ویکیمیڈیا کامنز |
تزئین حسن
کینیڈا میں خاندانی سیاست کا کوئی تصور نہیں لیکن 2013 سے لبرل پارٹی کی قیادت کرنے والے جسٹن ٹروڈو منہہ میں اقتدار کا نوالا لیکر سینتالیس سال پیشتر وزیراعظم ہاؤس ہی میں پیدا ہوئے۔ یہ دوسری بات کے انکے سولہ سال وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہنے والے والد انکی وزارت عظمیٰ سے کوئی ٢٩ سال پہلے اپنےعہدے سے سبک دوش ہو گئے تھے-
ان کی شخصیت میں بظاہر کھلنڈرا پن اور مزاج میں سادگی ہے۔ پچھلے الیکشن کے بعد ان کی کرتا پاجامہ پہن کر پنجابی گانے پر بھنگڑا ڈالنے اور شیروانی پہن کر مسجد کی زمین پر بیٹھ کر بریانی کھانے کی تصاویر کو انڈین اور پاکستانی حلقوں سمیت ساری دنیا میں بہت دلچسپی سے دیکھا گیا۔ ماڈلوں جیسے فگر اور شکل صورت والے ٹروڈو جو با قاعدگی سے کسرت یعنی باڈی بلڈنگ اور باکسنگ بھی کرتے ہیں اور شو بزنس سے بھی وابستہ رہے-
ٹروڈو لٹریچر اورایجوکیشن میں گریجویٹ ہیں اور سیاست میں آنے سے پہلے یہ چند سال تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے- انہوں نے اپنے تعلیمی کیرئیر کے دوران ماحولیات اور انجینرنگ کے شعبوں میں بھی قسمت آزمائی کی لیکن دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا- ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنے والد کے برعکس جو سیاست میں آنے سے پہلے ایک ماہر قانون دان تھے ٹروڈو میں مستقل مزاجی کی بہت کمی رہی- ٢٠٠٧ میں انہوں نے پہلی جنگ عظیم کے موضوع پر بننے والی کینیڈا بروڈ کاسٹنگ ایجنسی سی بی سی کی ایک سیریل میں کام کیا اور اپنے ہی ایک کزن کا کردار ادا کیا جو پہلی جنگ عظیم میں مارے گئے تھے- یہ سن 2000 میں اپنے والد کی وفات کے بعد سے لبرل پارٹی میں متحرک رہے- 2008 میں یہ پہلی مرتبہ کیوبیک سے انتخابات میں کھڑے ہوئے اور کامیابی حاصل کی- اس موقع پرکینیڈا کے کثیرالاشاعت اخبار گلوب اینڈ میل کے ایک تجزیہ نگار نے یہ تبصرہ دیا کہ انہیں وزارت عظمیٰ کے ایک امیدوار کے طور پر دیکھا جائے گا اور اسی بنیاد پرانکی کارکردگی کو جانچا جائے گا- ٢٠١١ کے الیکشن سے پہلے انہیں پارٹی کی قیادت کی دعوت دی گئی مگر انہوں نے انکار کر دیا- انہوں نے 2011 میں بھی پارلیمنٹ میں نشست حاصل کی لیکن لبرل پارٹی کو اس الیکشن میں عبرت ناک شکست ہوئی اور یہ صرف 34 سیٹس حاصل کر سکی-
اس دوران ٹروڈو پارٹی کی فنڈ ریزنگ کے لئے متحرک رہے- ایک موقع پر انہوں نے کینسر ریسرچ کے ادارے کی فنڈ ریزنگ کے لئے اپنی حریف کنزرویٹو کے ایک ممبر کو باکسنگ کے میچ کی دعوت دی اور یہ میچ جیت گئے- لبرلز نے محسوس کیا اور بعد ازاں متعدد سروے میں بھی اسکی تصدیق ہوئی کہ اگر یہ پارٹی کی قیادت کریں تو پارٹی اگلے الیکشن میں بہتر کار کردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہے- یہ وہ وقت تھا جب خود ٹروڈو کی رائے معیشت اور خارجہ پالیسی سمیت بہت سے اہم سیاسی معاملات میں سامنے نہیں آئ تھی- انہوں نے یہ کہہ کر پارٹی قیادت سے انکار کر دیا کہ انہوں نے نئی نئی شادی کی ہے او رینکا خاندان اس وقت بہت نخیز ہے- شید ٹروڈو کو چھے سال کی عمر میں اپنے والدین کی علیحدگی یاد تھی جسکے بعد ان تین بھائیوں کی کسٹڈی انکے والد کے پاس رہی-
بل آخر٢٠١٢ میں انہوں نے پارٹی کے اندرونی الیکشن میں حصہ لینے کا عندیہ ظاہر کیا- کینیڈا میں قیادت اور سیٹوں کی تقسیم کے فیصلے دونوں پارٹی کے اندرونی الیکشن میں طے ہوتے ہیں- اندرونی الیکشن میں دو امیدواروں کے مقابلے میں اسی فیصد سے زائد ووٹ لیکر خود کو پارٹی کی قیادت کا اہل ثابت کیا-
لیکن انکی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ انکی قیادت میں 2015 کے انتخابات میں لبرل پارٹی پچھلے الیکشن کی 34 سیٹوں کے مقابلے میں 184 سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے- یہ کینیڈا کی تاریخ میں کسی بھی پارٹی کی سیٹوں میں اضافے کا ریکارڈ ہے-
اپنے پہلے اسمبلی اجلاس میں انہوں نے ایک فیصد دولت مند طبقے پر ٹیکس بڑھانے اور مڈل کلاس پر ٹیکس کم کرنے کا وعدہ کیا- اسکے علاوہ کینیڈا کے مقامی قبائل سے تعلقات بہتر بنانا اور انہیں اقوام متحدہ کے کنونشن کے مطابق برابری کے حقوق دینا بھی انکے الیکشن وعدوں میں شامل تھا- بد قسمتی سے کنزرویٹو پارٹی کے اعتراضات کی وجہ سے یہ اس حوالے سے ایک بل پاس کروانے میں ناکام رہے- شامی مہاجرین کی آباد کاری، ماروآنا نامی نشے کو قانونی حیثیت دینا، ان بیشمار وعدوں میں شامل ہے جو انھوں نے پورے کیے-
ٹروڈو لبرل اور سیکولر اقدار پر یقین رکھتے ہیں، وہ خود کیتھولک عیسائیت کے پیروکار ہیں لیکن مذہبی تعصب اور نسل پرستی سے بالا تر ہو کر انسانیت کے احترام، دوسروں کی مذہبی آزادی، آزادی اظہار، برابری کی بنیاد پر بقائے باہمی، اور تنوع (diversity) کی اقدار اور روایات پر عمل پیرا ہیں۔
ٹروڈو لبرل اور سیکولر اقدار پر یقین رکھتے ہیں، وہ خود کیتھولک عیسائیت کے پیروکار ہیں لیکن مذہبی تعصب اور نسل پرستی سے بالا تر ہو کر انسانیت کے احترام، دوسروں کی مذہبی آزادی، آزادی اظہار، برابری کی بنیاد پر بقائے باہمی، اور تنوع (diversity) کی اقدار اور روایات پر عمل پیرا ہیں۔
2016ءکے ماہ رمضان مسلم کمیونٹی کو پیغام دیتے ہوئے ٹروڈو کا کہنا تھا کہ کینیڈا تنوع کے "باوجود" نہیں بلکہ تنوع کی "وجہ" سے ترقی کر رہا ہے۔
امریکی کامیڈین اور سیاسی مبصر حسن منہاج کو انٹرویو دیتے ہوئےجسٹن ٹروڈو نے واضح کیا کہ وہ کیتھولک عیسائی ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ان کا کہنا تھا:” وہ اسلام اور یہودیت سمیت تمام مذاہبِ کا دل سے احترام کرتے ہیں“۔
ٹروڈو کے مخالفین ان پر حد سے زیادہ دکھاوے کا الزام لگاتے ہیں۔ انڈیا کے دورے میں انکے خاندان کے انڈین ملبوسات پہن کر فوٹو شوٹ کروانے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ان میں خود پر ہنسنے کا بھی حوصلہ ہے- واپسی پر انہوں نے ایک مزاحیہ پریزنٹیشن کے ذریعے اپنے دورۂ انڈیا کی تصاویر پارلیمنٹ کے ساتھ اپنے اوپر ہنستے ہوئے شئیر کیں-
ٹروڈو کے مخالفین ان پر حد سے زیادہ دکھاوے کا الزام لگاتے ہیں۔ انڈیا کے دورے میں انکے خاندان کے انڈین ملبوسات پہن کر فوٹو شوٹ کروانے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ان میں خود پر ہنسنے کا بھی حوصلہ ہے- واپسی پر انہوں نے ایک مزاحیہ پریزنٹیشن کے ذریعے اپنے دورۂ انڈیا کی تصاویر پارلیمنٹ کے ساتھ اپنے اوپر ہنستے ہوئے شئیر کیں-
مسلمان خواتین کے ساتھ ان کی سیلفیز بھی منظر عام پر آئیں لیکن اس کے ساتھ ہی ٹروڈو نے اسلاموفوبیا کے خلاف بہت واضح موقف اپنایا جس پر ان کے مخالفین نے انہیں دہشت گردوں سے صرف نظر کرنے کا الزام بھی لگایا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمان اس وقت دنیا کی سب سے مظلوم کمیونیٹی ہیں اور ہم ان پر ظالم ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ بوسٹن بم دھماکوں کے حوالوں سے جب ان سے سوال کیا گیا کہ اگر ایسے بم دھماکے کینیڈا میں ہوں تو وہ کیا اقدامات کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے ہنگامی حالات کے لئے ہماری سیکیورٹی ایجنسیز اپنے پروٹوکولز کے مطابق کام کریں گی لیکن ہم کسی کمیونٹی کے ساتھ ایسا رویہ ہی کیوں رکھیں کہ وہ اپنے آپ کو اس ملک کا حصہ نہ سمجھے اور ایسے کسی اقدام کا سوچے۔
بھارت میں انتہا پسند حلقوں کو ان سے شکایت رہی کہ انہوں نے تین سکھوں کو اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے ان کے دورہ بھارت کے موقع پر تمام سفارتی آداب ایک طرف رکھ کر انتہائی روکھا رویہ رکھا گیا جس پر ٹروڈو کے سیاسی مخالفین نے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ اپنی نا تجربہ کاری کے باعث کینیڈا کے لئے ہزیمت کا با عث بنے۔
2015 ءکے الیکشن جیتنے پر ٹروڈو نے انتخابی مہم کے دوران میں ایک واقعہ کا خاص طور پر ذکر کیا کہ میرے پاس ایک خاتون اپنی نوزائدہ بچی کو لے کر آئی اور کہا کہ میں آپ کو اس لئے ووٹ دوں گی کہ میری بیٹی جب بڑی ہو تو اسے اپنے لباس کے انتخاب کی آزادی ہو۔ یہ در اصل ٹروڈو کی حریف کنزرویٹو پارٹی کے نقاب کے مسئلے کو الیکشن ایشو بنانے کے خلاف موقف کا اظہار تھا۔ ٹروڈو کا کہنا تھا کہ کسی کو یہ بتانا کہ اسے کیا پہننا چاہیے اور کیا نہیں مغرب کی سیکولر اور لبرل اقدار کے خلاف ہے۔
انڈیا میں انہیں پزیرائی نہ مل سکی مگر امریکی صدر بارک اوباما سے ٹروڈو کے انتہائی قریبی دوستانہ تعلقات رہے اور انکی الیکشن مہم کے دوران اوباما نے کینیڈا کا دورا کر کہ انکی حمایت کا بھی اعلان کیا-
ان کی شخصیت کا سب سے منفرد پہلو اس وقت سامنے آیا جب امریکی انتخابی مہم کے دوران ریپبلکن امید وارٹرمپ گھن گرج کے ساتھ مسلمانوں کی امریکا میں داخلے پر پابندی لگانے کے دعوے کر رہے تھے اور ٹروڈو ایک برفانی رات شامی مہاجرین کے پہلے جہاز کی آمد کے موقع پر ایئرپورٹ جا پہنچے جہاں انہوں نے جہاز سے اترنے والی پہلے خاندان کے بچوں کو اپنے ہاتھوں سے کوٹ پہنائے اور ان کا بذات خود استقبال کیا۔ اس موقع کو بھی تصنع کا نام دیا جا سکتا ہے لیکن ان کے چہرے پر بکھرے عاجزی اور مسرت کے رنگ دیکھ کر اس کا شائبہ بھی نہیں ہوتا تھا۔
ٹروڈو انسانی حقوق کے حوالے سے بھی اپنی حساسیت کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ رواں سال تیان من اسکوئر کی تیسویں برسی کے موقع پر کینیڈا کے وزیر اعظم ٹروڈو کا کہنا تھا کہ چین سے ہمارے تجارتی تعلقات اپنی جگہ لیکن یغور مسلمانوں کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر ہم خاموش نہیں رہیں گے۔ ہم چین کو انسانی حقوق کے احترام، اظہار رائے کی آزادی کے احترام، اور اقلیتوں کے خلاف اقدامات کو روکنے کے لئے کہتے رہیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں ایک ملین یغور مسلمانوں کے عقوبتی کیمپوں میں محصور کیے جانے پر تشویش ہے۔ یاد رہے کہ ان تمام مغربی ملکوں کے تجارتی مفادات چین سے وابستہ ہیں۔ چین کی حیثیت اس وقت دنیا کی اکانومی میں آکسیجن کی طرح ہے کہ سستی اور مفید چینی پروڈکٹس کی سپلائی کے بغیر ان کی معاشی بقا نا ممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے۔ ایسے میں چین کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف واضح بیان ایک مشکل فیصلہ تھا۔ اس سے قبل ایسے ہی ایک بیان کی وجہ سے سعودی عرب نے ان کے دور حکومت میں کینیڈا سے سولہ بلین ڈالر کا معاہدہ بیک جنبش قلم ختم کر دیا۔ اگرچہ سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے وہ بیان ٹروڈو نے نہیں بلکہ ان کی وزیرخارجہ نے دیا تھا۔
سفید فام قوم پرستی پوری مغربی دنیا میں بڑھتی جا رہی ہے اور کینیڈا کوئی جزیرہ نہیں ہے- ایسے میں ٹروڈو جیسے لیڈر سرنگ کے سرے پر روشنی محسوس ہوتے ہیں- امریکا اور مغربی یورپ کے بر عکس کینیڈا میں نسل پرستی کے خلاف واضح شعور نظر آتا ہے- سرکاری قوانین نسل پرستی اور اسلاموفوبیا کی حد درجہ حوصلہ شکنی کرتے ہیں- 2017 میں کیوبیک کی ایک مسجد میں فائرنگ اور چھ نمازیوں کی ہلاکت کے واقعہ کو حکومت نے دہشت گردی قرار دیا اور اسکے مجرم کو فوری گرفتار کیا گیا اور عمر قید کی سزا دی گئی جس میں چالیس سال تک اسے پے رول پر رہا نہیں کیا جائے گا-
اس وقت ٹرمپ، مودی اور شی جن پنگ کے فاشزم، نسل پرستی اور اسلامو فوبیا سے گھائل دنیا کو بین المذاھب ہم آہنگی، انسانیت کے احترام اور روداری کی ضرورت ہے اس کے لئے ٹروڈو، جرمنی کی مرکل اور نیوزی لینڈ کی جسندرا جیسے حکمران نا گزیر ہیں۔ مذہبی تعصب اور نسل پرستی سے بالاتر ہو کر انسانیت کے احترام، دوسروں کی مذہبی آزادی، آزادی اظہار، برابری کی بنیاد پر بقائے باہمی، اور تنوع کی اقدار و روایات آج کی دنیا کی اہم ضرورت ہیں۔ کوئی بتائے کہ یہ اقدار تو ہمارے سرکار ﷺ نے چودہ سو سال پیشتر میثاق مدینہ میں متعارف کروائیں اور اس طرح کروائیں کہ مسلمانوں کے مقدمات کا فیصلہ ان کی مذہبی کتاب کے مطابق اور یہود یوں کے مقدمات کے فیصلے ان کے مذہبی صحیفوں کے مطابق۔ یہ pluralism کی معراج ہے جہاں آج تک کینیڈا سمیت کوئی بھی مغربی ملک نہیں پہنچ سکا۔ آقا ﷺ کے تعمیر کردہ معاشروں میں قرون وسطیٰ تک یہودیوں، عیسائیوں کو مسلمانوں کے مختلف فرقوں کو اپنے مذہب پر عمل کی آزادی، اظہار کی آزادی، آزادانہ بحث، سمیت برابری کی سطح پر بہت سی ایسی آزادیاں میسر تھیں جن کا آج کی مسلم دنیا میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ شام، فلسطین، مصر میں آج بھی اس کے ثبوت بعثت اسلام سے قبل تعمیر کردہ منادر،کلیسا، اور سینا گاگ کی شکل میں دیکھ جا سکتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ یہ آفاقی اقدار دنیا کے جس خطے میں بھی اپنائی گئیں، اس نے ترقی کی اور جہاں ان کی جگہ تنگ نظری کو اپنایا گیا وہاں سے لوگ سر پر پیر رکھ کر بھاگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ آج مسلم دنیا کے ہرملک سے یہاں تک کے تیل پیدا کرنے والے امیر ترین ممالک سے مغرب کی طرف ہجرت کا جو ٹرینڈ چلا ہے، اس کی اندھا دھند مخالفت کے بجائے اس کے پیچھے عوامل پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
No comments:
Post a Comment