Saturday, March 11, 2017

خدا نخواستہ کہیں بیٹی نہ ہو جائے!




اسلام کے عروج کے سنہری دور کا تذکرہ آئے تو ہم ہارون الرشید اور مامون الرشید کو ضرور یاد کرتے ہیں. ہمارے خطیب اور مذہبی علمأ ہی نہیں بعض سیکولر اسکالر بھی اس دور کا تذکرہ فخر سے کرتے ہیں جب بغداد اسلامی دنیا کا سیاسی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ تمام دنیا کی علمی امامت کر رہا تھا. اس دور میں دین اور دنیا کے علوم کے حصول کی جو تڑپ مسلم دنیا میں پائی جاتی تھی، اسے معدوم ہوئے صدیاں بیت گئیں. بہت سے اسکالرز اس علمی زوال کا تعلق ہمارے سیاسی زوال سے جوڑتے ہیں مگر اس کی اسباب کی نشاندہی کرنے سے قاصر ہیں کہ جب یورپ نشاۃ ثانیہ کے مرحلے سے گزر رہا تھا تو ہم علمی زوال کا شکار کیوں ہو گئے؟ ہم ماضی کے رونے تو بہت روتے ہیں مگر ہمارے ہاں شاید ہی مسلم قوم کے عروج و زوال کے حوالے سے کوئی سنجیدہ تحقیق ہوئی ہو. دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ہارون اور مامون کو اکثر یاد کرنے والوں میں شاید ہی کوئی ہارون کی ماں خیزران سے واقف ہو اور مامون کی ماں زبیدہ کی زندگی کا احوال جانتا ہو. کوئی تعجب کی بات نہیں کہ جو قوم بیٹوں کو یاد رکھے مگر ماؤں کو بھول جائے، اسے آسمان ثریا سے اتار کر زمین پر پھینک دے.  مزید پڑھیئے 


No comments:

Post a Comment