تزئین حسن
اکیلی ماں کے ساتھ پلنے والے بچے، انکی مائیں، حکومت اور ٹیکس دینے والا سب مسائل کا شکار
تزئین حسن ایکسپریس پروفائل کا لنک
بتیس سالہ کیرولین اکہرے بدن کی انتہائی محنتی غیر شادی شدہ عورت ہے. وہ کینیڈا کے شہر ایڈمنٹن کی باسی اور دس، چھ، اور دو سالہ تین انتہائی خوبصورت بچوں کی ماں ہے. اسکا کہنا ہے کہ اسکے تینوں بچوں کے باپ مختلف ہیں. مغربی ممالک میں غیر شادی شدہ جوڑوں کا ایک ساتھ رہنا قانوناً جائز ہیں اور ایسے بچوں کو بھی قانونی حیثیت حاصل ہے جو ان تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہوں. ایسے بچوں کی ذمہ داری انکے حقیقی ماں باپ پر بھی عائد ہوتی ہے اور ریاست بھی انہیں اپنی ذمہ داری تصور کرتی ہے. کیرولین کا ایک بیٹا اپنے باپ اور دادا دادی کے ساتھ رہتا ہے اور دو بچے اسکے ساتھ. وہ اپنے بچوں پر فخر کرتی ہے اور انکا بہت خیال رکھتی ہے لیکن جن تعلقات کے نتیجے میں وہ پیدا ہوئے ان کو وہ ایسی غلطی قرار دیتی ہے جس نے اس کی ساری زندگی کو خراب کر دیا.
2017 میں شائع ہونے والی ییل یونیورسٹی کی ایک تحقیقاتی رپورٹ
Out-of-Wedlock Births Rise Worldwide
کے مطابق دنیا کے کچھ خطوں میں بغیر شادی کے پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد کل بچوں کے 70 فیصد تک پہنچ گئی ہے. امریکا میں یہ تعداد 40 فیصد جبکہ شمالی یورپ کے ممالک میں یہ شرح 70 فیصد تک چلی گئی ہے. پچھلے پچاس سال میں بنا شادی بچوں کی پیدائش میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ سنگل مدرز یعنی اکیلی ماؤں کی تعداد میں بھی. تفصیلات کے مطابق ساری دنیا میں اکیلی ماؤں کے ساتھ پلنے والے بچوں کی تعداد کل بچوں کی تعداد کے 25 سے 33 فیصد تک پہنچ گئی ہے. اسکی وجوہات میں ترقی یافتہ ممالک میں خاندانی نظام کا ختم ہونا اور مخالف جنس کے لوگوں کا آزادانہ میل جول، حکومت کا ایسے بچوں کو قانونی حیثیت دینا اور پالنے والے والدین کو مالی مدد فراہم کرنا سر فہرست ہیں.
بروکنگ انسٹیٹیوٹ کی ایک رپورٹ
What Can Be Done to Reduce Teen Pregnancy and Out-of-Wedlock Births?
کے مطابق اس سارے معاملے کا ایک تشویشناک پہلو یہ بھی ہے کہ اب ایسی کم عمر ماؤں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو ہائی اسکول کے دوران ہی ماں بن جاتی ہیں. ایسے واقعات بھی اب غیر معمولی نہیں رہ گئے ہیں جن میں بچیاں دس گیارہ سال کی عمر میں اپنے پہلے بچے کو جنم دیتی ہیں. ایسا اسکے باوجود ہے کہ اسکولوں میں ابتدائی کلاسوں سے بچوں کو جنسی تعلیم دی جاتی ہے اور برتھ کنٹرولز کے استعمال کا طریقہ بھی بتایا جاتا ہے. گو اسٹیٹ اور ملکی قانون ان بچوں کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر ایسی اکیلی ماؤں کو مالی امداد دیتا ہے مگر ان میں سے بیشتر مائیں اپنی پڑھائی جاری نہیں رکھ سکتیں اور انکی جوانی کا بڑا حصہ اپنے بچوں کی نگہداشت میں گزر جاتا ہے. کیرولین بھی اپنا ہائی سکول مکمل نہیں کر سکی. گو کبھی کبھی باپ بھی شادی کے بندھن سے باہر پیدا ہونے والے کی بچے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے مگر انکی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے. بروکنگ کی رپورٹ کے مطابق اکیلے والدین single parents کی 84 فیصد تعداد عورتوں جبکہ 16 فیصد تعداد مردوں پر مشتمل ہے.
2016 میں شائع ہونے والی جان ہاپکنز یونیورسٹی کی ایک ریسرچ
کے مطابق امریکا میں چونسٹھ فیصد عورتیں کم از کم ایک ایسے بچے کی ماں ضرور ہیں جو شادی کے بندھن سے باہر (آوٹ آف ویڈ لاک ) پیدا ہوتا ہے. غریب یا کم آمدنی والے علاقوں میں ان غیر شادی شدہ ماؤں کی تعداد 74 فیصد تک جا پہنچتی ہے. 2007 کی ایک اور تحقیق کے مطابق پہلی دفعہ ماں بننے والی 66 فیصد سفید فام، 96 فیصد سیاہ فام اور 76 فیصد میکسیکن خواتین غیر شادی شدہ ہوتی ہیں. مغربی قانون کے علاوہ معاشرتی طور پربھی اب اسے کوئی برائی تصور نہیں کیا جاتا. لیکن کیرولین کا کہنا ہے کہ ایسی ماؤں کا کیرئیر پہلی دفعہ حاملہ ہونے کے بعد تباہ ہو جاتا ہے.
ییل رپورٹ (2017) کے مطابق بنا شادی کے پیدائش کی کم ترین شرح ان ملکوں میں ہے جہاں ایسے بچے پیدا کرنے والے ماں اور باپ کو رسوائی کا سامنا ہوتا ہے اور خود بچے کو معاشرہ قبول نہیں کرتا اور انہیں کلنک کا ٹیکا گردانتا ہے. انڈیا، چین، افریقہ میں ایسے بچوں کی تعداد کل بچوں کے ایک فیصد سے بھی کم ہے.
اس معاملے میں ملکی قانون بھی اپنا ایک واضح کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ جن ممالک میں ایسے تعلقات قانوناً جائز ہیں وہاں بنا شادی پیدائش کی شرح بہت زیادہ ہے. لاطینی امریکا کے بیشتر ممالک میں ایسے بچوں کی تعداد کل بچوں کے ساٹھ فیصد تک پہنچ گئی ہے مگر اس معاملے میں سب سے زیادہ براحال شمالی یورپ کے ممالک سویڈن، ڈنمارک، ناروے اور فن لینڈ کا ہے جہاں شادی کے بنا پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد ٧٠ فیصد تک پہنچ گئی ہے. امریکا میں یہ تعداد چالیس فیصد ہے.
ییل رپورٹ (2017) کے مطابق ایک ہی ملک میں مختلف نسلی گروہوں میں اس شرح میں فرق بھی دیکھنے میں آیا. امریکی سیاہ فاموں میں بنا شادی پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد 71 فیصد جبکہ امریکہ کی لاطینی آبادی میں یہ شرح 53 فیصد اور سفید فاموں میں یہ شرح29 فیصد ہے. یہ بھی یاد رہے کے آج سے پچاس سال پہلے امریکا میں یہ شرح کل سات فیصد تھی اور اب تقریباً 40 فیصد ہے.
کیا مغربی معاشرہ ہمیشہ سے ایسا تھا؟
بروکنگ کی رپورٹ کے مطابق بنا شادی کے پیدائش کی شرح میں اضافہ پچھلے پچاس سال میں دیکھنے میں آیا ہے. مثلاً 1964 میں OECD ارگنائزیشن آف اکنامک اینڈ کوآپریٹیو ڈویلپمنٹ میں شامل بیشتر ممالک میں بنا شادی بچوں کی تعداد کل بچوں کے دس فیصد سے زیادہ نہیں ہوتی تھی جبکے 2014 کے اعداد و شمار کے مطابق ان ممالک میں صرف یونان، ترکی، اسرائیل، ساؤتھ افریقہ، اور جاپان ایسے ملک ہیں جہاں یہ شرح دس فیصد سے کم ہے. یاد رہی OECD میں 35 ممالک شامل ہیں اور یہ بلند ترین جی ڈی پی کے حامل ممالک ہیں جن میں شمالی امریکا، شمالی اورمغربی یورپ اور آسٹریلیا، کے براعظم کے علاوہ ساؤتھ کوریا، اسرائیل، ترکی اورجاپان بھی شامل ہیں.
ایک اور دلچسپ بات یہ کہ اسٹیٹ چونکہ ان بچوں کو اپنی ذمہ داری تصور کرتی ہے اور معاشرے میں اسے برا نہیں سمجھا جاتا اس لئے بھی انکی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے. اعداد و شمار سے یہ بھی ثابت ہے کہ اس رحجان میں اس وقت سے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جب سے اسٹیٹ نے یہ ذمہ داری قبول کی ہے.
بنا شادی کے پیدا ہونے والے بچے کیسے پلتے ہیں؟
ایسے زیادہ تر بچے سنگل والدین کے ساتھ پلتے ہیں، کچھ فوسٹر ہوم یعنی اڈوپٹڈ والدین کے ساتھ اور کچھ اپنے حیاتیاتی یعنی اصلی ماں باپ کے ساتھ پلتے ہیں جو بعض سورتوں میں شادی کے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں. بعض ماں باپ بچہ ہونے کے بعد شادی بھی کر لیتے ہیں مگر انکا تناسبب بھے کم رہ گیا ہے. قارئین کو یاد دلا دیں کہ عمران خان کی پہلی شریک حیات جمائما خان کے والدین نے انکی پیدائش کے چار سال بعد شادی کی. کیرولین کا کہنا ہے کہ وہ کبھی اپنے بچوں کے لئے فوسٹر پرنٹس یعنی اڈوپٹڈ پرنٹس کا انتخاب نہیں کرے گی کیونکے عام طور سے ایسے بچے مختلف قسم کے برے حالات کا شکار ہو جاتے ہیں.
یہ بھی یاد رہے کے سنگل پیرنٹ کا تصور صرف بنا شادی کی پیدائش سے وابستہ نہیں بلکہ کبھی کبھی ماں یا باپ کی موت یا طلاق اور علیحدگی کی وجہ سے بھی بچے والدین میں سے کسی ایک کے ساتھ پلتے ہیں. جوزف چیمی کے ہی ایک اور مضمون کے مطابق دنیا بھر کے 3.2 بلین بچوں میں 320 ملیں اکیلے والدین کے ساتھ پلتے ہیں.
عورتیں خود کیوں بنا شادی بچوں کا انتخاب کرتی ہیں؟
یہ بھی یاد رہے کے ترقی یافتہ ممالک میں بعض اوقات خواتین خود اکیلی ماں بننے کو ترجیح دیتی ہیں. اس معاملے میں آرٹیفیشل insemination یا ٹیسٹ ٹیوب وغیرہ سے بغیر کسی جنسی ملاپ کے بھی بچہ پیدا کیا جا سکتا ہے. اس انتخاب کی وجہ عموماً یہ ہوتی ہے کہ معاشرے میں بنا شادی جنسی تعلق عام ہونے کے با عث مرد شادی شدہ زندگی کی ذمہ داریاں اٹھانے میں دلچسپی نہیں رکھتے. جان ہاپکنز رپورٹ 2016 کے مطابق بعض عورتیں جن میں اکثریت سیاہ فام عورتوں کی ہے خود بنا شادی بچے چاہتی ہیں. ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آزادانہ اختلاط کے اس معاشرے میں عورتیں مرد کے مقابلے میں اولاد کو زیادہ قابل بھروسہ خیال کرتی ہیں. مگر کیرولین کا کہنا ہے کہ اسکے ابورشن نہ کروانے کی وجہ اسکا عیسائی مذھبی فرقہ ہے جس میں ابورشن حرام ہے.
ان بچوں کی زندگی اور مستقبل عام بچوں سے کس طرح مختلف ہوتا ہے؟
بروکنگز رپورٹ کے مطابق دوسرے بچوں کے مقابلے میں بنا شادی پیدا ہونے والے اکیلی ماؤں کے بچے: پیدائش کے وقت کم وزن پیدا ہونے، بعد کی زندگی میں جسمانی اور نفسیاتی صحت کے مسائل کا شکار ہونے، اسکولوں میں اچھا پرفارم نہ کرنے، اپنے والدین کی طرف سے نظر انداز ہونے، دوسروں کی زیادتیوں کا شکار ہونے، بڑے ہو کر خود مجرم بننے کے امکانات کا زیادہ شکارہوتے ہیں.
ماں پر یا سنگل پیرنٹ پر اسکے کیا اثرات ہوتے ہیں؟
بچے کے علاوہ بچے کی ماں کی زندگی پر بھی اسکے بہت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں. انکے اسکول سے ڈراپ آوٹ ہونے کے امکانات دوسروں سے زیادہ ہوتے ہیں. اسکے علاوہ ایسی مائیں عام طور سے اپنا کیرئیر نہیں بنا پاتیں اور اپنے آپ کو مالی طور پر سپورٹ نہیں کر سکتیں. پانچ میں سے صرف ایک خاتون کو بچے کے باپ سے مالی مدد ملتی ہے. کیرولین نے اپنے بچوں کے باپوں پر مقدمہ کر رکھا ہے مگر اسکا کہنا ہے کہ ان سے پیسے نکلوانا آسان کم نہیں ہوتا. نتیجتاً ایسی عورتیں حکومت کی ویلفیئر اسکیم سے امداد حاصل کرتی ہیں اور طویل عرصے تک کرتی رہتی ہیں.
ملک کی باقی آبادی کس طرح متاثر ہوتی ہے؟اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسے بچے ٹیکس دینے والے پر ایک بوجھ ہوتے ہیں. پرنسٹن یونیورسٹی کے میتھمٹکا پالیسی ریسرچ سنٹر کی تحقیق کے مطابق کم عمر غیر شادی شدہ مائیں اور انکے بچوں پر حکومت ہر سال امریکی ٹیکس دینے والوں کا سات بلین ڈالر خرچ کرتی ہے. اور اسی لئے اس رحجان کو کم کرنے کے لئے مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے.
امریکا کے برعکس کینیڈا کی حکومت ہر بچے کو ماہانہ وظیفہ دیتی ہے. کیرولین کے ایک بچے کا باپ بھی عدالتی فیصلے کے مطابق بچے کو وظیفہ دینے پر مجبور ہے. کیرولین کا کہنا ہے اسے پیسے کا کوئی خاص مسئلہ نہیں. وہ ہر تھوڑے دن بعد بوائے فرینڈ بھی بدلتی ہے. اس کا کہنا ہے "وہ شادی کرنا چاہتی ہے مگر اسے معلوم ہے کہ ایسا کبھی بھی نہیں ہو گا کیونکہ ان سب مردوں کو صرف اسکے جسم سے دلچسپی ہے."
آخراس مسئلے کا حل کیا ہو؟
بروکنگ انسٹیٹیوٹ کی مذکورہ تحقیق امریکی حکومت کو متعدد تجاویز دیتی ہے. اس میں سے ایک تجویز یہ بھی ہے کے بچوں کو اسکول کی سطح پر شادی سے پہلے جنسی تعلقات کے نقصانات سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ کم از کم شادی تک بچے پیدا ہونے سے رک سکیں. امریکی معاشرے میں بنا شادی جنسی تعلق کو روکنے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے اس لئے ایسی کسی تجویز پر عمل درامد کے امکانات سفر سے بھی کم ہیں.
صورتحال یہ کہ ایک طرف کم عمر مائیں ہیں جو اپنے بچوں کو اکیلے پال رہی ہیں دوسری طرف مغرب کے بیشتر ممالک آبادی کے بحران کا شکار ہیں. خصوصاً ترقی یافتہ ممالک میں آبادی میں اضافے کی شرح بہت تیزی سے کم ہو رہی ہے اور اس حد تک کم ہو رہی ہے کہ بہت سے ممالک اپنی صنعتی ضروریات پوری کرنے کے لئے تیسری دنیا کے پناہ گزینوں کے لئے اپنے دروازے کھولنے پر مجبور ہیں. مغرب کے بعض تھنک ٹینکس آبادی میں کمی کی وجہ شادی کے رحجان میں کمی، طلاقوں کی زیادتی، شادی سے قبل جوڑوں کا ساتھ رہنا، ہم جنس جوڑوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینا بتاتے ہیں. یہ سماجی رحجانات محض سماجی تبدیلیوں کا ہی با عث نہیں بن رہے بلکہ فی لوقت مغرب کی سیاست اس وقت مہاجرین کے گرد گھوم رہی ہے اور گزشتہ کئی دھائیوں تک گلوبلائزیشن کی کامیاب کوششوں کے بعد مغربی معاشرہ دوبارہ قومیت اور نسل پرستی کی طرف بڑھ رہا ہے.
ایسے میں اقبال کا وہ شعر یادآتا ہے
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خود کشی کرے گی
ییل رپورٹ (2017) کے مطابق بنا شادی کے پیدائش کی کم ترین شرح ان ملکوں میں ہے جہاں ایسے بچے پیدا کرنے والے ماں اور باپ کو رسوائی کا سامنا ہوتا ہے اور خود بچے کو معاشرہ قبول نہیں کرتا اور انہیں کلنک کا ٹیکا گردانتا ہے. انڈیا، چین، افریقہ میں ایسے بچوں کی تعداد کل بچوں کے ایک فیصد سے بھی کم ہے.
اس معاملے میں ملکی قانون بھی اپنا ایک واضح کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ جن ممالک میں ایسے تعلقات قانوناً جائز ہیں وہاں بنا شادی پیدائش کی شرح بہت زیادہ ہے. لاطینی امریکا کے بیشتر ممالک میں ایسے بچوں کی تعداد کل بچوں کے ساٹھ فیصد تک پہنچ گئی ہے مگر اس معاملے میں سب سے زیادہ براحال شمالی یورپ کے ممالک سویڈن، ڈنمارک، ناروے اور فن لینڈ کا ہے جہاں شادی کے بنا پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد ٧٠ فیصد تک پہنچ گئی ہے. امریکا میں یہ تعداد چالیس فیصد ہے.
ییل رپورٹ (2017) کے مطابق ایک ہی ملک میں مختلف نسلی گروہوں میں اس شرح میں فرق بھی دیکھنے میں آیا. امریکی سیاہ فاموں میں بنا شادی پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد 71 فیصد جبکہ امریکہ کی لاطینی آبادی میں یہ شرح 53 فیصد اور سفید فاموں میں یہ شرح29 فیصد ہے. یہ بھی یاد رہے کے آج سے پچاس سال پہلے امریکا میں یہ شرح کل سات فیصد تھی اور اب تقریباً 40 فیصد ہے.
کیا مغربی معاشرہ ہمیشہ سے ایسا تھا؟
بروکنگ کی رپورٹ کے مطابق بنا شادی کے پیدائش کی شرح میں اضافہ پچھلے پچاس سال میں دیکھنے میں آیا ہے. مثلاً 1964 میں OECD ارگنائزیشن آف اکنامک اینڈ کوآپریٹیو ڈویلپمنٹ میں شامل بیشتر ممالک میں بنا شادی بچوں کی تعداد کل بچوں کے دس فیصد سے زیادہ نہیں ہوتی تھی جبکے 2014 کے اعداد و شمار کے مطابق ان ممالک میں صرف یونان، ترکی، اسرائیل، ساؤتھ افریقہ، اور جاپان ایسے ملک ہیں جہاں یہ شرح دس فیصد سے کم ہے. یاد رہی OECD میں 35 ممالک شامل ہیں اور یہ بلند ترین جی ڈی پی کے حامل ممالک ہیں جن میں شمالی امریکا، شمالی اورمغربی یورپ اور آسٹریلیا، کے براعظم کے علاوہ ساؤتھ کوریا، اسرائیل، ترکی اورجاپان بھی شامل ہیں.
ایک اور دلچسپ بات یہ کہ اسٹیٹ چونکہ ان بچوں کو اپنی ذمہ داری تصور کرتی ہے اور معاشرے میں اسے برا نہیں سمجھا جاتا اس لئے بھی انکی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے. اعداد و شمار سے یہ بھی ثابت ہے کہ اس رحجان میں اس وقت سے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جب سے اسٹیٹ نے یہ ذمہ داری قبول کی ہے.
بنا شادی کے پیدا ہونے والے بچے کیسے پلتے ہیں؟
ایسے زیادہ تر بچے سنگل والدین کے ساتھ پلتے ہیں، کچھ فوسٹر ہوم یعنی اڈوپٹڈ والدین کے ساتھ اور کچھ اپنے حیاتیاتی یعنی اصلی ماں باپ کے ساتھ پلتے ہیں جو بعض سورتوں میں شادی کے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں. بعض ماں باپ بچہ ہونے کے بعد شادی بھی کر لیتے ہیں مگر انکا تناسبب بھے کم رہ گیا ہے. قارئین کو یاد دلا دیں کہ عمران خان کی پہلی شریک حیات جمائما خان کے والدین نے انکی پیدائش کے چار سال بعد شادی کی. کیرولین کا کہنا ہے کہ وہ کبھی اپنے بچوں کے لئے فوسٹر پرنٹس یعنی اڈوپٹڈ پرنٹس کا انتخاب نہیں کرے گی کیونکے عام طور سے ایسے بچے مختلف قسم کے برے حالات کا شکار ہو جاتے ہیں.
یہ بھی یاد رہے کے سنگل پیرنٹ کا تصور صرف بنا شادی کی پیدائش سے وابستہ نہیں بلکہ کبھی کبھی ماں یا باپ کی موت یا طلاق اور علیحدگی کی وجہ سے بھی بچے والدین میں سے کسی ایک کے ساتھ پلتے ہیں. جوزف چیمی کے ہی ایک اور مضمون کے مطابق دنیا بھر کے 3.2 بلین بچوں میں 320 ملیں اکیلے والدین کے ساتھ پلتے ہیں.
عورتیں خود کیوں بنا شادی بچوں کا انتخاب کرتی ہیں؟
یہ بھی یاد رہے کے ترقی یافتہ ممالک میں بعض اوقات خواتین خود اکیلی ماں بننے کو ترجیح دیتی ہیں. اس معاملے میں آرٹیفیشل insemination یا ٹیسٹ ٹیوب وغیرہ سے بغیر کسی جنسی ملاپ کے بھی بچہ پیدا کیا جا سکتا ہے. اس انتخاب کی وجہ عموماً یہ ہوتی ہے کہ معاشرے میں بنا شادی جنسی تعلق عام ہونے کے با عث مرد شادی شدہ زندگی کی ذمہ داریاں اٹھانے میں دلچسپی نہیں رکھتے. جان ہاپکنز رپورٹ 2016 کے مطابق بعض عورتیں جن میں اکثریت سیاہ فام عورتوں کی ہے خود بنا شادی بچے چاہتی ہیں. ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آزادانہ اختلاط کے اس معاشرے میں عورتیں مرد کے مقابلے میں اولاد کو زیادہ قابل بھروسہ خیال کرتی ہیں. مگر کیرولین کا کہنا ہے کہ اسکے ابورشن نہ کروانے کی وجہ اسکا عیسائی مذھبی فرقہ ہے جس میں ابورشن حرام ہے.
ان بچوں کی زندگی اور مستقبل عام بچوں سے کس طرح مختلف ہوتا ہے؟
بروکنگز رپورٹ کے مطابق دوسرے بچوں کے مقابلے میں بنا شادی پیدا ہونے والے اکیلی ماؤں کے بچے: پیدائش کے وقت کم وزن پیدا ہونے، بعد کی زندگی میں جسمانی اور نفسیاتی صحت کے مسائل کا شکار ہونے، اسکولوں میں اچھا پرفارم نہ کرنے، اپنے والدین کی طرف سے نظر انداز ہونے، دوسروں کی زیادتیوں کا شکار ہونے، بڑے ہو کر خود مجرم بننے کے امکانات کا زیادہ شکارہوتے ہیں.
ماں پر یا سنگل پیرنٹ پر اسکے کیا اثرات ہوتے ہیں؟
بچے کے علاوہ بچے کی ماں کی زندگی پر بھی اسکے بہت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں. انکے اسکول سے ڈراپ آوٹ ہونے کے امکانات دوسروں سے زیادہ ہوتے ہیں. اسکے علاوہ ایسی مائیں عام طور سے اپنا کیرئیر نہیں بنا پاتیں اور اپنے آپ کو مالی طور پر سپورٹ نہیں کر سکتیں. پانچ میں سے صرف ایک خاتون کو بچے کے باپ سے مالی مدد ملتی ہے. کیرولین نے اپنے بچوں کے باپوں پر مقدمہ کر رکھا ہے مگر اسکا کہنا ہے کہ ان سے پیسے نکلوانا آسان کم نہیں ہوتا. نتیجتاً ایسی عورتیں حکومت کی ویلفیئر اسکیم سے امداد حاصل کرتی ہیں اور طویل عرصے تک کرتی رہتی ہیں.
ملک کی باقی آبادی کس طرح متاثر ہوتی ہے؟اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسے بچے ٹیکس دینے والے پر ایک بوجھ ہوتے ہیں. پرنسٹن یونیورسٹی کے میتھمٹکا پالیسی ریسرچ سنٹر کی تحقیق کے مطابق کم عمر غیر شادی شدہ مائیں اور انکے بچوں پر حکومت ہر سال امریکی ٹیکس دینے والوں کا سات بلین ڈالر خرچ کرتی ہے. اور اسی لئے اس رحجان کو کم کرنے کے لئے مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے.
امریکا کے برعکس کینیڈا کی حکومت ہر بچے کو ماہانہ وظیفہ دیتی ہے. کیرولین کے ایک بچے کا باپ بھی عدالتی فیصلے کے مطابق بچے کو وظیفہ دینے پر مجبور ہے. کیرولین کا کہنا ہے اسے پیسے کا کوئی خاص مسئلہ نہیں. وہ ہر تھوڑے دن بعد بوائے فرینڈ بھی بدلتی ہے. اس کا کہنا ہے "وہ شادی کرنا چاہتی ہے مگر اسے معلوم ہے کہ ایسا کبھی بھی نہیں ہو گا کیونکہ ان سب مردوں کو صرف اسکے جسم سے دلچسپی ہے."
آخراس مسئلے کا حل کیا ہو؟
بروکنگ انسٹیٹیوٹ کی مذکورہ تحقیق امریکی حکومت کو متعدد تجاویز دیتی ہے. اس میں سے ایک تجویز یہ بھی ہے کے بچوں کو اسکول کی سطح پر شادی سے پہلے جنسی تعلقات کے نقصانات سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ کم از کم شادی تک بچے پیدا ہونے سے رک سکیں. امریکی معاشرے میں بنا شادی جنسی تعلق کو روکنے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے اس لئے ایسی کسی تجویز پر عمل درامد کے امکانات سفر سے بھی کم ہیں.
صورتحال یہ کہ ایک طرف کم عمر مائیں ہیں جو اپنے بچوں کو اکیلے پال رہی ہیں دوسری طرف مغرب کے بیشتر ممالک آبادی کے بحران کا شکار ہیں. خصوصاً ترقی یافتہ ممالک میں آبادی میں اضافے کی شرح بہت تیزی سے کم ہو رہی ہے اور اس حد تک کم ہو رہی ہے کہ بہت سے ممالک اپنی صنعتی ضروریات پوری کرنے کے لئے تیسری دنیا کے پناہ گزینوں کے لئے اپنے دروازے کھولنے پر مجبور ہیں. مغرب کے بعض تھنک ٹینکس آبادی میں کمی کی وجہ شادی کے رحجان میں کمی، طلاقوں کی زیادتی، شادی سے قبل جوڑوں کا ساتھ رہنا، ہم جنس جوڑوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینا بتاتے ہیں. یہ سماجی رحجانات محض سماجی تبدیلیوں کا ہی با عث نہیں بن رہے بلکہ فی لوقت مغرب کی سیاست اس وقت مہاجرین کے گرد گھوم رہی ہے اور گزشتہ کئی دھائیوں تک گلوبلائزیشن کی کامیاب کوششوں کے بعد مغربی معاشرہ دوبارہ قومیت اور نسل پرستی کی طرف بڑھ رہا ہے.
ایسے میں اقبال کا وہ شعر یادآتا ہے
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خود کشی کرے گی
کیونکہ ہم کشاں کشاں مغرب کی برائیاں اختیار کرنے کی جانب ہیں، اسلۓمضمون بہت اہم پاکستانی معاشرے کے لۓ بھی ہے
ReplyDeletebht jazakallah. Bilkul isi liye ise mozoa bnaya. Phr log maghrib ku idealize bhi krte hen.
DeleteVery thought provoking
ReplyDelete