سر سید مولانا حالی کی نظر میں
تزئین حسن
سر سید اپنی زندگی ہی میں اپنے آپ کو کتنا متنازعہ بنا چکے تھے اسکا اندازہ مولانا حالی کی اس تحریر سے ہوتا ہے جو حالی نے اپنی مرتب کردہ سرسید کی سوانح 'حیات جاوید' کے دیباچے میں لکھا. اسکا ایک اقتباس درج ذیل ہے. واضح رہے یہاں حالی کا اپنا تنقیدی معیار بھی صاف نظر آ رہا ہے کہ وہ کس درجہ کی تنقیدی دیانتداری کے قائل تھے:
"اگرچہ ہندوستان میں جہاں ہیرو کے ایک عیب یا خطا کا معلوم ہونا اسکی تامّ خوبیوں اور فضیلتوں پر پانی پھر دیتا ہو ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ کسی شخص کی بائیو گرافی کریٹکل طریقے سے لکھی جائے، اسکی خوبیوں کے ساتھ اسکی کمزوریاں بھی دکھائی جائیں اور اسکے عالی خیالات کے ساتھ اسکی لغزشیں بھی ظاہر کی جائیں..... لیکن اول تو ایسی بائیو گرافی چاندی سونے کے ملمع کے سوا کچھ وقعت نہیں رکھتی" ...
ہم کو اس کتاب میں اس شخص کا حال لکھنا ہے جس نے چالیس سال برابر جہالت اور تعصب کا مقابلہ کیا، تقلید کی جڑ کاٹی ہے، بڑے بڑے علماء اور مفسرین کو لتاڑا ہے، اماموں اور مجتہدین سے اختلاف کیا ہے. قوم کے پکے پھوڑوں کو چھیڑا ہے اور انکو کڑوی دوائیاں پلائی ہیں. جسکو مذھب کے لحاظ سے ایک گروہ نے صدیق کہا تو دوسرے نے زندیق کا خطاب دیا..... ایسے شخص کی لائف چپ چاپ کیونکر لکھی جا سکتی ہے. ضروری ہے کے اسکا سونا کسوٹی پر کسا جائے اور اسکا کھرا پن ٹھوک بجا کر دیکھا جائے. وہ ہم میں پہلا شخص ہے جس نے مذہبی معاملات میں نکتہ چینی کی بنیاد ڈالی اس لئے مناسب ہے کے سب سے پہلے اسکی لائف میں اسکی پیروی کی جائے اور نکتہ چینی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے. اگرچہ سر سید کے معصوم ہونے کا نہ ہم کو دعوا ہے اور نہ اسکے ثابت کرنے کا ہم ارادہ رکھتے ہیں لیکن اس بات کا ہم کو خود بھی یقین ہے کہ سر سید کا کوئی کام سچائی سے خالی نہیں تھا اور اس لئے ضرور ہے کہ انکے ہر کام کو نکتہ چینی کی نگاہ سے دیکھا جائے کیونکے سچ میں اور صرف سچ ہی میں یہ کرامت ہے کہ جس قدر اس میں زیادہ کرید کی جاتی ہے اسی قدر اسکے جوہر زیادہ اب و تاب کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں."
آگے چل کے حالی لکھتے ہیں. "ظاہر ہے جس نے چالیس برس مذھب کی حمایت میں بسر کیے ہوں اور سوائے تکفیر و تدلیل کے قوم کی طرف سے کچھ انعام نہ پایا ہو اس سے زیادہ کون شخص اس بات کے دیکھنے کا خواہشمند ہوسکتا ہے کے کوئی مسلمان اسکی مذہبی تصنیفات پر نظر انصاف سے بحث کرے."
|"مگر ہم کو امید ہے کے جو دائمی سرور اور روحانی خوشی انکو مرنے کے بعد انکو اپنی خالص اور بے ریا خدمات کے صلے میں ملی ہو گی اس نے دنیا کی ناچیز و حقیر قدر دانیوں سے انکو آباد العباد تک مستغنی کر دیا ہو گا."
آگے چل کے حالی لکھتے ہیں. "ظاہر ہے جس نے چالیس برس مذھب کی حمایت میں بسر کیے ہوں اور سوائے تکفیر و تدلیل کے قوم کی طرف سے کچھ انعام نہ پایا ہو اس سے زیادہ کون شخص اس بات کے دیکھنے کا خواہشمند ہوسکتا ہے کے کوئی مسلمان اسکی مذہبی تصنیفات پر نظر انصاف سے بحث کرے."
|"مگر ہم کو امید ہے کے جو دائمی سرور اور روحانی خوشی انکو مرنے کے بعد انکو اپنی خالص اور بے ریا خدمات کے صلے میں ملی ہو گی اس نے دنیا کی ناچیز و حقیر قدر دانیوں سے انکو آباد العباد تک مستغنی کر دیا ہو گا."
No comments:
Post a Comment