Sunday, November 12, 2017

لبنان اور سعودی عرب کے مابین حالیہ تنازع میں فلسطینی اتھارٹی کے محمود عباس کا کردار


لبنان اور سعودی عرب کے مابین حالیہ تنازع میں فلسطینی اتھارٹی کے محمود  عباس کا کردار 

تزئین حسن 

مشرق وسطیٰ کے مستقبل پر دور رس اثرات مرتب کرنے والے اس کھیل میں فلسطینی اتھارٹی کے لیڈر محمود عباس کا کردار بھی معنی خیز ہے.جیوش نیوز ایجنسی کے ایک مضمون کے مطابق اسرائیل کے ایک مبصر نمرود نووک کا کہنا ہے کہ محمود عباس کی ریاض طلبی ایک اور مثبت اشارہ ہے جو کشنر دورے کے بعد عمل میں آیا. ٹرمپ انتظامیہ چاہتی ہے کہ محمود عباس غزہ کا انتظام بھی سنبھال لیں. ممکنہ طور پر سعودی عرب بھی لبنان پر حملے کی صورت میں فلسطین کی کسی مداخلت کی طرف سے بےفکر ہونا چاہتا ہے. 

جیوش نیوز ایجنسی کے ایک حالیہ مضمون نے بہت دلچسپ سوالات اٹھائے، "ایم بی ایس کون ہے؟ لبنان کے وزیراعظم نے استعفیٰ کیوں دیا؟ اور سعودی عرب میں کیوں دیا؟ محمود عباس ریاض میں کیا کر رہا ہے؟ اور سب سے بڑھ کر جارڈ کشنر کا اس سارے معاملے سے کیا تعلق ہے؟"   


واشنگٹن میں موجود اسرائیلی سفیر رون ڈیمر کا کہنا ہے کہ "وہ بہت پرامید ہیں کیونکے وہ خطے میں تبدیلی دیکھ رہے ہیں." انکا یہ بھی کہنا ہے کہ عرب مملکتیں پچھلے پانچ دس اور پندرہ سال کے مقابلے میں "آج ہمارے مقصد 
کو اپنا مقصد سمجھتی ہیں."


 گزشتہ سے پیوستہ 
لبنانی وزیر اعظم کا استعفیٰ اور جارڈ کشنر کا دورۂ سعودی عرب     

تزئین حسن 

عالمی میڈیا کے مطابق جمعرات کے دن سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور بحرین نے اپنے شہریوں کو فوری طور پر لبنان چھوڑ دینے کی ہدایت کی ہے. اس سے پانچ روز قبل ہفتے کے روز لبنان کی مخلوط حکومت کے وزیر اعظم سعد الحریری نے ایران اور اسکے لبنانی اتحادی حزب الله سے حکومتی معاملات میں غیر معمولی در اندازی کا شکوہ کرتے ہوے ریاض میں اپنے عہدے سے استعفے کا اعلان کیا. اس اعلان کے لئے انھوں نے ریاض کا انتخاب کیوں کیا یہ بات معنی خیز ہے. دلچسپ بات یہ بھی ہے کے انکے اس فیصلے کی تشریح لنبان میں موجود انکی سیاسی حامیوں کے بجائے سعودی وزارت خارجہ کو کرنی پڑ رہی ہے. ادھر لبنانی حکومت انکے اس فیصلے پر انگشت بدنداں ہے کہ ایک دن پہلے تو وہ ایران کے وفد سے خیر سگالی ملاقات کر رہے  تھے. اب اچانک لبنان کے معاملات میں ایران کی مداخلت انکے لئے اتنی تشویشناک کیسے ہو گئی کے انہوں نے اکیلے اکیلے استعفے کا فیصلہ کر لیا. 

ہفتے ہی کی شب یمن کی ہوثی ملیشیا کا ریاض پر بیلسٹک میزائل حملہ بھی خبروں میں ہے. اتوار کی صبح ایرانی اور اسکے اتحادیوں کی جارحیت کے پیش نظر ٹرمپ کا شاہ سلمان سے ٹیلی فونی رابطہ بھی معنی خیز ہے جسکے بعد پیر کی صبح خلیجی افیئرز کے سعودی وزیر کا یہ اعلان بھی کہ ہم سمجھتے ہیں کہ لبنان نے سعودیہ سے اعلان جنگ کر دیا ہے.

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سعودی حکومت استعفیٰ اور میزائل حملے کو نائن الیون کی طرح استمعال کرنے میں سنجیدہ ہے. اگر ایسا ہے تو یہ بڑا بھونڈا نائن الیون ہے. 

حریری کی فریڈم پارٹی کے علاوہ لبنان میں موجود  نائب وزیر اعظم مائیکل عون کا کہنا ہے کہ ہم سعد الحریری کے لبنان واپس آنے کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ مذاکرات کے ذریعے اختلافات کو نمٹایا جا سکے اور انہیں استعفیٰ واپس لینے پر مجبور کیا جا سکے مگر تاحال سعد حریری لاپتہ ہیں.  فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق لبنانی حکومتی عہدے داروں کا کہنا ہے کے انہیں ابھی تک سعد الحریری کی طرف سے استعفیٰ کے کاغذات موصول نہیں ہوے اور اس طرح وہ تاحال اپنے عہدے پر برقرار ہیں. آٹھ روز گزرنے کے بعد جمعہ کے روز حزب الله کے سربراہ نصر الله نے حریری کی واپسی کا مطالبہ بھی کر دیا ہے.   

یہ بھی شک کیا کہا جا رہا ہے کے ان سے یہ استعفیٰ  جبراً لیا گیا ہے. الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق لبنانی حکومتی عہدے داروں کا کہنا ہے کے  سعد الحریری صاحب  سعودی عرب میں نظر بند ہیں یا انھیں گرفتار کر لیا گیا ہے یعنی ہر حال میں انہیں سرکاری مہمان کا درجہ حاصل ہے. واقعات کی ترتیب پر غور کیا جائے تو یہ بات محل نظر نہیں. 

حالیہ واقعات کے حوالے سے فرانسیسی صدر میکرون کا اچانک سعودی دورہ بھی معنی خیز ہے جس میں انھوں نے شہزادہ سلمان کو یمن اور ایران کے حوالے سے ثالثی کی پیشکش کی ہے. ہماری رائے میں ثالثی کی یہ   پیشکش لبنانی  حکومت  کی درخواست پرکی گئی ہے جو یقینی تباہی کے پیش نظر بجا طور پر تشویش زدہ ہے. 

ہفتے اور جمعرات کے درمیان سعودی عرب کے سیاسی اور اقتصادی منظر نامے میں  کچھ اور بھی  طوفان بھی اٹھے جس نے پوری دنیا کے میڈیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے لیکن فی الحال اس مضمون کا مقصد ان پر تبصرہ نہیں ہے.  

عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے جوان سال وزیر خارجہ عادل الجبیری کا کہنا ہے کہ لبنان اور حزب الله کے معاملے میں ہماری پالیسی ہو بہو امریکی پالیسی کی نقل ہے. یہ وہ بات ہے جو ہمارے تجزیہ نگار دبے دبے لفظوں میں کہہ رہے تھے لیکن حقیقت میں بات اس سے کچھ اور زیادہ بڑھ گئی ہے. 

حزب الله لبنان کی بڑی اور فیصلہ کن طاقت کا درجہ حاصل ہے. اگر ہمارے قارئین کو نہ یاد ہو تو یاد دلا  دیں کہ سن ٢٠٠٦ میں لبنان پر اسرائیلی حملے کا مقابلہ حزب الله نے ہی کیا تھا اور کیا خوب کیا تھا کہ اسرائیل کے ایک صحافی یوری ایونری کا کہنا تھا کہ اسرائیل اور حزب الله کے عسکری  وسائل میں زمین آسمان کا  فرق  تھا اور اگر اسکے بعد یہ چونتیس روزہ جو جولائی ٢٠٠٦ سے ١٤ اگست تک جاری رہی  جنگ بغیر کسی  تصفیہ کے ختم ہو گئی تو اسے حزب الله کی فتح اور  اسرائیل کی بہت بڑی شکست قرار دیا جانا چاہیے.  حزب الله اور اسکے ایرانی تعلق کے حوالے سے اسرائیلی دشمنی کسی سے چھپی ہی نہیں. 

جارڈ کشنر کا غیر اعلانیہ دورہ ریاض 
تزئین حسن 

یہ بھی یاد رہے کے حالیہ واقعات سے ایک ہفتہ پہلے ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنر نے ریاض کا غیر اعلانیہ دورہ کیا. یہ اس سال انکا تیسرا سعودی دورہ تھا.  نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر ڈینا پاول اور مشرق وسطیٰ کے خصوصی ایلچی گرین بلیٹ انکے ہمراہ تھے. گرین بلیٹ امریکا واپسی کے بجائے اردن، قاہرہ، اور یروشلم پہنچے جہاں وہ اتوار تک موجود تھے.  

معروف سیاسی جریدے پولیٹیکو Politico کے مطابق کشنر کے اس دورے کے حوالے سے وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کے کشنر مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام کے لئے عرب لیڈروں کو قریب لانا چاہتے ہیں مگر ٹرمپ کے ایک قریبی دوست بلینیر ٹام بارک کا تبصرہ بڑا دلچسپ ہے. انکا کہنا ہے کشنر ہمیشہ سے اسرائیل اور فلسطین کا مسئلہ حل کرنے میں سنجیدہ رہے ہیں اور "اس مسئلے کی چابی مصر کے پاس ہے اور مصر کی اپنی چابی سعودی عرب اور  متحدہ عرب امارت کے پاس." لگتا ہے لبنان پر حملہ کر کے سعودی اپنی چابی سے یہ تالا کھولنے کی کوشش کر رہا ہے.    

اس سلسلے میں رواں سال ستمبر کے مہینے میں شہزادہ سلمان کے دورہ اسرائیل کی خبر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے جسے  فرانسیسی  خبر رساں ایجنسی AFP نے اسرائیلی حکّام سے تصدیق کے بعد شائع کیا گو سعودی حکومت نے اسکی تردید کی ہے. خطے کے نئے ممکنہ منظر نامہ کے پلان میں اسرائیل کے کردار کو نذر انداز نہیں کیا جا سکتا.  
   
اس سے قبل ٹرمپ کے سعودی دورۂ کے موقع پر اسلامی نیٹو کا قیام بھی ذہن میں رہے جسکے مقاصد پر ہم جون کے آغاز میں تبصرہ کر چکے ہیں جبکہ ہمارے کچھ صحافتی شعبدہ بازوں کے مطابق سعودی حکومت نے بہت مہارت کے ساتھ ٹرمپ نامی جن کو قابو کر لیا تھا. ایسی ہی ایک فوج پچاس کے عشرے میں اسلامی دنیا کو کمیونسٹ خطرے سے بچانے اور طاقتور نیشنلسٹ لیڈروں کو قابو کرنے کے لئے بغداد پیکٹ کے نام سے بھی بنوائی گئی جو بعد ازان سینٹو کہلائ. عراق میں برطانیہ نواز حکومت کا تختہ الٹنے اور پھر ایرانی انقلاب کے بعد ١٩٧٩ میں اسے تحلیل کر دیا گیا.

لگتا ہے  نیو کون NEO CONSERVATIVE ایجنڈا افغانستان اورعراق، شام اور لیبیا کے بعد ایک مرتبہ پھر دنیا میں تباہی کے در پر ہے مگر تشویش کی بات یہ کہ اس مرتبہ یہ واشنگٹن سے نہیں ریاض  سے آپریٹ ہو رہا ہے. پہلے امریکی خفیہ اداروں میں موجود اسرائیل کے نمائندے،جنگ اور مشرق وسطیٰ کی تباہی کے شائق neo conservatives یہ کام واشنگٹن کے لیڈران کو راضی  کر کے کروایا کرتے تھے. آج وہ ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنر کی صورت ریاض کو براہ راست کنٹرول کرتے ہیں. اور اس مقام پر وہ صرف سعودی شاہی خاندان میں اقتدار کی جنگ برپا کروا کر شاہی خاندان اور وہابی علماء پر مشتمل ایک consensus based حکومتی نظام ختم کر کے پہنچے ہیں.  گو ایران اور اخوان المسلمون کا ہوا کھڑا کر کے سعودی حکومت کو ڈرانے اور اسلحہ فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ  خطے میں اہم رول دلوانے کا کام  بہت عرصے سے آہستہ آہستہ جاری تھا مگر جس سطح کی کامیابیاں آج حاصل کی جا رہی ہیں آج سے چار پانچ سال پہلے انکا تصور بھی محال تھا. 

اور مستقبل کے اقتدار کی یہ اتھل پتھل شاہ سلمان کے اقتدار میں آتے ہی شروع ہو گئی تھی جب شہزادہ مقرن کو ہٹا کر ایک مغربی ڈارلنگ شہزادہ نائف کو ولی عہدی پر بٹھایا گیا. اس وقت شہزادہ محمد بن سلمان کی نائب ولی عہدی شاہ سلمان کو اس فیصلے پر راضی کرنے کے لئے ایک رشوت سے زیادہ نہیں تھی.  مگر ایم بی ایس کی اصل کامیابی وائٹ ہاؤس کو یہ یقین دلانا تھا کہ وہ شہزادہ نائف سے بہتر طور پر آقاؤں کی خدمت کر سکتے ہیں.
  
سعودی حکومت پہلے ہی یمن کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے. ایسے میں لبنان پر حملہ اپنی قبر خود کھودنے کے مترادف ہو گا. عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ہونے سے زیادہ یمن کی جنگ اور شامی بغاوت کی حمایت سعودی معیشت کو نقصان پہنچا رہی ہے. ہمارے نزدیک علماء، اور اب طاقتور شہزادوں اور بزنس ٹایکونز  کی گرفتاری سعودی حکومت کے لئے سیاسی اوراقتصادی خود کشی ہے مگر مملکت کے مستقبل کے مالک شہزادہ سلمان اقتدار کی ہوس میں دائیں بائیں دیکھ بغیر آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں.    

مشرق وسطیٰ کے مستقبل پر دور رس اثرات مرتب کرنے والے اس کھیل میں فلسطینی اتھارٹی کے لیڈر محمود عباس کا کردار بھی معنی خیز ہے.جیوش نیوز ایجنسی کے ایک مضمون کے مطابق اسرائیل کے ایک مبصر نمرود نووک کا کہنا ہے کہ محمود عباس کی ریاض طلبی ایک اور مثبت اشارہ ہے جو کشنر دورے کے بعد عمل میں آیا. ٹرمپ انتظامیہ چاہتی ہے کہ محمود عباس غزہ کا انتظام بھی سنبھال لیں. ممکنہ طور پر سعودی عرب بھی لبنان پر حملے کی صورت میں فلسطین کی کسی مداخلت کی طرف سے بےفکر ہونا چاہتا ہے. 

جیوش نیوز ایجنسی کے ایک حالیہ مضمون نے بہت دلچسپ سوالات اٹھائے، "ایم بی ایس کون ہے؟ لبنان کے وزیراعظم نے استعفیٰ کیوں دیا؟ اور سعودی عرب میں کیوں دیا؟ محمود عباس ریاض میں کیا کر رہا ہے؟ اور سب سے بڑھ کر جارڈ کشنر کا اس سارے معاملے سے کیا تعلق ہے؟"   

واشنگٹن میں موجود اسرائیلی سفیر رون ڈیمر کا کہنا ہے کہ "وہ بہت پرامید ہیں کیونکے وہ خطے میں تبدیلی دیکھ رہے ہیں." انکا یہ بھی کہنا ہے کہ عرب مملکتیں پچھلے پانچ دس اور پندرہ سال کے مقابلے میں "آج ہمارے مقصد کو اپنا مقصد سمجھتی ہیں."

No comments:

Post a Comment