Tuesday, December 5, 2017

جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے

جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے


تزئین حسن

مشرق وسطیٰ میں رہائش اور ہوم اسکولنگ کے دوران اپنے بچوں کی کتابیں پوری پوری پڑھنا میرا سب سے دلچسپ مشغلہ رہا. بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا جو اپنے بچپن میں نہ سیکھ سکے کہ ہمارے بچے خوش قسمت ہیں انہیں ہمارے مقابلے میں بہت بہتردینی اور دنیاوی نصاب میسر ہیں. بچے ڈیڑھ دو سو کلو میٹر دور تبوک شہر کے ایک انڈین اسکول میں رجسٹرڈ تھے مگر انکو پڑھانا اور نصاب کی تکمیل میری ذمہ داری تھی. غالباً سن 2009 کی بات ہے. بچوں کے انگریزی کے انڈین نصاب میں بچندری پال نامی خاتون کے بارے میں پڑھنے کا اتفاق ہوا. یہ بھارت کی پہلی خاتون تھیں جو ماؤنٹ ایورسٹ تک پہنچیں. بچوں کے لئے لکھے گئے اس مختصر سے مضمون میں کوہ پیما خاتون کی زندگی اور مشکلات سے لڑ جانے والی فطرت کو بہت خوبصورتی سے سمویا ہوا تھا.

بھارتی نصاب پڑھاتے ہوئے میری کوشش ہوتی کہ جہاں ایسے موضوعات سامنے آئیں جس سے بچے کو اسکی قومی شناخت دی جا رہی ہو اور اس پر فخر کرنا سکھایا جا رہا ہو وہاں میں بچوں کو پاکستان کی شناخت بھی موضوع کے حوالے دینے کی کوشش کروں.

2009 تک کسی پاکستانی خاتون نے ماؤنٹ ایورسٹ فتح نہیں کیا تھا مگر میرے علم میں تھا کہ مردوں میں یہ کام کوئی کر چکا ہے. مگر کورس میں تو دور کی بات نذیرصابر یا کسی پاکستانی کوہ پیما کی بارے میں خانہ پری کے طور پر ہی اخبارات میں ایک آدھ مضمون مشکل سے شائع ہوا ہوگا. الیکٹرانک میڈیا کے کسی پروگرام کا کم از کم مجھے علم نہیں.

قصہ مختصر میں نے گوگل کیا اور فیس بک پر نذیر صابر سے رابطہ کیا. انہوں نے کمال محبت سے مجھے اپنے بارے میں اور پاکستانی کوہ پیماؤں کے بارے میں ایک آدھ لنک بھیجا جس کی مدد سے میں نے بچوں کو بتایا کے پاکستان میں بھی ایسے کوہ پیما پائے جاتے ہیں جو ماؤنٹ ایورسٹ تک پہنچ چکے ہیں.

اسی طرح چوتھی جماعت کے انگریزی نصاب میں کارگل کی جنگ کے بارے میں پڑھ کر بھی مجھے بہت حیرت ہوئی کہ بھارتی کورس کس قدر جدید بنیادوں پر ڈیزائن کیا جاتا ہے. ہمارے ہاں تو کارگل کی جنگ پر آج تک کرنٹ افیئرز کے طور پر ٹی وی ٹاک شوز یا اخباری مضامین میں مخالف کو زیر کرنے کے لئے ہی بات ہوتی ہے. اسی طرح ساتویں صدی عیسوی میں گجرات کے ساحل پر فارسی بولنے والے آتش پرستوں کا پہنچنا اور گجرات کے راجہ کا انھیں اس شرط پر پناہ دینا کے وہ مقامی ثقافت اپنائیں گے پر بھی ایک سبق انگریزی نصاب کا حصہ تھا. یاد رہے یہ آتش پرست دور فاروقی میں ایران کی فتح کے بعد انڈیا ہجرت کر گئے تھے اور بعد ازاں پارسی کہلائے حلانکہ یہ آج تک اپنے آپ کو زرتشت یا Zorastrian کہتے ہیں.

مجھے یہ بھی یاد ہے کہ سوشل اسٹڈیز کا ساتھ ایک معلومات عامہ کی کتاب بھی ہوتی جس میں امیتابھ بچن، ثانیہ مرزا اور سچن تندولکر کا باتصویر تذکرہ تھا. ہمارے ہاں عمران خان، جاوید میاں داد اور شاہد آفریدی کے بارے میں نصاب میں تذکرے کا تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے. ایک مضمون بھارت کی ایسی خاتون کے بارے میں تھا جنہوں نے بچے نہ ہونے کا غم مٹانے کے لئے درخت لگانے شروع کر دیے اور بعد ازاں کوئی بین الاقوامی ایوارڈ حاصل کیا. یاد رہے یہ نصاب بھارت کے دو سرکاری نصابوں میں سے ایک تھا.

عرفہ صدیقی سمیت پاکستان سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں لوگوں نے دنیا بھر میں اور خود پاکستان میں بیشمار خدمات انجام دیں مگر انکو نصاب میں پذیرائی دینا ہماری پریکٹس نہیں. ایسے میں ثمینہ بیگ یا کسی بھی پاکستانی کوہ پیما کے بارے میں کوئی مضمون اگر سرکاری یا پرائیویٹ کسی بھی نصاب میں شامل ہو گا تو مجھ سمیت بہت سے اپنی شناخت پر فخر کرنے والے پاکستانیوں کو خوش گوار حیرت ہو گی. ہمارے ہاں مغرب کی تقلید میں ملالہ اور گلالئی کی بہن پر بات کرنا تو فخر کا باعث سمجھا جاتا ہے مگر جو پاکستانی خواتین معمولی وسائل میں غیر معمولی کام کر رہی ہیں انکا ذکر شاید ہی کیا جاتا ہو.

پچھلے سال پاکستان کے ایک انتہائی مؤقر انگریزی اخبار میں کے ٹو بیس کیمپ تک پہنچنے والی ایک ٹیم کے بارے میں مضمون پڑھ کر بہت افسوس بلکہ دلی تکلیف پہنچی کہ اسکے ایڈیٹر کو یہ نہیں معلوم تھا یا کسی وجہ سے انھوں نے اس حقیقت کا اظہارمناسب نہیں سمجھا.کہ کے ٹو دنیا کی دوسری سب سے اونچی پہاڑی چوٹی ہے. مضمون کے آغاز میں کے ٹوکا تعارف محض پاکستان کا سب سے بلند پہاڑ (K2 — the highest mountain in Pakistan) کے طور پر کروا کرعزت افزائی کی گئی تھی.

ایسی خبریں یا مضامین جب پاکستانی میڈیا میں سامنے آتے ہیں تو سچی بات ہے دل بہت بے چین ہوتا ہے کہ پاکستانی نصاب اور میڈیا قوم کے بچوں اور بڑوں کو پاکستانی سر زمین اور شناخت پر فخر کرنا کیوں نہیں سکھاتے؟ پاکستانی الیکٹرانک نیوز میڈیا دنیا کا سرگرم ترین میڈیا ہے مگر پاکستانی معاشرے اور ثقافت کے مثبت پہلو سامنے لانے میں اسکا کیا کردار ہے؟

اس بات کی تو امید ہی فضول ہے کہ ہمارے بچوں کو چھوڑ پڑھے لکھے بڑوں کو بھی یہ حقیقت معلوم ہو کہ دنیا میں آٹھ ہزار میٹر سے بلند کل چودہ چوٹیاں ہیں جن میں سے پانچ پاکستان میں ہیں. استثنیٰ موجود ہے لیکن نصاب اور میڈیا کا اس میں شاید ہی کوئی کردار ہو. انکے نام اور مقام ؟کن پہاڑی سلسلوں میں ہیں؟ اس حقیقت کا بھی کم ہی لوگوں کو علم ہے کے دنیا کے بلند ترین تین پہاڑی سلسلے ہمالیہ، قراقرم اور ہندو کش تینوں قراقرم ہائی وے پر جگلو ٹ کے مقام پر ایک دوسرے سے ملتے ہیں. قراقرم ہائی وے یا شاہراہ ریشم پر ایک سبق ہمارے بچپن میں اردو کے نصاب کا حصہ تھا مگر بہت سی سادہ حقیقتیں نظر سے اوجھل تھیں.

2014 میں کینیڈا منتقلی کے بعد راکیز کے پہاڑی سلسلوں میں گلیشیئرز کے پانیوں کے بہاؤ سے وجود میں آنے والی خوبصورت کھائیوں جنھیں انگریزی میں Canyons کہا جاتا ہے تک سفر کرنے کا تجربہ ہوا تو بعد ازاں ریسرچ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ دنیا کی سب سے گہری کھائیاں قراقرم ہائی وے اور دریائے سندھ کے سنگم پر پائی جاتی ہیں.

5 comments:

  1. تزئین آپ کی تحریر نےسچ میں چونکا دیا توجہ طلب ایشوز پر ایک بہترین تحریر مجھے آپ کا یہ انداز تحریر بہت متاثر کرتا ہے
    گورمنٹ نصاب میں شامل نہیں کرتی لیکن آپ کی تحریر سے مجھےتحریک ملی ہے انشاءاﷲ میں اس پر ضرور کام کرونگی اور اپنے اسکول میں اس کو نصاب کا حصہ بناوگی

    ReplyDelete
  2. Tazeen baji ap nay sahi kaha kay hmra nisab update nhi hay bs social studies pr Quaid e Azam ky 14 nukat awr degar tmam zrori asbaq ko hta kr nawz shref, Bynzir bhutto awr Prwez mshrf kay dor hakomat ko zer bahs laya gya hay. jinhony siway ghlat fyeslon awr shrmindgi kay siwa hmain dya kuch ni.Yh inkshfat mry lie Bais Fakhr hain.

    ReplyDelete