Saturday, September 16, 2017

اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں




میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوے جس کے سبب 
اسی عطار کے لونڈے سے دوا  لیتے ہیں        
       
تزئین حسن 
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اعداد و شمار کے مطابق ان سطور کی قلمبندی کے وقت تک  چار لاکھ  روہنگیا مسلمان اپنے گھروں کو چھوڑ کر ہجرت کی سنت کی تجدید کر چکے ہیں اور انکی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے.  25  اگست 2017 کو برمی ملٹری اور انتہاپسند قوم پرستوں کی بہیمانہ کاروایوں کے آغاز سے ہی سوشل میڈیا پر برما کے بارے پوسٹس کا سیلاب آیا ہوا ہے. تصاویر اور وڈیوز ایسی ہیں کہ شقی القلب سے شقی القلب انسان بھی متاثر ہوے بغیر نہیں رہ سکتا. ایسے میں مسلمان دعائیں بھی کر رہے ہیں اور نوبل پیس پرائز کمیٹی سے برما کی خاتون رہنما آنگ سانگ سوچی سے نوبل پرائز کی واپسی کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے. کینیڈا کی حکومت سے مطالبہ ہے کہ سوچی کی اعزازی شہریت معطل کر دی جائے. اقوام متحدہ، برطانوی اور امریکی حکومتوں سے بھی مطالبات ہو رہے ہیں.  

سوال یہ ہے کہ اس بحران کا دیرینہ پائدار اور ٹھوس حل کیا ہے؟ روہنگیا مسئلے کا ٹھوس حل؟ آنگ سانگ سوچی سے نوبل پرائز واپس لے لینا یا ان stateless لوگوں کو انکی سرزمین پر علیحدہ وطن دینا جیسے ایسٹ تیمور اور جنوبی سوڈان میں کیا گیا.


اگر برما میں روہنگیا کی واقعی Ethnic Cleansing یا Genocide ہو رہی ہے تو عالمی اداروں، مسلم دنیا اور بینالاقوامی میڈیا کا کیا کردار ہونا چاہئے؟ کیا آنگ سنگ سوچی سے نوبل پرائز اور کینیڈا کی شہریت کی واپسی کا مطالبہ، سوشل میڈیا پر پوسٹس کا تبادلۂ، اور اس سے بڑھ کر جلسے اور ریلیاں منعقد کر کے انکے لئے کچھ فنڈ اکٹھے کر لینا کافی ہے؟ یا اقوام متحدہ سے ہمارے مطالبات زیادہ حقیقت پسندانہ اور نتیجہ خیز ہونے چاہییں؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس بحران کا جس نے انسانیت کو شرما دینے والے المیہ کو جنم دیا ہے، ٹھوس اور دیرپا حل کیا ہے؟

سوچی خود ٢٠١٢ سے متعدد انٹرویوز میں ڈھٹائی کے ساتھ ارکان کے مسلمانوں  پر کسی قسم کے تشدد پر اپنی لا علمی کا اظہار کرتی رہی ہیں. انکا یہ بھی کہنا ہے کہ برما ابھی ڈکٹیٹر شپ سے جمہوریت کے سفر کے بیچ راستے میں ہے اور اسکے بہت سے مسائل ہیں جن میں ارکان کا مسئلہ حکومت کی  ترجیح نہیں بن سکتا. عالمی برادری کو ہمارے اندرونی مسئلے کو ہماری صوابدید پر چھوڑ دینا چاہیے. بعض سادہ لوح مسلمانوں کا اب بھی یہ خیال ہے کے وہ خود تو امن کی بہت بڑی حامی ہے مگر برمی ملٹری کی وجہ سے کچھ نہیں کر پا رہیں. 

ہم مسلمانوں کا حال وہ ہے کہ 

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوے جس کے سبب 
اسی عطار کے لونڈے سے دوا  لیتے ہیں        

پچھلی کئی دہایوں سے مغربی میڈیا، اقوام متحدہ، یورپین یونین اور انسانی حقوق کی تنظیمیں آنگ سانگ سوچی کا امیج انسانی حقوق اور جمہوریت کے چمپین کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں. یہ جاننے کے باوجود کے برما میں اسکے اقتدار کے لئے جدو جہد کرنے والے بدھ بھکشو کھلے عام اقلیتوں اور خصوصاً مسلمانوں سے اپنی نفرت کا اظہار کرتے رہے ہیں اور انکے خلاف تشدد کو  بھڑکاتے رہے ہیں. 

اس کے علاوہ انٹرنیشنل میڈیا اپنے قاری کو اس تاریخی حقیقت سے آگاہ کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کر رہا کہ موجودہ برمی ملٹری جومتعدد رپورٹس اور سٹیلائیٹ امیجری کے مطابق  روہنگیا مسلمانوں کے گاؤں کو ہیلی کاپٹر اور اسپیشل کیمیکلز کی مدد سے آگ لگا رہی ہے اور جس نے بدھ نیشنلسٹ اور انتہا پسندوں کو زمین پر مسلمانوں کے خلاف مسلح کر رکھا ہے، یہ وہی فوج ہے جس  کی بنیاد آنگ سانگ سوچی کے باپ نے دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی سرپرستی میں رکھی. اور یہ وہی نسل پرستی پر مبنی نظریہ ہے جسکا پرچار وہ اپنی زندگی میں کرتا رہا. اب اس عطار کی بیٹی سے ہم بو کے ادھورے مشن کی تکمیل کے علاوہ کیا توقع رکھ  سکتے ہیں؟ 

جاپانیوں نے انگریز کے خلاف برمی ملیشیا کو مسلح کیا تو اس ملیشیا نے پہلا کام مرکزی برما میں ہبدو ستانی  اقلیتوں پر حملوں سے کیا جس کے متاثرین میں ہندو، عیسائی اور مسلمان سب بلا امتیاز شامل تھے. اراکان کی تاریخ پر تحقیق کرنے والے ایک فرنچ اسکالر کا جیکوئس لیڈر کا کہنا ہے کہ اراکان کے علاقے میں حالات شروع میں نارمل تھے مگر جب سوچی کے باپ کی منظم کردہ ملیشیا کے افراد 1942 میں اراکان پہنچے اور انھوں نے انگریز کا ساتھ دینے والے مسلمانوں اور ہندو ستانیوں کے خلاف نفرت انگیز تقریریں کی تو اسکے نتیجے میں پہلی مرتبہ اقلیتوں کے خلاف اراکان میں تشدد کی شدید لہر اٹھی. 

فرنچ اسکالر جیکویس لیڈر کا کہنا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران ہندوستانی اقلیتوں پر برمی نشنلسٹ ملیشیا پر حملوں کی وجہ سے پانچ لاکھ ہندوستانی نژاد افراد کو ہندوستان نقل مکانی کرنا پڑی. بظاہر انکا جرم یہ تھا کے وہ جاپانیوں کے مقابلے میں انگریز کا ساتھ دے رہے ہیں. 

لیکن یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کے جیسے ہی جاپان نے ایٹمی حملے کے بعد ہتھیار ڈالے، سوچی کے باپ  نے اپنی وفاداریاں تبدیل کر لیں اور انگریز کے قدموں میں جا بیٹھا. برمی عوام اسے آزاد برما کا بانی سمجھتے ہیں اور آج بھی اسکا احترام کیا جاتا ہے. یہ بات بھی یاد رہے کہ سوچی کے سیاسی کیرئیر میں انکا سب سے بڑا credential انکا انگ سانگ کی بیٹی ہونا ہے جو بھٹو کی طرح آج بھی زندہ ہے.

تھائی لینڈ کے ایک اخبار New Eastern Outlook کے مطابق برما کی سیاست پر سطحی نظر رکھنے والا بھی جان سکتا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ آج جو کچھ بھی ہو رہا وہ وہ نہ صرف predictable یعنی قآبل پیشنگوئی تھا بلکہ آنگ سانگ سوچی کے اقتدار میں آنے کے بعد ناگزیر تھا.      

اور ہو بہو یہی  ہوا،برما کے ایک بدھسٹ روہنگیا ایکٹوسٹ کا کہنا ہے کہ روہنگیا کے خلاف نسل کشی کی سرکاری پالیسیز 1978 سے جاری ہیں یعنی انہیں چالیس سال ہو چکے ہیں مگر ہم سب جانتے ہیں کہ ملٹری اقتدار کے مقابلے میں 2011 میں برما میں جمہوریت بحال ہونے کے بعد روہنگیا کے خلاف تشدد  میں کئی گناہ اضافہ ہوا ہے اور اسکی وجہ ظاہر ہے. سوچی کو اقتدار میں لانے والے جس saffron Clan بدھ بھکشوؤں کو مغرب جمہوریت اور امن کے پجاریوں کے طور پر پروموٹ کرتا رہا وہ کھلم کھلا اقلیتوں کے خلاف اپنے تعصب اور نفرت کا اظہار کرتے رہے تھے اور آج وہی مسلمانوں کے خلاف تشدد میں ہراول دستہ ہیں. 

یہی نہیں برما کے سرکاری میڈیا کو جو دنیا بھر میں روہنگیا کاز کی مخالفت کر رہا ہے، ان مظلوم و مجبور انسانوں کو دہشت گرد اور انتہا پسند ثابت کر رہا ہے اسکی تربیت بھی امریکی اور یوروپی اداروں نے بھاری فنڈنگ سے کی ہے.   

برما کی حکومت کو یہ اطمینان ہے کے جس ہولوکوسٹ کو انھوں نے پورے اطمینان سے عالمی اداروں کی ناک کے نیچے جاری رکھا ہوا هے کوئی امریکی یا مسلم نیٹو جو افواج اس ہولوکوسٹ کو روکنے کے لئے برما کی سر زمین پر نہیں اتریں گی.  اسکے جرائم کے خلاف کبھی نیورمبرگ ٹرائل نہیں ہو گا. 

مگر ہمارا حال یہ ہے کہ ہم انہی اداروں سے درخواستیں کر رہے ہیں کے آنگ سانگ سوچی ہی اس قتل عام  کو روک سکتی ہے. ارے کوئی ہے جو اس سے معصوم عورت سے نوبل پیس پرائز واپس لے لے؟ جیسے نوبل پیس پرائز واپس لینے سے روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے ختم ہو جائیں گے. انکا قتل عام بند ہو جائے گا. وہ اپنے گھروں کو پلٹ جائیں گے اور اطمینان سے زندگی گزارنا شروع کر دین گے.

یہ بھی میڈیا ہی کی کمپینز ہیں جو ہمیں  اس بحران کے اصلی حل کی طرف نظر نہین ڈالنے دے رہی. ہمارے ذہن اتنے مفلوج ہیں کہ ہم آنکھیں بند کر کے سوشل میڈیا پوسٹس اور پٹیشنز کے پیچھے بھاگے جا رہے ہیں.

کسی کو یہ نظر نہیں آ رہا کہ اسکا حل صرف اور صرف اراکان کے لوگوں کے لئے ایک الگ ملک کا قیام ہے کیونکے برما کی آزادی کے ستر سال میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ارکان کے مسلمان اور بدھ مذھب کے ماننے والے ایک ساتھ نہیں رہ سکتے.  اس مسئلے کا حل ایسٹ تیمور، بوسنیا اور کوسووو کی طرح روہنگیا کو ایک علیحدہ ملک دینا ہے. اسکے علاوہ نیورمبرگ ٹرائل کی طرح برمی حکومت اور ملٹری کو عدالت میں لانا بھی ہے کہ انکو انسانیت کے خلاف انکے جرائم کی سزا مل سکے. اس وقت اگر کسی بھی ذریعے یہ اسٹیٹ سپانسرڈ قتل عام بند بھی کروا دیا جائے جسکا کوئی امکان نظر نہیں آتا تو اس بات کی کیا گارنٹی  ہے کے مستقبل قریب یا بعید میں یہ دوبارہ شروع نہیں ہو گا.  یاد رہے یہ عام قتل عام نہیں بلکے Ethnic Cleansing  اور متعدد اسٹڈیز کے مطابق Genocide ہے. کیا انسانی حقوق کی چمپین بن الاقوامی برادری کو یہ نظر نہیں آتا کے اسکے سوا چار دہایوں سے جاری اس ظلم و ستم کا کوئی علاج نہیں.    

ہم اس عطار کے بیٹی سے اور کیا توقع کر سکتے ہیں. روہنگیا مسلمانوں پر بہیمانہ ظلم و ستم اسکے باوجود نہیں ہو رہا کے ایک امن کا نوبل پیس پرائز لینے والی وہاں ایک سیاسی طاقت کے طور پر موجود ہے بلکہ اسی کی وجہ سے ہو رہا ہے. اور آج ہم انہی اداروں سےکسی اقدام کی بھیک مانگ رہے ہیں. اور بھیک بھی کیا؟؟؟ ہمیں تو اس بات کا سلیقہ بھی نہیں کے مانگیں تو کیا مانگیں؟ کے اس سے نوبل پرائز واپس لے لو. کینیڈا کی شہریت واپس لے لو. کوئی اقوام متحدہ سے یہ مطالبہ نہیں کر رہا کہ ایسٹ تیمور کی طرح ایک الگ وطن انکا حق ہے کہ یہ مظلوم اور مجبور لوگ نصف صدی کے بعد سکون  سے زندگی گزار سکیں. سعودیہ اور پاکستان جیسے امریکا کے پٹھو اسلامی ملکوں کا تو حال ہی کیا، مسلم ممالک کے سرگرم مسلمانوں کے حقوق کی چمپین جماعت اسلامی کی طرف سے بھی ایسا کوئی بیان میری نظر سے نہیں گزرا. نہ اردگان ملیشیا بنگلادیش اور دیگر کسی آزاد ملک کی طرف سے یہ بات سامنے آئ. اس سے کم پر بیان بازی صرف زبانی جمع خرچ ہے اور اسکے سوا کچھ نہیں. 

پاکستان زندہ باد 

خادمین حرمین شریفین زندہ باد (جاری ہے)

No comments:

Post a Comment