Thursday, June 17, 2021

کیا مسلمان بچوں کو جنسی تعلیم دینی چاہیے؟ کیوں اور کیسے؟


کیا مسلمان بچوں کو جنسی تعلیم  دینی چاہیے؟ کیوں اور کیسے؟

کیا قران اور حدیث جنس کے معاملات میں رہنمائی کرتے ہیں؟

اس مضمون کا مقصد قران اور دینی ذرائع  کے مطابق جنسی تعلیم اور تربیت کی ضرورت کے حوالے سے دینی طبقات کو مسلمان معاشروں میں موجود رویوں پر نظر ثانی کی دعوت دینا ہے. 

ہندوستان کی ریاست بھوپال کے آخری نواب حمیداللہ خان کی بیٹی اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین نوابزادہ شہر یار خان کی والدہ، عابدہ سلطان اپنی  یادداشتوں "The Memories of a Rebel Princess"  میں رقم طراز ہیں کہ انہیں بچپن ہی میں انگریزی، فرانسیسی زبان  کی تعلیم، گھڑسواری، تیراکی، پیانو بجانے یہاں تک کے شیر کے شکار کی تربیت دی گئی تھی لیکن خود انکے بیان کے مطابق انکی شادی شدہ زندگی کی ناکامی کی واحد وجہ یہ تھی کہ انہیں شوہر اور بیوی کے درمیان ازدواجی تعلق کے بارے میں کوئی آگاہی نہیں دی گئی جسکے باعث وہ ازدواجی عمل کو انتہائی قا بل نفرت عمل سمجھتی تھیں. اس ایک مثال سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ روایتی طور پر مسلمان معاشروں میں تربیت کے اس اہم پہلو کو کس طرح نظر انداز کیا جاتا رہا ہے.
   
فی الوقت مغرب میں مقیم مسلمان والدین اسکولوں میں بچوں کو Sex Education جنسی تعلیم دینے کے حوالے سے شدید کرب کا شکار ہیں کیونکہ اس معاملے میں مغربی نقطہ نظر ہمارے دین  معاشرے, کلچر اور روایا ت  سے براہ راست متصادم ہے اور اکثریت اس معاملے میں مغربی پبلک اسکولوں کے نصاب پر اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں

فی الحال Sex Education لازمی یعنی Mandatory نہیں لیکن بعض  جگہ اسے لازمی کرنے کے لئے مہم چلائی جا رہی  ہے  جسے مختلف کمیونٹیز کی مخالفت کا سامنا ہے. عام طور سے مسلمان کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں  ہندو، سکھ  اور بہت سے قدامت پرست عیسائی اور یہودیوں کے کچھ فرقے بھی اسکول میں اس نوعیت کی تعلیم  کے خلاف ہوتے ہیں. 

سوال یہ ہے کہ کیا جنسی تعلیم فی الواقع سرے سے ہی غلط ہے؟ یا ہمارے بچوں کو اس کی ضرورت ہے؟ اس تعلیم کے لئے دلیل قران اور حدیث کی تعلیم ہی سے ملتی ہے. دین کے یہ ماخذ بہت سے مقامات پر ان معاملات کو بہت کھول کر بیان کرتے ہیں. اگر دس سال کے بچے کو قران ترجمے اور تفسیر کے ساتھ پڑھایا جائے اور جو مسلمان گھرانوں میں پڑھایا جانا چاہیے تو اس میں Sex Education  سے متعلق بہت سی چیزیں از خود آ جاتی ہیں. مگر عام طور سے مسلم معاشرے اور مملکت اغیار میں مقیم مسلم کمیونیٹیز عموماً بچوں کو یہ تعلیم اور تربیت دینے کی ضرورت سرے سے محسوس نہیں کرتیں.

جنسی تعلیم سے مراد عمر کے ساتھ ساتھ بچوں میں جوجسمانی اور ذہنی تبدیلیاں آتی ہیں ان سے متعلق مسائل سے آگاہی اور ان نئے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے دینی اور سائنسی معلومات فراہم کرنا ہے. والدین کے لئے یہ تربیت جب ہی ممکن ہے جب وہ اسکی ضرورت محسوس کریں اور انہیں خود ان مسائل سے آگاہی ہو اور اولاد ایک دوست کی مانند انکے اس طرح قریب ہو کہ ان سے ہر موضوع پر بات کی جا سکے.

ان موضوعات  میں سب سے اہم بچوں کو انکے جسم کے پرائیویٹ حصوں کا شعور دینا کہ انہیں کوئی دوسرا ہاتھ نہیں لگا سکتا ہے. pleasant اور unpleasant touch کی آگاہی دینا. کسی دست درازی کی صورت میں  بچے کو اس سے نمٹنا کے طریقے بتانا. ان میں بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ذہن میں پیدا ہونے والی خواہشات اور انکو لگام دینے کے طریقے بھی ہو سکتے ہیں اور انکے نقصانات بھی. ایام اور احتلام کے بعد غسل، حمل، مرد عورت کے درمیان ازدواجی تعلقات اور زنا کے دینی اور دنیوی نقصانات بھی مناسب عمر میں زیر بحث آ سکتے ہیں.  در حقیقت یہی جنسی تعلیم ہے.  

 ہو سکتا ہے بعض والدین انہیں نامناسب یا غیر ضروری تصور کریں مگر یہ یاد رکھیں کہ آج کے انٹرنیٹ کے دور میں اگر آپکا بچہ فلموں، پاپ  کلچر، لٹریچر سے بچا ہوا بھی ہے تو اسے یہ سب کسی دوسرے ذریعہ سے معلوم ضرور ہو گا. اور مناسب یہ ہے کہ اس سے پہلے آپ خود اسکی رہنمائی کرنے والے ہوں. یہ چیز بچے کو آپ پر اعتماد بھی دے گی  اور کسی ناگوار صورتحال سے نمٹنے کا شعور بھی.   

چند سال پہلےسعودی عرب میں راقم کے ایک درس میں غسل کے مسائل کے بیان کے دوران ایک دینی بہن نے اپنی بارہ   تیرہ سالہ بچیوں کو کمرے سے باہر بھجوانے کی استدعا کی. خاتون کا خیال تھا کہ اس عمر کی بچوں کے سامنے یہ مسائل بیان کرنا شرم و حیا کے تقاضوں کے منافی ہے. حالانکہ ان مسائل کی تعلیمات کے بغیر نہ تو بچیاں پاک ہو سکتی ہیں نہ نماز کی شرائط پوری کر سکتی ہے جو مسلمان ہونے کے لئے از حد ضروری ہے. 

اسی طرح چند مہینوں پہلے کینیڈا میں ایک درس اٹینڈ  کرنے کا اتفاق ہوا جس میں سونے سے پہلے کلمہ پڑھنے کی فضیلت بیان کی جا رہی تھی کہ اگر خدا نخواستہ سوتے میں موت آجائے تو کلمہ کے بغیر نہ آئے. سننے والی بہنوں میں کسی نے اپنے کسی سوال یا تبصرے میں ہم جنسی کا  لفظ استمعال کر لیا. اس وقت تو اس مداخلت پر خاموشی اختیار کی گئی لیکن بعد میں اس پر بہت لے دے ہوئی کے ہم جنسی کا تذکرہ درس میں کرنا بہت معیوب بات ہے.  

ہم اس اہم نکتہ کو فراموش کر جاتے ہیں کہ  ہم جنسی کا تذکرہ تو قران میں بھی ہے اور کینیڈا جیسے ملک میں جہاں اسکولوں میں ہم جنسی کے موضوع پر گفتگو ہوتی ہو اور ملک کا وزیراعظم بہ نفس نفیس Gay Parade میں شرکت کرتا ہو ضرورت اس بات کی ہے کہ دینی طبقات سنجیدگی سےان موضوعات کو درس کا حصہ بنانا کر بچوں والی مسلم خواتین کو انکا شعور دیں کہ انہیں ماؤں کو اپنے بچوں کی اصل رہنمائی کرنا ہے. 
اور یہ صرف کینیڈا یا امریکا کا ہی مسئلہ نہیں اب تو پاکستان میں بھی ٹی وی چینلز ٹاک شوزاور ڈراموں کے ذریعہ اس موضوع پر کھلم کھلا بات ہو رہی ہے. 
اردو ادب کا مطالعہ کرنے والے اور مسلم معاشروں کا کھلی آنکھ سے مشاہدہ کرنے والے جانتے ہیں کہ ہمارے آس پاس بھی صدیوں سے بہت کچھ ہو رہا ہے. ایسے میں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے یہ سمجھنا کہ  ہمارے بچے ان موضوعات سے متاثر نہیں ہونگے بصیرت کی شدید کمی ہو گی.  

یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم درس میں سونے سے قبل کے وظائف تو ڈسکس کرنا چاہتے ہیں مگر اہم سماجی مسائل اور انکا حل دینے سے اعراض کرتے ہیں. ہمارے مذہبی طبقات بالغ بچوں والی خواتین  تک کے سامنے ان مسائل کا تذکرہ معیوب  سمجھتے ہیں.  سوچنے کی بات یہ بھی کہ اپنی خواتین اور بچوں کو ان موضوعات سے دور رکھ  کر ہم  بدلتے ہوے دور کے ساتھ ساتھ قرانی تعلیم کے تقاضوں کو سمجھنے میں بھی غلطی کا ارتکاب تو نہیں کر رہے؟ 

دین ہمیں زندگی گزارنے کا طریقہ سکھاتا ہے اور اسے سیکھنے کے معاملے میں شرم کو پسند نہیں کرتا. آنحضرت صلیٰ الله علیہ وسلم نے انصار کی عورتوں کی اس بات کی تعریف کی کہ وہ دین سیکھنے کے معاملے میں شرماتی نہیں تھیں. اپنے بچوں میں ہمیں یہ اعتماد دینے کی ضرورت ہے کہ جہاں انہیں ایسے کسی معاملے میں رہنمائی کی ضرورت ہو وہ خود سوال کریں.اور اگر دینی یا دنیوی معاملات میں کوئی پریکٹکل چیلنج انہیں محسوس ہو تو اسے بھی اس اعتماد کے ساتھ ڈسکس کر سکیں کہ انکا یقین کیا جائے گا اور انہیں مناسب رہنمائی دی جائی گی.  

ماں باپ کی تربیت یا اسکولوں کے نصاب تعلیم کا مقصد ایک اچھے انسان، شہری اور سب سے بڑھ کر ایک اچھا مسلمان بننا سکھانا ہے. قران اور دینی تعلیم کا مقصد بھی ظاہر ہے یہی ہے اور ہونا چاہیے. اگر ہم رٹو طوطوں کی طرح محض قران کی سورتیں اپنے بچوں کو یاد کروا رہے ہیں لیکن قران اور حدیث زندگی گزرنے کا جو طریقہ بتاتے ہیں، شرم حیا کو بہانہ بنا کر ان سے اعراض کرتے ہیں تو ظاہر ہے اس سے دینی اور دنیوی تعلیم کا حق ادا نہیں ہوتا.  

اس سے آگے بڑھ کر دنیا میں ایک بچے کو جو چیلنجز درپیش ہیں انکی تعلیم اور تربیت دینا اور باقائدہ ایک نصاب تعلیم کے طور پر دینا بہت ضروری ہے. ہم جغرافیہ، تاریخ، لسانیات، ریاضی کی تعلیم کے لئے نصاب کی ضرورت محسوس کرتے ہیں لیکن جن دینی اور دنیاوی مسائل سے ہمارے بچوں کو ابتدائی عمر سے لیکر بلوغت اور بلوغت سے لیکر بڑھاپے تک سابقہ پیش آتا ہے اسکو نظر انداز کرتے ہیں یا اسے ماں باپ کے انفرادی فیصلے پر چھوڑ دیتے ہیں. 

بعض والدین شاید اس معاملے میں حساس ہوں اور سینہ بہ سینہ کچھ معلومات کو منتقل بھی کرتے ہوں لیکن راقم کو مسلم معاشروں میں خصوصاً بر صغیر سے تعلق رکھنے والی مسلم کمیونیٹیز (بعض اوقات غیر مسلم کمیونٹیز میں بھی مگر وہ فی الحال موضوع نہیں)میں اس بات کی شدید کمی محسوس ہوتی ہے.
   
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس ضرورت کا احساس ہو بھی جائے تو والدین خود کہاں سے رہنمائی لیں. اسکے لئے باقائدہ نصاب کے ذریعہ اہل علم کی رہنمائی کی ضرورت ہے. جس کے لئے دینی طبقوں ہی کو آگے آنا ہو گا. ہمارا عمومی رویہ یہ ہے کہ اگر کوئی سیکولر فرد یا ادارہ کینیڈا امریکا کے تعاون سے کوئی ڈاکومنٹری، ٹی  وی  سیریل  یا نصاب تیار کر لیا تو ہمیں اعتراض ہو گا لیکن خود اس معاملے میں پیش رفت کی ضرورت مشکل ہی محسوس کریں گے.
   
ہم سب جانتے ہیں کے بچہ اپنی عمر کے مختلف مراحل میں مختلف جسمانی اور ذہنی تبدیلیوں سے گزرتا ہے. لڑکوں کو لڑکیاں اچھی لگتی ہیں. یہ فطری تقاضا ہے مگر انہیں بتانے کی ضرورت ہے کہ انہیں گھورنا اخلاقی اور دینی تقاضوں کے خلاف ہے. حیرت کی بات یہ ہے کہ مغرب کے آزاد روش معاشرے میں کسی بھی فرد کو گھورنا یا اشارہ کرنا  انتہائی بد تہذیبی سمجھی جاتی ہے، فقرے کسنے کو جنسی طور پر ہراساں کرنا اور بغیر مرضی ہاتھ لگانے کو جنسی حملہ تصور کیا جاتا ہے  لیکن مسلمان معاشروں میں جنھیں ١٤٠٠ سال قبل غض بصر کا حکم دیا گیا تھا گلی محلے اسکولوں یہاں تک کے یونیورسٹیوں میں بھی آتی جاتی لڑکیوں کو گھورنا اور اس سے آگے ان پر فقرے کسنا اپنا حق سمجھا جاتا ہے. شاید ہماری کچھ بہنوں کو میرے اس تجزیہ پر اعتراض ہو مگر حقیقت یہی ہے کہ ہم میں سے بہت کم لوگ اپنے لڑکوں کو اس معاملے میں کوئی ہدایت دینے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں. نصاب تعلیم میں اسے زیر بحث لانا تو بہت دور کی بات ہے.

اپنی لڑکیوں کے  سر ڈھکنے اور پردہ کرنے کو تو ہم سب ضروری خیال کرتے ہیں مگر کتنے مسلمان گھرانے ہیں جہاں اپنے جوان ہوتے لڑکوں کی فطری خواہشات کو لگام دینے کی فکر ہوتی ہے.  اور کیا اسکے لئے باقائدہ تعلیم اور تربیت کی ضرورت نہیں؟ 

خود لڑکیاں خدا کی عطا کردہ فطری جسمانی تبدیلیوں کو باعث شرم محسوس کرتی ہیں جو کہ ایک غلط احساس ہے. انہیں مناسب انداز میں با اعتماد طریقے سے ان تبدیلیوں کے ساتھ نمٹنے اور گھر اور گھر سے باہر نکلنے کے آداب سکھنا بھی ضروری ہے. اور یہ سب بھی مذکورہ تعلیم کا ہی حصہ ہونا چاہیے. 
اور اس سے بہت پہلے چھوٹی عمر سے ہی گھروں میں یا گھروں سے باہر پڑوس، اسکول، ٹیوشن سینٹر، اور رشتے داروں کے ہاں کسی نازیبا جسمانی پیش رفت کی صورت میں والدین یا بڑوں کو مطلع کرنے کی تربیت دینا بھی ضروری ہے. یہ وہ چیز ہے جس سے ہم شاید بہ حیثیت قوم اغماض برتتے رہے ہیں جبکہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہمارے ارد گرد ہو رہا ہے. 


خصوصاً  جائنٹ فیملی سسٹم میں رشتے داروں پر اعتماد کیا جاتا ہے. میری ایک بہت اچھی جاننے والی ایک پڑھی لکھی خاتون نے مجھےبتایا کہ انکی ایک بہن جو ایک سخت گیر کرنل کی زوجہ ہیں جائنٹ فیملی سسٹم میں اپنی کم عمر بیٹی کو اکیلے گھر پر نہیں چھوڑ سکتیں لیکن اسکی وجوہات کو اپنے غصیلے شوہر کے سامنے بیان کرنے سے بھی قاصر ہیں. جو اپنے بھائی کے بارے میں کوئی بات سننے کے بجائے بیوی اور بیٹی ہی کو گھر سے نکال دیں  گے. مرد ویسے بھی ہمارے معاشرے میں سماجی لحاظ سے بہت مضبوط ہوتا ہے. اسکا عمل کتنا ہی غلط کیوں نہ ہو اسکا خمیازہ عام طور سے صنف نازک کو ہی بھگتنا پڑتا ہے چاہے وہ بچی ہی کیوں نہ ہو.   


اس حقیقت سے انکار نہیں کہ ان مسائل سے متعلق بہت سی تعلیمات ٹکڑوں کی صورت میں اپنی اپنی سمجھ کے مطابق مسلمان والدین نئی نسل میں منتقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں. لیکن زندگی کے اس اہم ترین پہلو کی اہمیت کے پیش نظر سائنٹفک بنیادوں پر والدین اور ٹیچرز کے لئے ایک نصاب تیار کرنے کی ضرورت ہے جو ہمارے مذھب کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ ہو. اسکے لئے ہمیں مناسب انداز میں مختلف فورمز پر ان موضوعات کو زیر بحث لانا ہوگا
یہ بات بھی یاد رہے کہ اسلامک اسکول میں پڑھنے والے بچے بھی ان برائیوں سے کلی طور پر بچے ہوے نہیں. پچھلے دنوں ایک پاکستانی کینیڈین جو اب ایک بچے کی ماں ہے سے بات کرنے کا موقع ملا جس نے اسلامک اسکول میں تعلیم حاصل کی اور وہاں ہم جنس بچیوں کی موجودگی کا ذکر کیا. مذکورہ خاتون اپنے واحد بچے کو پبلک اسکول تو چھوڑ اسلامک اسکول بھی بھیجنے پر راضی نہیں اور گھر پر ہی ہوم اسکولنگ کروا رہی ہے. 

راقم خود بوسٹن امریکا میں اپنے قیام کے دوران اسلامک اسکول میں پڑھی ہوئی ایک مسلمان طالبہ اور اسکی متعدد مسلمان دوستوں سے تفصیلی انٹرویو کرچکی ہے جواچھے اداروں میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں لیکن سب اپنے ہم جنس ہونے کا اعتراف کرتی ہیں. اس گروپ کے ذریعہ راقم کو ایسی مسلمان کہلانے والے لیڈران اور نارتھ امریکا کی سطح پر منعقد ہونے والی ریٹریٹ (ایک طرح کی تربیت گاہ) کا علم بھی ہوا جہاں مسلمان بچوں کو ذکر اذکار کے ساتھ ساتھ باقائدہ عمل لوط کے دینی جواز بتائے جاتے ہیں. مذکورہ طالبہ چند سال پہلے حج بھی کر چکی ہے. لیکن خود اسکا ماننا تھا کہ ہم جنسی کا دنیا میں فروغ دراصل ایک بہت طاقتور سیاسی تحریک کا ایجنڈا ہے. 

یہ مغرب میں رہنے والے والدین کے لئے لمحہ فکریہ ہے لیکن اگر اس آگ کو بجھانے کے لئے منصوبہ بندی نہ کی گئی تو گلوبلائزیشن کے اس دور میں وہ وقت دور نہیں کہ یہ ہم آگ سب کے دروازوں تک پہنچے گی. 
  
اور ان سب مسائل سے نمٹنے کے لئے باقائدہ تربیتی نظام ناگزیر ہے. بچوں کو تعلیم دینے کے لئے روایتی اور جدید ہر طرح کے کمیونیکیشن وسائل کا استمعال ضروری ہے مثلاً والدین کی غیر رسمی گفتگو، اسکولوں کا نصاب، سبق آموزکہانیاں، کارٹون اور اینیمیشن پر مبنی فلمیں اور سب سے بڑھ کر والدین کی تربیت کے لئے نصاب کہ انہیں ان مسائل کا شعور دیا جائے.  یوٹیوب پر انڈیا میں تیار کردہ کچھ انیمیشن وڈیوز جنسی حملوں اور ہراساں کرنے کے واقعات کے حوالے سے شعور دینے کی کوشش کرتی ہیں مگر اس موضوع پر مسلمان معاشروں میں ہمہ جہت کام ہونا چاہیے. 

اسی طرح مغرب میں مقیم مسلمان جہاں پبلک اسکولوں میں جنسی تعلیم کے خلاف ہیں وہاں انکے پاس نصاب کی شکل میں اپنا Sex Education  پروگرام بھی ہوںا بھی ضروری ہے.  اسے مسجدوں میں کلاسز کی صورت میں پڑھایا جا سکتا ہے اور حکومتی سطح پر اسکولوں میں approve کروانے کی کوشش بھی شروع کی جا سکتی ہے. ان سب کوششوں کے بغیر محض سرکاری Sex Education پروگرام کی مخالفت اور اس سے آگے بڑھ کر درس میں ان موضوعات کا تذکرہ معیوب سمجھنا کس زمرے میں آتا ہے. قارئین اس بارے میں بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں.   

راقم کے استدلال سے کوئی یہ مطلب نہ لے کہ ان  ایشوزکو گفتگو میں شامل کرنے کا مقصد کسی قسم کا چٹخارہ حاصل کرنا ہے. یہ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں  مسلم کمیونیٹیز کو اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کی طرف دعوت دینا ہے. اس وقت برائی اتنی تیزی سے پھیل رہی ہے کہ آنے والے وقت کے تقاضوں کو نظر انداز کیا تو ہمارے بچے دینی تعلیمات سے دور ہو کر اغیار کے طریقے اختیار کرسکتے ہیں.  

آخر میں میں اس بات کو دہرانا ضرور چاہوں گی کہ تغیرات کے اس سیلاب میں صرف وہ قومیں پنپ سکتی ہیں جو نہ صرف ان کے مطابق اپنے آپ کو نہ صرف ڈھالنے کی صلاحیت رکھتی ہوں بلکہ آنے والی تبدیلیوں کا ادراک بھی کر سکیں اور اسکی لئے تیار بھی ہوں. اس ضرورت کو نہ سمجھنا دراصل اپنے آپکو اور اپنی آئندہ  نسلوں کو ہلاکت میں ڈالنا ہے.  

الله آپکا حامی و ناصر ہو.        

No comments:

Post a Comment