یہ مضمون دو سال پیشتر خواتین ڈے کے موقعے پر خواتین کے ایک رسالے میں اور بعد ازاں کچھ تبدیلیوں کے ساتھ ایکسپریس سنڈے میگزین کے پرنٹ ایڈیشن میں شامل ہوا- یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مشرق اور مغرب دونوں جگہ خواتین پر زیادتیوں اور انکے حقوق کے حوالے سے لکھتی رہی ہوں- لیکن میں مغربی عورت کی نمائندگی کا دعویٰ نہیں رکھتی- میرا تعلق مشرق اور مسلم دنیا سے ہے اور میں جس باریک بینی سے اس معاشرے کی خوبیوں اور خرابیوں کا تجزیہ کر سکتی ہوں مغریبب کا نہیں کر سکتی- مغربی عورت کے مسائل کا صرف ایک distant observer کے طور پر مشاہدہ کر سکتی ہوں-
ہمارے ہاں بعض طبقات کا رویہ یہ ہے کہ جب مشرق کی عورت کے حقوق کی بات آئے تو وہ مغربی عورت کے بارے میں سنی سنائی کہانیاں لا کر بحث کو بند کرنا چاہتے ہیں یہاں تک کہ عورت کے حق میں "غض بصر" اور "شادی میں لڑکی کی مرضی" اور "خلع" یا "فسق نکاح" جیسے واضح اسلامی احکامات کا ذکر بھی سننا پسند نہیں کرتے- افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس رویہ کو دین سمجھا جاتا ہے-
سیلی کرومویل (نام تبدیل کر دیا گیا ہے) میری پڑوسن ہے. وہ ہائی اسکول میں تھی جب وہ پہلی دفعہ حمل سے ہوئی. اسکا بوائے فرینڈ ٹم اسکا منگیتر تھا. وہ دونوں شادی کرنا چاہتے تھے مگرٹم کی والدہ سیلی کو پسند نہیں کرتی تھیں. وہ انکے ہر معاملے میں دخل اندازی کرتیں. ٹم کا اپنا سلوک بھی سیلی کے ساتھ اچھا نہیں تھا. وہ کبھی کبھی اسکے ساتھ مار پیٹ کرتا. سیلی حمل سے ہوئی تو ٹم کا کہنا تھا کہ وہ اسقاط کروا لے. مگر سیلی کا کہنا ہے کہ اسکا تعلق ایک مذھبی گھرانے سے تھا اور کیتھولک مذہب میں اسقاط حمل حرام ہے. سچی بات ہے سیلی کی یہ منطق میرے سمجھ نہیں آتی لیکن دلچسپ بات یہ کہ آج بھی مغرب میں ایسی خواتین عام ہیں جو مذہبی احکاما ت کو اپنی زندگی میں فیصلہ کن سمجھتی ہیں. (یہ دوسری بات ہے کہ انکا چرچ تک محدود مذہب انکی زندگی کے معاملات میں مکمل رہنمائی نہیں کرتا) شادی سے قبل صنفی تعلقات کو مذہبی لحاظ سے برا نہیں سمجھا جاتا مگر اسقاط حمل کو بہت بڑا گناہ سمجھا جاتا ہے. ایک اور چیز جس پر آگے بات کریں گے وہ یہ کہ بعض فرقوں میں طلاق کو بھی مذھبی لحاظ سے گناہ سمجھا جاتا ہے. ٹم کی مخالفت کے باوجود دس سال پہلے سیلی نے ایک خوبصورت بچے کو جنم دیا. بچے کی پیدائش کے بعد ٹم کا رویہ اسکے ساتھ اور خراب ہو گیا. مار پیٹ اور گالم گلوچ بڑھ گئی. آخر کار ان دونوں میں شادی کے بنا ہی علیحدگی ہو گئی. سیلی کا کہنا ہے کہ ٹم نے سیلی کو علیحدگی کی سزا دینے کے لئے بچہ کچھ قانونی ہتھکنڈوں کی مدد سے خود رکھ لیا. سیلی اب دو اور بچوں کی ماں بن چکی ہے. اسکے تینوں بچوں کے باپ مختلف ہیں. میں ایک پڑوسن کی حیثیت سے گواہ ہوں کہ سیلی کی زندگی اب اپنے دو چھوٹے بچوں کے گرد گھومتی ہے.اس سوال پر کہ کیا تم شادی کرنا نہیں چاہتیں، اسکا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ سے شادی کرنا چاہتی ہے مگر اسے یہ بات معلوم ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہو گا. وہ اب بھی عارضی ساتھ کے لئے بوائے فرینڈ رکھتی ہے مگر اسکا کہنا ہے کہ وہ سب اسکے جسم سے دلچسپی رکھتے ہیں. کوئی بھی اسکی ذمہ داریاں شئیر کرنا نہیں چاہتا. ایسے واقعات آج مغرب میں کوئی استثنیٰ نہیں- سیلی کا کہنا ہے کہ اسکے ارد گرد ہر جگہ ایسی کہانیاں عام ہیں اور ہر کونے میں ان مشکلات کا شکار عورتوں کو دیکھا جا سکتا ہے.
یہ مغربی معاشرے کی اخلاقی اقدار کے تحت زندگی گزا رنے والی عورت کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے. معاشرے پر ان اقدار کے منفی اثرات پر ہم نے ان صفحات پر بحث کرنے کی کوشش کی ہے. حقوق نسواں کی تحریکیں مغربی عورت کو مرد کے برابر مقام دلوانے کے لئے ڈیڑھ صدی سے کوشاں ہیں. لیکن دیکھا جائے تو چند نمائشی حقوق کے علاوہ یہ تحریک کوئی عملاً کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کر سکی. مثلاً امریکا جیسے ملک میں آج تک مردوں اور عورتوں کے ایک ہی کام کا مساوی معاوضہ آج بھی قانوناً ممکن نہیں. معروف تھنک ٹینک پیو ریسرچ کے اکتوبر ٢٠١٧ کے ایک سروے کے مطابق امریکا میں ٧٣ فیصد خواتین ورک پلیس پر اپنے ساتھ امتیازی سلوک کی شکایات کرتی ہیں. تحریک حقوق نسواں کی بڑی کامیابیاں عورتوں کو انتخابات میں حق رائے دہی، جائیداد رکھنے کا حق، گھر سے باہر نکل کر ملازمت کرنے کا حق اور شوہر سے علیحدہ مالی حیثیت رکھنا گنوایا جاتا ہے جسکا حق مغربی عورت کو بلترتیب بیسویں اور انیسویں صدی میں ملا. جب کہ قران ساتویں صدی میں گھر، بیوی بچوں کی کفالت کی ذمہ داری مرد پر ڈالنے کے باوجود عورت کو وراثت میں حقوق، علیحدہ مالی حیثیت، شادی کے مہر کی صورت میں مالی مفادات کا واضح تذکرہ کر کہ قوانین متعین کرتا ہے. یہ دوسری بات ہے کہ قران کی واضح آیات اور احکامات ہمارے معاشرتی مائنڈ سیٹ میں بھی کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکیں.
بروکنگ انسٹیٹیوٹ کی ایک رپورٹ
What Can Be Done to Reduce Teen Pregnancy and Out-of-Wedlock Births?
کے مطابق اس سارے معاملے کا ایک تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اب ایسی کم عمر ماؤں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو ہائی اسکول کے دوران ہی ماں بن جاتی ہیں. ایسے واقعات بھی اب غیر معمولی نہیں رہ گئے ہیں جن میں بچیاں دس گیارہ سال کی عمر میں اپنے پہلے بچے کو جنم دیتی ہیں. ایسا اسکے باوجود ہے کہ اسکولوں میں ابتدائی کلاسوں سے بچوں کو جنسی تعلیم دی جاتی ہے اور برتھ کنٹرولز کے استعمال کا طریقہ بھی بتایا جاتا ہے. گو اسٹیٹ اور ملکی قانون ان بچوں کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر ایسی اکیلی ماؤں کو مالی امداد دیتا ہے مگر ان میں سے بیشتر مائیں اپنی پڑھائی جاری نہیں رکھ سکتیں اور انکی جوانی کا بڑا حصہ اپنے بچوں کی نگہداشت میں گزر جاتا ہے. سیلی بھی اپنا ہائی سکول مکمل نہیں کر سکی. گو کبھی کبھی باپ بھی شادی کے بندھن سے باہر پیدا ہونے والے کی بچے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے مگر انکی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے. بروکنگ کی رپورٹ کے مطابق اکیلے والدین single parents کی 84 فیصد تعداد عورتوں جبکہ 16 فیصد تعداد مردوں پر مشتمل ہے.
بروکنگ انسٹیٹیوٹ کی ایک رپورٹ
What Can Be Done to Reduce Teen Pregnancy and Out-of-Wedlock Births?
کے مطابق اس سارے معاملے کا ایک تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اب ایسی کم عمر ماؤں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو ہائی اسکول کے دوران ہی ماں بن جاتی ہیں. ایسے واقعات بھی اب غیر معمولی نہیں رہ گئے ہیں جن میں بچیاں دس گیارہ سال کی عمر میں اپنے پہلے بچے کو جنم دیتی ہیں. ایسا اسکے باوجود ہے کہ اسکولوں میں ابتدائی کلاسوں سے بچوں کو جنسی تعلیم دی جاتی ہے اور برتھ کنٹرولز کے استعمال کا طریقہ بھی بتایا جاتا ہے. گو اسٹیٹ اور ملکی قانون ان بچوں کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر ایسی اکیلی ماؤں کو مالی امداد دیتا ہے مگر ان میں سے بیشتر مائیں اپنی پڑھائی جاری نہیں رکھ سکتیں اور انکی جوانی کا بڑا حصہ اپنے بچوں کی نگہداشت میں گزر جاتا ہے. سیلی بھی اپنا ہائی سکول مکمل نہیں کر سکی. گو کبھی کبھی باپ بھی شادی کے بندھن سے باہر پیدا ہونے والے کی بچے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے مگر انکی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے. بروکنگ کی رپورٹ کے مطابق اکیلے والدین single parents کی 84 فیصد تعداد عورتوں جبکہ 16 فیصد تعداد مردوں پر مشتمل ہے.
مغرب حقوق نسواں
ستم ظریفی یہ ہے کہ مغربی معاشرے میں فیمینزم کے نام پر عورت کو جو حقوق حاصل تھے وہ بھی اس سے چھین لئے گئے ہیں. برابری کا نعرہ دیکر مرد پر اسکی کفالت کے حق کو ساقط کر دیا گیا ہے.گھر سے باہر نکل کے معاش کی چکی کا ایندھن بننے کو عورتوں کا حق تصور کر لیا گیا- دوسری طرف بغیر کسی دیر پا معاہدے کے اپنے جسم کو مرد کے حوالے کرنے کو بھی عورتوں کا حق تصور کر لیا گیا ہے.
فیمینزم یعنی حقوق نسواں کی تحریک خواتین کو برابر معاوضہ تو اکیسویں صدی تک نہ دلوا سکی مگر انھیں گھروں سے باہر نکال کر ملکی معیشت کا پرزہ بنا کر اسے یہ زعم ضرور دے دیا کہ وہ اپنے جسم کی مالک ہے اور جس سے چاہے صنفی تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہے. فیمینزم کے نام پر عورت کو اسکے سب سے قیمتی اثاثے نسوانیت سے دستبردار ہونے پر مجبور کر دیا گیا ہے. آج وہ آزادی کے نعروں کا شکار ہو کر خود جسمانی آسودگی کی تلاش میں مرد کے پیچھے بھاگ رہی ہے اور اسکے مطالبات ماننے پر مجبور ہے. دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تحریک کے نتیجے میں مرد پر سے ہر ذمہ داری ساقط ہو چکی ہے.
سب سے بڑھ کر گھر کا ادارہ جو قوموں کی بقا کے لئے ایک یونٹ کی حیثیت رکھتا تھا اسے نا قبل تلافی نقصان پہنچایا گیا ہے. ان دونوں معاملات کا بالغ نظری سے جائزہ لیا جائے توانہوں نے گھر کے ادارے پر کاری ضرب لگا کر صرف عورت اور اسکی ہونے والی اولاد کو ہی نا قابل تلافی نقصان نہیں پہنچایا بلکہ پورے مغربی معاشرے کو کمزور کر دیا ہے.
ستم ظریفی یہ ہے کہ مغربی معاشرے میں فیمینزم کے نام پر عورت کو جو حقوق حاصل تھے وہ بھی اس سے چھین لئے گئے ہیں. برابری کا نعرہ دیکر مرد پر اسکی کفالت کے حق کو ساقط کر دیا گیا ہے.گھر سے باہر نکل کے معاش کی چکی کا ایندھن بننے کو عورتوں کا حق تصور کر لیا گیا- دوسری طرف بغیر کسی دیر پا معاہدے کے اپنے جسم کو مرد کے حوالے کرنے کو بھی عورتوں کا حق تصور کر لیا گیا ہے.
فیمینزم یعنی حقوق نسواں کی تحریک خواتین کو برابر معاوضہ تو اکیسویں صدی تک نہ دلوا سکی مگر انھیں گھروں سے باہر نکال کر ملکی معیشت کا پرزہ بنا کر اسے یہ زعم ضرور دے دیا کہ وہ اپنے جسم کی مالک ہے اور جس سے چاہے صنفی تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہے. فیمینزم کے نام پر عورت کو اسکے سب سے قیمتی اثاثے نسوانیت سے دستبردار ہونے پر مجبور کر دیا گیا ہے. آج وہ آزادی کے نعروں کا شکار ہو کر خود جسمانی آسودگی کی تلاش میں مرد کے پیچھے بھاگ رہی ہے اور اسکے مطالبات ماننے پر مجبور ہے. دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تحریک کے نتیجے میں مرد پر سے ہر ذمہ داری ساقط ہو چکی ہے.
سب سے بڑھ کر گھر کا ادارہ جو قوموں کی بقا کے لئے ایک یونٹ کی حیثیت رکھتا تھا اسے نا قبل تلافی نقصان پہنچایا گیا ہے. ان دونوں معاملات کا بالغ نظری سے جائزہ لیا جائے توانہوں نے گھر کے ادارے پر کاری ضرب لگا کر صرف عورت اور اسکی ہونے والی اولاد کو ہی نا قابل تلافی نقصان نہیں پہنچایا بلکہ پورے مغربی معاشرے کو کمزور کر دیا ہے.
راقم نے ایک صحافی کی حیثیت سے پچھلے چار سالوں میں مغرب میں عورتوں کے حقوق کے موضوع پر (معاملے کے اخلاقی پہلو کو ایک طرف رکھتے ہوئے اور حتیٰ الامکان غیرجانب دار رہتے ہوئے) کئی خواتین سے تفصیلی تبادلۂ خیال کیا. مجھے محسوس ہوا کہ مغربی عورت آج بھی ایک دیرپا تعلق اور گھر بنانے کو ترجیح دیتی ہے جہاں وہ بچوں کی تربیت اپنے شوہر یا پارٹنر کے ساتھ ملکر کر سکے. لیکن مرد کو جب جنسی آسودگی ان تمام ذمہ داریوں کے بغیر مل رہی ہے تو وہ شادی کرکہ خاندانی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانا نہیں چاہتا. پھر اسکی فطرت کچھ ایسی ہے کہ اسکا دل ایک ساتھی سے عموماً جلدی بھر جاتا ہے اور اگر انتخاب موجود ہے جسکی اس مخلوط پابندیوں سے ماوراء معاشرے میں ظاہر ہے کوئی کمی نہیں تو وہ پارٹنر تبدیل کرنے کو ترجیح دیتا ہے. کہا جا سکتا ہے کہ یہی انتخاب ایک عورت کو بھی حاصل ہے. بجا ارشاد لیکن کیا عورت کی فطرت بھی قدرت نے ایسی ہی تشکیل دی ہے؟ میں نے جتنی خواتین کی زندگی میں بغور جھانکا مجھے اسکا جواب نفی میں ہی ملا. گو مغربی عورت بھی پارٹنر بدلنے کو اپنا حق تصور کرتی ہے اور ضرورت پڑنے پر اسے استعمال بھی کرتی ہے. ایک دفعہ خواتین کے اسٹیم روم میں ایک خاتون نے مجھے ایک نا مناسب اشارہ کرتے ہوے کہا کہ مرد دماغ سے نہیں کہیں اورسے سوچتا ہے. عورت نئی نسل کی پرورش کے لئے جس دیرپا تعلق کی متقاضی ہے اسکی عدم موجودگی میں وہ مسلسل عدم تحفظ کا شکار رہتی ہے. اسے اپنی گھریلو اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے ساتھ مسلسل اپنے فگر اور ظاہری ٹیپ ٹاپ کے حوالے سے بھی دباؤ کا سامنا ہوتا ہے. کیونکہ ظاہری حسن اور جوانی کھو دینے کی صورت میں اسے نہ تو مرد کا عارضی سہارا ملے گا اور نہ ہی ورک پلیس پر پذیرائی ملے گی.
بنا شادی بچوں کی تعداد میں اضافہ
2017 میں شائع ہونے والی ییل یونیورسٹی کی ایک تحقیقاتی رپورٹ
Out-of-Wedlock Births Rise Worldwide
کے مطابق دنیا کے کچھ خطوں میں بغیر شادی کے پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد کل بچوں کے 70 فیصد تک پہنچ گئی ہے. امریکا میں یہ تعداد 40 فیصد جبکہ شمالی یورپ کے کچھ ممالک میں یہ شرح 70 فیصد تک چلی گئی ہے. پچھلے پچاس سال میں بنا شادی بچوں کی پیدائش میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ سنگل مدرز یعنی اکیلی ماؤں کی تعداد میں بھی. 2016 میں شائع ہونے والی جان ہاپکنز یونیورسٹی کی ایک ریسرچ
Changing Fertility Regimes and the Transition to Adulthood
کے مطابق امریکا میں چونسٹھ فیصد عورتیں کم از کم ایک ایسے بچے کی ماں ضرور ہیں جو شادی کے بندھن سے باہر (آوٹ آف ویڈ لاک ) پیدا ہوتا ہے. غریب یا کم آمدنی والے علاقوں میں ان غیر شادی شدہ ماؤں کی تعداد 74 فیصد تک جا پہنچتی ہے. دوسری طرف شادی کو ایک بہت سنجیدہ فیصلہ سمجھا جاتا ہے جس سے قبل جوڑے کا ساتھ رہنا بھی انتہائی ضروری خیال کیا جاتا ہے. نتیجتاً بہت سے جوڑے شادی سے قبل کچھ عرصہ ساتھ رہنے کے بعد الگ ہو جاتے ہیں. اس صورت حال کا ایک لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ جوڑے بچے پیدا کرنے سے بچنے لگتے ہیں. خصوصاً جہاں مائیں کیریئر کے لئے سنجیدہ ہوں. جرمنی اور جاپان میں شادی اور بچے پیدا کرنے کے رحجان میں کمی کی وجہ یہی بتائی جاتی ہے.
حقوق نسواں کی تحریک کے نتیجے میں بنا پابندی صنفی تعلقات کے سماجی پہلوؤں سے آگے بڑھ کر ملکی معیشت اور ترقی پر بھی منفی اثرات کے امکانات بڑھ رہے ہیں. بچے کم پیدا کرنے کے رحجان سے خوشحال مغربی ممالک آبادی اور نتیجتاً ورک فورس میں کمی کا شکار ہیں یا ہونے والے ہیں. تھنک ٹینکس سنجیدگی سے آبادی میں کمی کے اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں اور تشویشناک اعداد و شمار پیش کر رہے ہیں. جرمنی، جاپان، کینیڈا سمیت بہت سے ممالک کی حکومتیں کثیر مالی فوائد کے ذریعے عوام کو بچے پیدا کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں. صورت حال کچھ یوں ہے کے کسی قوم کی بقا کے لئے جس کم سے کم شرح پیدائش کی ضرورت ہوتی ہے مغرب کے خوش حال ترین صنعتی ممالک اس حد تک نہیں پہنچ پا رہے. سال گزشتہ جاپان کی ایک یونیورسٹی میں ایک کلاک لگا دی گئی جو جاپانیوں کو یہ بتاتی رہتی ہے کہ اگر آبادی میں کمی کا رحجان برقرار رہا تو کتنے عرصے میں جاپانی قوم ختم ہو جائے گی. بہت سے مغربی ممالک ماس امیگریشن کو اس مسئلے کا حل گردانتے ہیں. مگر دوسری طرف مہاجرین کی آمد میں اضافے سے مغربی معاشروں میں اسلاموفوبیا اور نسل پرستی میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے. دنیا گلوبلائزیشن کی کامیاب کوششوں کے بعد ایک دفعہ پھر رنگ، مذہب اور نسل کی بنیاد پر نفرت کے چنگل میں جاتی ہوئی نظر آ رہی ہے. مغرب کی پوری سیاست مہاجر مسئلے اور اسلامو فوبیا کے گرد مرتکز ہے. برطانیہ میں برکزٹ، کے بعد امریکا میں ٹرمپ کی آمد، جرمنی میں دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی مرتبہ دائیں بازو کی نسل پرست جماعتوں کا پارلیمنٹ میں پہنچنا، کینیڈا کے پچھلے الیکشن میں نقاب کے مسئلے کو انتخابی اشو کے طور پر استمعال کرنے کی کوشش، اسکے چند مظاہر ہیں. مغرب میں ایک بڑا خوف یہ بھی پایا جاتا ہے کہ اگر مہاجرین کی آمد اسی طرح جاری رہی تو ایک طاقت ور تھذیب (اسلامی تھذیب) ایک کمزور تھذیب (مغربی) پر غالب آ جائے گی.
ایسے میں ڈیڑھ صدی پہلے کہا گیا اقبال کا ایک بے نظیر مصرع یاد آتا ہے:
ع تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خود کشی کرے گی
مغربی انٹلیکچوئلز کی شادی کے ادارے پر ضربیہ بات یاد رہے کہ ایسا مغربی معاشرے میں ہمیشہ سے نہیں تھا. پچھلے دو تین سو سال سےکچھ مغربی انٹلیکچوئل حضرات اپنے افکار کے ذریعے دنیا کو یہ بتاتے رہے کہ شادی کا ادارہ محض روایتی ادارہ ہے. اسکے باوجود اعداد و شمار کے مطابق پچاس ساٹھ سال پہلے تک مغرب کے بیشتر ممالک میں شادی کا ادارہ قائم تھا. بچے عموماً دونوں والدین کے زیر سایہ پرورش پاتے تھے لیکن پچھلے سو سالوں میں ماس میڈیا اور اینٹرٹینمنٹ انڈسٹری نے بھی رومانس کلچر کو فروغ دیکر بنا شادی صنفی تعلقات کے کلچر کو معاشرے کا چلن بنانے میں اپنا کردار خاموشی اور معصومیت سے ادا کیا ہے. رہی سہی کسر حقوق نسواں کی تحریک نے پوری کر دی جسکے مطابق عورت صنفی لحاظ سے مرد کے برابر ہے. ملازمت کو عورت کا حق گردانا گیا اور شادی سے قبل صنفی تعلق کو بھی. نتیجتاً بنا شادی کے ماں بننے والی خواتین میں خوف ناک اضافہ ہوتا جا رہا ہے. خصوصاً ان ممالک میں جہاں ایسے تعلقات کو معاشرے میں کلنک کا ٹیکا نہیں سمجھا جاتا اور ایسے بچوں کو ناجائز تصور نہیں کیا جاتا. مغربی یورپ کے بیشتر ممالک، شمالی اور لاطینی امریکا کے بیشتر ممالک اس دوڑ میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں پیش پیش ہیں.
بنا شادی بچوں کی تعداد میں اضافہ
2017 میں شائع ہونے والی ییل یونیورسٹی کی ایک تحقیقاتی رپورٹ
Out-of-Wedlock Births Rise Worldwide
کے مطابق دنیا کے کچھ خطوں میں بغیر شادی کے پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد کل بچوں کے 70 فیصد تک پہنچ گئی ہے. امریکا میں یہ تعداد 40 فیصد جبکہ شمالی یورپ کے کچھ ممالک میں یہ شرح 70 فیصد تک چلی گئی ہے. پچھلے پچاس سال میں بنا شادی بچوں کی پیدائش میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ سنگل مدرز یعنی اکیلی ماؤں کی تعداد میں بھی. 2016 میں شائع ہونے والی جان ہاپکنز یونیورسٹی کی ایک ریسرچ
Changing Fertility Regimes and the Transition to Adulthood
کے مطابق امریکا میں چونسٹھ فیصد عورتیں کم از کم ایک ایسے بچے کی ماں ضرور ہیں جو شادی کے بندھن سے باہر (آوٹ آف ویڈ لاک ) پیدا ہوتا ہے. غریب یا کم آمدنی والے علاقوں میں ان غیر شادی شدہ ماؤں کی تعداد 74 فیصد تک جا پہنچتی ہے. دوسری طرف شادی کو ایک بہت سنجیدہ فیصلہ سمجھا جاتا ہے جس سے قبل جوڑے کا ساتھ رہنا بھی انتہائی ضروری خیال کیا جاتا ہے. نتیجتاً بہت سے جوڑے شادی سے قبل کچھ عرصہ ساتھ رہنے کے بعد الگ ہو جاتے ہیں. اس صورت حال کا ایک لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ جوڑے بچے پیدا کرنے سے بچنے لگتے ہیں. خصوصاً جہاں مائیں کیریئر کے لئے سنجیدہ ہوں. جرمنی اور جاپان میں شادی اور بچے پیدا کرنے کے رحجان میں کمی کی وجہ یہی بتائی جاتی ہے.
حقوق نسواں کی تحریک کے نتیجے میں بنا پابندی صنفی تعلقات کے سماجی پہلوؤں سے آگے بڑھ کر ملکی معیشت اور ترقی پر بھی منفی اثرات کے امکانات بڑھ رہے ہیں. بچے کم پیدا کرنے کے رحجان سے خوشحال مغربی ممالک آبادی اور نتیجتاً ورک فورس میں کمی کا شکار ہیں یا ہونے والے ہیں. تھنک ٹینکس سنجیدگی سے آبادی میں کمی کے اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں اور تشویشناک اعداد و شمار پیش کر رہے ہیں. جرمنی، جاپان، کینیڈا سمیت بہت سے ممالک کی حکومتیں کثیر مالی فوائد کے ذریعے عوام کو بچے پیدا کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں. صورت حال کچھ یوں ہے کے کسی قوم کی بقا کے لئے جس کم سے کم شرح پیدائش کی ضرورت ہوتی ہے مغرب کے خوش حال ترین صنعتی ممالک اس حد تک نہیں پہنچ پا رہے. سال گزشتہ جاپان کی ایک یونیورسٹی میں ایک کلاک لگا دی گئی جو جاپانیوں کو یہ بتاتی رہتی ہے کہ اگر آبادی میں کمی کا رحجان برقرار رہا تو کتنے عرصے میں جاپانی قوم ختم ہو جائے گی. بہت سے مغربی ممالک ماس امیگریشن کو اس مسئلے کا حل گردانتے ہیں. مگر دوسری طرف مہاجرین کی آمد میں اضافے سے مغربی معاشروں میں اسلاموفوبیا اور نسل پرستی میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے. دنیا گلوبلائزیشن کی کامیاب کوششوں کے بعد ایک دفعہ پھر رنگ، مذہب اور نسل کی بنیاد پر نفرت کے چنگل میں جاتی ہوئی نظر آ رہی ہے. مغرب کی پوری سیاست مہاجر مسئلے اور اسلامو فوبیا کے گرد مرتکز ہے. برطانیہ میں برکزٹ، کے بعد امریکا میں ٹرمپ کی آمد، جرمنی میں دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی مرتبہ دائیں بازو کی نسل پرست جماعتوں کا پارلیمنٹ میں پہنچنا، کینیڈا کے پچھلے الیکشن میں نقاب کے مسئلے کو انتخابی اشو کے طور پر استمعال کرنے کی کوشش، اسکے چند مظاہر ہیں. مغرب میں ایک بڑا خوف یہ بھی پایا جاتا ہے کہ اگر مہاجرین کی آمد اسی طرح جاری رہی تو ایک طاقت ور تھذیب (اسلامی تھذیب) ایک کمزور تھذیب (مغربی) پر غالب آ جائے گی.
ایسے میں ڈیڑھ صدی پہلے کہا گیا اقبال کا ایک بے نظیر مصرع یاد آتا ہے:
ع تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خود کشی کرے گی
مغربی انٹلیکچوئلز کی شادی کے ادارے پر ضربیہ بات یاد رہے کہ ایسا مغربی معاشرے میں ہمیشہ سے نہیں تھا. پچھلے دو تین سو سال سےکچھ مغربی انٹلیکچوئل حضرات اپنے افکار کے ذریعے دنیا کو یہ بتاتے رہے کہ شادی کا ادارہ محض روایتی ادارہ ہے. اسکے باوجود اعداد و شمار کے مطابق پچاس ساٹھ سال پہلے تک مغرب کے بیشتر ممالک میں شادی کا ادارہ قائم تھا. بچے عموماً دونوں والدین کے زیر سایہ پرورش پاتے تھے لیکن پچھلے سو سالوں میں ماس میڈیا اور اینٹرٹینمنٹ انڈسٹری نے بھی رومانس کلچر کو فروغ دیکر بنا شادی صنفی تعلقات کے کلچر کو معاشرے کا چلن بنانے میں اپنا کردار خاموشی اور معصومیت سے ادا کیا ہے. رہی سہی کسر حقوق نسواں کی تحریک نے پوری کر دی جسکے مطابق عورت صنفی لحاظ سے مرد کے برابر ہے. ملازمت کو عورت کا حق گردانا گیا اور شادی سے قبل صنفی تعلق کو بھی. نتیجتاً بنا شادی کے ماں بننے والی خواتین میں خوف ناک اضافہ ہوتا جا رہا ہے. خصوصاً ان ممالک میں جہاں ایسے تعلقات کو معاشرے میں کلنک کا ٹیکا نہیں سمجھا جاتا اور ایسے بچوں کو ناجائز تصور نہیں کیا جاتا. مغربی یورپ کے بیشتر ممالک، شمالی اور لاطینی امریکا کے بیشتر ممالک اس دوڑ میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں پیش پیش ہیں.
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ روشن خیال تحریک کے انٹلیکچوئلز، حقوق نسواں کی تحریک سے لیکر ماڈرن میڈیا تک کے ان نظریات کی حمایت کا براہ راست نقصان عورت کو ہو رہا ہے.
جنوبی ایشیا اور مسلم دنیا میں عورتوں کے ساتھ معاشرے کے ناروا سلوک پر میں ہمیشہ سے افسردہ رہی ہوں اور اس موضوع پر لکھتی اور بولتی بھی رہی ہوں. لیکن مغرب میں اکیلی ماؤں کی بڑھتی ہوئی تعداد، مغربی معاشرے میں عورتوں پر تلاش معاش اور گھر اور بچوں کی ذمہ داریاں اور انکی مشکلات دیکھ کر یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ مغرب کی حقوق نسواں کی تحریک کے صدیوں کے سفر کے بعد بھی یہاں عورت مشرقی عورت سے کہیں زیادہ مظلوم ہے. گو مغربی طرز زندگی کی چکا چوند بظاہر متاثر کئے بغیر نہیں رہتی لیکن انکے معاشرے میں جھانکا جائے تو اسکے گلیمر سے رومانس ختم ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے. سورۂ آل عمران آیت نمبر ١٩٦ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے " دنیا کے ملکوں میں خدا کے نافرمان لوگوں کی چلت پھرت تمہیں کسی دھوکے میں نہ ڈالے-"
اس سے آگے بڑھ کر میں مسلم معاشروں میں ان رحجانات کو دیکھ کر خوف آتا ہے جو ٹیکنولوجی کے پھیلاؤ اور دینی طبقات میں الله کی کتاب کی غلط تفہیم کی وجہ سے ہمارے معاشرے کو اسی سمت لے کر جا رہے ہیں جہاں جا کر مغرب خود کشی کر رہا ہے.
جنوبی ایشیا اور مسلم دنیا میں عورتوں کے ساتھ معاشرے کے ناروا سلوک پر میں ہمیشہ سے افسردہ رہی ہوں اور اس موضوع پر لکھتی اور بولتی بھی رہی ہوں. لیکن مغرب میں اکیلی ماؤں کی بڑھتی ہوئی تعداد، مغربی معاشرے میں عورتوں پر تلاش معاش اور گھر اور بچوں کی ذمہ داریاں اور انکی مشکلات دیکھ کر یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ مغرب کی حقوق نسواں کی تحریک کے صدیوں کے سفر کے بعد بھی یہاں عورت مشرقی عورت سے کہیں زیادہ مظلوم ہے. گو مغربی طرز زندگی کی چکا چوند بظاہر متاثر کئے بغیر نہیں رہتی لیکن انکے معاشرے میں جھانکا جائے تو اسکے گلیمر سے رومانس ختم ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے. سورۂ آل عمران آیت نمبر ١٩٦ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے " دنیا کے ملکوں میں خدا کے نافرمان لوگوں کی چلت پھرت تمہیں کسی دھوکے میں نہ ڈالے-"
اس سے آگے بڑھ کر میں مسلم معاشروں میں ان رحجانات کو دیکھ کر خوف آتا ہے جو ٹیکنولوجی کے پھیلاؤ اور دینی طبقات میں الله کی کتاب کی غلط تفہیم کی وجہ سے ہمارے معاشرے کو اسی سمت لے کر جا رہے ہیں جہاں جا کر مغرب خود کشی کر رہا ہے.
(جاری ہے )
No comments:
Post a Comment