عطیہ کی بدولت آج ایک کافر مسلماں ہے
تزئین حسن
استنبول میں پیدا ہوئیں۔ تجارتی گھرانے کا کاروبار ہندوستان سے باہر تک پھیلا ہوا تھا۔ خاندان کی علمی روایات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج سے ایک صدی پیشتر خاندان کا اپنا اخبار نکلتا تھا۔ ہندوستان کے چوٹی کے اسکالرز سے خط و کتابت رہی۔ اقبال ایک خط میں انہیں لکھتے ہیں کہ وہ جرمنی واپس جانا چاہتے ہیں مگر انکے گھر والے زبردستی انکی شادی کر رہے ہیں اور وہ گھر والوں کی مجوزہ خاتون کو بیوی کے روپ میں کبھی قبول نہیں کر سکتے۔ شاعر مشرق بیچارگی کی عالم میں مزید کہتے ہیں کہ انکے گھر والوں کو ایسا کرنے کا حق نہیں۔
یہ اس دور کی بات ہے جب اقبال ایک جرمن خاتون میں دلچسپی لیتے تھے اور عطیہ رازداں تھیں۔ ایک طرف اقبال کا خاندان تھا جو شادی کے معاملے میں انکی رائے لینے کا روادار نہیں تھا، دوسری طرف عطیہ کے خاندان کی روشن خیالی کہ انہوں نے ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ یہودی آرٹسٹ سے شادی کی جس نے نہ صرف اسلام قبول کیا بلکہ عطیہ کا خاندانی نام بھی اختیار کیا۔ ایساکر کے عطیہ نے انس بن مالک رضی الله عنہہ کی والدہ رمیصا بنت ملحان جو ام سلیم رضی الله کی کنیت سے معروف تھیں کی سنت کو زندہ کیا مگر آج اپنے تئیں دین کا دفاع کرنے والا شاید ہی سیرت نبی صلیٰ الله وسلم کے ایسے کرداروں سے واقف ہو۔
ذہنی افلاس کے مارے مسلمانوں نے جن کے نزدیک ایک مرد اور عورت کی باہم بات چیت محض عشق عاشقی ہوسکتی ہے، اپنے ذہن میں کیا کیا کہانیاں تراش لیں۔ محترم خاتون نے اقبال اور شبلی کے خطوط شائع کروائے۔ شبلی خطوط میں نعمانی مدرسے کے قیام کے سلسلے میں عطیہ، انکی بہن اور خاندان کے کثیر مالی تعاون کا شکر ادا کرتے نظر آتے ہیں جو عطیہ کی ذاتی کوششوں کی وجہ سے ممکن ہوا۔ ایک خط میں عطیہ کی بہن، جو ایک نواب کی اہلیہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ مدرسے کے ایک ہاسٹل کا افتتاح ان سے کروانا چاہتے تھے مگر انکا کہنا تھا کہ ہندوستانی مولوی اسے قبول نہیں کرے گا۔ مدرسے کے لئے لئے انکی بہن کے کثیر مالی تعاون پر ایک رباعی پر مبنی قصیدہ لکھتے ہیں۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے شبلی نے سیرت النبی کی تصنیف، عطیہ کے نواب بہنوئ کی رہائش گاہ پر مقیم رہ کرکی۔
عطیہ کی شادی پر شبلی کا شعر ان ذہنی مفلسوں کو بھول جاتا ہے جو اس تعلق میں کچھ اور تلاش کرنے کے متمنی ہیں۔
بتان ہند کافر کر دیا کرتے تھے مسلم کو
عطیہ کی بدولت آج ایک کافر مسلماں ہے۔
عطیہ کی بدولت آج ایک کافر مسلماں ہے۔
قیام پاکستان کے بعد عطیہ اپنے شوہر کے ہمراہ پاکستان آجاتی ہیں۔ کلیم میں ملنے والی زمین کراچی آرٹس کونسل کو عطیہ کر دیتی ہیں لیکن پست سوچ کا شکار احباب، ایک مسلمان عورت کی عزت پر اپنے آپ کو آمادہ نہیں کر سکتے۔ وہ اقبال سے اور شبلی سے عطیہ کے تعلق پر مسلسل اپنی ذہنی غلاظت کی الٹیاں کرتے رہتے ہیں۔
زاہدہ حنا بتاتی ہیں کہ عطیہ کے شوہر فیضی شبلی نعمانی کا ایک پورٹریٹ تیار کرتے ہیں جو پیرس کی ایک نمائش میں رکھا جاتا ہے اور اسکے لئے ایک بڑی رقم آفر کی جاتی ہے مگر عطیہ کی مرضی پر اسے فروخت کرنے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔
کوئ دو سال پیشتر دائیں بازو کے صحافیوں سے تعلق رکھنے والے ایک گروپ پر مجھے بہ اصرار ایڈ کیا گیا کہ آپ ہمارے گروپ کی پہلی خاتوں صحافی ہونگی۔ وہاں ایک اقبالیات کے ماہر کی ایک تحریر کسی نے شئیر کی جس میں مصنف نے اس بات پر اظہار خیال کیا تھا کہ اقبال نے عطیہ سے شادی کیوں نہ کی؟؟ ہمارا دائیں بازو کا دانشور عورت کی عزت کے دعوؤں کے باوجود عورت کے لئے حقارت کے جذبات اپنے دل میں کچھ اس طرح چھپا کر رکھتا ہے کے لئے کہ آج ایک صدی بعد بھی اسکے ذہن میں یہ سوال اٹھنا ممکن نہیں کہ 'عطیہ' نے اقبال سے شادی کیوں نہ کی؟ سوچ کے اس انداز کو اسلامی سمجھا جاتا ہے کہ صرف مرد کو عورت کو ریجیکٹ کرنے کا اختیار ہے۔
مضموں میں استدلال تھا کہ عطیہ بالکل اس قابل نہیں تھیں کی اقبال ان سے شادی کرتے۔ اس طرح سوچنا آج بھی ہمارے دانشور کے لئے مشکل ہے کہ کیا اقبال بیچارے اسی قابل تھے کہ انکی شادی زبردستی ایک ایسی خاتون سے کر دی جاتی جنہیں وہ شریک حیات کے طور ہر قبول نہ کرنا چاہتے تھے۔
مضمون نگار ماہر اقبالیات کا استدلال یہ بھی تھا کہ عطیہ انگلستان گئیں تو محض گھومنے پھرنے میوزیم دیکھنے اور دعوتیں اٹینڈ کرنے میں وقت ضائع کیا۔ ہمارے دائیں بازو کے دانشور جو خود کو دینی طبقہ کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں میوزیم وزٹ کو وقت کا ضیاع تصور کرتے ہیں یا شاید ایک خاتوں کے میوزیم وزٹ کو۔
یہ اپنے تئیں مسلم امہ کے ہر مسئلے کا حل دین کے قریب آنے کا مشورہ دینے والے یہ نہیں جانتے کے دین خود انکھیں کھول کر دنیا کو سمجھنے پر کتنا زور دیتا ہے۔ یہ دانشور جو معاشرے کی ہر خرابی کا ذمہ دار مغرب اور سرمایہ داری نظام پر رکھ کر چین کی نیند سوتے ہیں، آج بھی اینتھروپولوجی نامی سوشل سائنسز کی شاخ کو علم نہیں سمجھتے جس میں اقوام عالم کی زبان، عادات و ثقافت کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اور اس علم کو انہیں قوموں پر اور دنیا کی سیاست و معیشت پر اثر انداز ہونے کے لئے اہم سمجھا جاتا ہے۔ راقم نے اپنے کسی مضمون میں یہ فقرہ لکھا ہے کہ دنیا کو تبدیل کرنے کے لئے اسے سمجھنا ضروری ہے اور اسے سمجھنے کے لئے تحقیق کی ضرورت ہے جبکہ دانشوران کو دو سو سال گزرنے کے باوجود یہ بھی نہیں معلوم کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں قدم جمانے سے پہلے سینکڑوں عربی فارسی اور سنسکرت کے نسخوں کے تراجم کروائے۔ کیوں کروائے اس پر تو بحث ہی بیکار ہے۔ تاجر کے بھیس میں آنا اور ہندوستان پر قابض ہو جانے کا بیانیہ اتنا مظبوط ہے اور امت کا ذہن اتنا جامد کردیا گیا ہے کہ صدیاں گزرنے کے باوجود بھی ہم اس سے آگے سوچنے ہر آمادہ نہیں۔
انہیں ایک خاتوں کا انگلستان کی علمی محافل اٹینڈ کرنا بھی کھلتا ہے۔ ایسی ہی ایک محفل میں عطیہ کی اقبال سے ملاقات ہوئ۔ اقبال کا دعوتیں اٹینڈ کرنا قابل اعتراض نہیں تھا مگر ایک ہندوستانی مسلمان عورت کے اس جرم کو ماہر اقبالیات معاف کرنے پر آمادہ نہیں۔
جہاں تک اقبال اور عطیہ کے شادی نہ کرنے کا تعلق ہے تو مجھے اقبال کے خطوط میں ایسی کوئ بات نظر نہ آئ جس کی بنیاد پر ہم اقبال جیسی شخصیت پر اتنے گھناونے الزامات لگائیں۔ بالفرض اگر اقبال اور شبلی ہندوستانی مرد ہونے کے ناطے کوئ جذبات رکھتے بھی ہوں تو ضروری نہیں عطیہ کی طرف سے انکی حوصلہ افزائ ہوئ ہو۔ کیونکہ جو عورت ایک یہودی سے شادی کے لئے آزاد تھی، اسکے خاندان کو اقبال اور شبلی جیسے مشاہیر سے اسکے تعلق اور شادی پر کیا اعتراض ہو سکتا تھا؟
اس میں کوئ شک نہیں کہ اقبال سے عطیہ کی انٹیلکچوئل انڈر اسٹینڈنگ تھی۔ لیکن یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ عطیہ اس گھٹے ہوئے غیر اسلامی ماحو ل میں سانس نہ لے سکتی ہوں، جس میں انگلستان اور جرمنی سے فارغ اتحصیل ایک مرد کی زبردستی شادی کر دی جاتی ہے, وہ گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہے لیکن چوں نہیں کر سکتا۔
خود عطیہ کا تعلق ایسے گھرانے سے تھا جو ماڈرن ہونے کے باوجود اسلامی روایات کے مطابق عورت کو بھی اپنا شریک حیات چننے کا اختیار دیتا ہے۔ دائیں بازو کے لکھاری سے ان باریکیوں کو سمجھنے کی توقع بیکار ہے۔
میرے تحریر کے اس جملے پر اعتراض پر کہ 'عطیہ بالکل اس قابل نہیں تھیں کے ان سے شادی کی جاتی یا اقبال ان سے شادی کرتے۔ ' گروپ پر موجود ایک صاحب کا کہنا تھا کہ عطیہ اس دور کی قندیل بلوچ تھیں۔ میرا دل چاہا کہ میں ان صاحب سے ہوچھوں کے عطیہ اگر قندیل بلوچ تھیں تو اقبال اور شبلی کیا تھے؟؟ (ایک لفظ پلے بوائے پتہ نہیں کیوں دماغ میں گھوم رہا ہے) لیکن کچھ سوچ کر میں نے گروپ کو خدا حافظ کہا ورنہ شاید مجھے قندیل بلوچ کی فکری وارث قرار دیا جاتا۔
سچ ہے ہمارا دینی طبقہ بظاہر عورتوں کی عزت کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتا مگر ایسے موقعوں پر خود کو ننگا کردیتا ہے۔ جماعت اسلامی کے سابق نائب امیر خرم جاہ مراد مرحوم نے اپنی اپ بیتی لمحات میں بے نظیر کے خلاف گندے پروپیگنڈے اور دینی طبقے کے اس کے آلہ کار بننے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ انہوں نےاپنے لوگوں کو سمجھا کر دیکھ لیا مگر کوئ فائدہ نہ ہوا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ گروپ پر موجود باقی حضرات کو اس سوچ پر کوئ اعتراض نہیں تھا۔ ایک باعزت خاتون پر کہانیوں کی بنیاد پر کیچڑ اچھالتے ہوئے ہمار ے دینی اور علمی حلقے یہ بھی نہیں سوچتے کہ یہ کیچڑ اقبال اور شبلی کے منہ پر ملی جا رہی ہے۔
No comments:
Post a Comment