ہمارے بچپن کے خوابوں میں سے ایک خواب قصّہ خوانی بازار پہنچنا بھی تھا۔ جب ہم ایک دنیا سے ہوتے ہوئے آخرکار بچوں کے ساتھ پہلی مرتبہ پشاور پہنچنے میں کامیاب ہوگئے، تو سچی بات ہے، بچے تو اماں کے اس داستان گو بازار کو دیکھ کر بہت ہی مایوس ہوئے لیکن ہم تصور ہی تصور میں ہزاروں سال پہلے یہاں آنے والے چین، وسط ایشیا اور دور دراز کے ملکوں کے تاجروں کو سرد راتوں میں نان بائی کی دکان کے باہر بان کے پلنگوں پر کوئلے کی انگیٹھیوں پہ لکڑیوں کے الاؤ کے گرد بیٹھ کر، گرم سماوار سے اٹھتی ہوئی بھاپ کے ارغوانی دھوئیں میں قہوے سے لطف اندوز ہوتے اپنے اپنے دیسوں کی کہانیاں سناتے دیکھ سکتے تھے۔
No comments:
Post a Comment