Saturday, July 21, 2018

بعلبک، الیاس سیتا پوری، صلاح الدین ایوبی اور کینیڈا کی پہلی مسجد

بعلبک، الیاس سیتا پوری، صلاح الدین ایوبی اور کینیڈا کی پہلی مسجد 

File:Baalbek-109916.jpg
رومی سلطنت کا سب سے بڑا مندر یورپ میں نہیں لبنان کے شہر بعلبک میں تعمیر کیا گیا تھا تصویر وکیپیڈیا 
تصآویر بشکریہ وکیپیڈیا 

تزئین حسن 


٢٠٠٦ کی لبنان اسرائیل جنگ شروع ہوئی تو ہم ایک دن ناشتہ کرتے ہوئے اخبار کی ورق گردانی کررہے تھے کہ اچانک بعلبک نامی ایک شہر کا تذکرہ ایک خبرمیں نظر آیا جس پر اسرائیل نے شدید بمباری کی تھی- ہم  بری طرح ڈسٹرب ہو گئے- بہت مانوس نام لگ رہا ہے لیکن یاد نہیں آ رہا تھا اتنا مانوس کیوں ہے؟  بہت سوچنے پر یاد آیا کہ صلیبی جنگوں کی تاریخ پر الیاس سیتاپوری کے تاریخی فکشن پر جو کہانیاں سسپنس کے ابتدائی صفحات میں شائع ہوتی تھیں ان میں کبھی یہ نام پڑھا تھا- بعد ازاں ہوم ورک کیا تو معلوم ہوا کہ موجودہ جارجیا سے ہجرت کرنے والے خاندان کے، عراق کے شہر تکریت میں پیدا ہونے والے بچے یوسف کا،  بچپن لبنان کی وادئ بیکا کے اس خوبصورت شہر میں گزرا تھا جہاں قبل مسیح کا سب سے بڑا رومی مندر ایک کامپلیکس کی شکل میں آج تک عظیم الشان رومی تھذیب کے عروج و زوال کی یاد دلاتا ہے- بلوغت کے بعد تاریخ میں صلاح الدین ایوبی کے نام سے معروف یہ بچہ بعلبک کے اموی مدرسے کے باہر کھیل کھیل میں نقلی تلواروں سے صلیبیوں کو شکست دیا کرتا ہو گا کہ علاقے کا حکمران، زنگی ریاست کی بنیاد رکھنے والا عماد الدین زنگی، جزیرہ نما عرب سے اسپین اور وسط ایشیا سے موجودہ پاکستان تک کے علاقوں تک پھیلی ہوئی طاقتور ترین سلطنتوں کی موجودگی میں واحد حکمران تھا، جس نے پچھلی تقریباً ایک صدی میں صلیبیوں پر کم از کم ایک دفعہ فتح حاصل کی تھی- 

یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ ہماری رہائش یعنی کینیڈا کے صوبے البرٹا کے شہر ایڈمنٹن میں مقیم لبنانی باشندوں میں سے اکثر کا تعلق وادئ بیکا سے ہوتا ہے- ہمارے استفسار پر یہ بہت حیران ہوتے ہیں کہ آپ نے یہ غیر معروف نام کیسے سن رکھا ہے- سال گزشتہ رمضان میں ہماری ملاقات ایک ایسے بعلبکی  سے ہوئی جسکے خاندان نے 1938 میں کینیڈا کی پہلی مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا- آج یہ مسجد فورٹ ایڈمنٹن پارک نامی ایک اوپن ایئر میوزیم میں منتقل کر دی گئی ہے- بعلبک کا نام یہودیوں کی سینہ بہ سینہ ربانی روایت جو دوسری صدی عیسوی میں مشناہ کے نام سے مرتب ہوئیں میں بھی موجود ہے- روایت کے مطابق اسکا نام بعل نامی بت کے نام پر رکھا گیا- ابھی کچھ عرصہ ایک بلوچ بلاگر نے بلوچستان کی تاریخ اور سیاست پر کچھ مواد بھیجا تو اسکے مطابق بلوچ اصل میں عرب النسل ہیں   اور بعض روایت کے مطابق بلوچستان کا نام بھی بعل نامی بت کے نام پر رکھا گیا ہے- یہ دنیا واقعی گول ہے- جاری ہے 

     
آٹھویں کلاس میں سر مغل میتھس پڑھاتے تھے- اسکول کے سینئیر ترین ٹیچر تھے مگر انکی استادانہ صلاحیتیں کچھ اتنی منفرد نوعیت کی تھیں کہ پوری کلاس سے کل ملا کر دس لڑکیاں میتھس میں پاس ہوئیں- وہ لڑکیوں کو حساب پڑھانے سے زیادہ انکے والدین کے محکموں اور انکے اثررسوخ میں دلچسپی لیتے تھے- نتیجہ یہ ہوا کہ نویں جماعت میں پہنچنے والی مختلف سیکشنز کی سو سے زیادہ طالبات کو آرٹس میں ڈال دیا گیا- ما بدولت بھی آخر الذکر میں شامل تھیں- ہمیں اچھی طرح یاد ہے پہلے سیمسٹر میں، حساب کے مضمون میں ہمارے پچاس میں دس، دوسرے میں بارہ، تیسرے میں سولہ نمبر آئے- فائنل ایگزام میں میں پچاس میں سے پچیس نمبر لیکر ہم پاس تو ہو گئے مگر ایوریج میں بہرحال فیل قرار پائے- مگر فکر کی بات نہیں تھی کلاس کی دوسری ذہین ترین لڑکیوں کے ساتھ میری بیسٹ فرینڈ مہفشاں بھی میرے ساتھ آرٹس میں ہی تھیں-  ڈاکٹر مہفشاں آج کل واہ کینٹ کے آرمی ہسپتال میں میجر ہوتی ہیں-

جبری آرٹس میں بھیجی جانے والی لڑکیوں کی کثیر تعداد کے پیش نظر، اس برٹش راج کے زمانے کے کولونیل آرکیٹکچر پر مبنی اسکول کی ایک نئی تعمیر شدہ عمارت کی دوسری منزل کے بر آمدے میں چقین ڈال کر اسے نویں جماعت کی آرٹس کی کلاس بنا دیا گیا تھا اور وہیں بیٹھ کر میں نے سسپنس ڈائجسٹ میں الیاس سیتاپوری کی سکندراعظم کی فتوحات پر مبنی ناولٹ کا کم از کم ایک صفحہ ضرور پڑھا تھا- جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے مہفشاں اور میں دونوں اس دور میں سسپنس اور جاسوسی کے دیوانے تھے- کہیں سے مل جاتا تو ایک دوسرے سے ضرور شیئر کرتے- یوروپی مصنفین نے یونانی اور اسلامی ناموں کو لاطینی ناموں سے بدل دیا اور الیاس سیتا پوری ان دنوں انھیں دوبارہ اسلامائز کرنے میں لگے ہوئے تھے-  شائع شدہ ناول میں Rexona نامی سکندر کی بیوی یا محبوبہ کو انھوں نے رخسانہ بنا دیا تھا- 

تاریخ ہمارا مضمون کبھی نہیں رہا لیکن سارا بچپن اسکے تجسس میں گزرا اور جتنی تاریخ اس دور میں سوشل اسٹڈیز میں پڑھائی جاتی وہ ہماری پیاس بجھانے کے لئے ناکافی تھی- مگر اس ڈائجسٹ کلچر کی مہر بانی سے جسے اس دور میں گھٹیا لٹریچرگردان کر بچوں کو اس سے دور رکھا جاتا تھا مجھے اس شوق کو کسی حد تک پورا کرنے کا موقع ملا- کسی اور ذریعے سے اتنی تاریخ پڑھنا ممکن نہ تھا جتنی الیاس سیتاپوری نے سسپنس ڈائجسٹ کے ابتدائی صفحات میں پڑھا دی- 
ضیاء دور کے سنسر کے باوجود کبھی کبھی ان رسالوں کی کہانیوں میں گرافک ڈیٹلز ہوتیں جو بچوں کے لئے مناسب نہیں تھیں- مگر عالمی ادب کے شاہ پاروں کا ترجمہ باقاعدگی سے ہوتا- اگاتھا کرسٹی، آئن فلیمنگ، سڈنی شیلڈن اور پتہ نہیں کون کون سے معروف مصنفین کا کام بیس روپے کہ ایک رسالے میں سمو دیا جاتا- سڈنی شیلڈن کا ناول بلڈ لائن جو بہت بعد میں اوریجنل پڑھنا نصیب ہوا تو معلوم ہوا کہ اسکی ایک پاکستانی adaptation میں نے بہت بچپن میں جاسوسی کے ابتدائی صفحات میں پڑھ رکھی تھی-   ناول کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ روتھچلڈس نامی معروف یورپی خاندان کی کہانی ہے جو غربت سے اٹھا لیکن ایک صدی سے کم عرصے میں تمام عالم میں پھیل گئی اور اسکا نام امارت اور دولت کے متبادل کے طور پر لیا جاتا تھا-  
If you were a Rothchilds 

جاسوسی کی آخری تین کہانیوں میں پڑھی جانے والی بہت ابتدائی کہانیوں میں افغانستان پر روس کے حملے کے  پس منظر میں لکھی جانے والی ایک کہانی مجھے اچھی طرح یاد ہے جس میں اس حملے اور اسکے اثرات کی ایک عام افغانی کے perspective سے تصویر کشی کی گئی تھی- کہانی معلومات اور ذہن سازی کا وہ ذریعہ ہے جسکا کوئی متبادل نہیں- مگر ہمارے معاشرے کا تنگ ذہن آج بھی قوموں کی بقا کے اس ذریعے کی افادیت کا اندازہ نہیں- جب ساری دنیا کا پلپ لٹریچر ناول، فلم، وڈیو گیمز، یہاں تک کے کلرنگ بکس کے ذریعے بچوں اور بالغ افراد کی مختلف پلیٹ فارمز پر ذہن سازی کر رہے ہیں وہاں ہم آج بھی اسے کمتر اورگھٹیا ادبی صنف مانتے ہیں- 

اسی طرح انڈیا کے ادب کے بھی تراجم موجود ہوتے- مجھے یاد ہے سسپنس میں محی الدین نواب کی فرہاد علی تیمور کی دیوتا اور احمد اقبال کی شکاری مقبول ترین سلسلے تھے- لاہور کی سڑکوں اور علاقوں کے نام پہلی مرتبہ اسی سلسلے وار ناول کی وجہ سے کان میں پڑے- لاہور بہت بعد میں جانا ہوا اور بہت سے علاقے جنکے نام پڑھے اب بھی نہیں دیکھ سکے- دیوتا اتنی لمبی اور مافوق الفطرت اجزاء پر مبنی تھی کہ تنگ آ کر ہم نے خود ہی پڑھنا چھوڑ دیا تھا- الیاس سیتا پوری کی تحریر شدہ کہانیوں میں میری سب سے زیادہ پسندیدہ شاہ پارہ شیر شاہ سوری کی زندگی پر لکھا جانے والا ایک ناولٹ تھا جو انھوں نے تاریخی فکشن کی طرح نہیں لیکن creative elements کے ساتھ نان فکشن کے طور پر لکھا تھا- کہانی کے مطابق، فرید خان نامی یہ پشتون  نوجوان جو بعد ازاں شیر شاہ سوری کہلایا، ایک افغان گھوڑوں کے تاجر کا بیٹا تھا جو کاروبار مندا ہونے پر قسمت آزمانے انڈیا چلا آیا- کہانی ختم ہو گئی مگر اسکا سحر آج تک باقی ہے-  سسپینس کے اس خاص شمارے کو بڑوں کی بری نظروں سے محفوظ رکھنے کے لئے ہم نے اپنے برآمدے کے چھجے کے اندرونی حصے میں پھینک دیا جہاں سالوں کسی کی نظر نہیں پڑتی تھی- اسکے بعد شیر شاہ سوری کے بارے میں پڑھنے کا موقع ہمیں رضا عابدی کی کتاب جرنیلی سڑک سے ملا- کیا خوبصورت کتاب ہے- اسکا سحر بھی آج تک قائم ہے- عابدی صاحب جہاں جاتے ہیں وہاں اپنے قاری کو بھی اس طرح لے جاتے ہیں کہ بندہ ریل کی گھر گھر بھی سنتا ہے اور چورن بچنے والے کی آوازیں بھی- سڑکوں کی گرد کو بھی محسوس کرتا ہے اور بریانی کے نمک کو بھی- چلیں بات بہت لمبی ہو گئی- باقی باتیں پھر کبھی سہی-
  

No comments:

Post a Comment