حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
عمران خان نے گزشتہ ماہ نیو یارک میں کونسل فار فارن ریلیشنز میں اظہار کیا کہ چین سے خصوصی تعلقات انہیں ایغور مسئلے پر بولنے سے روکتے ہیں-
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
عمران خان نے گزشتہ ماہ نیو یارک میں کونسل فار فارن ریلیشنز میں اظہار کیا کہ چین سے خصوصی تعلقات انہیں ایغور مسئلے پر بولنے سے روکتے ہیں-
تزئین حسن
پچھلے چند مہینوں میں راقم نے چین سے باہر قیام پزیر دنیا بھر سے سو سے زائد ایغور بھائیوں اور بہنوں سے انٹرویوز کیے- ان سب کا غم ایک ہے کہ عرصہ دو تین سال سے انکا مشرقی ترکستان میں اپنے خاندان سے رابطہ نہیں- یہ بھی نہیں معلوم کہ والدین، شریک حیات، بچے زندہ بھی ہیں یا نہیں، اگر ہیں تو اپنے گھروں میں ہیں یا عقوبت خانوں میں جنھیں چینی حکومت اصلاحی کیمپ کا نام دیتی ہے منتقل کر دئیے گئے ہیں-
یہ عام جیلیں نہیں ہیں- یہاں رہنے والوں کو بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے- چھوٹے چھوٹے کمروں میں چالیس چالیس اور بعض قیدیوں کے مطابق ساتھ ساتھ افراد کو زنجیروں سے باندھ کر رکھنا، ریپ، خواتین اور مردوں کو ننگا کر کہ تفتیش کرنا، انہیں بجلی کے کرنٹ جھٹکے دینا بالکل عام ہے- کچھ تشدد کے طریقے جنھیں چند کیمپ survivors جنکی شہریت دوسرے ملکوں سے تھی اور موجودہ کرائسز سے پیشتر جیل جانیوالوں نے شئیر کیے انہیں بیان کرنا میرے لئے ممکن نہیں ہے-
بہت سوں کا جرم یہ ہے کہ انکے پاس سے مذھب کی کوئی نشانی نکل آئی- کسی کے موبائل فون پر کوئی اسلامی کتاب یا کسی مبلغ کی وڈیو یا قران کی کوئی کاپی- کسی کے بارے میں یہ شبہ کہ یہ پابندی سے نماز ادا کرتا ہے- کوئی سگریٹ نہیں پیتا تھا یا شراب یا سور کے گوشت سے پرہیز کرتا تھا- کسی کے بچے سے اسکول میں سخت پوچھ گچھ ہوئی اوروہ یہ کہہ بیٹھا کہ والدین نے اسکے سامنے نماز پڑھی ہے- جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مشرقی ترکستان کے اندر کوئی علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے انکے لئے عرض ہے کہ ایسا اندر تو ممکن ہی نہیں باہر بھی جو لوگ انہیں انکی آزادی میں مدد کا جھانسا دیتے ہیں چین کے ساتھ ملے ہوئے ہیں-
کچھ کا جرم یہ کہ انکے خاندان کا کوئی فرد چین سے باہر مقیم ہے- ایک اندازے کے مطابق عقوبت خانوں میں منتقل ایغور بھائیوں اور بہنوں کی تعداد ایک سے تین ملین ہے- انکے بچوں کو دیگر خاندان والوں کے ہوتے ہوئے یتیم خانوں میں جنھیں ایغور خود بچوں کی جیل کہتے ہیں منتقل کر دیا گیا ہے- یہ کہانیاں نہیں ہیں- راقم نے ذاتی طور پر ان ٹوٹے ہوئے خاندانوں کی تکلیف اور کرب انکے گھروں میں رہ کر دیکھا ہے- لیکن اس سے زیادہ تکلیف جب محسوس ہوتی ہے جب میں یہ دیکھتی ہوں کہ کشمیر، فلسطین، برما، میں مسلمانوں پر ظلم ہو تو ہم سب اور کچھ نہ کریں انکے ساتھ یکجہتی کا اظہار ضرور کرتے ہیں لیکن ایغور مسلمانوں کے لئے حکومتوں، دینی اور سیکولر طبقات سب کا رویہ بہت بے حسی کا ہے- یہی صورتحال یمن کے مسلمانوں کے لئے محسوس ہوتی ہے-
کہنا یہ ہے کہ کشمیر میں بھی مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے اور سنکیانگ میں بھی- دونوں جگہ انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں- ہم دونوں میں کوئی تقابل نہیں کر سکتے- حدیث کے مطابق مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو سارا جسم بیچین ہوتا ہے- پھر کیا وجہ ہے کہ کشمیر، فلسطین، بوسنیا، روہنگیا کے مسائل کے لئے ہم آواز اٹھاتے ہیں لیکن ایغور بھائیوں کے لئے ہماری حکومت، میڈیا، دینی جماعتیں کچھ بولنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتیں؟
عمران خان نے گزشتہ ماہ نیو یارک میں کونسل فار فارن ریلیشنز میں اظہار کیا کہ چین سے خصوصی تعلقات انہیں ایغور مسئلے پر بولنے سے روکتے ہیں- عالمی حالات اور خصوصاً کشمیر کے تناظر میں حکومتوں کی مجبوریاں ہو سکتی ہیں
لیکن عوام، علماء، دینی جماعتوں کی کیا مجبوریاں ہیں؟
یہ عام جیلیں نہیں ہیں- یہاں رہنے والوں کو بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے- چھوٹے چھوٹے کمروں میں چالیس چالیس اور بعض قیدیوں کے مطابق ساتھ ساتھ افراد کو زنجیروں سے باندھ کر رکھنا، ریپ، خواتین اور مردوں کو ننگا کر کہ تفتیش کرنا، انہیں بجلی کے کرنٹ جھٹکے دینا بالکل عام ہے- کچھ تشدد کے طریقے جنھیں چند کیمپ survivors جنکی شہریت دوسرے ملکوں سے تھی اور موجودہ کرائسز سے پیشتر جیل جانیوالوں نے شئیر کیے انہیں بیان کرنا میرے لئے ممکن نہیں ہے-
بہت سوں کا جرم یہ ہے کہ انکے پاس سے مذھب کی کوئی نشانی نکل آئی- کسی کے موبائل فون پر کوئی اسلامی کتاب یا کسی مبلغ کی وڈیو یا قران کی کوئی کاپی- کسی کے بارے میں یہ شبہ کہ یہ پابندی سے نماز ادا کرتا ہے- کوئی سگریٹ نہیں پیتا تھا یا شراب یا سور کے گوشت سے پرہیز کرتا تھا- کسی کے بچے سے اسکول میں سخت پوچھ گچھ ہوئی اوروہ یہ کہہ بیٹھا کہ والدین نے اسکے سامنے نماز پڑھی ہے- جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مشرقی ترکستان کے اندر کوئی علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے انکے لئے عرض ہے کہ ایسا اندر تو ممکن ہی نہیں باہر بھی جو لوگ انہیں انکی آزادی میں مدد کا جھانسا دیتے ہیں چین کے ساتھ ملے ہوئے ہیں-
کچھ کا جرم یہ کہ انکے خاندان کا کوئی فرد چین سے باہر مقیم ہے- ایک اندازے کے مطابق عقوبت خانوں میں منتقل ایغور بھائیوں اور بہنوں کی تعداد ایک سے تین ملین ہے- انکے بچوں کو دیگر خاندان والوں کے ہوتے ہوئے یتیم خانوں میں جنھیں ایغور خود بچوں کی جیل کہتے ہیں منتقل کر دیا گیا ہے- یہ کہانیاں نہیں ہیں- راقم نے ذاتی طور پر ان ٹوٹے ہوئے خاندانوں کی تکلیف اور کرب انکے گھروں میں رہ کر دیکھا ہے- لیکن اس سے زیادہ تکلیف جب محسوس ہوتی ہے جب میں یہ دیکھتی ہوں کہ کشمیر، فلسطین، برما، میں مسلمانوں پر ظلم ہو تو ہم سب اور کچھ نہ کریں انکے ساتھ یکجہتی کا اظہار ضرور کرتے ہیں لیکن ایغور مسلمانوں کے لئے حکومتوں، دینی اور سیکولر طبقات سب کا رویہ بہت بے حسی کا ہے- یہی صورتحال یمن کے مسلمانوں کے لئے محسوس ہوتی ہے-
کہنا یہ ہے کہ کشمیر میں بھی مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے اور سنکیانگ میں بھی- دونوں جگہ انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں- ہم دونوں میں کوئی تقابل نہیں کر سکتے- حدیث کے مطابق مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو سارا جسم بیچین ہوتا ہے- پھر کیا وجہ ہے کہ کشمیر، فلسطین، بوسنیا، روہنگیا کے مسائل کے لئے ہم آواز اٹھاتے ہیں لیکن ایغور بھائیوں کے لئے ہماری حکومت، میڈیا، دینی جماعتیں کچھ بولنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتیں؟
عمران خان نے گزشتہ ماہ نیو یارک میں کونسل فار فارن ریلیشنز میں اظہار کیا کہ چین سے خصوصی تعلقات انہیں ایغور مسئلے پر بولنے سے روکتے ہیں- عالمی حالات اور خصوصاً کشمیر کے تناظر میں حکومتوں کی مجبوریاں ہو سکتی ہیں
لیکن عوام، علماء، دینی جماعتوں کی کیا مجبوریاں ہیں؟
جاری ہے- Mirkamil Kaşgarli Abdul Malik Mujahid Abdul Malik Abdul Ahad
No comments:
Post a Comment