Friday, November 24, 2017

سر سید اقبال کی نظر میں

گزشتہ سے پیوستہ 
سر سید اقبال کی نظر میں 


تزئین حسن 

سر سید کی پیدائش کے دو سو سالہ جشن کے موقعہ پر وطن عزیز میں ایک پرانی بحث پھر چھڑ گئی ہے کہ سرسید قوم کے محسن تھے یا انگریزوں کے غلام اورایجنٹ؟ سر سید کے افکار اور قائم کردہ اداروں کا پاکستان کے تعلیمی نظام پر جو طاقتور اثرات ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک صحت مند رحجان ہے جن پر تفصیلی مکالمہ ہونا چاہیے. بس فریقین ایک دوسرے پر کف اڑانے سے پرہیز کریں ورنہ اسکے چھینٹے خود انھیں پر پڑیں گے. اس مضمون میں ہمارا مقصد کسی ایک فریق کی طرفداری نہیں بلکہ ہم صرف اقبال کے سر سید کے بارے میں کچھ خیالات قارئین کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں. 


اقبال اپنی شاعری میں شیکسپئیر، رومی، حکیم سنائی، مولانا محمد علی جوہر  جیسے انگنت زعماء، دانشوروں، مدبروں سے خیالی گفتگو کی ہے. غالب کے برعکس انہیں یہ خیالات اور مضامین غیب سے نہیں آتے تھے بلکہ یہ تصورات انہوں نے انہیں مفکرین کے افکار اور زندگی سے ہی مستعار لئے ہیں. تخیل کی یہ پرواز بانگ درا کی نظم 'سید کی لوح تربت' میں سر سید سے اقبال کو بڑی دلچسپ نصیحتیں کرواتی ہے. اقبال نے سر سید کی زندگی اور افکار سے جو سبق لیا اسے وہ سر سید ہی کے الفاظ میں بیان کرتے ہیں.   

مدعا تیرا اگر دنیا میں ہے تعلیم دیں 
ترک دنیا قوم کو اپنی نہ سکھلانا کہیں 

کوئی سر سید کے خیالات اور افکار سے متفق ہو یا نہ ہو، یہ شعر سرسید کے فلسفہء فکر و زندگی کی مکمل طور پر عکاسی کرتا ہے. شعر ظاہر کرتا ہے کہ اقبال اس بات سے بہتر طور پر آگاہ تھے کہ سر سید دینی تعلیم کے خلاف نہیں تھے بلکہ اسکے ساتھ دنیا کی تعلیم کو بھی ضروری سمجھتے تھے. 

لیکن اسکے ساتھ ہی سرسید اقبال کو نصیحت کرتے ہیں کہ زمانہ اب آگے جا رہا ہے، ایسی پرانی قصوں کو چھیڑنے کوئی فائدہ نہیں جنکی دنیا کو اب ضرورت نہیں.   

محفل نو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ 
رنگ پراب جو نہ آئیں ان فسانوں کو نہ چھیڑ 

اقبال ظاہر ہے اس نصیحت پرعمل کرتے نظر نہیں آتے.

اگلے شعر میں سر سید انہیں دلیری کا سبق دیتے نظر آتے ہیں:

تو اگر کوئی مدبر ہے تو سن میری صدا 
ہے دلیری دست ارباب سیاست کا عصا

آگے اقبال بہ زبان سر سید مزید انکے موقف وضاحت کرتے ہیں.  

عرض مطلب سے جھجک جانا نہیں زیبا تجھے 
نیک ہے نیت اگر تری تو کیا پرواہ تجھے 

یہ دو اشعار اس حقیقت کے عکاس ہیں کہ اقبال اس بات سے آگاہ تھے کہ اس قوم کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کرنا بڑی ہمت کا کام ہے. ایک طرح سے وہ سر سید کو خراج تحسین بھی پیش کر رہے ہیں کہ وہ کبھی مخالفین سے ڈر کر اپنے مؤقف سے  پیچھے نہیں ہٹے. جس چیز کو سہی سمجھا اسکا نہ صرف ببانگ دھل اظہار کیا بلکہ اس مقصد کو حاصل کرنے لئے اپنا جان اور مال لگا دیا. 
  
سر سید کی اقبال کو بھی یہی نصیحت ہے کہ اگر نیت صاف ہے تو اپنے اظہار آزادی کے استعمال سے نہ رکو. اگلے شعر میں بہ زبان سید اقبال پھر کہتے ہیں کہ مومن کا دل خوف اور ریاکاری سے پاک ہوتا ہے. یہ شعربھی سر سید کے فلسفۂ فکر اور زندگی کا بہترین عکاس ہے جس میں سید مومن کی خصوصیت بیان کرتے ہیں.

بندہء مومن کا دل بیم و ریا سے پاک ہے 
قوت فرمان روا کے سامنے بیباک ہے  

اس شعر میں اقبال ان لوگوں سے واضح اختلاف کرتے نظر آتے ہیں جنکا خیال ہے کہ سر سید انگریز کے غلام اور ایجنٹ تھے اور مغرب کی پیدا وار تھے. یہاں تو انھوں سے حکمران کے خلاف بیباکی سے اظہار رائے کا درس دیتے نظر آتے ہیں. 

اگلے تین شعروں میں  سرسید اقبال کو اپنے قلم کے مؤثر استعمال کی نصیحت کرتے ہیں کہ اگر تیرے ہاتھ میں الله نے جادو اثر قلم دیا ہے اور تیرے دل کو الله نے دنیا کی حقیقتوں سے آگاہ کیا ہے اور تجھے قدرت نے بصیرت اور ویژن سے نوازا ہے تو اپنے شعر کے اعجاز سے سونے والوں کو جگا دے. 

ہو اگر ہاتھوں میں تیرے خامۂ معجزرقم  
 شیشہء دل ہو اگر تیرا مثال جام جم 
مخالفین کی باتوں کے جواب میں اپنی زبان کو گندی نہ کر تیرا استاد تو براہ راست رحمان ہے. ایسا نہ ہو کہ تیری آواز مخالفت کے سیلاب سے گھبرا کر انھیں جیسی ہو جائے. ایسا لگتا ہے جس کشمکش سے سر سید گزرے اقبال خود کو اسی کے بیچ میں کھڑا پاتے ہیں گو سر سید کے مقابلے میں اقبال کو بہت کم مخالفتوں کا سامنا رہا.

پاک رکھ اپنی زبان تلمیذ رحمانی ہے تو  
ہو نہ جائے دیکھنا تیری صدا بے ابرو 

آخر میں سید انہیں اپنے شعر کی قوت سے باطل کے خلاف  جہاد کی تاکید کرتے ہیں:
سونے والوں کو جگا دے شعر کےاعجازسے 
خرمن باطل جلا دے شعلۂ آواز سے 

سوال یہ ہے کہ کیا سر سید اور اقبال کا باطل ایک ہی تھا؟ اشعار سے ظاہر ہے کہ کم از کم اقبال یہی سمجھتے تھے.





No comments:

Post a Comment