے مثلاً ”بیٹا ضرور ہونا چاہیے“ اللہ کے نظام اور قانون پر اعتراض نہیں تو کیا ہیں؟ کچھ سال پہلے یہ راقم اپنی بہن کی بیٹی کی پیدائش پر مبارکباد کے لیے آنے والے فون پر ایک بہت ہی سلجھے ہوئے دینی گھرانے کی ایک خاتون کے منہ سے یہ جملہ سن کر حیران رہ گئی کہ ”بیٹیوں نے تو گھر ہی دیکھ لیا ہے.“
ہمارے ارد گرد ایسے پڑھے لکھے دینی گھرانے موجود ہیں جہاں دوسری یا تیسری بیٹی ہونے پر سوگ کا ماحول ہو جاتا ہے لیکن اس سے ہماری دینداری یا تعلیم یافتہ ہونے کے دعووں میں کوئی فرق نہیں آتا. ہم اسلام میں عورت کے حقوق پر لیکچر بہت سنتے ہیں مگر شاید ہی کسی درس میں ایسے رویوں کے خاتمے کے لیے عملی طور پر آواز اٹھے یا کم از کم اللہ کے رازق اور قسمتوں کا مالک ہونے کو ہی اس مسئلے سے جوڑے. کیا ہمیں سیرت میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے؟
ایک عام جملہ یہ بھی ہے کہ اللہ بیٹیوں کی قسمت اچھی کرے. صحیح ارشاد! مگر صرف بیٹیوں ہی کی کیوں کرے؟ بیٹے کی قسمت کی فکر کیوں نہیں کی جاتی؟ کیونکہ وہ مرد ہے، خود کمائے گا اور مقتدر ہوگا. اور کیا واقعی مرد مقتدر ہوتا ہے؟ اگر اس سوچ کے ساتھ ہم بیٹوں کی پرورش کرتے ہیں تو بیٹا اتنا کمائے یا نہ کمائے کہ اپنے خاندان کو پال سکے، مگر اس سوچ سے اپنے بیوی کی زندگی اور بچوں کے مستقبل پر ضرور منفی اثرات ڈالتا ہے.
اسی طرح بیٹی کو شوہر کے حقوق پر لیکچر دیے جاتے ہیں لیکن دوسری طرف بیٹوں کو شاید ہی کوئی شوہر کی حیثیت سے اس کے فرائض سے آگاہ کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہو بلکہ بعض گھرانوں میں اسے شادی سے پہلے ہی زن مریدی کے طعنے دیکر بیوی کے ساتھ تعاون سے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے حلانکہ پیارے رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے دونوں فریقین کو نصیحتیں کی ہیں، اور شاید جو زیادہ با اختیار ہے اسی کو زیادہ کی ہیں.
پچھلے دنوں ٹی وی پر ایک مباحثے کے دوران ایک شیعہ عالمہ کی یہ بات مجھے بہت پسند آئی کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اسلام میں پسند کی شادی جائز ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ شادی تو ہوتی ہی پسند سے ہے، اگر لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو پسند نہ کریں تو اسلام میں شادی ہوتی ہی نہیں. پتا نہیں دین کے واضح احکامات کے باوجود کتنے لوگ ان کی اس رائے سے اتفاق کریں گے. مگر میرے سرکار نے چودہ سو سال پہلے لڑکیوں کو اس بات کا حق دیا تھا جو آج ہمارے بعض گھرانے لڑکوں کو بھی دینے کو تیار نہیں.
پاکستان میں اور دوسرے مسلم معاشروں میں زبردستی یا کم عمری کی شادی کا رواج واضح اسلامی احکامات کے باوجود موجود ہے جو سراسر غیر اسلامی ہے. اور ملکوں میں تو خیر خود مملکت سعودی عرب میں جہاں اسلامی قانون نافذ ہے، عمومی رواج یہی ہے کہ بیٹی کی شادی پر باپ لڑکے والوں سے رقم وصول کرتا ہے. بعض اوقات اپنی بیٹی دوسرے کو دے کر دوسرے کی بیٹی سے خود شادی کر لیتا ہے. مگر سعودی علماء اس معاملے میں قطعاً خاموش ہیں. راقم خود مملکت سعودیہ میں قیام کے دوران کم عمر خوبصورت شادی شدہ لڑکیوں سے مل چکی ہے جن کی عمر اپنے شوہر کی بیٹیوں کے برابر ہے. آج کل پاکستان میں کچھ حلقوں کی طرف سے دوسری شادی کے حق میں آواز اٹھائی جا رہی ہے، بجا ارشاد! مگر کیا ایسی شادی جائز ہے جس میں کم عمر لڑکی کا باپ اس کی قیمت وصول کر کے اسے بڑی عمر کے فرد کے حوالے کر دے؟ کتنی کم عمرلڑکیاں اپنی مرضی سے بڑی عمر کے شادی شدہ مردوں سے شادیاں کرنے پر رضامند ہوتی ہیں، یہ ایک الگ کہانی ہے. کیا پیارے رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایسا ہوتا تو آپ خاموش رہتے؟
اسی طرح غیرت کے مسئلے پر میری نظر سے کسی عالم کا بیان نہیں گزرا کہ ایسے قتل پر معافی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں. قرآن تو واضح طور پر شک کی صورت میں میاں بیوی دونوں کو لعان کا حکم دیتا ہے کہ قرآن پر پانچ مرتبہ قسم کھائیں اور ہمیشہ کے لیے علیحدہ ہو جائیں. اور جہاں تک زنا کی حدود کا تعلق ہے تو اسلامی قانون کے مطابق کوئی فرد ذاتی حیثیت میں اس پر عمل نہیں کر سکتا. ان حدود کو باقاعدہ عدالتی عمل کے ذریعہ ہی نافذ کیا جا سکتا ہے جس کے لیے چار گواہ لازمی ہیں. الزام لگانے والا یہ چار گواہ پیش نہ کر سکے تو الٹا اسے 80 کوڑوں کی سزا ہے. قتل غیرت تو crime of passion کے نام پر مغرب میں مجرم کی سزا میں تخفیف کرتا ہے. اسلامی قانون میں تو اس کی کوئی گنجائش نہیں، مگر شرمین عبید چنائے سے پہلے علماء کا کردار ہونا چاہیے تھا کہ وہ اس مسئلے پر بولتے اور لوگوں کی رہنمائی کرتے.
اسی طرح ہم سب جانتے ہیں کہ مسلم معاشروں میں عورت بہت کم اپنے خلع کے حق کو استمعال کرتی ہے اور عام طور سے ظلم اور زیادتی برداشت کر کے بھی ہر صورت اپنے گھر کو بچانا چاہتی ہے، مگر کسی بھی وجہ سے اگر اسے طلاق ہو جائے یا وہ خود خلع لے لے تو طلاق یافتہ کا لفظ اس کے لیے گالی کی طرح بولا جاتا ہے. آئیے دیکھیں کہ دین اور سیرت ہمیں کیا بتاتے ہیں. حضرت زینب بنت جحش آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی کزن تھیں. آپ نے خود ان کی شادی اپنے لے پالک حضرت زید سے کی. حضرت زینب رضی اللہ ابتداً شادی کے لیے راضی ہو گئیں مگر بعد ازاں اپنی مرضی سے طلاق لی اور اس کی وجہ محض حضرت زید کی غلامی اور ان کا اپنا اشرفیہ سے تعلق ہونا تھا. کیا اس کے بعد وہ مسلم معاشرے اور دین کے لیے ناپسندیدہ ہو گئیں؟ اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اتنی پسندیدہ تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی رفاقت کے لیے چنا. کیا آج کوئی اسلامی معاشرہ عورت کو یہ حق دیتا ہے جو اسے اللہ اور اس کے رسول نے عطا کیا ؟ مگر ان حقوق پر مذہبی طبقات بات نہیں کرتے اور سیکولرحضرت کوئی بات کریں تو ہمیں برا لگتا ہے.
بدصورت رویوں کی ایک اور مثال ان مسائل کا حل تلاش کرنے سے پہلوتہی ہے بلکہ انہیں سرے سے نظرانداز کرنا ہے. پچھلے دنوں پاکستان کے دائیں بازو کے ایک مؤقر اخبار نے راقم کا ایک مضمون صرف اس لیے مسترد کر دیا کہ اس میں ایک ایسے ڈرامے کی مثال دی گئی تھی جو پاکستانی گھروں میں بچیوں پر جنسی زیادتی کے موضوع پر بنا تھا. مدیرہ کا کہنا تھا کہ یہ ڈرامہ کینیڈا نے فائنانس کیا ہے اور یہ مسئلہ تو پاکستان میں صرف چند لوگوں کا ہے. میری ناقص رائے میں جنسی تشدد کے مسئلہ سے ایک فیصد سے زیادہ لڑکیاں متاثر نہیں ہوتیں مگر کیا انصاف کی جدوجہد کے لیے مظلومین کی تعداد کا تعین ضروری ہے. 14 سو سال پہلے ایسا ہوتا تو کیا سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اس سماجی مسئلے کو نظرانداز کرتے ؟ یا معاشرے کو اس مسئلے کی سنگینی سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتے؟ آج کہانی فلم یا ڈرامہ کسی مسئلے سے معاشرے کو آگاہ کرنے کا بہترین ذریعہ ہے. میرے سرکار نے تو سماج کا ہر مسئلہ لگی لپٹی کے بغیر کھول کر دنیا کے سامنے رکھ دیا تھا اور اس وقت دستیاب ابلاغ کا ہر ذریعہ استمعال کیا تھا. آج ہم اپنے دروس میں وظیفوں پر تو بات کرتے ہیں مگر سماجی انصاف پر بحث کرنا معیوب سمجھتے ہیں.
اسی مسئلے سے ایک اور ایشو بھی جڑا ہوا ہے کہ ہم شرم اور حیا کو بہانہ بنا کر بہت سے مسائل پر بات کرنا نہیں چاہتے. بعض آزاد منش طالبات کے دیوارروں پر سینٹری پیڈ چپکانے پر آپ کا اعتراض بجا سہی لیکن صنف نازک کے جن حقوق کی مذہب ضمانت دیتا ہے، اس میں اس کی زندگی سے متعلق معاملات کا شعور دینا اور اسے سوال پوچھنے کا حق دینا بھی شامل ہے جو ہم نے اپنی بچیوں سے شرم اور حیا کے نام پر چھین رکھا ہے. ستم ظریفی یہ ہے کہ انھیں اتنی معلومات بھی نہیں دی جاتیں کہ گھروں میں یا گھروں سے باہر کسی جنسی زیادتی یا نامناسب رویہ کی صورت میں ان کا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ کیا قرآن ہمیں جنسی معاملات میں واضح ہدایت نہیں دیتا اور اگر دیتا ہے تو ہمارے بلوغت سے قریب بچوں کو ان سے آگاہ نہیں ہونا چاہیے؟ میرے سرکار نے تو انصار کی ان عورتوں کی تعریف کی تھی جو دین کے بارے میں سوال کرنے میں شرماتی نہیں تھیں. اور دین اس دور میں زندگی گزارنے کے طریقے کو کہتے تھے. اس علم کا مقصد اپنی زندگی کو بہتر بنانا تھا. دین اور دنیا کے علم میں تفریق نہیں کی جاتی تھی.
یہ صرف چند مثالیں ہیں کہ ہم خواتین کے حقوق کے معاملے میں اپنے دین سے کتنا دور ہیں اور دور جاہلیت سے کتنا قریب ہیں . اپنی گفتگو میں اللہ کی رزاقیت کا اٹھتے بیٹھتے انکار کرتے ہیں اور قدرت کی مصلحتوں پر اعتراض کرتے ہیں. مذہبی تعلیمات کو نظرانداز کر کے از خود خواتین سے متعلق تعصب کے ساتھ ان کے کردار کا تعین کرتے ہیں. اپنے بچوں کی ماؤں کو حقیر مخلوق بھی گردانتے ہیں پھر مسلمانوں کی نشاہ ثانیہ کے بھی آرزومند ہیں، اور اس کا رونا بھی روتے ہیں کہ وہ دور واپس کیوں نہیں آتا جب مسلمان دنیا کی علمی اور سیاسی امامت کرتے تھے.
قرون وسطیٰ میں مسلمانوں نے ماؤں کے کردار کو اس طرح محدود نہیں کیا گیا تھا. انہیں معاشرے کی بہتری، حصول علم کی ترویج کے ساتھ ساتھ کاروبار سلطنت و تجارت میں بھی شرکت کا موقع اور وسائل دیے جاتے تھے اور اس کی شرکت سے ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل کی جاتی تھی.
حقوق نسواں کی دکان بہت حد تک ہمارے معاشرتی رویوں ہی کی وجہ سے چل رہی ہے. اگر ہم عورت کو وہ حقوق دیں جن کا سرکار صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے وعدہ کیا ہے تو مشرق میں تو خیر مغرب میں بھی ان کا کاروبار ٹھپ ہو جائے، اس کے لیے مذہبی طبقات کو ہی آگے آ کر آنا کردار ادا کرنا ہوگا.
قرآن میں حضرت مریم رضی اللہ تعالیٰ کو جو مقام دیا گیا، اس سے کون واقف نہیں. اس حوالے سے حضرت مریم کی والدہ کی منت اور دعا مجھے خاص طور سے بہت متاثر کرتی ہے جو انہوں نے بیٹی کی پیدائش پر کی کہ اسے اور اس کی آئندہ نسلوں کو شیطان کی چالوں سے بچانا. یہ ایک مسلمان عورت کے ویژن کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس کے پیش نظر صرف اس کا کچن نہیں بلکہ آئندہ نسلوں کی تعمیر ہے. جب تک ہم مسلمان عورت کو یہ ویژن دینے میں کامیاب نہیں ہوتے، اس قوم کے حال اور مستقبل میں تبدیلی کی خواہش خواہش ہی رہے گی. مسلمانوں کی نشاة ثانیہ کا کوئی خواب بھی اس عورت کو اس کی صحیح حیثیت دیے بغیر ممکن نہیں جسے آپ کی نسلوں کو پروان چڑھانا ہے. آئیے عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر اسلامی حقوق نسواں کی ترویج کا عہد کریں.
(اس مضمون کی تیاری میں شیخ اکرم ندوی کی کتاب محدثات، فاطمہ مرنیسی کی کتاب Forgotten Queens of Islam شیخ حمزہ یوسف اور اکرم ندوی کے ویڈیو لیکچرز سے استفادہ کیا گیا ہے.)

No comments:

Post a Comment