Tuesday, December 13, 2022

کیا تفریحی ادب چھچھورا ہوتا ہے؟

کیا تفریحی ادب چھچھورا ہوتا ہے؟ - تزئین حسن
17 مئی 2017

پچھلے دنوں واٹس ایپ کے ایک ادبی گروپ پرایک عالم دین کا بیان نظر سے گزرا جس میں تفریحی ادب کو سطحی اور چھچھورا کہا گیا تھا۔ پوسٹ مستند تھی یا نہیں مگر میرے مؤدبانہ عرض کرنے پر کہ مجھے اس بیان سے اتفاق نہیں، وہاں موجود ساتھی ناراض ہو گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سو فیصد صحیح بات ہے۔ خاموشی اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ سوشل میڈیا پر کسی کو قائل کرنا عموماً ناممکن ہوتا ہے مگر دل میں تنگی ضرور محسوس کی کہ ایک طرف سندھ حکومت اسکولوں میں ناچ گانے کی حکومتی سطح پر ترویج کر رہی ہے اور دوسری طرف تفریحی ادب کو معاشرے کا ایک فضول عنصر سمجھ کر یکدم مسترد کیا جا رہا ہے، اور ان لوگوں کی طرف سے کیا جا رہا ہے جو خود ادب کے نام لیوا ہیں۔


 
پلپ فکشن

مغرب میں ایسا ادب جو عام آدمی کو سستی تفریح فراہم کرے ”پلپ فکشن“ کہلاتا ہے اور ایسا میڈیا جو عوام الناس میں مقبول ہو ”پاپ کلچر“ کہلاتا ہے۔ عوام کے ذہنوں تک پہنچنے کے لیے ان کی اہمیت مسلم ہے۔ اس کے لیے ہارورڈ جیسے تعلیمی ادارے لٹریچر کے شعبہ جات میں ماسٹرز کی سطح پر بیشمار مضامین آفر کر رہے ہیں جو نہ صرف مختصر افسانہ اور ناول، بلکہ کامک، اینی میشن، کارٹون، ڈاکومنٹری، شارٹ فلم، یہاں تک کہ وڈیوگیم تک کو اپنے نظریات کی ترویج کے لیے استعمال کرنے کی تعلیم اور تربیت دے رہے ہیں۔ مغرب کی تقریباً ہر یونیورسٹی میں ان موضوعات پر سنجیدہ تحقیق ہو رہی ہے اور مغربی تہذیب کی یلغار کی صورت اس کے نتائج بھی ہمارے سامنے ہیں۔ لیکن ہم آج بھی کوتاہ نظری کے ساتھ تفریحی ادب کو اخلاقی بے راہ روی کا ذریعہ سمجھ کر اس کی مخالفت پر کمربستہ ہیں۔

دین میں ابلاغ کی اہمیت

ہم بھول جاتے ہیں کہ میرے سرکار صلیٰ اللہ علیہ وسلم، اللہ کا پیغام عوام الناس تک پہنچانے کے لیے اپنے دور میں دستیاب ابلاغ کے تمام ذرائع کو بروئے کار لائے اور پاپ کلچر کی یہ اصناف دراصل آج کے ابلاغ کے انسٹرومنٹس ہیں۔ ان میں فحاشیت اور عریانیت اس لیے غالب ہے کہ ان کی پروڈکشن میں جن لوگوں کا حصہ ہے، ان کی اخلاقی اقدار ہماری اقدار سے قطعی مختلف ہیں۔ اگر صالح افراد انہیں ذرائع ابلاغ کی مناسب تربیت پا کر ان کی پروڈکشن میں حصہ لیں گے تو ان میں مروجہ خرابیاں نہیں ہوں گی۔

اللہ کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ کو شاعری پسند تھی۔ ہم حبشیوں کا ناچ بھی بھول جاتے ہیں جو مردوں کو چھوڑ عورتوں اور بچوں کو بھی دیکھنے کی یقیناً اجازت تھی۔ ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ قرآن اور آسمانی صحیفوں میں کس طرح تمثیلات کے ذریعہ عام آدمی کے ذہن میں بات اتاری گئی ہے۔ جنگوں میں رزمیہ نظموں کو استعمال کرنے کی روایت اسلام سے بہت پرانی ہے مگر اسلام میں اسے برقرار رکھا گیا ہے۔

تفریح انسان کی بنیادی ضرورت

کیا یہ سب تفریحی ادب کے زمرے میں نہیں آتا؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو کیا ہمیں تفریح کو جو انسان کی بنیادی ضرورت ہے، اس کا جائز مقام دیکر عوام کو ان کی ذہنی سطح کے مطابق فراہم کرنے کی سنجیدہ منصوبہ بندی نہیں کرنی چاہیے، خصوصا مخالف نظریات کے پروپیگنڈے اور برائی کے اس سیلاب میں؟ کیا ہم اب بھی حرام حلال کی بحثوں میں الجھے رہیں گے؟ اونٹ کو پھانکتے اور زیرے کو چھانتے رہیں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ انفرادی طور پر کچھ لوگ ضرور اپنے طور پر ان شعبہ جات میں کچھ کام کر رہے ہیں مگر قومی سطح پر جس جامع منصوبہ بندی اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے وہ تو دور کی بات ابھی تک ہم پوری طرح اس بات پر ہی متفق نہیں ہو سکے کہ تفریح ضرورت ہے یا خرافات؟

میڈیا اور فنون لطیفہ کے لیے ہمارا روایتی رویہ

ہمارے معاشرے اور خصوصاً دینی طبقے کا ایک مزاج ہے کہ ہم ہر آنے والی تبدیلی کا راستہ روکنے کی لاحاصل کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ کامیاب قومیں وہ ہوتی ہیں جو آنے والی تبدیلیوں کا ادراک کر کے ان سے نمٹنے کے لیے پہلے سے تیار ہوتی ہیں۔ ہماری پچھلی دو ڈھائی سو سالہ تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے سنجیدہ طبقات نے بھی لاؤڈ اسپیکر سے لیکر ڈائجسٹ لٹریچر، ٹی وی، فلم، انٹرنیٹ، یوٹیوب ہر چیز کی مخالفت کی ہے۔ مگر اس مخالفت کے باوجود ہم ان چیزوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکے، بلکہ منہ سے انہیں برا بھلا کہنے کے باوجود آج ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے ٹی وی، یوٹیوب اور انٹرنیٹ کو اپنی تعلیمات کی ترویج کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

فلم میکنگ اور ہمارا رویہ

ستم ظریفی یہ ہے کہ خود شارٹ فلمز اور ڈاکومنٹریز ایک دوسرے کو فارورڈ کرنے کے باوجود فلم میکنگ کا تذکرہ آتے ہی ہم توبہ توبہ کرنے لگتے ہیں اور حرام حلال کی بحث چھڑ جاتی ہے۔ پچھلے دنوں کینیڈا میں ایک شناسا خاتون کو ان کی بیٹی کے یونیورسٹی ایڈمشن پر مبارکباد کے دوران میں نے انہیں مشورہ دیا کہ ہو سکے تو بیٹی کو فلم میکنگ کے مضامین کی طرف توجہ دلائیں کہ امت کو اس وقت ان شعبوں میں اعلیٰ دماغ رکھنے والوں کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فلم میکنگ تو غالبا دین میں منع ہے۔

امریکا میں پیدا ہونے والی اور تمام زندگی مغرب میں گزارنے والی پڑھے لکھے گھرانے کی ذہین ترین بچی نے ہائی اسکول میں اسپین میں مسلمانوں کی حکومت ختم ہونے کے بعد وہاں رہ جانے والے مسلمانوں پر، جنھیں زبردستی تبدیلی مذہب پر مجبور کیا گیا، تحقیقی مقالہ لکھا اور والدین کی خواہش کے برعکس میڈیسن یا کسی دوسری سائنس کے بجائے سوشل سائنسز میں دلچسپی رکھتی ہے۔ اللہ اس بچی سے موجودہ زمانے کے تقاضوں کے مطابق امت اور دین کی خدمت لے کہ

اس دور میں مے اور جم اور ہے جام اور

پلپ فکشن کی اہمیت

پچھلے دنوں ایک دوست نے بات چیت کے دوران زبیر منصوری کی کسی ورکشاپ کا حوالہ دیا جس میں مذکورہ میڈیا ٹرینر نے حاضرین کے سامنے مولانا مودودی کے پمفلٹ قادیانی فتنہ اور عمیرہ احمد کے ایک ناول پیر کامل کا تقابل کیا کہ عوام الناس کے ذہنوں میں تبدیلی لانے کے لیے ان میں سے کون سی صنف زیادہ مؤثر ہے۔ پلپ لٹریچر کی اہمیت کی اس سے خوبصورت مثال نہیں دی جا سکتی۔ مولانا کی عام فہم زبان اور ذہانت سے پر استدلال کے سامنے عمیرہ احمد تو کیا بڑے سے بڑا اسکالر نہیں ٹہر سکتا مگر ظاہر ہے اس سے استفادہ کرنے والوں کا دائرہ دین سے دلچسپی رکھنے والوں اور ان میں بھی ایک خاص مکتبہ فکر تک ہی محدود ہو سکتا ہے۔ مگر عام ذہن رکھنے والے قاری کو یہ ناول ان ڈائریکٹ ہی سہی جس طرح قادیانی مسئلے کی طرف متوجہ کرسکتا ہے اور اس سے بڑھ کر اگر اس ناول پر ایک ڈرامہ بن جائے تو استفادہ کا دائرہ کتنا وسیع ہوگا، اس کا فیصلہ میں قارئین پر چھوڑتی ہوں۔

سوشل میڈیا

پچھلی چند دہائیوں میں ذرائع مواصلات میں انقلابی تبدیلیاں آئی ہیں اور دس سال میں سوشل میڈیا ہماری معاشرت کا حصہ بن گیا ہے۔ اس وقت انٹرنیٹ پر ہر طرح کا مواد موجود ہے۔ اس میں علمی، دینی اور نظریاتی مواد بھی ہے، سنجیدہ بحثیں بھی، سیاست بھی اورپروپیگنڈا بھی، ہلکی پھلکی تفریح بھی اور لاتعداد سائٹس پر بے حیائی پر مبنی مواد بھی۔

ہر عمر کے افراد اپنے ذوق کے مطابق اس مواد سے مستفید بھی ہو رہے ہیں۔ مذہبی علماء تو کیا ماں باپ بھی بچوں کو مناسب اور غیرمناسب ویب سائٹس کی کوئی لسٹ فراہم کرنے کی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس کے لیے نہ تو ہمارے مذہبی عناصر کے پاس کوئی پروگرام ہے اور نہ ہی سیکولر حضرات کے پاس اور بچے بوڑھوں سمیت معاشرہ گلوبلائزیشن کے اس سیلاب میں بہا چلا جا رہا ہے۔ اس سے بڑھ کر کچھ لابیاں اسلام اور پاکستان کے خلاف باقاعدہ فیس بک پیجز بنا کر ہمارے عقائد اور قومی نظریات کا مذاق بنا رہی ہیں۔

ادب کی جن اصناف کا یہ لابیز استعمال کر رہی ہیں، ان میں مختصر افسانہ بھی ہے اور لطیفے بھی۔ بعض جھوٹی کہانیاں جنھیں دلچسپ سچے واقعات کے پیرائے میں بیان کیا جاتا ہے۔ اور ان سب کا اثر ایک عام ذہن پر ہونا لازمی ہے۔ مگر ہم آج بھی پاپ لٹریچر کی ان اصناف کو اپنی دعوت کا ذریعہ بنانے کے کے بجائے انھیں نظرانداز کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے لیے بھی ہماری کوئی جامع منصوبہ بندی سامنے نہیں آتی کہ اس کے منفی اثرات سے بچ کر اس کے مثبت پہلوؤں سے کیسے فائدہ اٹھایا جائے۔

ڈائجسٹزم

ایک وقت تھا کہ ہمارا یہی رویہ ڈائجسٹ ازم کے ساتھ تھا جبکہ وہ اپنے طور پر ایک طبقے کے مطالعہ کے شوق کی تسکین کر رہا تھا، اور شاید اب بھی کر رہا ہے۔ آپ دو دہائیاں قبل کے سسپنس اور جاسوسی ڈائجسٹ اٹھا کر دیکھیں، ان میں تاریخی فکشن پر بھی مضامین موجود ہیں، اور انبیاء کے قصے بھی، غیر ملکی ادب کے تراجم بھی اور اس کے ساتھ ساتھ اس میں بھی شک نہیں کہ یہ اپنے قارئین کو قومی اور دینی شناخت بھی دے رہے تھے۔

کم و بیش اسی طرح کا رویہ ابن صفی، اشتیاق احمد اور ابن صفی کے ناولوں کے ساتھ اختیار کیا گیا۔ پلپ فکشن بچوں کے لیے لکھا جائے یا بڑوں کے لیے یہ ایک خاص طبقے کو تفریح مہیا کرنے، انہیں مخصوص اقدار اور فکر کا شعور دینے کے علاوہ مطالعہ کے لیے ان کا سٹیمنا بھی بڑھاتا ہے جو بسا اوقات وقت کے ساتھ سنجیدہ مطالعہ میں بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ یاد رکھیں ہر فرد سے آپ یہ توقع نہیں کر سکتے کہ وہ قراۃ العین حیدر کے ناولوں یا ابوالکلام آزاد کے مضامین سے لطف لے۔

خواتین کے رسالے اور ٹی وی سیریلز اس کے علاوہ خواتین کے لیے نکلنے والے رسالے بھی کسی حد تک تفریح کی ضروریات کئی دہائیوں سے پورا کر رہے ہیں اور مجموعی طور پر معاشرتی اقدار کے تحفظ کا بھی کام کر رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جدید طریقوں کے مطابق ان اصناف کو دعوت کے لیے استعمال کرنے کی پلاننگ ہو۔

ٹی وی چینلز کی ڈی ریگولرائزیشن کے بعد انہیں رسالوں کے سلسلہ وار ناولوں پر بہت کامیاب سیریلز بھی بنے۔ کہا جا سکتا ہے کہ ان ٹی وی ڈراموں کی اکثریت بے راہ روی میں اضافے کا با عث بنتی ہے لیکن کچھ ڈراموں کے مرکزی خیال مذہب پر بھی مبنی ہوتے ہیں جو بہرحال ایک عام ذہن کو اس کی تعلیمات کی حقانیت کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ دس بیس پرسنٹ یا اس سے کم ہی سہی لیکن مذہبی فکر کو میڈیا پر کچھ نمائندگی ملی تو۔

بالی ووڈ اور ہمارے گھر

اسی طرح عام طور سے پبلک میں اس کا اعتراف نہیں کیا جاتا لیکن بالی ووڈ اس وقت ہماری ثقافت کا حصہ بن چکا ہے۔ پاکستانیوں کی اکثریت فیملی کے ساتھ یا سامنے اس تفریحح سے لطف اندوز ہوتی ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ مذہبی گھرانے بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ یہاں تک کہ جن گھروں میں ٹی وی موجود نہیں، وہاں اس کار خیر کے لیے کمپیوٹر کا استعمال ہوتا ہے۔ کیبل کا پورا کاروبار اس وقت نیوز چینل کے بعد بہت حد بالی ووڈ کی وجہ ہی سے چل رہا ہے لیکن اس کا اعتراف کرنا اخلاق کے منافی سمجھا جاتا ہے۔ پوچھنے پر لوگ صاف مکر جاتے ہیں۔ کہنے کا مقصد خدا نخواستہ یہ نہیں کہ مذہبی گھرانے بے حیائی یا ناچ گانے کو پسند کرتے ہیں۔ مگر کوئی مثبت متبادل نہ ہونے کی وجہ سے، سستی، آسان اور گھر پر دستیابی کی وجہ سے اکثریت انہیں برداشت کرتی ہے۔ اور ان لوگوں کی ذہانت اور منصوبہ بندی کی بھی داد دینی پڑے گی جنہوں نے ہماری تباہی کا یہ سامان انتہائی خاموشی سے ہمارے گھروں تک پہنچا دیا کہ خود ہمیں کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ ہمارے ساتھ اصل میں ہو کیا رہا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں پانچ سال گزارنے کے بعد میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ہندوستان بالی ووڈ کے ذریعہ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری مسلم دنیا میں فحاشی پھیلانے کے ساتھ ساتھ اپنے سیاسی اور مذہبی نظریات کی ترویج کر رہا ہے اور کئی ہزار ملین یا شاید بلین کا منافع الگ کما رہا ہے۔ اپنے آپ کو ایک بلند پایہ قوم کے طور پر اپنی امیج بلڈنگ بھی کر رہا ہے اور جہاں موقع ملتا ہے پاکستان اور مسلمانوں کو ولن اور دہشت گرد بھی بناتا ہے۔ ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے اپنے بارے میں عالمی رائے عامہ کی تبدیلی کو نظرانداز کرتے ہیں جس میں مغربی پروپیگنڈے کا تو ہاتھ ہے ہی، ہندوستانی فلمیں بھی ہمارے اپنے پیسے سے اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔ اور اس معاملے کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ تفریح کے پردے میں یہ فلمیں ہمارا اور ہمارے نوجوانوں کا ذہن بھی تبدیل کر رہی ہیں۔

نیٹ فلکس اور مغربی مواد

پچھلے دنوں NETFLIX نے پاکستانی ناظرین کو انٹرنیٹ کے ذریعہ تفریح فراہم کرنے کے لیے PTCL سے ایک معاہدے کے ذریعہ اپنی سروس لانچ کی۔ مزے کی بات یہ NETFLIX اور AMAZON جب انڈیا میں اپنی سروسز لانچ کرتی ہیں تو انڈیا کے دیسی تفریحی مواد کونٹینٹ کو تلاش کرتی ہیں لیکن جب ہمارے ہاں کام کرتی ہیں تو پاکستان کے عوام کو مغربی مواد دکھاتی ہیں۔ معلوم نہیں PTCL کے ارباب اختیار نے کن شرائط پر مذکورہ کمپنی کو مغربی مواد برآمد کرنے کی اجازت دی ہے؟ لیکن یہ مغربی کونٹینٹ ہمارے عوام کے ذہنوں کو کس طرح آلودہ کرے گا، یہ سوچ ہی طبیعت کو مکدر کر دیتی ہے۔

میرے شذرات سے کوئی یہ نہ سمجھے کے مجھے محض بےحیائی پر اعتراض ہے۔ مغربی مواد میں اس کے علاوہ دنیا کی زندگی کے بارے میں ان کی مخصوص فکر اور نظریات بھی آتے ہیں اور بین الاقوامی سیاست میں ان کا نقطہ نظر بھی ہم اپنے بیڈروم اور لاؤنج میں درآمد کر رہے ہوتے ہیں۔ واٹس ایپ اور فیس بک کی طرح اب ہم NETFLIX کے نشے کے بھی عادی ہونے والے ہیں۔ اس پر کوئی آواز اٹھائی جائے گی تو لبرلز بلبلا اٹھیں گے۔

سوال یہ ہے کہ اس صورتحال کا علاج کیسے ممکن ہے جب تک تفریح جیسی بنیادی انسانی ضرورت پوری کرنے کے لیے متبادل موجود نہ ہو اور متبادل ہو بھی کیسے جب تفریحی ادب کو ہی چھچھورا سمجھا جائے۔

تفریحی بجٹ اور روزگار

یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ صرف پاکستان کے بیس کروڑ آبادی کے لیے بھی تفریحی مواد یعنی ڈرامے، فلم، کارٹون، کامکس اور وڈیو گیمز کی تیاری اگر ملک کے اندر ہو تو لاکھوں نہیں تو ہزاروں افراد کو روزگار فراہم کر سکتی ہے۔ اور اب تو ہندوستانی بھی مانتے ہیں کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں۔ برے سے برا پاکستانی ڈرامہ بھی بالی وڈ یا ہالی وڈ فلم کے مقابلے میں دینی اور ملکی اقدار کا بہتر نمائندہ ہوتا ہے اور کسی غلط چیز کی روک تھام بھی آسان ہوتی ہے۔ عوامی احتجاج پر پیمرا دیر سے ہی سہی پابندی لگا تو دیتی ہے۔ کیا اس نوعیت کی مانیٹرنگ اور روک تھام NETFLIX کی فلموں پر ممکن ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ ٹی وی ڈراموں کے حوالے سے پاکستان دنیا میں کسی سے پیچھے نہیں اور بجٹ موجود ہو تو ہمارے فلم میکرز نے ثابت کیا کہ وہ بہترین پروڈکشنز سامنے لا سکتے ہیں لیکن منصوبہ بندی میں فقدان کے باعث پاکستانیوں کی اکثریت ہندوستانی فلموں کو بجٹ فراہم کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ یہ اور بات کہ اس وقت شعیب منصور کو سپانسرز مغرب سے ہی ملتے ہیں، ایسے میں بول جیسی فلمیں ہی سامنے آ سکتی ہیں۔

تفریح سے متعلق پیشہ وروں کو بھانڈ، گویے اور مراثیوں کے حقارت آمیز نام دے کر نظرانداز کرنا بھی ہمارا قومی مزاج ہے۔ گاؤں کی ہر شادی میں مراثیوں کو بلایا جاتا ہے۔ قومی تہواروں کے دنوں میں ہم انھی گویوں کے گائے ہوے ملّی نغمے سن کر جھومتے ہیں۔ 65ء کی جنگ میں جوانوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے انھی کو محاذ پر لے جایا گیا مگر ان پیشوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا ورنہ سلیم ناز بریلوی جیسے با صلاحیت افراد کی کمی نہیں۔

کسی معیاری پروڈکشن کے اثرات کتنے وسیع ہو سکتے ہیں، اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ پچھلے دنوں شکسپئیر کے ڈرامے ہیلمٹ کی ایک بالی ووڈ adaptation جس میں کشمیر کے سیاسی مسئلے کی حقیقت پسندانہ تصویرکشی کی گئی ہے، پر ریویو لکھنے کا موقع ملا۔ یہ دیکھ کے خوشی اور حیرت ایک ساتھ ہوئی کہ 1990ء میں تیار کیا گیا ترانہ ”خوں شہیدان رنگ لایا“ کو کشمیر کے نوجوانوں کے پسندیدہ نغمے کے طور پر دکھایا گیا۔

کارٹون، کامکس، اینی میشن اور وڈیو گیمز

مغرب اور ہندوستان میں ذہنوں کو تبدیل کرنے کے لیے اور اپنے معاشرتی نظریات کے فروغ کے لیے کامکس، کارٹون، اینی میشن اور وڈیو گیمز کی انڈسٹری بھی سرگرم ہے اور ہم سے بھی کثیر منافع کما رہی ہے۔ یونیورسٹیز میں لٹریچر ہی کے شعبوں میں ان کی تعلیم دی جا رہے ہے۔ اس سمت میں بھی ہمارے ہاں کوئی پیشرفت دیکھنے میں نہیں آتی۔ حالانکہ مغرب میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے Visual Arts کے شعبوں میں بہت سے ایوارڈ حاصل کیے۔

مگر ہمارا عمومی مزاج یہی ہے کہ ہم اپنے ذہین ترین بچوں کو میڈیا اور visual Arts یا کسی اور شعبے میں بھیجنے کے بجائے انہیں صرف ڈاکٹر، انجینئیر، اس سے آگے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بنا کر ایک دوسرے سے آگے نکلنا چاہتے ہیں۔ یہ پڑھے لکھے گھرانوں کا ایک عام مائنڈ سیٹ ہے اور دینی گھرانے بھی اس سے بچے ہوئے نہیں۔ مال کی محبت میرے سرکار کی امت کا فتنہ ہے لیکن اس مائنڈ سیٹ کا ایک لازمی منطقی نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان معاشی طور پر بھی کمزور سے کمزور تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ جن معاشروں میں ”منصوبہ بندی“ کے حوالے سے کوئی ”منصوبہ بندی“ نہ ہو اور صرف سامنے نظر آنے والے ڈالر میں اپنا انفرادی فائدہ نظر آتا ہو اس قوم کو آسمان ثریا سے زمین پر نہ پھینک دے تو تعجب کی بات ہے۔

تفریح کی انڈسٹری اور تعلیم

ضرورت اس بات کی ہے کہ تفریح کو انسان کی بنیادی ضرورت سمجھ کر ترجیحی بنیادوں پر اس کی تعلیم کو ایک انڈسٹری کے طور پر ملک کے اندرہی فروغ دینے کی سنجیدہ منصوبہ بندی کی جائے۔ اس مسئلے سے ہم مجرمانہ لاتعلقی اور اغماض برتتے رہے ہیں اور نتیجہ یہ ہے کہ قوم کے ذہنوں میں تبدیلی کا ٹھیکہ خود اپنے ہاتھوں سے ہم نے اغیار کے ہاتھوں میں تھما دیا ہے۔

دینی قیادت کا کردار پاکستان کے غیر سرکاری اداروں میں دینی جماعتوں کا نیٹ ورک بہت بڑا اور مؤثر ہے۔ اور اگر دینی علما واقعی قوم کو برائی سے بچانے کے لیے سنجیدہ ہیں تو انہیں بھی اس سمت پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر فلم اور ٹی وی پر فی الوقت سیکولر افراد اور نظریوں کے حامل لوگ زیادہ نظر آتے ہیں تو اس میں بھی ایک حد تک دینی جماعتوں کا رول ہے کہ ان میں مستقبل کی جو بصیرت ہونی چاہیے تھی، اس کا فقدان ہے۔

آخرجماعت اسلامی کئی ملین روپے ”گوامریکہ گو“ یا لاحاصل الیکشن مہم میں خرچ کرنے کے بجائے فلم میکنگ کا کوئی ادارہ کیوں نہیں قائم کرتی کہ اس میدان میں صالح فطرت افراد کی تربیت اور قوم کی صحیح سمت رہنمائی کی جا سکے اور ہمارے نوجوانوں کو روزگار بھی ملے۔

دائیں بازو کی جماعتیں غیر ضروری مسائل میں الجھنے کے بجائے سنجیدہ طریقے سے ادب، صحافت، ڈرامہ، ڈاکومنٹری اور فیچر فلم میکنگ، کی مختلف اصناف کی تربیت کا مناسب انتظام کریں اور اپنے زیر اثر بچوں بچیوں کو اس کام پر راغب کر سکیں تو کیا صالح عناصرکی اینٹری سے ان شعبوں میں بہتری نہیں آئے گی؟

فنون لطیفہ کی تعلیم کے لئے نصاب کی تیاری

اس سے آگے بڑھ کر اگر پبلک اور پرائیویٹ اسکولوں کے لیے فکشن، نان فکشن رائٹنگ، اور فلم میکنگ کی تربیت کے لیے نصاب تیار کرنے کا کام شروع کیا جائے سو فیصد تبدیلی لانا شاید ممکن نہ ہو لیکن ہم بہتری کی جانب قدم بڑھانے کا آغاز ضرور کر سکتے ہیں۔ مگر یہ کام ان شعبوں کو سطحی اور چھچھورا سمجھ کر حاصل نہیں کیا جا سکتا، اس کے لیے فکر کی تبدیلی ناگزیر ہے۔

پاکستان میں اس وقت ایک طبقہ نظریہ پاکستان کے ساتھ ساتھ بابائے پاکستان اور مصور پاکستان کے خلاف بھی مسلسل کھلم کھلا میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہا ہے۔ اور یہ وہی نسل ہے جو انٹرنیٹ اور بالی ووڈ کے زیر سایہ جوان ہوئی ہے۔ اگر ہم اپنے بچوں اور جوانوں کو تفریح کے لیے مثبت سرگرمی مہیا نہیں کریں گے بلکہ تفریح کی اہمیت ہی سے انکار کریں گے تو ہمیں اپنے نظریے سے ہاتھ دھونے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

حل: معاشرتی فکر میں تبدیلی اور جامع منصوبہ بندی

سستے تفریحی لٹریچر کو چھچھورا سمجھنا اور فلم کے نام سے بدکنا اور اسے بے حیائی کا متبادل سمجھنے کی روایتی فکر کو ہمیں چھوڑنا ہوگا ورنہ اس رویے کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم تفریح کی مد میں انڈیا اور مغرب کو بلین ڈالر کا زر مبادلہ فراہم کرتے رہیں گے اور بہت حد تک پاکستاں اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کے زہریلے نظریات کو بھی درآمد کرتے رہیں گے جن پر قائم علی شاہ جیسے سیکولر حضرات کوتو شاید کوئی اعتراض نہ ہو مگر مذہبی طبقات کی تشویش یقینی ہے۔ اب وقت مستقبل کی بصیرت کے ساتھ تفریحی میڈیا کی اہمیت کو سمجھ کر اسے اس کا جائز مقام دینے کے لیے معاشرتی فکر میں تبدیلی کے لیے جامع منصوبہ بندی کرنے کا ہے۔ یاد رکھیں ہم پہلے ہی بہت وقت ضائع کر چکے ہیں اور اس طرح اپنے آپ کو اور اپنی آئندہ نسلوں کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں۔

No comments:

Post a Comment