Sunday, January 7, 2018

لوگ ظالم ہیں ہر اک بات کا طعنہ دیں گے


لوگ ظالم ہیں ہر اک بات کا طعنہ دیں گے 
امریکی صدر کی نئی سوانح پر تبصروں کا تجزیہ 

تزئین حسن 



تازہ ترین اطلاعات کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ نے معروف صحافی مائیکل وولف کی لکھی ہوئی اپنی ایک سوانح فائر اینڈ فیوری کو جھوٹ کا پلندہ اور افسانہ قرار دیکر مسترد کر دیا ہے. واضح رہے سینئیر صحافی کی لکھی ہوئی اس کتاب میں امریکی صدر کی ذہنی حالت پر شبہ کا اظہار کیا گیا ہے. 

جمعہ کے روز وقت سے پہلے ریلیز ہونے والی امریکی صدر کی نئی سوانح فائر اینڈ فیوری: انسائیڈ دا وائٹ ہاؤس نے عالمی میڈیا میں ہلچل مچا دی اور اپنی اشاعت کے پہلے دن ہی بیسٹ سیلر بن گئی. کتاب کی قبل از وقت ریلیز کی وجہ غالباً یہ ہے کہ صدر کے وکیل اس کتاب کی اشاعت کروانے کی کوشش کر رہے تھے. کتاب کے مصنف مائیکل وولف کا دعوا ہے کہ ٹرمپ کے بارے میں وائٹ ہاؤس کے تقریباً سو فیصد لوگوں کی رائے یہ ہے کہ ٹرمپ اپنے عہدے لئے ذہنی طور پر صحت مند نہیں ہیں اور یہی اس کتاب کا مرکزی خیال ہے.  انکا یہ بھی دعوا ہے کہ ٹرمپ کے قریبی رفقاء انہیں بچہ اور احمق سمجھتے ہیں. 

ہفتے کے روز صدر نے ان الزامات کا جواب دیتے ہوے اپنے آپ کو "ایک متوازن جینئیس" قرار دیا اور کتاب کو ایک "افسانوی ادب کا شہ پارا". 

دوسری طرف امریکی سیکریرٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹلرسن نے واضح الفاظ میں اس دعوے کی تردید کی ہے. انکا کہنا ہے کہ انھوں نے کبھی بھی امریکی صدر کی ذہنی حالت پر شبہ نہیں کیا. انکے بارے میں یہ بات بلکل غلط ہے کہ انھوں نے "ٹرمپ کی ذہنی حالت پر کبھی کوئی سوال اٹھایا." یاد رہے گزشتہ برس امریکی میڈیا میں ریکس ٹلرسن سے ایک بیان  منسوب کیا گیا جس میں انھوں نے ٹرمپ کو "احمق" قرار دیا تھا.

خود ٹرمپ  نے وائٹ ہاؤس میں ایک ہنگامی تقریر کے ذریعے اپنی صفائی کچھ یوں پیش کی، "میں بہترین کالجز میں گیا ہوں..کالج میں.  اور صورت حال کچھ ایسی تھی کہ میں بہترین [طالب علم ؟] تھا، کالج چھوڑنے کے بعد میں بزنس میں گیا اور میں نے بلینز اور بلینز کمائے، میں ٹاپ بزنس میں بن گیا، میں  دس سال کے لئے ٹیلی ویژن میں چلا گیا اور وہاں میں نے فقید المثال کامیابی حاصل کی جیسا کہ شاید آپ نے سنا ہو گا. اسکے بعد میں یو ایس صدارتی امیدوار کے طور پر کھڑا ہوا ہوں اور جیت گیا."

اس واشگاف تقریر سے دنیا پر سچ واضح ہو جانا چاہیے کہ ٹرمپ کو احمق سمجھنا کسی طور بھی مناسب نہیں.

ٹرمپ کا اپنی صفائی میں یہ بھی کہنا ہے کہ یہ مصنف کا تخیل ہے کہ وہ مجھ سے ملا ہے. یہ آدمی کبھی اوول آفس نہیں آیا، میں اسے نہیں جانتا، اسے میں نے ایک انٹرویو بہت پہلے دیا تھا ایک آرٹیکل کے لئے."  

اس معاملے کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ اور خود ٹرمپ کے قریبی ساتھی اس کتاب کو بہت سنجیدگی سے لے رہے ہیں. اس سلسلے میں پہلا قدم یہ اٹھایا گیا کہ کتاب کے مارکیٹ میں آنے سے پہلے اسکی اشاعت رکوانے کی کوشش کی گئی. سی این این کو انٹرویو دیتے ہوے مصنف کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کی یہ حرکت خود کتاب کے دعوؤں کی تصدیق کرتی ہے. "آخر کوئی امریکی صدر کیوں کسی کتاب کی اشاعت کو رکوانے کی کوشش کرے گا." مصنف کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹرمپ کے رد عمل نے کتاب کو بیسٹ سیلر کا درجہ دلوانے میں مدد دی.  یاد رہے امریکی آئین کی پہلی ترمیم جو فرسٹ امینڈمنٹ کہلاتی ہے کہ مطابق امریکی عوام کو  اظہار رائے کا پورا حق حاصل ہے. 

ٹرمپ کا کہنا ہے کہ رونالڈ ریگن کے بارے میں بھی ایسی ہی باتیں کی گئیں تھیں جو میرے بارے میں کی جا رہی ہیں. یاد رہے ڈاکٹروں نے رونالڈ ریگن کو الزاھیمرز نامی ذہنی بیماری کا مریض قرار دیا تھا مگر یہ انکے صدارت سے فراغت کے بعد کی بات ہے جبکہ موجودہ  امریکی صدر کے بارے میں یہ باتیں وائٹ ہاؤس میں انکی موجودگی کے دوران کی جا رہی ہیں.

ہمارے نزدیک مصنف نے جو کچھ امریکی صدر کے بارے میں لکھا اس سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ٹرمپ کا اپنا رد عمل ہے. اور ناقدین کے مطابق بھی امریکی صدر کا رد عمل کتاب میں ان پر کی گئی تنقید کو سچ ثابت کر رہا ہے.

ٹرمپ کا یہ بھی کہنا ہے  "مائیکل وولف ایک ہارا ہوا  آدمی ہے. اور اس نے گندے اسٹیو بینن (وائٹ ہاؤس کا سابق  مشیر ) کو استعمال کیا ہے. اسٹیو بینن کو جب ملازمت سے فارغ کیا گیا تو وہ رونے لگا تھا اور ایک کتے کی طرح بھیک مانگ رہا تھا" اس بیان کو بھی جو امریکی صدر نے ایک ٹویٹ کے ذریعے جاری کیا صدر کے بعض بد خواہ کتاب کے مواد کی تصدیق کے طور پر استعمال کر  رہے ہیں. یاد رہے کتاب میں سٹیو بینن سے یہ بیان یا الزام منسوب کیا گیا ہے کہ صدر کے بیٹے نے روسی حکام سے ایک  میٹنگ کے دوران غداروں جیسا رویہ اپنایا.

دوسری طرف یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کے اسٹیو بینن جو وائٹ ہاؤس کے سابق اسٹریٹجسٹ رہے ہیں بھی اب صدر کی حمایت کے لئے میدان میں اتر آئے ہیں. انکا کہنا ہے کہ "صدر محب وطن ہیں اور اچھے آدمی ہیں"  اور وہ یعنی بینن جن کو صدر نے کتے کے لقب سے نوازا، "صدر کے غیر متزلزل حامی ہیں."

کتاب میں یہ بھی دعوا کیا گیا ہے کہ صدر کتابیں نہیں پڑھتے اور علمی تجسس سے محروم ہیں. اسکے جواب میں سی آئی کے کے نئے سربراہ مسٹر مائک پومپیو کا کہنا ہے، "صدر پیچیدہ باتوں کو سمجھتے ہیں اور ہماری سی آئی اے کی ٹیم سے واقعی بہت مشکل سوالات کرتے ہیں."  

وائٹ ہاؤس ایک اور مشیر اسٹیفن ملر نے کتاب اور اسکے مصنف کو کچرا قرار دیا. انکا کہنا ہے کہ ٹرمپ ایک "سیاسی جینیس" ہیں.

ٹرمپ کی حمایت میں برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا مے بھی میدان میں آ گئیں. انہوں نے ٹرمپ کی ذہنی صحت کے بارے میں الزامات کو مکمل طور پر مسترد کر دیا، انکا کہنا ہے، "ٹرمپ امریکا کے مفاد میں فیصلے کرتے ہیں." 

یاد رہے کتاب وائٹ ہاؤس میں لئے گئے ٢٠٠ انٹرویوز پر مشتمل ہے. مائیکل کا دعوا  ہے کہ اسکے پاس تمام نوٹس اور ریکارڈنگز موجود ہے اور اسکی صدر سے متعدد ملاقاتیں ہوئیں. لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے وائٹ ہاؤس کے اسٹاف اور صدر کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ انٹرویو ہے. مصنف کے  دعوے سچ ہونے کے باوجود یہ امر بحرحال صحافت کے اصولوں کے خلاف ہے کہ سورس کے علم کے بغیر اسکے بیانات کو اشاعت کے لئے استعمال کیا جائے. دیکھنا یہ ہے کہ مائیکل عدالت میں اپنا دفاع کیسےکرتے ہیں.  

ہم پاکستانی تو ابھی تک امریکی صدر کے سال نو کے بیان کے صدمے سے باہر نہیں آ سکے. ہم تو بس ناکام عاشق کی طرح بقول فراز اور بزبان جگجیت یہی کہہ سکتے ہیں:  

لوگ ظالم ہیں ہر ایک بات کا طعنہ دیں گے 
انکی باتوں کا ذرا سا بھی اثر مت لینا 
ورنہ چہرے کے تاثر سے سمجھ جائیں گے 

No comments:

Post a Comment